سوشل میڈیاپر ’’سعودی آئیڈل‘‘

378

سوشل میڈیا سعودی عرب میں بھی ایسے ہی استعمال ہوتا ہے جیسے باقی دنیا بھر میں، کیوں کہ سوشل میڈیا اپنا رنگ ہی ایسا جماتا ہے۔ اِس ہفتہ ’’سعودی آئیڈل‘‘ کا ہیش ٹیگ بین الاقوامی ٹرینڈ لسٹ میں دیکھ کر چونکا۔ اس کی تفصیلات دیکھیں تو معلوم ہوا کہ جیسے دیگر ممالک میں اُن کے ہاں انٹرٹینمنٹ کی صنعت کو پروان چڑھانے کے لیے عام افراد کو موقع دے کر مقابلوں سے گزارا جاتا ہے اور جیتنے والے کو ایک ملک گیر ٹائٹل سے نوازا جاتا ہے کہ وہ وہاں کا ایک بُت یا علامت ہے۔ انعام کی صورت میں مال تو بہت ملتا ہے مگر یہ سارا عمل تہذیب کی جڑیں کھود دیتا ہے۔

یوں تو خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ کی وجہ سے سعودی عرب دُنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مقدس اور منفرد مقام رکھتا ہے۔ اِس کے علاوہ اِسلامی ملک و اسلامی قوانین اور بادشاہت ہونے کی وجہ سے اِس ملک کا ہم پر تو ایک الگ ہی تاثر قائم رہا ہے۔ ’سعودی آئیڈل‘ کے ایونٹ کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے مختصر تاریخ دیکھنا ہوگی جو پیش خدمت ہے۔

1932 کے بعد سے سعودیہ میں تیل نکلنے کے بعد سعودیہ میں اسٹیٹ بلڈنگ پروجیکٹ شروع ہوا۔ تیل عالمی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جو تھا۔ اِس کا پہلا نتیجہ یہ ہوا کہ شاہ فیصل کے بعد انفرااسٹرکچر لیول پر مغرب کی طرز پر ترقی یافتہ بننے کا فیصلہ آیا۔ یہ سعودی عرب کا جدیدیت کی جانب پہلا شعوری قدم تھا۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ فیصل کی موت کی وجوہات کے پیچھے اِس کے بھتیجے نے لبرل اقدار کو معاشرے میں نفوذ دینا قرار دیا (ٹی وی کی نشریات پر) اس کے بعد 1979 میں جہاں ایک جانب ’’سیج آف مکہ‘‘ ہوتا ہے تو دوسری جانب روس کے خلاف افغان جنگ شروع ہوتی ہے۔ سب دیکھتے ہیں کہ اس میں پاکستان‘ سعودی عرب اور امریکہ نے مشترکہ اسٹریٹجی اپنائی۔ سوال یہ تھا کہ پاکستان تو پڑوسی اور امریکہ چوہدری تھا تو سعودیہ کیوں اس میں کودا؟ اِس کا صاف جواب ہمیں تب ملا جب افغانستان میں عرب مجاہدین کی بھرمار نظر آئی۔ تو سمجھ آیا کہ سعودی عرب نے اس وقت اپنی لبرل اقدار کے رستے میں ساری رکاوٹوں کو یہاں رستہ دیا۔ مذہب کارڈ کامیابی سے کھیل کر پالیسی کچھ یوں نظر آئی کہ ’’مجھ سے نہ لڑو‘وہاں جا کر لڑو۔‘‘

پھر عراق کے کویت پر قبضہ کے بعد جب اس نے سعودیہ پر حملے کا انتباہ دیا تو ہم نے دیکھا کہ کیسے ریاست کے دفاع میں علما نے مشرکین کے داخلے کی راہیں کھولیں۔ سب جانتے ہیں کہ اڈے بن گئے مگر حملہ کبھی نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ریاض دھماکے ان پالیسیز کا رد عمل ہی کہے جاتے ہیں کیوں کہ لاکھ بادشاہت سہی مگر اہل حق تو ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بہت ساری چیزیں آسان ہو چکی تھیں۔ سعودی معاشرت جفا کشی سے عیاشی کا سفر تیزی سے کر رہی تھی۔ ایسے میں شاہ عبد اللہ نے اصل میں ٹرامسفارمیشن کی بنیاد رکھی۔روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا نعرہ سب سے پہلے اس نے پرویز مشرف کو سکھایا، جس کا اقرار خود مشرف نے کیا تھا۔ یہ کام سعودیہ کے قومی دن کے نام سے بھی شروع ہوا۔ سرکاری تعطیل کے باوجود اس پر اعتراض آیا کہ اسلام میں گنجائش نہیں مگر شاہ تو شاہ ہے اُس نے یہ تعطیل ٹھونسنا شروع کر دی اس کی آڑ میں سعودی روشن خیال قوم پرستی نے جگہ بنانا شروع ہوئی۔

شاہ سلمان آج وہی روشن خیال پروجیکٹ کو لے کر چل رہا ہے، مگر وہ یہ راستے اپنی مرضی سے کھول رہا ہے۔ خواتین کو ڈرائیونگ کی جب اجازت دی گئی تو ہم نے دیکھا کہ سعودیہ میں خواتین نے بائیک ریلی نکالی جس پر شاہ سلمان نے سخت رد عمل دیا۔ گرفتاریاں تک بات گئی، اس عمل کے خلاف بات کرنے پر شاہ سلمان نے جرمنی اور کینیڈا جیسے ملکوں سے تعلقات خراب بھی کیے۔ ٹیکسز کا جو سلسلہ شروع کیا اس کے بدلے مزید عیاشی کا کلچر متعارف کرایا گیا تاکہ کسی قسم کا احتجاج نہ ہوسکے اور ٹیکس جسٹیفائی رہے۔ اس کے ذیل میں ہی سنیما کا آغاز، فلموں کی سرپرستی، موسیقی کنسرٹ اور اس کے تمام مظاہر جس میں سعودی آئیڈل کا تازہ ایڈیشن ہے۔ یہ سعودی آئیڈل دو سال سے زیر بحث رہا ہے اور اس کے لیے راستے ہموار کرکے ایم بی سی ٹی وی پر اب پہلی قسط لانچ کر دی گئی ہے۔ 4 ججز کا یہ پینل ہے جو پورے سعودی عرب کے نوجوانوں سے ہر قسم کے تفریحی کام انجام دلائے گا اور پھر طویل اقساط کے بعد کوئی ایک سعودی بت بن کر سامنے آئے گا۔ سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر اور تنقید کے حوالے سے مستقل شور ہے۔

اسکارسڈیل انٹرنیشنل اسکول، لاہور کے پوش علاقے ڈیفنس میں ایلیٹ کلاس کے بچوں اور بچیوں (مخلوط) کاپری کنڈر گارٹن سے لے کر اسکول پھر ہائی اسکول کی تعلیم کا ادارہ ہے۔ اسکول نے اپنی ویب سائٹ پر اسکول کو ’’محفوظ جنت‘‘ (سیف ہیون) قرار دیا ہواہے۔ یہ اسکول کتنی ’’محفوظ جنت‘‘ ہے، اس کا اندازہ اسکول میں رونما ایک واقعے کی وڈیو لیک ہونے کی وجہ سے گزشتہ 10دن سے سوشل میڈیا اور پاکستانی میڈیا کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اسکول کی پانچ ہائی اسکول طالبات کے درمیان یہ واقعہ 16 جنوری کو ہوا۔ اسکول نے اپنی پریس ریلیز میں بڑے دعوے کیے ہیں کہ و ہ ایسا ہے ، ویسا ہے، ایسی ایسی ویلیوز ہیں، ایسا ایسا احساس ذمہ داری ہے کہ مزید نہ پوچھیں۔انہوں نے میڈیا پر ذمہ داری ڈال دی کہ اُس نے غلط طریقے سے واقعے کو پیش کیا ہے۔ اِسکول کہتا ہے کہ وہ 30 سال سے بہترین معیاری تعلیم دے رہا ہے‘ اُن کا اسکول معیار کی وجہ سے پورے ایشیا کے 3 نمایاں اسکولوں میں شامل ہے۔ وڈیومیں لڑکیاں جو زبان استعمال کر تی سنائی دے رہی ہیں وہ خود اسکول میں دی جانے و الی ’’معیاری تعلیم‘‘ کے دعوے کا قلعی کھول رہی ہے۔ اگر یہ واقعہ ان اسکولوں کے اندر کی معاشرت کھولنے کا پہلا واقعہ ہوتا تو شاید اتنا شور نہ ہوتا مگر ظاہر ہے میڈیا کا دور پوری قوت سے نافذ ہے، کسی کی کوئی چیز ’نجی‘ نہیں، ہر نجی کو ظاہر میں لانا ہے، اصل میں معیار ہے۔وڈیو لیک کرنے والا لاکھوں روپے بھی کما چکا ہوگا۔

واقعہ سے جڑی کہانی کو اگر نظر انداز کر بھی دیں تب بھی واقعہ انتہائی خوف ناک صورت حال بتا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس بہانے ایلیٹ کلاس خوب ڈسکس ہوئی۔ ٹوئیٹر پر ٹرینڈ بنا، لوگوں نے خوب درگت بنائی۔ مقامی چینل کے رپورٹر نے اپنے ویری فائڈ اکائونٹ سے ٹوئیٹ کیا کہ ’’اسکول میں تشدد کا شکار طالبہ علیحہ کے والد عمران سے بات ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس ظالموں سے صلح کرنے کے لیے دبائو ڈال رہی ہے جب کہ اسکول انتظامیہ دھمکی دے رہی ہے کہ اگر میڈیا پر مزید بات کی تو تمہاری بچی کو اسکول سے نکال کر اس کی تصویر دروازے پرچسپاں کر دیں گے۔ اس مصدقہ بیا ن سے آپ اسکول کی اعلیٰ روایات و اقدار کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ ایک مقبول پوسٹ یہ رہی کہ ’’شکر ہے کہ یہ واقعہ کسی مدرسے کا نہیں، اگر ایسا ہوتا تو نام نہاد این جی اوز، لبرلز اور فیمنسٹ ناچ ناچ کر اب تک اپنے گھنگھرو توڑ چکے ہوتے۔ مگر اس پورے واقعے پر سارے لبرل اپنی ایلیٹ کلاس کے دفاع کے لیے خاموش ہیں‘‘۔ مگرسوشل میڈیا سے ملنے والی زبانوں کو روکنا آسان نہیں۔ علی ظفر، مشی خان، صنم جنگ سمیت کئی اداکار و گلوکاروں نے بھی رد عمل دیا ہے۔ علی ظفر نے تربیت کی کمی اور والدین کی ذمہ داری قرار دیا۔ اسکول نے 5 طالبات کو معطل بھی کیا۔ یہی نہیں متاثرہ طالبہ پر تشدد کرنے والی لڑکیوں کو عدالت سے فوری قبل از گرفتاری ضمانت بھی مل گئی، عدالتوں کی جانب سے اس پر بھی خوب رد عمل سامنے آیا۔ سمجھنے کی اہم بات یہ ہے کہ لکھے ہوئے قانون میں اس بات کی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ معاملے کی سنگینی کا جانچا جا سکے۔ دھمکی دینے یا زد و کوب کرنا کوئی سنگین جرم ہے ہی نہیں تو ضمانت روکنے کا سوال ہی نہیں ہو سکتا۔ وکیل من پسند رقم لے کر جج کے سامنے ڈھیروں مثالیں رکھ کر کیسا ہی سنگین کیس کیوں نہ ہو ، باآسانی ضمانت لے سکتا ہے۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ واقعہ اپنے اندر اتنی سنگینی رکھتا ہے کہ صرف وڈیو کی بنیاد پر ہی جج ضمانت مسترد کردے۔

گلوکارہ حدیقہ کیانی نے ٹوئٹر پر اس واقعے پر تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’اس طرح کے رونما ہونے والے ان تمام واقعات کے بارے میں سوچیں جن کی وڈیو نہیں بن پاتی مگر ہمارے بچوں کو ایسی صورت حال کا ہر روز سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘ کچھ سوشل میڈیاصارفین نے اسے ’ایلیٹ کلاس‘ کے اندرونی مسائل قرار دیتے ہوئے لکھا کہ کیوں کہ یہ اپنے بچپن ہی سے سرمایہ اور طاقت کے اثرات سے لطف اندوز ہوتے آ رہے ہیں تو جس طرح کی کمائی پر یہ بچے پلتے ہیں اُس کے ایسے ہی اثرات رونما ہوں گے۔ پھر یہی بچے کل بیوروکریسی، عدلیہ اور دیگر اداروں میں بڑے مقام پر فائز بھی ہوں گے۔‘

خوب جان لیں کہ سوشل میڈیا سے جو بدترین اقدار بنتی ہیں، مجھے 5 سال ہو گئے ہیں اس موضوع پر کام کرتے ہوئے اور مجھے واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ ہم بار بار اِس کو چھری کہہ کر، کہ چاہو تو خربوزہ کاٹ لو، چاہو تو کسی کی گردن کاٹنے والی غلط مثال دے کر ایک ایسی مطمئن نادانی کر رہے ہوتے ہیں کہ حقیقت میں تو ’’صرف گردن ہی کٹ رہی ہوتی ہے‘‘۔ سوشل میڈیا قطعی طور پر ’’ویلیو نیوٹرل ‘‘( غیر اقداری) نہیں ہے۔ جن لوگوں نے جہاں سے بیٹھ کر بنایا ہے وہ صاف طور پر کہہ رہے ہیںکہ سوشل میڈیا کوئی 100 سے زائد شدید قسم کی نفسیاتی بیماریاں پیدا کر چکا ہے۔ یہ اتنی شدید ہیںکہ جان تک لے لیتی ہیں۔ ان میں ایک اہم بیماری ’فومو‘ ہے ، جو صرف سوشل میڈیا سے لاحق ہو تی ہے جس میں آپ کو لگتا ہے کہ آپ مس (لاپتا) ہو رہے ہیں۔

2004 میں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر دیکھے جانے والے رجحان کو بیان کرنے کے لیے متعارف ہوئی۔ فومو میں دو عمل شامل ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے لاپتا ہونے کا تصور، دوسرا لاپتا ہونے سے بچنے کی خاطر سماجی رابطوں کو برقرار رکھنے کا جبر۔ ہر وقت، ہر چیز میں شامل رہنے کی فکر، اس پر بات کرنے‘ ردعمل دینے، لائکس اور کمنٹس کی غیر حقیقی دنیا کو حقیقت سمجھنے کا تصور۔ یہ عمل اِس حد تک جاتا ہے کہ کئی لڑکیوں نے ’’سوشل میڈیا ٹرولنگ‘‘ کو اتنا سنجیدہ لیا کہ خودکشی تک کرلی۔ اب یہ والی خودکشی یورپی ممالک سے چلتی ہوئی برصغیر میں داخل ہو چکی ہے۔جانتے ہیں آپ کہ ان کیسز میں ایک اہم یکسانیت کیا ہے؟ وہ سب اسکول کی لڑکیاں تھیں۔ تو بتائیے کہ ہم اس کو غیر اقداری کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اس کو ایک اور مثال سے بھی سمجھیں کہ اگر میں سوال کروں کہ شریعت اسلامی نے آپ کو کس چیز کا مکلف بنایا ہے؟ یعنی کس کے بارے میں سوال ہوگا؟ تو آپ یہ جواب دے ہی نہیں سکتے کہ ہم سے سوال اُمت مسلمہ کے بارے میں ہوگا؟یا معاشرے، شہر ، ملک کے بارے میں ہوگا؟ سوال کی ترتیب میں آپ کے والدین، گھر والے، رشتہ دار، پڑوسی، دوست ،محلہ دار ، قریبی یتیم، مسکین ، ضرورت مند سے متعلق ہوگی۔مگر سوشل میڈیا کی بدولت ’’ہتھیلی پر دنیا ‘‘کے جعلی سلوگن سے ہر آدمی اپنے پڑوسی ، اپنے محلے ، گھر والوں سے ہی بے گانہ ہوچکا ہے، دوسری طرف اپنے پورے معاشرے اور ملک بلکہ پوری امت کے بارے میں فکر مند ہو چکا ہے۔ ایک بندہ مستقل اپنی چیزیں سوشل میڈیا پر ڈالتا رہتا ہے تو ایک جانب وہ اپنے آپ کو بیچ رہا ہوتا ہے، تودوسری جانب نارسزم مطلب خود نمائی کی دوسری بیماری ان کو لاحق ہو جاتی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں جو علمی مباحث ہیں جن پر مغربی مفکرین مستقل فکر مند ہیں اور بات کر رہے ہیں وہ subjective reason کا خاتمہ ہے۔ اپنی ایجادات کی وجہ سے وہ شدید پریشان ہیںکہ یہ سب کیا اور کیوں اور کیسے ہو رہا ہے؟ اب اس پر کیسے قابو پائیں؟ یہ جو ٹی وی، فون، کمپیوٹر سب پر ہر طرف سے ایک مستقل بمبارٹمنٹ ہے تصاویر کی ، وڈیوز کی، بے بنیاد ، بے ربط، غیر ضروری معلومات کی ، جس نے واضح طور پرسب کے لیے غور و فکر، تدبر، سوچنے کی صلاحیت کو ختم کر دیا ہے۔ ایک رائے جو مستقل تصاویر، وڈیو، اشتہار دیکھ کر قائم ہوتی ہے وہ دوسری تصاویر ، وڈیو کو دیکھ کر یکسر تبدیل بلکہ ختم ہو جاتی ہے۔اس طرز پر انسانی رویوں کا ، فکر کا بدلنا تاریخ انسانی میں نہیں ہوا۔ اس کے ذریعہ اٹینشن اکانومی سے پیسہ کمانا بھی ایک لایعنی عمل بن جائے گا تو اب اس کو کیسے ڈیل کریں؟وہ دیکھ رہے ہیں کہ ٹرسٹن ہیرس ، اَمریکہ کا بہت بڑا ٹیکنالوجی سائنس دان ہے ، جوگوگل کے بنانے والوں میں ایک کلیدی نام ہے ، وہ 2014 میں اپنی مرضی سے گوگل کو چھوڑ دیتا ہے۔ وہ پوری دنیا میں مہم چلاتا ہے کہ لوگ سوشل میڈیا کو چھوڑیں۔اس ضمن میں Social Dilemmaنامی دستاویزی فلم بھی آپ کو یہ حقیقت سمجھا سکتی ہے اگر آپ واقعی سمجھنا چاہیں۔ تو آخر میں سوال یہی ہے کہ کوئی کیسے اس سب کو دیکھ کر سوشل میڈیا کو غیر اقداری مان سکتا ہے۔

حصہ