گھر کا سکون بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے

اچھے گھر کی علامت یہ ہے کہ وہ گھر اپنے مکینوں کے لیے ایک مضبوط حصار ہوتا ہے جہاں پر سکون‘ محبت‘ یگانگت‘ ہم آہنگی اور لطف و مروت پائی جاتی ہے۔ جہاں پرورش پانے والے بچے ان تمام خوبیوں سے مزین ہوتے ہیں۔ بچے اپنے گھر کے ماحول ہی سے سیکھتے ہیں۔ جن گھروں میں والدین میں اعتماد و محبت کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے اُن گھروں کے بچے خوداعتماد، اور محبت بانٹنے والے ہوتے ہیں۔ جن گھروں میں نفرتیں‘ بغض‘ عداوت‘ حسد‘ بے اعتمادی اور تحمل و برداشت کی کمی ہوتی ہے وہاں آئے دن نت نئے فساد ہر بہانے جنم لیتے ہیں اور گھر میں پرورش پانے والے بچے لاشعوری طور پر ان تمام خرابیوں کو اپنے اندر جذب کرتے چلے جاتے ہیں، اور جب بھی جیسے ہی اُن کو اس کے اظہار کا موقع ملتا ہے وہ مکمل منفی رجحانات کے حامل نظر آنے لگتے ہیں۔

گھر دراصل شوہر‘ بیوی اور بچوں کی مثلث کا نام ہے جس میں سب سے اہم کردار شوہر کا ہوتا ہے۔ شوہر اگر محبت کرنے والا‘ بیوی بچوں کا خیال رکھنے والا اور گھریلو مسائل کو سمجھنے والا ہے تو گھر کا ماحول یقینا خوش گوار ہوتا ہے۔ ایک بااصول مرد اپنے گھر کو چند اصولوں کے تحت چلاتا ہے۔ آپ کو شاید میرے اس جملے پر اعتراض ہوگا لیکن حقیقت یہی ہے کہ گھر کے نظام کو چلانے اور معاش کے لیے کوشش کرنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے مرد ہی کے سپرد کی ہے، اور اسی لیے اُس کو جسمانی طور پر قوی بنایا اور عورتوں پر قوام کہا۔ بچوں کی پرورش اور گھر میں سکون مہیا کرنا صرف عورت ہی کی ذمہ داری نہیں، مرد بھی اس میں برابر کا شریک ہے۔ عموماً گھر میں جھگڑے کی ابتدا اُس وقت ہوتی ہے جب مرد ملازمت کے بعد گھر واپس آتا ہے‘ وہ ملازمت کے بعد گھر آکر آرام کرتا ہے‘ اخبار پڑھتا اور ٹی وی دیکھتا ہے اور سو جاتا ہے۔ عورت دن بھر بچوں کو کھلانے پلانے‘ پڑھانے لکھانے‘ سلانے کی ذمہ داری ادا کرتی ہے۔ بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش اتنا آسان کام نہیں جتنا مردوں نے سمجھ رکھا ہے۔ مرد اگر باہر اپنی ذمہ داریاں نبھاتا ہے تو عورت بھی گھر میں بچوں کے کاموں میں مسلسل مصروف رہتی ہے۔ جس گھر میں تین چار چھوٹے بچے ہوں، اُس گھر میں ماں کی ذمہ داریاں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ بچوں کے لیے پکانا‘ ان کو بہلا کر کھلانا‘ ان کو وقت پر سلانا ایک اہم ذمہ داری ہے، اور اگر بچے پڑھنے لکھنے کے قابل ہیں تو ان کو وقت پر اسکول کے لیے تیار کرنا، اس تیاری سے پہلے ان کو ناشتا کروانا‘ ان کے لیے لنچ بکس تیار کرنا اور پھر ان کا موڈ درست کرکے اسکول روانہ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ پھر اسکول سے واپسی سے پہلے بچوں کے لیے کھانا تیار کرنا اور ایسا کھانا جو وہ بغیر نخرے کیے کھا لیں، پھر ان کا ہوم ورک چیک کرنا اور ڈائری کے مطابق ہوم ورک کرانا‘ پھر ان کو سلانا۔ بچوں کے سونے کے بعد گھر کے دوسرے کام نمٹانا، شوہر کے آنے سے پہلے کھانا تیار کرنا… یہ سب مسلسل اور روز کیے جانے والے کام ہیں جو ایک عورت اور ایک ماں کو کرنا ہوتے ہیں اور جن کا وہ کوئی معاوضہ بھی طلب نہیں کرتی۔ ذمہ دار اور خیال کرنے والے مرد عورت کی ان ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں اور احساس بھی کرتے ہیں، اور گھر آنے کے بعد وہ عورت کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ مگر کچھ مرد بیوی کو ملازمہ سمجھ کر اس کے مسائل میں اضافہ کرتے ہیں۔ گھر میں گھستے ہی چیخ پکار‘ گالی گلوچ کرکے ماحول کو آلودہ کرتے ہیں، اور وہ بچے جو دن بھر باپ کے منتظر رہتے ہیں، لاشعوری طور پر خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ گھر میں چیخ کر بات کرنا، مار پیٹ کرنا یا گالی دینا ایسے قبیح افعال ہیں جن کا اثر لاشعوری طور پر گھر میں رہنے والے بچے قبول کررہے ہیں۔ دھیمے اور پُرسکون انداز میں کی گئی گفتگو چیخ کر کی جانے والی گفتگو سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔ گھر آکر اگر مرد بچوں کی پرورش‘ ان کی تربیت‘ ان کے تعلیمی مسائل میں دل چسپی لینے کے بجائے صرف سختی اور تلخ کلامی سے کام لیں گے تو بچے ان سے دور ہوجائیں گے اور اپنے مسائل ان سے شیئر کرنے کے بجائے چھپانے لگیں گے۔

یاد رکھیے جن بچوں سے پیار‘ محبت اور نرمی سے گفتگو کی جاتی ہے اُن بچوں کو دوسروں کی عزت کرنا آتی ہے۔ جہاں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے وہاں کے بچے خودسر‘ اذیت پسند‘ ظالم اور تخریب کار ہوتے ہیں، کیوں کہ بچے اپنے اظہار میں قطعاً معصوم ہوتے ہیں، ان کے سامنے جیسا سلوک روا رکھا جائے گا وہ دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کریں گے۔

اسی لیے گھر میں والدین کو اپنے مسائل بہت نرمی اور دھیمے انداز میں حل کرنے چاہئیں۔ ہر بچے کے لیے اُس کے والدین آئیڈیل ہوتے ہیں جن کا اثر وہ شعوری اور لاشعوری طور پر قبول کرتا ہے۔ لڑکی ماں سے اور لڑکا باپ سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اس لیے معاشرے سے بدامنی اور دہشت گردی کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ والدین بچوں کی نفسیاتی کیفیت کو سمجھیں اور اپنے گوناگوں مسائل کو چیخ چلاّ کر‘ گالیاں دے کر، ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ کر حل کرنے کے بجائے آہستگی اور دانش مندی سے حل کریں، ورنہ یہ معاشرہ قتل و غارت گری کا نمونہ پیش کرتا رہے گا۔ یہ سارے دہشت گرد، قاتل وہی بچے ہوتے ہیں جو گھر میں والدین کی عدم توجہی کی وجہ سے دوسروں کے ہاتھوں محبت کے نام پر آلۂ کار بن جاتے ہیں۔