حضور اکرم ﷺ اور انکشاف حقیقت

398

جسم و روح کے رشتے میں پانی کی ایک چھاگل اور ستو کی ایک پوٹلی ہی ایک واضح نشانی باقی رہ گئے تھے۔ باقی دنیا بہت پیچھے رہ گئی تھی اور انہیں حقیقت کی تلاش تھی۔ حقیقت کی تلاش ہی مقصدِ زندگی بن کر رہ گئی تھی۔

وہ حقیقت جو ضمیرِ انسانی میں جھلکتی ہے‘ وہ حقیقت جو فطرتِ انسانی میں بولتی ہے‘ وہ حقیقت جو پیشانی کے واضح خطوط میں نشانِ بندگی بن کر ابھرتی ہے‘ وہ حقیقت جو تخلیق بن کر خالق کے وجود پر مجسم گواہی پیش کرتی ہے‘ وہ حقیقت جو بندے کے عجز و عبودیت میں رحم و شفقت کی بھرپور ار اطمینانِ قلب کی پُر سرور پکار بن کر سامنے آتی ہے۔ وہ حقیقت کہاں ہے؟ وہ حقیقت کدھر ہے؟ عاجز بندے کو اس حقیقت کی بہت تلاش ہے۔ اے حقیقتِ منتظر! تو کہاں ہے؟ اضطراب بندگی تیری تلاش میں ہے۔

سر سجدے میں ہے‘ غور و فکر کا عمل جاری ہے‘ بُو قبیس کا بلند و بالا پہاڑ ہے‘ اس کے بلند و بالا دامن میں ایک مختصر سا غار ہے‘ صدیوں سے غار میںکبھی کوئی نہیں آیا ہے‘ لیکن اب کچھ مدت سے ایک انسان اس غار کا مکین ہے۔ وہ انسانِ عظیم جس کا شہر میں اپنا گھر بھی موجود ہے‘ اس کے گھر میںآسائش کے سارے سامان موجود ہیں‘ اس کے بیوی بچے ہیں‘ اس کا کاروبار ہے‘ اسے فارغ البالی حاصل ہے‘ لیکن ان سب آسائشوںکے درمیان وہ سخت مضطرب ہے‘ اس کا دل مضطرب ہے‘ اس کا ذہن سوچتا ہے۔ اس کی فکر پہنائے کائنات میں تلاش حقیقت میںسرگرداں ہے۔ اے حقیقتِ عظمیٰ تو کہاں ہے‘ بندۂ عاجز کو تیری تلاش ہے۔ تیرا انتظار ہے۔ اے حقیقت کبریٰ تیرے انکشاف کا انتظار ہے۔

بندے کو اب ایک شے مل گئی ہے‘ جو نشانِ بندگی ہے‘ وہ شے سجدۂ عبودیت ہے۔ انتہائی اضطراب میں‘ ہجومِ افکار میں اور تلاشِ حقیقت کے پُرشور تصورات میں وہ جب کبھی حقیقتِ عظمیٰ کے سامنے سربسجود ہوتا ہے تو اسے سکون مل جاتا ہے۔ اس کے سکون کا سب سے بڑا مرکز اُس کا اپنا سجدہ ہے۔ غارِ حرا میں حقیقتِ عظمیٰ کے سامنے ایک بھرپور سجدہ‘ جس میں بندے کی بندگی کا سارا عجز سمٹ کر خالقِ اکبر کے سامنے نذر کر دیا جاتا ہے۔

مکمل خانہ داری اور بھرپور دنیا داری کی زندگی سے گریز جاری ہے۔ سارا سکون اب پہاڑ کی اسی کھوہ میں سمٹ آیا ہے‘ دل کو کسی کی تلاش ہے‘ ذہن کو کسی کی تلاش ہے‘ حوا کو کسی کی آمد کا احساس ہے۔ کوئی بتائے کہ یہ کائنات کیا ہے؟ اس کا خالق کون ہے؟ انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہم کون ہیں اور کیوں ہیں؟ دل مضطرب ہے اور پیشانی مالک کے آگے جھکی پڑتی ہے۔ میرے آقا‘ میرے آقا تو کہاں ہے‘ تیرا بندہ حاضر ہے‘ تیرا بندہ تیری تلاش میں سرگرداں ہے‘ بندہ حاضر ہے‘ مالک تو کہاں ہے‘ مجھے صرف تیری تلاش ہے‘ مجھے صرف تیرا انتظار ہے۔

اور پھر اس کھوہ میں جہاں اس کے سوا کبھی کوئی نہ آیا تھا‘ اس غار میں جو بلند و بالا پہاڑ کے بلند و بالا دامن میں دشوار گزار تھا اور اُس تک جانے کی کسی کو کوئی غرض نہ تھی۔ جہاں صرف وہی جاتا تھا اور دوسرا کوئی نہ جاتا تھا‘ جہاں مضطرب سکون تھا اور جہاںمتجسس اطمینان تھا۔ وہاں اچانک کوئی دوسرا بھی آگیا‘ جس کی آمد کا اُسے دور دور تک گمان نہ تھا۔ جس کا انتظار نہ تھا‘ جس کے وجود کا وہم و گمان بھی نہ تھا۔ جس کی آمد کی کوئی اطلاع اور کوئی خبر بھی نہ تھی‘ جو نہ ہم جنس تھا اور نہ اپنا ہمسایہ اور شہری تھا۔ لیکن وہ بہت ہی زیادہ اپنا بن کر آیا تھا۔ اور سب سے زیادہ قریب ہو کر آیا تھا۔ وہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب والے کا ایلچی بن کر آیا تھا اور اس نے آتے ہی حروف و الفاظ کی دنیا نے نا آشنا اس مضطرب انسان اور متلاشی روح سے حیران کن بات کہہ دی تھی۔ یہ بات اس کا جاننے والا کوئی دوا نہ کہہ سکتا تھا‘ وہ بات اس آنے والے نے اس حیران و پریشان بندے سے کہہ دی تھی۔

’’پڑھ (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا‘‘ یہ بات کہنے والے کو بتایا گیا کہ ’’میں تو پڑھا ہوا نہیںہوں‘‘ آنے والے نے یہ سن کر حق کے متلاشی کو پکڑ کر زور سے بھینچا اور پھر چھوڑ کر دہرایا ’’پڑھ‘‘ اُس نے پھر یہی دہرایا کہ ’’میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں‘‘ پھر آنے والے نے پکڑ کر اسے زور سے بھینچا کہ جیسے دَم ہی نکال دے گا اور پھر کہا ’’اچھا پڑھ جس نے پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے کون کے ایک لوتھڑے سے۔ پڑھ اور تمہارا رب کریم ہے‘ جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا اور انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔‘‘ یہ باتیں سکھا کر وہ اچانک آنے والا اچانک ہی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

آنے والا تو اوجھل ہو گیا لیکن حقیقت منکشف ہوگئی‘ جس کی تلاش تھی وہ مل گیا۔ پیدا کرنے والا ہی درحقیقت رب تھا۔ اور وہ بڑا کریم تھا اور انسان کو سارا علم اسی کا دیا ہوا تھا اور وہی بندگی اور عبادت کے قابل اور اُس کا سزاوار تھا۔ بخدا حقیقت واضح ہو گئی تھی۔ لیکن یہ ایک بڑا انوکھا تجربہ تھا اور دہشت ناک صورت حال تھی۔ انسان اپنے چاروں طرف جن معلومات کا عادی ہوتا ہے‘ اُن سے ہٹ کر کوئی بات واقع ہو جائے تو وہ چیز اس کے لیے بڑی دہشت ناک ہوتی ہے۔ وہ دَہل گیا تھا‘ اب غار میں مزید ٹھہرنا ممکن نہ رہا تھا۔

اور آپؐ پہاڑ سے اتر کر واپس گھر تشریف لائے۔ ڈرے ڈرے اور سہمے سہمے‘ گھبرائے گھبرائے‘ پریشان پریشان‘ خوف زدہ خوفزدہ‘ ان سے پہلے یہ انوکھا تجربہ صدیوں کے بعد بعض انسانوں کو ہوتا رہا تھا۔ مالک کا اپنے بندوں سے رابطے کا یہی ذریعہ تھا۔ سلسلۂ رسالت۔ غارِ حرا میں یہ تو مکتبِ خداوندی کا اوّلین درس تھا جو اپنے محبوب اور منتخب بندے کو دیا گیا تھا۔

آپؐ لرزتے کانپتے گھر پہنچے اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ سے فرمایا ’’خدیجہؓ مجھے اوڑھا دو‘ مجھے اوڑھا دو۔‘‘
فرماں بردار بیوی نے آپؐ کو لپیٹ کو اڑھا کر لٹا دیا۔ جب ذرا طبیعت میں سکون پیدا ہوا تو اپنی اہلیہ کو سارا واقعہ سنایا اور پھر فرمایا:
’’اے خدیجہؓ! یہ مجھے کیا ہوگیا ہے؟ مجھے تو اپنی جان کا ڈر ہے۔‘‘

محرمِ راز نے عرض کیا ’’نہیں‘ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ہرگز نہیں ہے بلکہ آپ خوش ہو جایئے۔ خدا کی قسم آپ خلقِ خدا کی امانتیں ادا کرتے ہیں‘ بے سہارا لوگوں کا بار برداشت کرتے ہیں‘ نادار لوگوں کو کما کر دیتے ہیں‘ مہمان داری کرتے ہیں‘ نیک کاموں میں مدد دیتے ہیں۔ بخدا اللہ آپ کو ضائع نہ کرے گا۔‘‘

اور پھر غیر محسوس طور پر آپ کو اس انوکھے تجربے کا انتظار رہنے لگا۔ غارِ حرا کی عبادت اور وہاں کی آمدورفت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ یہاں تک کہ ایک بار پھر وہی رفیقِ تنہائی آپ کو آسمان و زمین کے درمیان ایک عظیم الشان کرسی پر بیٹھا ہوا نظر آیا۔ وہی عظیم اجنبی جس نے علمِ وحی کا پہلا سبق آپؐ کو غارِ حرا میں دیا تھا‘ اسے اس ہیئت میں دیکھ کر آپ ایک بار پھر سہم گئے اور جلد جلد گھر لوٹ آئے۔

’’خدیجہ! مجھے اوڑھائو‘ مجھے اوڑھائو‘‘ اور آپ کو کمبل اوڑھا دیا گیا۔ تب آپ پر ناموس الٰہی نازل ہوا۔

ترجِِمہ ’’اے گلیم پوش اُٹھ! اور لوگوں کو خدا سے ڈرا۔ اپنے رب کی کبریائی بیان کر۔ اپنے کپڑے پاک صاف رکھ‘ گندگی سے دور رہ اور احسان نہ کر زیادہ حاصل کرنے کے لیے اور اپنے رب کی خاطر مشکلات پر صبر کر۔‘‘

یوں اللہ کی بڑائی بیان کرنے‘ اُس کی کبریائی کا سکہ جمانے اور اُس کے مدِ مقابل کھڑے ہونے‘ رک کی ہر گندگی کو مٹانے کے لیے‘ صبر و ہمت اور جوش و جذبے کے ساتھ حضورؐ اکرم کھڑے ہوگئے۔ کفر اور شرک کے گڑھ میں پوری قوم کے مدمقابل‘ جس قوم کے سارے مفادات اس شرک کی مجاوری سے وابستہ ہو کر رہ گئے تھے۔ تنہا ایک فرد کا کھڑے ہوجانا اس بات کی دلیل تھا کہ جس عظیم ربِ کائنات کے نمائندے بن کر آپؐ کھڑے ہوئے تھے‘ اس کی کبریائی نے پوری قوم کے غیظ و غضب کا سارا خوف و خطر حضورؐ کے دل سے بالکل نکال دیا تھا۔ اور یہ مقابلہ بڑا ہی عجیب مقابلہ تھا کہ ایک طرف پوری قوم تھی اور دوسری طرف تن تنہا ایک فرد رب کی کبریائی بیان کرتا ہوا میدانِ عمل میں اتر آیا تھا جس کے پاس صرف ایمان باللہ‘ عمل صالح اور صبر کے ہتھیار تھے اور یہی ہتھیار اس معرکے میں مؤثر ترین تھے۔

دعوت ایک چھوٹے سے کلمے کی طرف دی جا رہی تھی ’’لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ (اللہ کی سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔)

اللہ ہی واحد الٰہ ہے۔ یہ توحیدِ باری تعالیٰ پر ایمان لانے کی دعوت تھی‘ محمدؐ ہی اللہ کے برگزیدہ رسول ہیں۔ یہ حضور اکرمؐ کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت تھی۔ اللہ کے سامنے ساری زندگی کے اعمال کی جواب دہی ہوگی۔ یہ آخرت پر ایمان لانے کی دعوت تھی۔

پس انہیں تین باتوں سے دعوتِ اسلامی کا آغاز ہوا تھا۔ بظاہر یہ روکھی پھیکی سی دعوت تھی جس سے کسی کا بھی کوئی مادّی مفاد وابستہ نہ تھا۔ البتہ اس دعوت سے بہت سے معزز اور معتبر لوگوں کے مفادات پر چوٹ پڑتی تھی لیکن کسی گروہ کا بھی مادّی مفاد اس دعوت سے وابستہ دکھائی نہ دیتا تھا۔ اس وقت مکہ کی بستی میں ایسی دعوت کا شاید کسی کو بھی انتظار نہ تھا۔

عرب کا کافی زرخیز علاقہ ایرانی اور روِِمی سلطنتوں کے زیر نگیں تھا اور صرف اس کا بنجر علاقہ ہی آزاد پڑا رہ گیا تھا۔ وہ بھی ان دونوں بڑی سلطنتوں کے غالب سیاسی اثرات کے تحت نیم آزاد تھا۔ ایران کے کسریٰ اس علاقے کو بس اتنا ہی آزاد سمجھتے تھے کہ انہوں نے عرب میں ایک دعوت اٹھنے کی خبر سننے پر اس کے داعی کو گرفتار کرنے کے لیے مدینے میں دو پیادے بھیج دینا ہی کافی سمجھا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر عرب کے استقلال و استحکام و آزادی و ترقی و اتحاد کی دعوت لے کر اٹھتے تو قوم میں سے پُرجوش عناصر آگے بڑھ کر ضرور آپؐ کا ساتھ دیتے کہ اس دعوت میں انہیں قوم و وطن کی خوش حالی اور ملک و ملت کی ترقی کے آثار دکھائی دیتے اور اس طرح ایک آزاد ترقی یافتہ خوش حال عرب معاشرہ وجود میں لانا ممکن ہو جاتا۔

لیکن حضورؐ نے عرب قومیت کی ترقی و بہبود پر مشتمل ایسی کوئی سیاسی دعوت نہ دی‘ عرب معاشی لحاظ سے بھی سخت پس ماندہ تھے۔ چند خوش حال سرداروں اور تاجروں کو چھوڑ کر باقی ساری آبادی چراگاہوں اور بھیڑ بکریوں کی پرورش پر اپنی گزر بسر کرتی تھی اور معاش کے وسیع تر ذرائع سے بالکل محروم تھی۔ اگر حضورؐ معاشی بہبود اور معاشی ذرائع وسائل کی ترقی و توسیع کے لیے اٹھتے اور لوگوں کو معاشی ترقی کی جدوجہد کرنے کی دعوت دیتے تو اس کے لیے بھی معاشرے میں مانگ موجود تھی اور ایسے افراد کی کھیپ مل سکتی تھی جو روٹی‘ کپڑے‘ مکان اور معاشی حالات کے حصول کے شوق میں نئی دعوت کا ساتھ دیتے لیکن حضورؐ نے معاشی بہبود کے پروگرام کو اپنا نصب العین بنا کر اٹھنے اور کام کرنے کی معاشی دعوت بھی نہیں دی۔ عربوں میں معاشرتی خرابیوں کی بھی انتہا تھی۔ کردار کی چند خوبیوں کو چھوڑ کر معاشرتی برائیاں ان میں بدرجہ اتم داخل ہوگئی تھیں۔ شراب نوشی‘ جوا‘ سود‘ فخر و مباہات کے مقابلے‘ ان مقابلوں کے فسادات‘ قتل و غارت اور تباہی و بربادی کے ہنگامے اور دوسرے بے شمار بدترین انتظامی خرابیاں جس میں قوم بری طرح آلودہ اور تباہ حال تھی۔ اگر حضورؐ معاشرتی اصلاح کا بیڑا اٹھاتے تو اس کام میں بھی بہت سے مخیر اور شریف لوگ دل چسپی رکھتے تھے اور وہ نہایت آسانی سے بغیر کسی مزاحمت کے حضورؐ کا ساتھ دیتے اور یہ کام عزت و آبرو اورسماجی برتری کے احساس کے ساتھ بروئے کار لایا جاتا۔ لیکن حضورؐ نے اپنی قوم کی بظاہر اس ہنگامی اور فوری ضرورت کو بھی پیش نظر نہ رکھا اور جو دعوت ان کے سامنے پیش کی وہ یہ تھی:
’’خدا کے بندو!
٭ خدا کی بندگی اختیار کرو اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو۔
٭ خدا کے رسولؐ پر ایمان لائو اور اس کی اطاعت کرو۔
٭ مرنے کے بعد خدا کے سامنے اور اپنے دُنیا کے کارخانۂ زندگی کا حساب دینے کے لیے تیار ہو جائو۔‘‘
یہ دعوت اوّل روز سے ہر متکبر‘ مفاد پرست‘ جاہ پسند‘ ہٹ دھرم‘ ضدی اور خوشامد پسند انسان کو ناپسند رہی ہے جس میں بظاہر مادّی فوائد کا کوئی وعدہ نہیں ہوتا لیکن ہر انسان سے خدا اور رسولؐ کے لیے ایثارِ نفس‘ کلی اطاعت‘ قربانی اور خدا ترسی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ لیکن حضورؐ نے دعوتِ حق کا یہی کٹھن راستہ اختیار کیا‘ اسی لیے کہ حضورؐ کے سامنے دعوت کو پیش کرنے میں اپنی پسند کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ آپؐ اس کام کے لیے خدا کی طرف سے مامور تھے‘ اور اللہ کی ترجیحات دوسری ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا تو یہ طریقہ ہے کہ وہ حق کو باطل سے ٹکراتا ہے تاکہ حق اپنی ساری قوت و توانائی کے ساتھ غالب آجائے اور باطل اپنی ساری کھوٹ کے ساتھ تباہ و برباد ہو کر فنا ہو جائے۔ اسی لیے حق اپنے ظہور کے لیے کسی دنیوی مصلحت اور کسی وقتی ضرورت کا قائل یا منتظر نہیں تھا۔ ہر دور میں انسان کے لیے سب سے بڑی وقتی ضرورت خود حق ہی ہوتا ہے جو اس کے سارے مسائل حل کرتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ انسان کی کوتاہ نظر حق کے دوررس نتائج سے بے خبر اور بے بصر ہوتی ہے۔

حصہ