سلسلہ ننھے جاسوس-4: دہرا وارداتیہ

224

انسپکٹر حیدر علی کی کار نے آکر جونہی دروازے کے سامنے بریک لگائے جمال اور کمال نے فوراً باہر آکر ان کا استقبال کیا اور چھوٹے سے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول کر انھیں بڑی عزت کے ساتھ گھر میں بٹھایا۔ تھوڑی دیر پہلے انھوں نے اپنے آنے کی اطلاع دی تھی اور اس بات کی اجازت چاہی تھی کہ کیا وہ ان کے گھر آ سکتے ہیں۔ انسپکٹر جمشید جب بھی جمال اور کمال کے گھر آیا کرتے تھے تو اپنی ذاتی کار میں ہی آیا کرتے تھے۔ اس بات سے ان کا مقصد صرف یہی ہوتا تھا کہ کوئی ان کے گھر آمد کو کسی پولیس والے کی آمد نہ سمجھے۔
بچوں نے ان کو ڈرائنگ روم میں بٹھانے کے بعد ان کے سامنے گھر میں تیار کچھ ہلکی پھلکی چیزیں رکھیں اور دریافت کیا کہ وہ ان کی اور کیا خدمت کر سکتے ہیں۔ انسپکٹر حیدر علی نے کہا کہ تمہارا اور تمہارے گھر والوں کا بہت بہت شکریہ، بات در اصل یہ ہے کہ میرے علاقے میں ڈکیتی کی ایک بڑی واردات ہوئی ہے۔ گھر والوں نے مزاحمت کی تو وہ جارحیت پر اتر آئے اور فائرنگ شروع کردی۔ اس گھر میں ان کے کچھ مہمان بھی آئے ہوئے تھے جن میں سے ایک کا تعلق اسپیشل پولیس برانچ سے بھی تھا۔ اس نے جرات سے کام لے کر ڈاکوؤں پر چابک دستی سے حملہ کیا اور ان میں سے ایک کا پستول چھینے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر ڈاکو بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر بھاگ نکلے۔ اتنی میں میزبانوں کے چھوٹے بیٹے نے پٹاخے والی گن سے چار پانچ دھماکے کئے تو پھر ڈاکوؤں کو کہاں ہوش تھا۔ اوپر کی منزل پر موجود ڈاکو نے لان میں چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی لیکن اس کی شرٹ کھڑکی کے کسی ہک میں بری طرح پھنس گئی اور اس کا گریبان کھڑکی ہی میں پھنسا رہ گیا۔ اس کے علاوہ اور کوئی ایسی چیز حاصل نہ ہو سکی جس کی مدد سے ملزموں تک پہنچا جا سکے۔ نہ معلوم کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ معمولی گریبان کا ٹکڑا ہماری رسائی ڈاکوؤں تک ضرور کر سکتا ہے۔
کیا آپ شرٹ کا وہ ٹکڑا ساتھ لائے ہیں، انسپکٹر حیدر علی نے کہا ہاں، اور یہ کہہ کر ساتھ لائے ہوئے شاپر کو ان کی جانب بڑھا دیا۔ بچوں نے اسے باہر نکال کر جائزہ لیا اور کچھ سوچ میں پڑ گئے۔ تم کیا سوچ رہے ہو، حیدر علی نے سوال کیا تو بچوں نے کہا کہ یہ تو بالکل نیا نیا خریدا ہوا لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ابھی تک دھلا ہی نہ ہو۔ حیدر علی نے تعریفی نظروں سے بچوں کو دیکھتے ہوئے کہا کہ میں نے تو اس پر غور ہی نہیں کیا۔ پھر ہاتھ بڑھا کر شرٹ کے پیس کا جائزہ لیا تو انھیں بچوں کی بات سو فیصد درست ہی معلوم ہوئی۔ تم دونوں اس سے کیا نتیجہ نکالنا چاہتے ہو جس پر بچوں نے کہا کہ کیا آپ ہمیں کل تک کے لیے شرٹ کا یہ پیس ہمارے حوالے کر سکتے ہیں کیونکہ اس برانڈ کو دیکھ کر ہمارے ذہن میں اور بھی بہت ساری باتیں گردش کر رہی ہیں جس کا جواب شاید ہم ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں۔ انسپکٹر حیدر علی نے کہا ٹھیک ہے لیکن اس کو ہم پولیس کے ریکارڈ پر لے آئے ہیں اس لئے تم دونوں کو اس کا بہت خیال رکھنا ہوگا۔ پولیس کے ریکارڈ پر آئی کسی بھی چیز کو کسی پبلک سیکٹر میں دینا مناسب نہیں ہوتا لیکن کیونکہ تم دونوں قابلِ اعتماد ہو اس لئے میں کل تک کے لیے اسے تمہارے حوالے کر سکتا ہوں۔ یہ کہہ کر انسپکٹر حیدر علی نے اجازت چاہی اور روانہ ہو گئے۔
اسکول میں سردیوں کی چھٹیاں تھیں، ہوم ورک بھی بہت مختصر ملا تھا۔ دونوں سوچ رہے تھے کہ بہت دنوں سے کوئی کام بھی ہاتھ نہیں لگا تھا۔ وہ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ کیا کریں تو یہ کام نکل آیا جس کی وجہ سے دونوں بہت خوش ہوئے کہ چلو کوئی مشغلہ ہاتھ آیا۔ رات کا کھانا کھانے اور نمازِ عشا سے فارغ ہونے کے بعد وہ دونوں شرٹ کے اس ٹکڑے کو لے کر بیٹھ گئے اور غور کرنے لگے کہ ٹھیک ایسی ہی شرٹ، برانڈ اور مخصوص کپڑا انھوں نے اس سے قبل کس کے پاس دیکھا تھا۔ برانڈ سے تو وہ اس دکان کو ٹریس کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے جو ساتھ والی بستی میں نئی نئی کھلی تھی لیکن اس بات کا کیا ثبوت تھا کہ وہ اسی دکان سے خریدی گئی ہو۔ اچانک ان کی نظروں میں ایک شخصیت ابھری۔ کچھ دور ایک پروفیسر رہتے تھے جن کو انھوں نے بالکل یہی برانڈ اور رنگ کا شلوار سوٹ پہنے ہوئے دیکھا تھا۔ تو کیا وہ ایسا گھٹیا کام کر سکتے ہیں؟، اس کا جواب نہیں، نہیں، نہیں کے علاوہ کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ وہ پروفیسر تھے، عمر والے بھی تھے، صاحبِ حیثیت بھی تھے اور نوکر چاکر والے بھی، تو یہ کام وہ کیسے کر سکتے تھے۔ مگر اس کو کیا کریں کہ اس پوری بستی میں وہی ایک ایسے تھے جو اس مہنگے ترین شلوار سوٹ کو خرید سکتے تھے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ان کے گھر سے وارداتیے نے یہ سوٹ چرالیا ہو؟، یہ نقطہ قابلِ تحقیق تھا اور یہ کام انسپکٹر حیدر کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا اگلی صبح انھوں نے انسپکٹر حیدر علی کو بلا کر شرٹ کے سلسلے میں تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے اپنے شک کا اظہار کیا۔ انسپکٹر حیدر علی نے یہ سن کر سر ہلاتے ہوئے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ تم دونوں درست سمت میں رہنمائی کر رہے ہو۔ میں پوری کوشش کرونگا کہ پروفیسر کی عزت پر کوئی آنچ بھی نہ آئے اور ہم معاملے کی حقیقت تک پہنچ جائیں۔ یہ کہہ کر وہ شرٹ کا پیس لے کر رخصت ہوئے۔
دو تین دن بعد انسپکٹر حیدر علی کی کار نے ایک مرتبہ پھر جمال اور کمال کے گھر کے سامنے بریک لگائے۔ اس مرتبہ ان کے ساتھ ان کے ایک اور اعلیٰ افسر بھی ساتھ تھے۔ کیونکہ وہ سادہ لباس میں تھے اس لئے جمال اور کمال ان کو نہ پہچان سکے اور شاید انسپکٹر بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ ان کے نام سے واقف ہوں، بس انھوں نے پہلے تو دونوں کو گلے لگا کر زور زور سے بھینچا اور اپنے ساتھ آئے ہوئے فرد کے متعلق فقط اتنا بتا یا کہ یہ میرے سینئر ہیں۔
کہنے لگے کہ اللہ تم دونوں کو سلامت رکھے۔ تمہاری وجہ سے مجرموں تک رسائی بہت آسان بن کر رہ گئی ہے۔ تمہارے اندازے کے مطابق وہ شلوار سوٹ پروفیسر نے چند دن قبل ہی اسی دکان سے خریدا تھا جس کی نشاندہی تم دونوں نے کی۔ ان کے ملازم نے سوٹ دیکھا تو بہت تعریف کی تو پروفیسر نے کہا کہ جیسے ہی گنجائش نکلی میں ایسا ہی ایک سوٹ تم کو بھی دلوادونگا۔ پروفیسر کہتے ہیں کہ میں نے ملازم کی عجیب سی کیفیت دیکھی۔ لیکن سمجھ نہ سکا۔ میں نے اس سے کہا کہ وہ اسے دھونے کے بعد ان کی الماری میں ہنگر کر دے۔ میں نے اس سوٹ کو ہنگر کیا ہوا بھی دیکھا۔ اگلے دن جب میں نے وہ سوٹ پہنا تو وہ رنگ میں تو بالکل ویسا ہی تھا لیکن نہ تو وہ برانڈ تھا اور نہ ہی وہ کپڑا۔ ساتھ ہی ساتھ کچھ زیور اور کرنسی بھی گھر میں موجود نہ تھی۔ بیوی سے ملازم کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ گھریلو ایمرجنسی کا بتا کر گاؤں چلا گیا ہے۔ یہ نیا نیا ملازم تھا اور مجھے اس کے متعلق بہت تفصیل کا علم بھی نہیں تھا بس شناختی کارڈ کی ایک کاپی میرے پاس ضرور تھی۔ حیدر علی نے کہا کہ شاختی کارڈ کی کاپی کام دکھا گئی اور ہم نے اسے ایک پرائیویٹ ہسپتال سے گرفتار کر لیا۔ شرٹ کھڑکی میں پھنس جانے کی وجہ سے اس کی گردن میں کافی گہرے زخم آئے تھے جس کی وجہ سے اسے ہسپتال کا رخ کرنا پڑا تھا۔
ویل ڈن کمال اور جمال، تمہاری سوچ کی رسائی نے ہماری بہت بڑی مشکل آسان کردی۔ انسپکٹر حیدر علی اور ان کے آفیسر نے بیک وقت دونوں کی کمر تھپتھپاتے ہوئے کہا کہ اللہ تم دونوں کو سلامت رکھے اور مستقبل میں تم دونوں ملک و قوم کی اور بھی زیادہ خدمت کر سکو۔

حصہ