محمد حسن عسکری کل اور آج

364

شمس الرحمٰن فاروقی کی یادگار گفتگو

(تیسری قسط)
سوال: گویا عسکری صاحب اسلامی ادب پر زور دیتے تھے اور بے شک آخری زمانے میں تو ان کا واضح اور پرزور اصرار اسی طرف تھا۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محمد حسن عسکری نے علامہ اقبال کو بہت زیادہ اہمیت کیوں نہیں دی، جب کہ سب یہ کہتے ہیں کہ اقبال اسلامی شاعر تھے؟ اسلامی ادب کا جو نظریہ محمد حسن عسکری کا ہے، اس میں اور علامہ اقبال کے خیالات میں کم و بیش مطابقت بھی دکھائی جاسکتی ہے۔ خواجہ منظور حسین کی علامہ اقبال پر تنقید کا انہوں نے بڑا اچھا جواب دیا تھا۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ اگرچہ ادب کی اسلامی روایت کے تصور پر وہ اٹل تھے، لیکن انہوں نے علامہ اقبال کو فو قیت نہیں دی؟

شمس الرحمٰن فاروقی: پہلے تو یہ واضح کردوں کہ اسلامی ادب کی تبلیغ، یا مضبوطی، یا اس کے پھیلاؤ کے لیے عسکری صاحب نے کم سے کم اپنے آخری زمانے میں کوئی خاص بات نہیں کہی۔ اور نہ ان کے بارے میں یہ حکم لگایا جاسکتا ہے کہ وہ جماعت اسلامی والے ’’اسلامی ادب‘‘، یا مولانا تھانوی کی نظر میں جو ادب اسلامی ادب ٹھہرتا، اس کے وہ مبلغ و مقلد تھے۔ نہ یہی بات ٹھیک ہے کہ ان کے نظریۂ ادب اور اقبال کے نظریۂ ادب میں کوئی خاص نکات مشترک کہے جاسکتے ہیں۔

اسلامی ادب کے بارے میں بھی ان کے تصورات تین طرح کے تھے جو بدلتے رہے۔ پہلا تصور ان کا یہ تھا جو شروع شروع کی ان کی تحریروں میں ملتا ہے کہ ہر وہ ادب، اور فنون لطیفہ کا ہر وہ کارنامہ جو کسی مسلمان تہذیب نے پیدا کیا ہے وہ اسلامی فن لطیف یا ادب کا نمونہ کہلائے گا۔ مثلاً تاج محل ہے۔ کیا اس کو اسلامی عمارت نہ مانا جائے گا؟ ظاہر ہے کہ ماننا پڑے گا کہ تاج محل یا قطب مینار اسلامی عمارات ہیں، اگرچہ ان کے بنانے والوں میں غیرمسلم بھی تھے، اور ان کی طرز تعمیر وہ نہیں جو اولین اسلامی عمارتوں کی ہے۔ اس حساب سے میر کا شعر بھی اسلامی شعر ہوا۔

اس موقف پر وہ زیادہ دن تک قائم نہیں رہے، جب کہ میرے خیال میں یہی صحیح رویہ تھا کہ اگر کوئی مسلمان تہذیب ہے تو اس تہذیب کا نام لیوا اسلامی کہلائے گا، چاہے وہ مسلمان ہو یا ہندو یا پارسی یا عیسائی۔ اس میں پریشانی یہی ہے کہ جو لوگ مسلمان نہیں ہیں، ان کا کیا کیا جائے؟ ان کو ’’اسلامی‘‘ کس طرح کہا جائے؟ حالانکہ اگر اسلامی طرز کی عمارت کو بنانے والا کوئی ہندو معمار یا مہندس ہوسکتا ہے، تو اسلامی طرز تہذیب کا شعر بھی کہنے والا ہندو بھی ہوسکتا ہے۔ بہرحال، اس موقف سے بہت جلد انہوں نے تعلق قطع کرلیا۔ لیکن اسلامی ادب کی جو تعریف جماعت اسلامی نے متعین کی تھی اور جس پر وہ اب بھی بڑی حدتک قائم ہے، اس سے عسکری صاحب کو کبھی بھی اتفاق نہیں رہا۔ جماعت اسلامی والے کہتے ہیں کہ صرف وہ ادب اسلامی ادب ہے جس میں اسلامی اقدار کو پوری طرح سے پیش کیا جائے، اخلاقی بھی، اور سیاسی بھی جذباتی بھی۔ اور جس میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جو اسلامی نظام اخلاق یا ضابطے، یا قوانین کی روسے نامناسب ثابت ہو۔ وہ اس ادب کو اسلامی ادب کہتے تھے جو اسلام کا استحکام کرے، یا اسلامی تہذیب اور شرع کے دائرے کے اندر رہ کر لکھا گیا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ اسلام کی بھی وہی تعریف ان کی نظر میں مستند ہے جس پر ان کی مہر لگی ہوئی ہو۔ تو صاحب میر کے دوچار ہزار اشعار چن لیجیے جو آپ کے خیال میں فحش نہ ہوں، مخرب الاخلاق نہ ہوں، عشق مجازی پر مبنی نہ ہوں یا جو عشق حقیقی کی طرف لے جاتے ہوں، یا جن میں مایوسی اور ہمت شکستگی وغیرہ کی بات نہ ہو، شیخ اور محتسب اور واعظ پر تنقید نہ ہو، وغیرہ۔ ان کو ہم قبول کرلیں گے، لیکن میر کی ہم پوری شاعری کو قبول نہیں کریں گے۔ غالب کا حال اس سے بھی برا۔ داغ تو شاید سارے کے سارے نکال دیے جاتے۔ وقس علیٰ ہذا۔ اس تعریف کو عسکری صاحب نے کبھی قبول نہیں کیا۔ لیکن عسکری صاحب نے اسلامی ادب کی کوئی جامع تعریف خود متعین نہیں کی، سوائے اس کے کہ انہوں نے یہ دعویٰ کیا، جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اردو کی اصل روایت اسلامی روایت ہے۔

لیکن اس میں جو گول مول معاملہ ہے کہ دیا شنکر نسیم کی مثنوی، اور نہال چند لاہوری کی ’’مذہب عشق‘‘، اور ان سے بہت پہلے افضل کی ’’بکٹ کہانی‘‘، جعفر زٹلی کی ہجویں اور شہر آشوب، اور ان کے بعد داستان امیر حمزہ، اور ’’امراؤجان ادا‘‘، اور نذیر احمد کی اکثر تحریریں، اور ان کے پہلے غواصی کی غزل، اور رنگین و انشا و جان صاحب کی ریختی، اور سودا کی ہجویں، اور چکبست کی ’’رامائن کا ایک سین‘‘، پریم چند کا ’’گئودان‘‘، اور طوطا رام شایاں کی طویل مثنویاں ’’مہابھارت‘‘، اور ’’طلسم شایاں‘‘، اسلامی روایت میں ہیں کہ نہیں؟

میں تو کہتا ہوں کہ ’’اسلامی روایت‘‘ کی بحث ان تحریروں، اور ان جیسی ہزاروں تحریروں کے لیے بے معنی ہے۔ یہ جس روایت میں ہیں اس کا میں نام رکھتا ہوں ہند+ اسلامی روایت، یا ہند+مسلم روایت۔ اگر وہ Indo Muslim کہتے تو روایت کے تشخص کا مسئلہ ان کے لیے آسان ہوجاتا۔

موسیقی میں بھی یہ مشکل آپڑی۔ ہماری موسیقی اگرچہ غیراسلامی ہے، یعنی ہندوستان میں مسلمانوں کے پہلے بھی یہی موسیقی موجود تھی، لیکن اس میں مسلمانوں نے بے انتہا کام کیا، اور اس سے صرف نظر کرنا عسکری صاحب کے لیے ممکن نہ تھا تو انہوں نے بہت کھینچ کھانچ کے ’’خیال‘‘ کی تعریف متعین کی۔ اور ’’خیال‘‘ میں انہوں نے اسلامی رنگ لانے کی کوشش کی اور چونکہ اس میں زیادہ تر مسلمانوں نے کام کیا اس لیے یہ چل بھی گیا۔ اسے ہم ’’اسلامی ادب‘‘ تو نہیں، لیکن ’’اسلامی فنون لطیفہ‘‘ کے بارے میں عسکری کا دوسرا نظریہ کہہ سکتے ہیں۔ لیکن سوال پھر بھی رہتا ہے کہ جن لوگوں نے ’’خیال‘‘ کو ’’اسلامی‘‘ موسیقی کے طور پر ایجاد کیا، وہ خود کیسے اور کتنے مسلمان تھے؟ کیا ادا رنگ اور سدا رنگ کا شمار اولیا اللہ میں ہوسکتا ہے؟ اور کیا ’’باجو بند کھل کھل جائے‘‘ (استاد بڑے غلام علی خاں)، اور ’’وندے نند کمارم‘‘ (استاد فیاض خاں) جیسی بندشیں ’’اسلامی‘‘ کہی جاسکتی ہیں؟

اسلامی ادب کے تعلق سے عسکری صاحب کا تیسرا نظریہ اردو کی ادبی روایت کے بارے میں ان کے عمومی نظریے سے مستخرج ہوسکتا ہے۔ اس پر گفتگو میں پہلے کرچکا ہوں۔

تو اسلامی ادب کیا ہے؟ اس کی تعریف کبھی صاف نہیں ہوئی عسکری کی نظر میں۔ رہا اقبال کا معاملہ، تو میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اقبال تو بڑے active ہیں۔ عملی آدمی ہیں، اور جدوجہد کے آدمی ہیں۔ اسلام ان کی نظر میں وہی اسلام ہے قرون اولیٰ کا، کہ جب مسلمان سر سے کفن باندھ کر گھر سے نکلتے تھے، اعلائے کلمۂ حق کی راہ میں، اللہ تعالیٰ کی باتوں کا اعلان کرنے کے لیے وہ نکلتے تھے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک مشن پر مقرر کیا تھا، تم کو ایک کام کرنا ہے دنیا میں۔ تمہیں اللہ کا پیغام تمام عالم میں پہنچانا ہے، کہ اب تمہارے نبی کے بعد کوئی نبی نہ آئے گا۔ عسکری کا اسلام تعقلاتی اسلام تھا، عقیدے اور عقیدت کا اسلام تھا، اور اقبال:

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
کی بات کہتے تھے۔

لیکن ایک نکتہ اور بھی ہے۔ اقبال کے جو مذہبی افکار و نظریات ہیں، جیسا کہ ہم ان کے لکچروں میں دیکھتے ہیں،

Reconstruction of Religious Thought in Islam

میں، تو اس میں بہت ساری باتیں غیر اسلامی ہیں۔ اور وہ گویا اجتہاد کی حیثیت رکھتی ہیں اور ظاہر ہے کہ عسکری صاحب کے یہاں اجتہاد نام کی کوئی چیز تھی نہیں۔ وہ تو سرے سے کہتے تھے کہ پہلے جو ہمارے یہاں ہوچکا ہے اور جو ہمارے بزرگ کہہ گئے ہیں وہی سب کچھ ہے۔ اس میں اجتہاد کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور اگر اجتہاد ہی کرنا ہوگا تو کسی ایسے مسئلے پر کریں گے جس کا تعلق مناسک دین سے ہو۔ مثلاً وضو کے مسائل میں اجتہاد کریں گے کہ بھائی مسح کہاں کیا جائے۔ تیمم کب کیا جائے۔ رفع یدین ہو کہ نہ ہو۔ لیکن جو اصولی معاملہ ہے اس میں کوئی اجتہاد نہیں ہوسکتا۔

غور فرمائیے، عسکری کا اسلام اشرافی (Elitist) ہے، اور اسراری ہے۔ یہ اعلیٰ ذہنوں کی چیز تو ہے، لیکن اس سے سماجی مسائل نہیں طے ہوسکتے۔

یہ بالکل نئی بات ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے یہ بالکل نئی بات ہے۔ ہم کو بتایا گیا تھا کہ آدم نے گناہ کیا۔ شیطان نے بہکایا بی بی حوا کو اور پھر انہوں نے بہکایا آدم علیہ السلام کو، انہوں نے گیہوں، یا جو کچھ کھایا، اس کے نتیجہ میں وہ جنت سے نکالے گئے۔ قرآن میں بھی کم و بیش یہی ملتا ہے۔ اس کی یہ تاویل کر رہے ہیں اقبال کہ دراصل یہ تفکر اور شعور کی بیداری کی علامت ہے۔ جنت سے نکالے جانے کے معنی دراصل یہ ہیں کہ جنت ایک علامت ہے عالم معصومیت کی، بے گناہی کی، جس میں تعقل اور تفکر نہیں ہے۔ اور تعقل اور تفکر جب پیدا ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ فرق اور امتیاز کا سوال اٹھتا ہے۔ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے؟ ثواب کیا ہے، گناہ کیا ہے؟ پہلے کیا ہے، بعد میں کیا ہے؟ تو جنت سے آدم کا نکالاجانا اقبال کی نظر میں شعور زیست کی بیداری ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ بات عسکری صاحب کو کبھی قبول نہ ہوگی۔ مجھے بھی قبول نہ ہوگی، اگر میں اسلامی نقطہ نظر سے بات کروں۔

اس طرح اقبال دونوں طرح سے عسکری کے لیے ناکافی اور نامناسب تھے۔ ایک تو مسئلہ تشخص (identity) کا تھا۔ تہذیبی طور پر میں مسلمان ہو ں یا ہندو؟ یا مجھے ’’ہندو +مسلم‘‘ کہا جائے؟ اور دوسرا مسئلہ تھا تعمل (Activism) کا۔ جیسا کہ ابھی ہم کہہ چکے ہیں، عسکری کا تصوف سراسر تفکراتی اور تعقلاتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اقبال کا جو اسلامی تفکر ہے اس میں تصوف بہت کم ہے، اجتہاد بہت زیادہ۔ اور عسکری صاحب بظاہر اس کے بھی قائل نہیں تھے کہ اجتہاد کیا جائے۔

جہاں تک ہم جانتے ہیں، بحیثیت شاعر اقبال کے وہ قائل تھے۔ اقبال کی شاعری کے وہ قائل تھے کہ وہ بہت بڑے شاعر تھے۔ لیکن ان کے مطلب کی شاعری وہ نہیں تھی۔ ان کے لیے تو یہی بہتر تھا۔

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں

کہ اس طرح کی شاعری میں تاویل کی گنجائش بہت ساری ہے۔ لیکن

ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں
جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

میں تو تاویل کی گنجائش کچھ ہے نہیں۔ ایک ہی بات ہے کہ لڑو اور مرو۔ اس لیے یہ شاعری عسکری کے لیے بہت کام کی نہیں تھی۔ اور نہ یہ شاعری بہت کام کی تھی

اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا

اس طرح کی شاعری میں انسان اللہ تعالیٰ سے ایک طرح کی مساوات Equation قائم کرتا ہے۔ اور یہ وہ مساوات نہیں تھی جو بندے اور اللہ میں ہوتی ہے۔ وہ ایک اور طرح کا سوال قائم کرتا ہے۔ یہاں انسان ایک طرح سے خدا کا شریک ہے نظم کائنات میں، لیکن اسے شکوے بھی ہیں۔ اور یہ شکوے ان شکوؤں سے قطعاً مختلف ہیں جو ’’شکوہ‘‘ کے متکلم کو اللہ سے تھے،

کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے

’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ کو تو شاید عسکری صاحب ایک حد تک نگاہ موافقت سے دیکھتے، اگرچہ ان نظموں کا گھریلو، پروٹسٹنٹ (Protestant) انداز ان کے مطلب کا نہ تھا۔ آپ کو خیال ہوگا کہ عسکری کی نظر میں مسیحیت کی اصل روایت جس حدتک وہ باقی تھی، رومن کیتھولک مذہب میں تھی۔ اگر کج رو ہیں انجم جیسی شاعری عسکری کے کام کی نہیں تھی۔

سوال: آپ کی اس گفتگو کا جو روپ ’’مکالمہ‘‘ کراچی میں چھپا ہے اس کے حوالے سے انتظار حسین نے ڈان میں ایک کالم لکھا ہے۔ وہ آپ کی اس بات سے اختلاف کرتے ہیں کہ عسکری صاحب نے ہند +اسلامی یا Indo-Muslim تہذیب کی اصطلاح کی روشنی میں اسلامی ادب اور تہذیب کا مسئلہ نہیں حل کیا۔ انتظار صاحب کہتے ہیں کہ عسکری نے ’’ہند اسلامی کلچر‘‘ کی اصطلاح بہت استعمال کی ہے۔

شمس الرحمٰن فاروقی: انتظار حسین مجھ سے بہت بہتر ہیں کہ عسکری صاحب سے ان کی خوب ملاقاتیں رہی ہیں، ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی۔ انتظار حسین کہتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ عسکری صاحب نے Indo-Muslim Culture کی اصطلاح بیش از بیش استعمال کی ہوگی۔ لیکن ان کی تحریروں میں اس کا سراغ مجھے بہت کم ملا۔ ایک جگہ انہوں نے ’’ہند اسلامی کلچر‘‘ کا فقرہ ضرور استعمال کیا ہے، لیکن یہ بھی کہا ہے کہ اس تہذیب کے سب سے بڑے مظاہر ہیں مغل عمارتیں اور اردو زبان۔ یعنی وہ معاملے کو اتنا محدود کرکے گفتگو کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں ان کا مضمون ’’پاکستان کا کلچر‘‘ (۸۴۹۱) دیکھا جاسکتا ہے۔

سوال: عسکری صاحب نے یہ کہا کہ نئی غزل پر میر کے اثرات زیادہ ہیں، غالب کے اثرات کم۔ میر پر انہوں نے کئی ایک مضامین لکھے، جب کہ غالب پر مشکل سے ایک دو۔ انہوں نے غالب پر میر کو فوقیت دی۔ کیا اس کی بھی وجہ یہی ہے کہ عسکری صاحب کو غالب کے مقابلے میں میر کے یہاں روایت کی کارفرمائی زیادہ نظر آتی تھی؟

شمس الرحمٰن فاروقی: ان کا یہ کہنا کہ میر کا اثر نئی غزل پر زیادہ ہے، ممکن ہے ایک خاص وقت میں صحیح رہا ہو۔ 1948-1950 کے زمانے میں کئی شعرا اپنی آواز ڈھونڈ نے کے لیے میر کی طرف جارہے تھے۔ مثلاً ناصر کاظمی سب سے پہلے، پھر خلیل الرحمن اعظمی، ابن انشا، ایسے بہت سے اچھے شاعر تھے جو اپنی آواز ڈھونڈنے کے لیے میر کی طرف دیکھتے تھے کہ شاید وہاں سے مجھے کوئی راستہ ملے۔

ترقی پسند غزل کے امکانات تو جیسے بھی تھے وہ فیض، اور مخدوم، مجروح اور جذبی کے یہاں بروے کار آچکے تھے۔ ناصر کاظمی وغیرہ کو کچھ اور مطلوب تھا۔ وہ انہوں نے اپنے خیال میں میر کے یہاں پایا۔ پھر بعد میں ایسا نہیں رہا۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ جن شاعروں کا اوپر ذکر آیا، وہ غالب کی طرح کے تعقلاتی، خیال بند شاعر نہ تھے۔ ان کو تو میر کی طرف جانا ہی تھا۔

گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی میں ایک زبردست سیلاب غالب پرستی کا آیا۔ ایساکبھی نہیں تھا کہ غالب پرستی میں کبھی کمی آئی ہو۔ لیکن ان کی مقبولیت اب ادھر کچھ زیادہ بڑھ گئی۔ 1960 کے آس پاس ہم لوگوں نے ادب میں قدم رکھا تو فوری طور پر ہم لوگوں کے لیے جو جواز غالب کے ہاں تھا وہ میر کے یہاں نہیں نظر آرہا تھا۔ غالب کی مشکل پسندی، غالب کے رویے، یہ چیزیں ہم لوگوں کے لیے زیادہ قابل قبول تھیں۔ تو میر کے مقابلے میں ہم لوگوں نے غالب پر زیادہ زور دیا۔

لیکن دوسری بات، جو بنیادی بات تھی، بے شک یہی ہے کہ عسکری صاحب غالب پر میر کو فوقیت دیتے تھے۔ میں نے بھی کئی برس زندگی کے گزارے ہیں، میر کو پڑھنے میں، غالب کو پڑھنے میں۔ ایک زمانے میں غالب کا پرستار میں بھی تھا، تقریباً اتنا ہی جتنے حالی اور بجنوری رہے ہوں گے۔ اس کے باوجود میں آہستہ آہستہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ میں میر کو غالب پر فوقیت دیتا ہوں۔ لیکن فرق یہ ہے کہ میرے جو اسباب ہیں وہ ادبی اسباب ہیں۔ شاعر کی حیثیت سے، زبان کو استعمال کرنے والے کی حیثیت سے، انسان اور کائنات پر تفکر کرنے والے کی حیثیت سے، تجربے اور مشاہدے کو شعر کی زبان میں بیان کرنے والے کی حیثیت سے، ان تمام پہلوؤں سے میر کو غالب پر فوقیت حاصل ہے۔ ادب تک معاملہ رکھیے تو سامنے کی بات ہے کہ غالب معنی آفرینی کے بہت بڑے شاعر ہیں۔ لیکن غالب کے یہاں کیفیت کم ہے۔ یعنی ان کا شعر جذبات کو متحرک کم کرتا ہے۔ وہ متحرک کرتا ہے پہلے آپ کے ذہن کو، آپ کے تعقل کو۔ اور جب آپ گزر لیتے ہیں اس ذہنی اور تعقلی پورے مناظرے سے، تو ممکن ہے وہ آپ کے جذبات کو بھی متحرک کرے۔ ورنہ بنیادی طور پر غالب آپ کی عقل کو متحرک کرتے ہیں۔

میر کا معاملہ یہ ہے کہ وہ معنی آفریں بھی ہیں اور کیفیت بھی رکھتے ہیں۔ یعنی وہ اکثر آپ کے جذبات کو متحرک کریں گے۔ لیکن آپ جب غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اس شعر میں، جو بظاہر محض جذبات کو متحرک کرنے والا تھا، اس میں معنی کی کئی تہیں پوشیدہ ہیں۔ تو اس ایک خاص بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ میر کو غالب پر فوقیت حاصل ہے کہ میر کے یہاں دونوں چیزیں ہیں۔ یہاں عقل بھی ہے اور جذبہ بھی ہے۔ اور غالب کے یہاں عقل زیادہ ہے، جذبہ کم ہے۔

لیکن عسکری صاحب نے جس بناپر میر کو برتر ٹھہرایا اور غالب کو کم تر ٹھہرایا، وہ وجہ غیرادبی وجہ تھی۔ یعنی انہوں نے کہا کہ میر تو اپنی شخصیت کو بالکل تج دیتے ہیں۔ وہ معشوق کی شخصیت میں خود کو ضم کردیتے ہیں، اپنی انا کو بھول جاتے ہیں اور ایک ایسے انسان کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں جن کا اپنا کوئی وجود کچھ نہیں ہے۔ وہ دوسروں کے وجود کو منعکس کرتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے Keats کی جو مشہور بات تھی کہ اس کا کہنا تھاکہ،

A poet is the most unpoetic being in the world.
اس سے ملتی جلتی بات ہے۔ کیٹس کا مطلب یہ تھا کہ شاعر کی شخصیت Negative ہوتی ہے۔ اس کی صلاحیت یہ ہے کہ وہ خود کچھ نہیں ہوتا، لیکن دوسروں کے جذبات اور کیفیات کو منعکس کرلیتا ہے۔ تو اسی کو ذرا باریک کرکے، اور ہم لوگوں کی ماورائی فکر کے تناظر میں عسکری صاحب نے کہا کہ میر اپنی شخصیت کو تج دیتے ہیں اور اپنی شخصیت کو ضم کردیتے ہیں معشوق میں، اپنی انا کو مار دیتے ہیں۔ عسکری صاحب کا کہنا تھا کہ غالب اپنی انا کو مارتے نہیں ہیں، بلکہ غالب خود اپنی انا کے شکار ہیں۔ لہٰذا غالب کا رتبہ میر سے کم تر ہے۔

تو سوال یہ ہے کہ یہ کہنا، کہ اپنی شخصیت کو تج دینا، کسی اور کے سپرد کردینا، بہتر ہے اپنی شخصیت اور وجود کا احساس قائم رکھنے سے، یہ محض ایک بیان ہے، یا کوئی ادبی اصول؟ کہنے کو تو ہم بس یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ غالب کا مرتبہ میر سے برتر ہے، کم تر نہیں۔ لیکن بھائی اس میں دلیل تو ہے نہیں، محض ایک بیان ہے۔ اور رہا شخصیت کو تج د ینے کا معاملہ، تو یہ تو آپ نے اپنے طور پر ایک کلیہ قائم کرلیا کہ اپنی شخصیت کو تج دینا یا اپنی شخصیت کو یا اپنے وجود کو، اپنے معشوق کی شخصیت یا وجود میں ضم کردینا اچھا ہے، بلکہ سب سے بہتر ہے۔ یعنی انسان معشوق کے مقابلے میں اپنی انا کو ترک کردے تو سب سے بہتر ہے۔ لیکن شعر کی دنیا میں یہ محض ایک مفروضہ ہے، تصوف میں اس کی حیثیت مرکزی ہو تو ہوگی۔ شعری نظریات، یا ادبی تنقید کی دنیا میں یہ بے ثبوت بات ہے۔ اس کے پیچھے کوئی دلیل نہیں ہے۔

کوئی کہہ سکتا ہے کہ صاحب جو آدمی اپنی انا کو آگے رکھے وہ یقیناً اپنی ذات کا اظہار زیادہ بہتر طور پر کر رہا ہے، کیونکہ وہ اپنی شخصیت کو پوری طرح شاعری میں ڈال رہا ہے۔ جو شاعر شخصیت کو گم کر دیتا ہے وہ کمزور ہے، گویا وہ مات کھاگیا۔ تو یہ بھی محض ایک مفروضہ ہے جس کا کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی جس کی کوئی ادبی یا نظری اہمیت ہے۔ یوں ہی جیسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ صاحب یہ کمرہ بڑا اچھا لگ رہا ہے۔ بس ہم کہہ سکتے ہیں، ثابت نہیں کرسکتے کہ آپ کو بھی یہ کمرہ اچھا لگ رہا ہے، یا لگنا چاہیے۔ آپ اس سے انکار کرسکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ نہیں، ہمیں تو یہ کمرہ بالکل اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ نہ آپ کے پاس کوئی دلیل ہے، نہ ہمارے پاس۔

دوسری، اور شاید اہم تر بات یہ ہے کہ یہ کہاں ثابت ہوا کہ میر نے اپنی انانیت یا اپنی انا کو ترک کردیا ہے؟ عسکری صاحب کے اس بیان میں یہ دوسری بڑی کمزوری ہے۔ پہلی کمزوری تو یہ تھی کہ ان کا بیان استدلال کا محتاج ہے۔ محض ایک دعویٰ ہے، ایک بیان ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، آپ کی مرضی، لیکن دلیل کچھ بھی نہیں ہے۔ چلیے میں نے مان بھی لیا کہ انا کو ترک کردینا اچھا ہے، انا کو نہ ترک کرنے کے مقابلے میں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس کا ثبوت مل سکتا ہے کہ واقعی میر نے اپنی انا کو ترک کردیا؟ کیا واقعی میر نے اپنی شخصیت اور وجود کو پس پشت ڈال دیا؟ ظاہر ہے کہ اس مسئلے پر خود میر کا بیان اور عسکری صاحب کا بیان سب سے زیادہ معتبر ہے۔ عسکری صاحب پوچھتے ہیں کہ جرت کو میر نے یہ کیوں کہا کہ تم کو شاعری کیا آتی ہے، تم اپنا چوما چاٹا لیے رہا کرو؟

وہ سیم تن ہو ننگا تو لطف تن پہ اس کے
سوجی گئے تھے صدقے یہ جان و مال کیا ہے

سنتے ہیں آپ، یہ میر کا شعر ہے۔ تو جو آدمی یہاں تک کہہ سکتا ہے اس کے بارے میں تویہ نہیں کہہ سکتے کہ اسے چوما چاٹا نہیں آتا۔ تو عسکری صاحب نے اچھا سوال پوچھا کہ اگر جنسیاتی مضامین پر مبنی عشقیہ شاعری، یا جنسیاتی شاعری یا Erotic شاعری کا بہت سارا نمونہ میر کے یہاں بھی ملتا ہے تو پھر انہوں نے جرأت کو کیوں برا بھلا کہا کہ تمہارے یہاں چوما چاٹا ہے، شاعری نہیں؟

پھر عسکری صاحب خود اس کا بہت اچھا جواب دیتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میر کے یہاں عشق ایک معما ہے، ایک وجودی مسئلہ ہے۔ کہ بیک وقت وہ زحمت بھی ہے اور رحمت بھی ہے۔ وہ عاشق کو بلندیوں پر بھی پہنچاتا ہے اور اسے پستی کے گڑھے میں بھی ڈھکیل دیتا ہے۔ وہ لطف بھی ہے اور عذاب بھی ہے۔ عشق میں وجودی پیچیدگیاں ہیں کہ انسان جس کو دل سے چاہتا ہے کہ اس کے سامنے ایک نگاہ کی خاطر اپنا سر ہی کٹا د یتا ہے۔ اور کبھی وہ اسی معشوق سے لڑنے مرنے پر بھی تیار ہوجاتا ہے۔ چنانچہ میر کے یہاں لڑائی بھی خوب ہوتی ہے۔ ان کا شعر ہے،

کب وعدے کی رات وہ آئی جو آپس میں نہ لڑائی ہوئی
آخر اس اوباش نے مارا رہتی نہیں ہے آئی ہوئی
تو میر کو خوب معلوم ہے، اور عسکری صاحب کو بھی خوب معلوم ہے کہ عشقیہ شاعری بھی کئی رنگ کی ہوتی ہے۔ اور اگر میر سے منسوب وہ بیان درست ہے، تو میر کا کہنا تھا کہ جرت کے یہاں صرف ایک رنگ ہے۔ وہ بار بار یہی گا رہے ہیں کہ آجاؤ، مل جاؤ۔ اور جب تم ملتے ہو کتنا مزا آتا ہے، وغیرہ۔ اس کے برخلاف میر کے یہاں یہ بھی ہے کہ عاشق کی زندگی اور عشق کا تجربہ عذاب بھی ہے اور بہشت بھی۔ عشق میں انسان کبھی انسان اور فوق الانسان بھی ہوتا ہے تو کبھی حیوان بھی بن جاتا ہے۔ عشق میں انسان لڑتا جھگڑتا بھی ہے اور فرشہ بھی بن جاتا ہے۔

اچھا اب اگر یہ صحیح ہے کہ میر کے یاہں عشق کا تجربہ غیرمعمولی پیچیدگی کا حامل ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ یہ صحیح ہے، تو پھر یہ کہاں صحیح ہوا کہ میر نے اپنے کو تج دیا، اپنی انا، اپنے وجود سے دست بردار ہوگئے؟ اگر میر اپنی پوری شخصیت سے عشق میں الجھے ہوئے ہیں، کبھی اس میں خود کو حاوی قرار دیتے ہیں، کبھی معشوق سے لڑتے ہیں، کبھی اس کو گالی دیتے ہیں، کبھی رونے لگتے ہیں، کبھی آسمان کی بلندیاں انہیں اپنے سامنے ہیچ نظر آتی ہیں۔ اور کبھی وہ چپ ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ کہتے ہیں،

فقیرانہ آئے صدا کر چلے
کہ میاں خو ش رہو ہم دعا کرچلے
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کرچلے
اور کبھی یہ بھی کہہ دیتے ہیں،
ہم وے ہیں سن رکھو تم رہ جائیں مر کے اک جا
کیا کوچہ کوچہ پھرنا عنوان ہے ہمارا

یعنی وہ کبھی کبھی خود کو معشوق سے بڑا بھی قرار دیتے ہیں، اور کبھی اس سے بے نیاز بھی۔ اور کبھی انتہائی عملی، دنیا دار شخص کی طرح وہ کہہ دیتے ہیں،

باہم سلوک تھا تو اٹھاتے تھے نرم گرم
کاہے کو کوئی میر دبے جب بگڑگئی

تو جب عسکری صاحب کو یہ باتیں اچھی طرح معلوم ہیں تو پھر وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ میر اپنی شخصیت کو تج دیتا ہے، اپنی شخصیت کو گم کردیتا ہے، اپنی شخصیت کو گنوادیتا ہے، معشوق کے سامنے ختم کردیتا ہے؟ وہ تو خود کو ختم بھی کرتا ہے اور اپنی سی بھی کرتا ہے۔

اگر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر عسکری صاحب جو غلطی کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ میر کو ایک لیبل میں محدود کیے دیتے ہیں، جیسے جرت کو ایک لیبل میں بند کر دیا گیا اور کہاگیا کہ جرت کے یہاں چوما چاٹا ہے، عشق کی پیچیدگیاں نہیں ہیں۔ اس طرح ان کوایک لیبل میں بند کردیا گیا۔ غلط یا صحیح، اس پر بحث کا اس وقت موقع نہیں۔ میں تو صحیح نہیں جانتا، لیکن چلیے مان بھی لیتے ہیں کہ جرت میں تہ داری نہیں۔ لیکن جرت کی ضد میں ایک بہت بڑے شاعر میر کو بھی آپ ایک لیبل تلے بند کر رہے ہیں۔

آپ کہتے ہیں کہ میر کے یہاں شخصیت کا سقوط ہے، تو سچ یہ ہے کہ یہ بات بنتی نہیں۔ اور یہ بھی تو دیکھتے کہ ایسا سقوط کسی اور کے یہاں (مثلاً حافظ کے یہاں، خسرو کے یہاں) بھی تو نہیں ہے؟ اور اگر کہیں نہیں ہے تو میر نے یہ مرتبہ از خود حاصل کرلیا یا ان کا کہیں کوئی پیش رو بھی اس معاملے میں تھا؟

عسکری صاحب خود ہمیں دکھارہے ہیں کہ میر کے یہاں عشق کا تجربہ بیک وقت عذاب بھی ہے اور رحمت بھی، بیک وقت جہنم بھی ہے اور فردوس بھی۔ پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ میر نے اپنی شخصیت کو معشوق کے سامنے تج دیا، یا اس کی ہستی میں خود کو ضم کردیا؟ (جاری ہے)

حصہ