آداب میزبانی

214

مسافر، رب کا بڑا لاڈلا ہوتا ہے۔ مسافر کے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑی مراعات کا اعلان کیا ہے اور لوگوں کو بھی اُس کے اعزاز و اکرام کی خاص تلقین کی ہے۔
مسافر کو نماز قصر کی رخصت اور آسانی دی گئی ہے۔ سفر کیسا ہی آرام دہ کیوں نہ ہو، قصر نماز کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کی تلقین ہے۔ قصر حنفی مسلک میں 54 کلومیٹر کے سفر کے بعد یا 15 روز سے کم قیام پر ہے، اور اگر نیت اور پروگرام بدلتا رہے تو دن کیا مہینوں بھی قصر کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
بسا اوقات محسوس ہوتا ہے شاید آج کے جدید ہوائی سفر کی سہولتوں میں قصر کی سہولت نہ بھی ہو تو زیادہ فرق نہ پڑے۔ مگر آپ پر بیتی ہو تو آپ مسافر کی اس ذہنی پریشانی کا ادراک کرسکتے ہیں جس کا اظہار مسافر کی کئی حرکات و سکنات سے ہوتا ہے۔ مسافر کے لیے اس کیفیت میں بھی قصر ایک سکون اور خوراک کا سا کام کرتی ہے، اور باقاعدگی سے نماز ادا کرنے والا فرد بھی نماز قصر کی سہولت پر طمانیت محسوس کرتا اور اس کو بیان کرتا ہے۔
مسافر کی میزبانی اور اس پر خرچ کرنے کی مثال ہمیں قرآن پاک میں حضرت ابراہیمؑ کے اسوے میں بھی ملتی ہے، جب فرشتے ان کے ہاں انسانی شکل میں پہنچے تو انہوں نے اُن کے اعزاز میں بچھڑا ذبح کیا اور مہمان نوازی کے طور پر پیش کیا۔ غالباً یہ اپنی حیثیت کے مطابق یا اس سے بڑھ کر ہی ہوگا۔
احادیث میں بھی مہمان کی خدمت، اکرام اور خاطر مدارات کی تفصیل ملتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بھی اس کی مثال ہے۔ امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ رب کی رضا کے لیے مہمان پر جو مال خرچ کیا جاتا ہے وہ صدقہ و خیرات کے طور پر لکھا جاتا ہے۔
مسافر کی مالی ضروریات پوری کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ مسافر اپنے مقام پر صاحبِ نصاب بھی ہو یعنی زکوٰۃ ادا کرتا ہو، پھر بھی اگر دورانِ سفر اُس کی مالی حالت ایسی مخدوش ہوجائے تو اس کو زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے۔
مہمان کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا بھی مہمان نوازی میں داخل ہے۔ مہمانوں کو وقت دینا بھی اس کی ایک جہت ہے۔
یہ سب مسافروں کے لیے ہے۔ اس کی بنا پر اسلام کے دورِ شوکت و حکمرانی میں مسافروں کے قیام و طعام کا خاص انتظام کیا جاتا، سرائے یا ہوٹل قائم کیے جاتے جہاں کے تمام اخراجات حکومت کے ذمے ہوتے۔
مسافر کو بھی تلقین کی کہ میزبان کے ہاں بغیر ضرورت قیام سے بچے۔ تین دن کی خاطر مدارات کے بعد گھر والوں کے معمولات و معیارات پر مطمئن رہے۔ ان کے لیے کسی طور بھی بوجھ اور وجۂ زحمت نہ بنے۔
وہ مسافر جو رب کی رضا کے لیے نکلتے ہیں، اس کے دین کی سربلندی کے لیے، علم حاصل کرنے یا رب کے خاطر ملاقات کرنے کے لیے نکلتے ہیں وہ تو پھر ضیوف الرحمن بھی ہیں… اللہ کے مہمان! جو بڑے ہی محترم ٹھیرتے ہیں اور بہت ہی محبوب ہونے چاہئیں۔ اپنے قریبی رشتے داروں سے بڑھ کر محبت و اعزاز کے مستحق ہیں۔ وہ جن کے لیے فرشتے پَر بچھا دیتے ہیں، جن کا ذکر اللہ اپنی محفل میں کرتا ہے، جن کو روزِ قیامت اپنے سائے میںجگہ دے گا، ان کا استحقاق بدرجہ اولیٰ ضروری ہے۔ مسافر کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دینے کا اصول بھی قرآن پاک میں اس صحابی کی تعریف سے ملتا ہے جنہوں نے چراغ بجھا کر اپنے مہمان کو کھلایا۔
گھروں میں انفرادی مہمان کے لیے غالباً اہتمام ہوتا ہے۔ تاہم اپنے بچوں کو بھی یہ قدریں اور یہ اہمیت بتانے کی ضرورت ہے اور نیت خالص رکھنے کی طرف توجہ دلائی جاتی رہنی چاہیے۔

حصہ