سوشل میڈیا موسیقی کے کندھو پر

305

’’اسپاٹی فائی ‘‘کے نام سے موبائل ایپلی کیشن لانچ کی اشتہاری دھوم آپ کی نظرسے ضرور گزری ہوگی۔ ملک بھر میں جاری اسپاٹی فائی کی اشتہاری مہم اسکرینوں سے لے کر اوور ہیڈ برج اور طویل قامت بلڈنگز کی مختص کردہ اشتہاری دیواروں پر نمایاں ہے۔ یہ ہر قسم کے گانے سننے اور اس کے بعد خوب ناچنے کی ترغیب پر مبنی اشتہارات ہیں۔’جیسا موڈ ویسی دھن‘ کے عنوان سے ملک گیر مارکیٹنگ مہم شروع کی ہے۔ 82 ملین سے زیادہ گانوں اور 4 بلین پلے لسٹ مفت دستیاب ہونے کے ساتھ، Spotify کی مہم اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ موسیقی کسی بھی لمحے کیسے بدل سکتی ہے۔ اس ایپلی کیشن پر روزانہ کوئی 60ہزار گانے اپ لوڈ ہوتے ہیں۔ 23 اپریل 2006 کو سوئیڈن میں اس کے 2 مالکان نے یہ ایپلی کیشن لانچ کی۔ کوئی نیا آئیڈیا نہیں تھا۔ انٹرنیٹ کی آمد کے ساتھ ہی گانوں کی ترویج و اسٹریمنگ پر ہر جگہ بھرپور کام ہو رہا تھا۔جیسے یو ٹیوب طرز کی کئی ساری وڈیوز دیکھنے کی ویب سائٹس ہوتی تھیں، مگر یو ٹیوب اوپر نکل گئی، اسی طرح یہ اس وقت آڈیو میں دوڑ لگا گئی۔اِس وقت اسپاٹی فائی کے 45 کروڑ کے قریب باقاعدہ والے استعمال کنندگان ہیں۔ارے ہاں، یہ تو بتایا ہی نہیں کہ اسپاٹیفائی کی وجہ شہرت گانے ہیں مگر اب ہر قسم کی آڈیو اس پرڈالی جا سکتی ہے۔ یہاں اب نعتیں، قوالی و لیکچرز (دینی و لادینی) سب ڈالے جا رہے ہیں، مگر اشتہاری مہم میں صرف گانے و ناچنے کی ترغیب شامل ہے۔اشتہار میں موجود کرداروں میاں بیوی، باپ بیٹی و دیگر کو ناچنے کی جانب خوبصورتی سے اُبھاراگیا ہے۔یہ اشتہارات یو ٹیوب سے لیکر قومی نجی چینلز میں تواتر سے نشر ہو کر مستقل اپنا رنگ جما رہے ہیں، یقین نہ آئے تو بڑے شادی ہال ، بڑے کیٹرنگ والے ،کسی وڈیو میکر سے تصدیق کرلیں کہ وہ سب ایسی تقریبات میں ہونے والے تمام ’’ناچوں‘‘ کے ایک طرح سے مفت کے تماش بین شمار ہوتے ہیں۔ ان گانوں اور ناچ سے اجتماعی طور پر حیا کی موت اور شہوت کا غلبہ ہی بڑھتا ہے۔مزید تحقیق کرنی ہو تو سوشل میڈیا بھرا ہوا ہے ، شادیوں، مہندیوں میں ڈانس کی چشم کشا وڈیوز سے ۔اس لیے یہ اشتہاری مہمات ، یہ ناچ گاتی تہذیب کی برسات ،یہ سب ایویںنہیں ہے۔کراچی میں اس ہفتے کورنگی کے علاقے سے دو لڑکیوں کے گھر سے فرار کی دل دہلا دینے والی خبر کو شاید ہم نے نظر انداز کر دیا مگر یہ بھی الارم تھا۔ کورین موسیقی اور ڈراموں کو تیزی سے پاکستانی میڈیا کے ذریعہ رستہ ملا ہے۔2010 میں بننے والا جنوبی کوریا کے نوجوان موسیقاروں گروہ ’بی ٹی ایس‘ دنیا بھر میں انٹرنیٹ پر مقبول بینڈ ہے۔اس گروہ سے ملنے کے لیے کراچی کی یہ نوجوان لڑکیاں گھر چھوڑ کر نکل گئیں۔پولیس کے مطابق دونوں13-14 سالہ دوست سرکاری اسکول کی طالبہ ہیں۔میں اس شرمناک واقعہ کی زیادہ تفصیل میں نہیںجانا چاہوں گا،مگر زہر تو گھل ہی رہا ہے ناں۔

موسیقی کے بارے میں مسلم معاشرت میں استعماری دور کے بعد سے مستقل جائز ، ناجائز کے مباحث ایک کشمکش کی صورت جاری ہیں۔استعماری فکر کے حامل چند ہی اسکالرز نے اجماع امت سے اختلاف کرتے ہوئے اس کے لے راہیں کھولیں(گوکہ موجودہ موسیقی اگر اُن کو دکھائی جائے ، سنائی جائے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی رائے سے فوری رجوع کر لیںگے )،مگر ہوا یہ کہ بدترین فتنوں کے عروج اور نزول کے دور میں موسیقی کو اس وجہ سے رستہ مل گیا۔دوسری جانب امام سید ابولا علیٰ مودودی ؒ جیسا عظیم مدبر اورمفکر اسلام بھی ایک سوال کے جواب میں یہی لکھتا ہے کہ ’’شادی بیاہ اور عید کے موقع پر نبی کریمﷺ نے جس کی اجازت دی ہےوہ زیادہ سے زیادہ حد ہے جہاں تک، آدمی جاسکتا ہے۔ اِس آخری حد کو جو شخص نقطہ آغاز بنانا چاہتا ہو ، اُس کو آخر کس نے مجبور کیا ہے کہ خواہ مخواہ اُس نبیﷺ کے پیروؤں میں اپنا نام لکھوائے جو آلات موسیقی توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہے؟( رسائل و مسائل ۔ ترجمان القرآن۔ محرم، صفر63ھ۔ جنوری، فروری 44ء)‘‘ گویا،آپ اندازہ کریں کہ یہ رائے 1944 کی موسیقی اور اُس وقت کے آلات کے استعمال پر اُن کے نزدیک یہ تھی کہ ایک حد کے بعد بندہ نبی کی امت سے ہی باہر ہوجاتا ہے۔تو مجھے بتایا جائے کہ اگر آج کے آلات و جدید موسیقی کی بات کی جائے تو کیا اُن کا کیاجواب ہوگا؟اہم بات یہ ہے کہ 1979 مطلب اپنی حیات تک اُنہوںنے ریڈیو، ٹی وی ، فلم کی جدت تو دیکھی مگر قرآن و سنت پر مبنی اپنی رائے کبھی تبدیل نہیں کی، اگر یہ رائے اتنی بوسیدہ ہوتی تواُن کے فرامین آج بھی اُسی طرح سے کتابی صورت شائع اور فروخت نہ ہو رہے ہوتے ۔

ناچ گانے ،موسیقی ،شیطانی پیغامات کا کلیدی ذریعہ ہوتے ہیں، اس پر گزشتہ کئی واقعات اور ماہرین کی گفتگو کی روشنی میںمفصل بات بھی ہو چکی ہے۔ شیطان کے لیے اہم پیغامی ذریعہ ہونے کی وجہ سے ،مختلف حیلوں بہانوں سے موسیقی ناچ گانے کی ہونے والی سرایت ، مسلمانوں کے ہر طبقہ میں قبولیت کی صورت برآمد ہوئی ہے۔ اس حقیقت کوبھی ذہن میں رکھناچاہیے کہ برصغیر میں ہندو تہذیب میں جیسے موسیقی نے جگہ بنائی تھی وہ بتدریج ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے مسلم معاشرت میں بھی داخل ہوئی ہے۔

پوری دنیا میں گانوں کی پروڈکشن مستقل بڑھتی جا رہی ہے،ہر زبان، ہر کلچر میں اس لیے اس کو ٹھونسا جا رہا ہے کہ یہ سب ، اس لیے کیا جاتا ہےکہ یہ ’’بدیہی و فطری‘‘بن جائے، یہ جو ’’روح کی غذا‘‘ ٹائپ کےجملے سننے کو ملتے ہیں یہ اسی لیے انڈیلےجاتے ہیں۔ مشہور ویب سائٹ ’کورا ‘کے مطابق ،امریکہ میں ایک سال میں ایک ملین سے زائد گانے پروڈیوس ہوتے ہیں۔ ان گانوں کے بننے پر بھی ایک بڑی لاگت آتی ہے۔ اس ہفتے بھی امریکی گوکارہ ’’شکیرا‘‘عالمی سطح پر ٹاپ ٹرینڈ پر تھی ، کوئی 15 لاکھ ٹوئیٹس ہوئے تھے ۔

مائیکل جیکسن کے ایک 14 منٹ کے گانے کی عکس بندی والی پروڈکشن پر بتایا جاتا ہے کہ 1983 میں کوئی 5 لاکھ ڈالر کی لاگت آئی۔1995 میں 80 لاکھ ڈالر کا ایک اور گانا تیار ہوا جو مائیکل جیکسن اور اسکی بہن نے گایا۔اسی فہرست میں ایک برٹنی اسپیئر کا گانا work bitch، مطلب ’’کام کر کْتیا‘‘بھی ہے جو 2013 میں بنا اور اس کی لاگت کوئی 70 لاکھ ڈالر رہی۔ ان گانوں میں خصوصاً برٹنی سپیئر والے گانے کے الفاظ، تو بہت واضح ’فیمنزم‘ کے پورے شیطانی مشن کا پیغام لیے ہوئے ہیں، اس پورے گیت میں خواتین کو دنیا کی تمام تعیشات پانے کے لیے ’’کام کرنے‘‘ اور اُن کو ’’کُتیا‘‘ سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ چونکہ کُتیا کا لفظ استعمال ہوا، اس لیے مخاطبین خواتین ہی کہلائیں گی (براہ کرم گانا دیکھنے کی کوشش مت کیجیے گا‘ میں نے گانے کے بول تحریری صورت پڑھے ہیں)۔میوزک انڈسٹری نے پوری مغربی معاشرت کو تہہ وبالا کر دیا ہے ، اس کے اندر جنسی آزادی، حصول لذت کے لیے ہر حد سے گزرنے سے لے کر شیطان کی بندگی کے اعترافات تک موجود ہوتے ہیں۔اس ساری تباہی سے اْنہیں کوئی مطلب نہیں، وہ اس کا اپنے طور حل نکال کر ، برداشت کر رہے ہیں۔ وہاں اولڈ ہاؤسز، بغیرباپ کی اولادیں، خاندان کی تباہی، حرام تعلقات میں بڑھاوا ،ہم جنس پرستی ، منشیات، خودکشیاں جیسے عوامل معاشرتی تباہی کا الارم ہیں۔یہی نہیں موسیقی و گانوں کے الفاظ میںفحش الفاظ ،شیطانی کلمات ، بدکاری کی دعوت پر مبنی مکمل پیغامات ہوتے ہیں۔ 1980 کی دہائی میں، موسیقی سے متاثر کن نوجوانوں کے ساتھ چھپے ہوئے پیغامات کا اشتراک کرنے کے لیے گانوں کی جانچ پڑتال کی گئی۔یہ بات سامنے آئی کہ ’جوڈاس پریسٹ ‘جیسے بینڈ اس سلسلے میں اپنے گانوں سے خودکشی کرنے کی ترغیب دینے والے شیطانی پیغامات پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔یہی نہیں اِس کی تازہ مثال ، بھارتی فلم پٹھان کے ایک گانے پرآنے والا رد عمل تھا ، جس پر ہم پہلے بھی بات کر چکے ہیں۔ایسے میں قومی اسمبلی میں میوزک انڈسٹری کے لئے مراعات کا اعلان۔ سندھ اسمبلی میں 1500میوزک کنسٹرکٹرز کی تعیناتی کا ہدف۔مطلب سمجھ لیں کہ ہمارے حکمران چاہ کیا رہے ہیں؟ماہرین دماغ و اعصاب کے مطابق یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ موسیقی “دماغ پر قابو پانے ‘‘کا بھی کام کرتی ہے۔ اگرنشہ ،جسم اوردماغ کو ناکارہ کر تا ہے تو موسیقی روح اور عقل کو لے ڈوبتی ہے، احادیث میں جہاں شراب کی ممانعت کا ذکر آیا ہے وہاں موسیقی ، گانےبجانے ، طنبور، باجے،مغنیہ، بانسری، طبل بھی ساتھ ساتھ ذکرکیے گئے ہیں ۔عمر بن عبد العزیز ؒنے اپنے بیٹے کے استاد سے کہا تھااگر تم اس کے دل میں گانا ،بانسری کی نفرت ڈالنے میں کامیاب ہو گئے تو سمجھوں گا کہ تم نے تربیت کر دی ۔ابن قیم ؒنے کیا ہی متنبہ کر دینے دینے والی بات کہی کہ جس دل میں گانا اور موسیقی آ جائے وہاں قرآن کی محبت نہیں رہتی کہ یہ دل کو غفلت میں ڈالنے والے نفاق کا گھر کرنے والی چیزیں ہیں۔حدیث مبارکہ میں لہو الحدیث کی تشریح موسیقی اور گانے بجانے سے کی گئی ہے۔ہر اس شے کو جو انسان کے حواس چھین لے ،سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر اثر ڈالے دور رہنے کا حکم دیا ہے ۔

درج بالا باتوں کو سمجھنے کے لیے آج سوشل میڈیا سب سے بہترین مثال ہے۔اگر میں آپ کے سامنے سوشل میڈیا کی مشہور ایپلیکیشن کا نام لوں تو آپ بالکل جان جائیں گے۔ اس فہرست میں سب سے پہلے ’’ٹک ٹاک‘‘ اس کے بعد ’’اسنیک وڈیو‘‘ پھر ’’بیگو لائیو ‘‘ پھر فیس بک ریل، یوٹیوب شارٹس سب براہ راست موسیقی ، ناچ گانے سے جڑے ہوئے ہیں۔مطلب مستقل بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔

ٹوئٹر پر روزانہ عالمی سطح پر ایک نہ ایک موسیقار ، گلوکار ٹاپ ٹرینڈ لسٹ میں رہتا ہے۔اس لیے والدین کی ذمہ داری ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کو اپنے تہذیبی ومعاشرتی دائرے سے مطابقت میں رکھیں ، وگرنہ یہ گنجائشیں آنے والے وقت میں جو مسائل پیدا کریں گی ان کو حل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔اس ہفتے مقامی اخبار میں پاکستان کے معروف عالم دین مفتی منیب الرحمٰن کی جانب سے ایک سوال کے جواب میں پڑھ رہا تھا کہ ’’اگر آپ کے چینل پر چلانے جانے والی ڈاکومینٹری وڈیو میں محرمات نہ بھی ہوں تب بھی یوٹیوب کی طرف سے لگائے جانے والے اشتہار میں یہ خرابیاں پائی جاتی ہیں، چونکہ یہ ایک عالمی ادارہ ہے اور دنیا بھر میں دکھائی جانے والی نشریات میں وہاں کے ماحول کے مطابق اشتہار چلائے جاتے ہیں، اکثریتی ممالک میں حرام اور ناجائز چیزوں کی تشہیر بھی کرتے ہیں۔

پنجاب اسمبلی سےاعتماد کا ووٹ لینے تک اس ہفتہ پاکستان کے سوشل میڈیا پر پنجاب کی سیاست ہی چھائی رہی۔ن لیگ کو شکست ہوئی، تحریک انصاف کی کامیابی کا جشن چلتا رہا۔ ان سب میں بدترین مہنگائی اور مافیاز کی جانب سے آٹے کی قیمت کے ساتھ بدترین عمل ،عوام کو پیس چکا تھا۔اندرون سندھ سستے آٹے کے لیے لائن میں کھڑے غریب پاکستانی کی موت پر نوحہ ہوا مگر دبا دیا گیا۔عمران حکومت نے جو مہنگائی تھی تو پرویز مشرف و نواز شریف قیمتوں کے معاملے میں اچھے لگنے لگے تھے، اسی طرح اب پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت نے مہنگائی اس حد تک کر دی ہے کہ عمران خان اچھا لگنے لگا ہے کہ اُس نے پیٹرول 150پر روک دیا تھا، اب 215 پر روکا ہوا ہے۔ اُس کے دور میں آٹا 80 پرتھا ، اب 150 ہو چکا ہے۔یہی حال باقی چیزوں کا بھی ہے۔ مہنگائی کا عالمی طور پر بڑھنا انتہائی فضول اور لغو پروپیگنڈہ ہے کیونکہ گندم تو پاکستان ہی میں پیدا ہوتی ہے، دودھ اور جانور کا چارہ بھی پاکستان کا ہی ہے، یہی نہیں اور بے شمار اشیاایسی ہیں جن کی قیمت پر حسن انتظام سے قابو پایا جا سکتا ہے ۔

حصہ