’’عقیدت کے پھول‘‘

210

حمدِ باری تعالی ٰ اور مدحتِ رسول کے دبستان میں جناب شکیل فاروقی صاحب کا حمدیہ و نعتیہ کلام “عقیدت کے پھول”ایک گراں قدر اضافہ ہے۔جناب شکیل فاروقی نے اپنے کلام میں جس وفورِ شوق کا جابجا اظہار کیا ہے وہ ان کی سلاستِ بیانی اور وجدانی کیفیت کا آئینہ دار ہے، ان کے کلام میں خیال کی ندرت کے ساتھ ساتھ حمد باری کی ضمن میں احساسِ سِپاس گزاری اور نعت رسول کے باب میں رسول خداصلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ بابرکت سے والہانہ عشق و محبت نمایاں نظر آتا ہے،ہو سکتا ہے کہ ان کے پیش نظر حمدیہ و نعتیہ شاعری کا مقصد حصول برکت و سعادت ہو مگر ان کے کلام کو پڑھنے والا اللہ اور اس کے رسول سے ان کے جیتے جاگتے قلبی تعلق کو صاف محسوس کرسکتا ہے ،تبصرے کے یہ چند سطور محض برائے بیت نہیں ذیل کے چند اشعار خود اس حقیقت پر دال ہیں،جس کی قاری خود گواہی دیں گے۔ملاحظہ کیجیے:

نہ پچھتاوا ہے کوئی اور نہ غم ہے
خدائے پاک بس تیرا کرم ہے
سزا دے یا جزا دے تیری مرضی
مرے مالک سرِ تسلیم خم ہے

٭

کس کی تخلیق ہیں یہ ارض و سماء
کون، کون و مکاں بناتا ہے

٭

بس التجا یہی ہے،اپنی دعا یہی ہے
اے کاش بیٹھ جائے ہر دل میں ڈر خدا کا

نعتیہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

ان کے در کا فقیر ہو جاؤں
کاش میں بھی امیر ہو جاؤں

٭

موت تک سنتِ نبی پہ چلوں
رشکِ منکر نکیر ہو جاؤں

٭

شاعری جو اس سے پہلے تھی وہ بس پھیکی سی تھی
مدحت ِ آقا کے صدقے خوش کلامی مل گئی

٭

ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لیے ہم
گر جان بھی دے دیں تو یہ نذرانہ بھی کم ہے

٭

دل میں جو موجزن ہیں وہ جذبات لکھ سکوں
کوئی نہ لکھ سکے جو ،میں وہ نعت لکھ سکوں

یہ محض چند اشعار نہیں بلکہ خالقِ کائنات اور وجہ تخلیقِ کائنات کی محبت سے لبریز دل سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں جو دل سے نکل کر قاری کی فکر و نظر کو متاثر کرتے ہوئے اس کی دل کی راہ لیتے ہیں اور پڑھنے والا خودبھی عالمِ جذب و شوق میں ان کے اشعار گنگنانے لگتا ہے۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ جناب شکیل فاروقی صاحب کی مدح سرائی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اوران کا نعتیہ کلام شفاعتِ رسول کا باعث بنے۔

حصہ