سید ابواعلیٰ مودوی ؒ اور سلطنت عثمانیہ

590

بیسو یں صدی کے متعد دمسلما ن دانش ور یو رپی جا ر حیت کے خلا ف زندگی کے ہر دائر ہ کا رمیں نبرد آزما رہے ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی (1903ء 1979ء) کا شما ر بھی اُن مسلم دانش وروں میں ہوتا ہے جنھو ں نے یو رپ کی جارحیت کے خلا ف ایک سیاسی، تہذیبی اور فکر ی حکمت عملی تشکیل دینے کے لیے مسلما نو ں کو یکجا ہو نے کی دعوت دی اور کہا کہ مسلما ن اس صدی میں جس تباہی سے دوچا ر رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اتحاد کی قوت کو پارہ پارہ کر چکے ہیں۔ فکرِ مودودی کی اس جہت کو ان کی برپا کی جا نے والی تحریک جماعت اسلامی میں دیکھا جاسکتا ہے۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی اتحاد اسلام کے داعی ابتدا ہی سے تھے۔ انھوں نے نوجوانی میں سلطنت عثمانیہ کی قوت کو ختم ہوتے دیکھا تھا‘ اس لیے ان کی یہ کوشش رہی کہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو ملت کے تصور سے روشناس کرایا جائے اور انھیں یہ بتایا جائے کہ ان کی اس عظیم الشان اسلامی قوت کا حشر کس سیاسی گٹھ جوڑ کی بنا پر ہوا۔ انھوں نے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کامیاب کوشش کی کہ اپنی تباہی پر نالاں ہونے کے بجائے ان کے محرکات و عوامل کو سمجھاجائے۔ سید مودودی کی ابتدائی سیاسی زندگی کی تشکیل میں تحریکِ خلافت کے اثرات نما یا ں تھے۔ اس تحریک کے ابتدائی زمانے میں وہ اخبار ’’تاج‘‘ کے مدیر تھے جو جبل پور سے نکلتا تھا۔ اس دوران مولانا نے جبل پورمیں تحریک خلافت کو فعال کیا اور اس کے جلسو ں میں تقریریں کیں۔

سلطنت عثمانیہ کو پارہ پارہ کرنے کے لیے یورپی قوتوں نے پہلا الزام یہ لگایا کہ عثمانوی عمل داری میں موجود اقلیتیںغیر محفوظ تھیں۔ خصوصاً شورش آرمینیا کا الزام لگا کر یورپ میں قصے اور افسانے گھڑے گئے اور ترکوں کے خلاف یورپی قوتوں کو صف آرا ہونے کی تلقین کی گئی۔ یورپی قوتوں نے حقائق کی چھان پھٹک کے بجائے ان غلط بیانیوں پر ایمان رکھتے ہوئے کہا کہ ترکی میں عیسائی انسانی حقوق سے محروم ہیں اور عہد رومی کی طر ح غلامی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ان الزاما ت کو پروان چڑھا نے کا مقصد یہ تھا کہ یورپی قوتوں کو ترکی میں مداخلت کر نے کا جواز فراہم کیا جا ئے۔ مگر جب اہل یورپ کو مقدونیہ اور کریٹ (اقریطش) میں ترکو ں کی حالت زار کی جانب توجہ دلائی جاتی تھی تو وہ ان حقائق سے منہ موڑ لیتے تھے۔ موجودہ صدی میں یورپ اور امریکا نے عراق میں جس اندازسے جھو ٹے الزام لگا کر پورے مشر ق وسطیٰ کو آگ میں جھونک دیا ہے یہ اسی جھوٹ کے تسلسل کا ایک حصہ ہے جسے یو رپ کے کار پردازان سیاست دور استعمارسے آزما رہے ہیں۔

خلافت عثمانیہ پر لگائے گئے ان الزامات کا جواب ہندوستانی مسلم دانش وروں نے بھرپور انداز میں دیا تھا۔ سید مودودی نے بھی اس حوالے سے دو اہم کتابوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ ان میں پہلی کتاب سمرنا میں یونانی مظالم ہے‘ جب کہ دوسری ترکی میں عیسائیو ں کی حالت ہے۔ تذکرہ سید مودودی میں رفیع الدین ہاشمی صاحب نے لکھا ہے کہ انھوں نے ترکی میں عیسائیو ں کی حالت کے بارے میں سید مودودی سے استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ کتاب کسی ایک کتاب یا رسالے کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ مختلف کتابوں، رسائل اور اخبارات سے متفر ق تحریریں لے کر ان کا ترجمہ اس رسالے میں جمع کر دیا گیا تھا۔

یہ دونوں کتابیں دارالاشاعت سیاسیات مشرقیہ دہلی سے شائع ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر سید عبدالباری نے لکھا ہے کہ مولانا نے اپنی تصنیفی زند گی کا آغاز جن کتابوں کے تراجم سے کیا ان میں پہلی کتاب ’’سمرنا میں یو نا نی مظا لم‘‘ تھی۔

تحریک خلا فت اور مولانا محمد علی جوہر(1878ء ۔ 1931ء) سے سید مودودی کو یک گو نہ لگائو تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سید محمد جعفری صاحب نے تحریکِ خلافت کے حوالے سے شوکت علی اور محمدعلی کے نام سے مجموعہ ’’علی برادران‘‘ مرتب کیا تو اس کے لیے جن حضرات سے مقالات لکھوائے ان میں سید مودودی بھی شامل تھے۔

سید محمد جعفری کی مر تبہ ’’علی برادران‘‘ سے قطع نظر سید مودودی نے محمد سرور کی کتاب ’’مضامین محمد علی‘‘ (حصہ اوّل ) پر ان کی شخصیت پر جو تبصرہ کیا تھا اُس سے ان کی عقیدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس مختصر سی تحریر میں انھوں نے محمد علی جوہر کی فکر ی بصیرت کو نمایاں کر نے کی کو شش کی تھی اور کہا کہ جوہر کی شخصیت سے اسلام اپنی اصل صورت میں نظر آنے لگا تھا۔ مگر ہندوستان میں انھوں نے جس مسلم قومیت کو پیدا کرنے کی کوشش کی وہ ترقی کر کے مسلم قوم پر ستی میں تبدیل ہوگئی۔

محمد علی جوہر کی خود نوشت سوانح عمری My Life A Fargmentکے با رے میں سید مو دودی نے لکھا کہ ’’جوہر اُن غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا چاہتے تھے جو اسلام اور مغرب کے درمیان پیدا ہو گئی تھیں کیوں کہ کتاب کے اکثر مقامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جوہر اسلام کے ہمہ گیر نظریہ حکومت کو پیش کرنا چاہتے ہیں اور وہ انسان کو اللہ کے نا ئب کی حیثیت سے دیکھتے تھے۔‘‘

عثمانوی خلافت کے زوال کو سید مودودی نے عالم گیر اسلامی مرکز کے خا تمے کی حیثیت سے دیکھا تھا اور وہ اس نقصا ن کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔ محمد مرزا دہلوی کی کتاب ’’اتاترک‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ترکی زبان کی تبدیلی اور فکری منہاج کے تبدیل ہو نے پر انھوں نے گہرے تاسف کا اظہار کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ:

’’کاش اتاترک نے قرآن اور سیرتِ محمدیؐ کا مطالعہ کیا ہوتا اور ترکی قوم پرستی کے بجا ئے اسلامی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر جدید ترکی کی تعمیر کی ہوتی۔ اس کو اگر معلوم ہوتا کہ ایک محدود قومیت کی طاقت اور عالم گیر تبلیغی مسلک کی طاقت میں کتنا تفاوت ہوتا ہے تو وہ اپنی قوم کو پولینڈ، ہالینڈ اور بیلجیمء کی سی پوزیشن میں چھوڑ کر نہ جاتا۔ بلکہ روسی اشتراکیت سے بیس گنا زیادہ زبردست طاقت کے ساتھ چھوڑتا۔‘‘

سید مودودی نے ’’سمرنا میں یونانی مظالم‘‘ میں یونانی فوج نے جو ہولناک مظالم کیے تھے ان کے معتبر ترین ذرائع سے حاصل کیے ہوئے مفصل حالات کا ترجمہ کیا تھا۔ یہ کتاب چالیس رپورٹوں اور مراسلات کے ترجموں پر مبنی ہے جنھیں اتحادی افسروں، یورپین باشند وں، ترکی افسروں اور خود سمرنا کے مظلوم مسلمانوں نے دولتِ عثمانیہ کی وزارت داخلہ اور یورپین اخبارات کو بھیجے تھے۔

یہ دونوں کتابیں اب ماضی کا حصہ ہو چکی ہیں مگر ان کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ بدستور قا ئم ہے۔ جنگِ سمرنا اور ترکی پر حوادث کے اثرات سے مسلمانان ہند کی تاریخ اور تہذیب اس طرح پیوست ہے کہ اس سے آج بھی ہمارے تخیل اور ہماری تاریخ کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اسلام پسند طبقہ سلطنتِ عثمانیہ کی محبت میں گرفتار ہے تو جدید خیالات رکھنے والے جدید ترکی کو اپنا مثالیہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔

عثمانیو ں اور یونانیوں نے سمرنا کے حوالے سے دو جنگیں لڑ ی ہیں۔ ان کی آخر ی لڑا ئی1917ء میں ہوئی جس میں ترکی کامیاب ہوا مگر یونانیوں نے سمرنا میں جس طرح مظالم ڈھائے اس نے ترکو ں کے جذبۂ حریت کو کئی گنا توانا کر دیا تھا۔ ترک خود بھی جفاکش اور جنگ جو رہے ہیں‘ اُن کی اسی ہمت نے انھیں یورپی قوتوں کے لیے ایک مشکل ہدف ثابت کیا۔

سمرنا میں یونانی مظالم کے تعلق سے مولانا مودودی نے ان رپورٹوں کے ترجمو ں کے علاوہ اس میں ایک نہایت عمدہ مقدمہ بھی لکھا تھا جس سے اس شہر کی تا ریخی اور تہذیبی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے۔ اس مقدمے میں ترکو ں سے مولانا مودودی کی گہر ی محبت بھی عیاں ہے۔ ترکی میں عیسائیوں کی حالت میں دیباچے میں لکھتے ہیں کہ:

’’یہ رسالہ دراصل یورپ کے لیے لکھا گیا تھا۔ یورپ کہ لوگوں کو ارمنوں، یونانیو ں اور خود یورپ کی سیاست نے جھوٹے قصوں، ناولوں، رسالوں، اخباروں، تقریروں اور دوسرے تبلیغی ذرائع سے ترکو ں کے خلاف ابھار کر جس قدر انھیں نقصان پہنچائے ہیں ان کی تلافی کے اور طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کو حقیقت سے آگاہ کر دیا جائے اور وثائق و حقائق ان کے سامنے رکھ کر ان کو بتایا جا ئے کہ ترکی محکو م اقوام کے معاملے میںخود یورپ سے بدرجہا روادار، منصف اور کر یم ہے۔‘‘

سید ابوالاعلی مودودی نے اس کتاب کا ترجمہ کرنا اس لیے بھی ضروری سمجھا کہ خود ہندوستان میں انگر یزی خواں طبقے نے مسلمانوں میں ترکی کے حوالے سے جھوٹی خبریں اور افواہیں پھیلانا شرو ع کر دی تھیں۔ وہ ترکو ں کو ظا لم، متعصب اور سخت گیر مشہور کر تے تھے خا ص کر سلطان عبدالحمید دوم (1842 ء ۔ 1918ء) کے حوالے سے بے بنیا د الزامات کو فروغ دیا گیا۔ ان الزامات کو نادان اور کمزور ذہن رکھنے والے سچ بھی مان لیتے تھے۔

مولانا مودودی نے ترکی میں عیسائیو ں کی حالت بیان کر نا اس لیے بھی ضروری خیال کیا کہ ہندوستانی عرصہ دراز سے صوبائی خود مختاری طلب کر رہے تھے جب کہ دنیا کی سب سے زیادہ مہذب کہلانے والی برطانوی حکومت اسے دینے سے مسلسل انکار کر رہی تھی۔ حالاں کہ ترکو ں نے صدیو ں سے ہر غیر مسلم قوم کو مکمل خود مختاری دے رکھی تھی۔ وہ اس کتاب میں یہ بتانے کے بھی خواہاں ہیں کہ ترکوں نے وہاں کے عیسائیوں کو جس طرح مذہبی آزادی فراہم کی تھی‘ وہ ہندوستانی مسلمانوں کوبرطانوی سا مراج دینے کے لیے آمادہ نہیں تھا جب کہ ترکو ں نے اپنی عمل داری میں پا نچ صدیوں سے یہ حقوق اقلیتوں کو دیے ہوئے تھے۔

ترکی میں عیسائیو ں کی حالت کے دو ابواب ہیں جس کے ذیل میں چند عنوانات کے ذریعے مصنف نے بیسویں صدی میں ترکوں کے یہاں اقلیتوںکی انسانی و قانونی مراعا ت کی وضاحت کر دی ہے جس میں مذہبی، دستوری، ملکی و قانونی اور سیاسی حقوق شامل ہیں۔ اس کتاب کی تمہید میں مترجم نے ترکی میں عیسائیو ں کی حالت پر اپنی رائے کا اظہار ان الفا ظ میں کیا ہے:

’’ترکی میں عیسائی باشندے اس قدر خوش حال اور قانون کی رُو سے اس قدر آزاد ہیں کہ اتنی خوش حالی اور آزادی ترکو ں کو بھی حا صل نہیں، اقلیتوں کو ترکی کی حکومت کی طرف سے اس قسم کی مراعات حاصل ہیں کہ وہ اپنے مذہبی پیشوائو ں کے ماتحت اپنا اندورونی انتظام خود کر تے ہیں۔‘‘

اس کتاب میں سلطنتِ عثمانیہ میں سیاسی و سفارتی خدمات انجام دینے والے کئی اہم لوگوں کے بیانات بھی شامل کیے گئے ہیں جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جو رعایت اور خاص حقوق عیسائی باشندوں کو سلطنت میں حاصل تھے وہ خالص مذہبی تھے اور مذہبی آزادی کی حیرت انگیز مثال پیش کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ تمام اقوام کو نہایت وسیع پیمانے پر حقوق حاصل تھے اور ایک طر ح سے انھیں اپنی اندورونی و عائلی زندگی میں ایسی خود مختاری حاصل تھی جو کسی دوسری سلطنت نے اپنی رعایا کو عطا نہیں کی تھی۔

ترکی میں عیسائیو ں کی حالت میں مصنف نے یورپی قوتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ بیسویں صدی میں حق اور انصاف کو ہر جذبہ پر غالب رہنا چاہیے مگر یورپی اقوام مذہبی تعصب کی بنیاد پر غیر اقوام پر جھوٹے الزامات لگا تی ہیں اور ترکوں پر لگایا جانے والا یہ الزام کہ وہ اپنے ملک میں اقلیتوں کا تحفظ نہیں کرتے‘ بالکل بے جا ہے کیوں کہ ترکو ں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ان کی عمل داری میں تعداد میںقلیل اقوام ہمیشہ خوش رہی ہیں۔ کتاب کے پہلے باب میں مصنف نے عثمانوی دستور کی مثال دیتے ہو ئے کہا کہ:

’’عثمانوی دستور کی گیارہویں دفعہ میں ہم کو یہ الفاظ نظر آتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ میں ہر مذہب و ملت کے لوگوں کو اپنے اعمال مذہبی میں کامل آزادی حاصل ہے۔ بہ شرط یہ کہ وہ امن عامہ کے خلاف نہ ہوں۔‘‘

اس کتاب میں مصنف نے سلطنت عثمانیہ کے کردار کا جا ئزہ لیتے ہو ئے دنیا کو یہ باور کر انے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ عہد میں مغربی اقوام نے جس انداز میں جدید تہذیب کے عَلم کو بلند کیا ہے‘ کیا اس کے نتا ئج دنیا پر وہی ہیں جیسے بیان کیے جاتے ہیں؟ جب کہ حقیقت اور عمل کچھ اور ہی بیان کر تے ہیں کیوں کہ خود مغربی اقوام میں مذہبی منافرت اور فرقہ واریت جس تیزی سے سرایت کر رہی ہے اس کی بنیادیں تاریخ میں اس سے زیا دہ گہری رہی ہیں۔

مصنف نے چند مثا لیں پیش کر تے ہوئے لکھا ہے کہ ایک لوتھرین کو کیتھولک ہو جانے پر جلا وطنی اور جائداد ضبط کیے جانے کی سزا سنائی گئی، یونانی قانون تبدیل ِمذہب کو روکتا ہے۔ پولینڈ میں گریک چرچ کے خلاف جو سخت احکامات جاری ہوئے وہ دنیا کے سامنے مثال ہیں۔ بیسویں صدی میں برطانیہ میں لامذہبوں کو پارلیمنٹ میں جگہ نہیں دی جاتی تھی۔

ان مثالو ں کو پیش کیے جانے کا مقصد یہی تھا کہ سلطنتِ عثمانیہ پر لگائے گئے الزامات کو رد کیا جائے کیو ں کہ عثمانوی عہد میں یونانی، ارمن، یہودی اور لاطینی ایک بڑی حکومت کے اندر اپنی اپنی جدا حکومتیں رکھتے تھے۔ ہر ایک اپنی مذہبی آزادی کے مطا بق زندگی بسر کر سکتا تھا۔ اس کتاب کے بابِ اوّل میں اس کی کئی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں کہ وہاں غیر اقوام کو کس طرح کے حقوق حاصل تھے۔ ان حقوق کے علاوہ اقلیتو ںکو اور کیا بنیادی سہولیات میسر تھیں‘ اِس کی تفصیلات اور ان کی عبادت گاہو ں کو ملنے والی مراعات کی تفصیلات بھی اس کتا ب میں مو جو دہیں۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی کی اس کتا ب میں یہ بات کہ سلطنتِ عثمانیہ میں اقلیت اس کی حدود میں ریاست کے درجے میں رہتے تھے‘ اس کا اظہار ترک محقق صادق البیراک نے ترکی زبان میںTurkia yeide Din kavgasi کے نا م سے مختصر سی کتاب میں بھی لکھی۔اس کا انگریزی میں ترجمہ پا کستانی اسکالر محمد خان کیا نی نے Religious struggle in Turkey During the transformaition from Caliphate to Secular republicکے نام سے کیا تھا جو استنبول میں شائع ہوئی۔ اس میں صادق البیراک نے لکھا ہے کہ 1839ء میں گلہین پا رک(GulhanePark) نامی اصلاحات عثمانیوں کے یہاں متعارف ہوئی۔ ان اصلاحات کے ذریعے مغربی خیالات و ثقافت کا رُخ ترک معاشرے کی جانب کر دیا گیا۔ یورپی قوتوں کا خیال تھا کہ ایسا کر نے سے خلا فت اور اتحادِ بین المسلمین کا تصور ان کے یہا ں ناپید ہو جا؎ئے گا اور Cosmopolitan Ottomanismکا زمانہ آئے گا۔ ان اصلاحات اور تصور کے ذریعے دولتِ عثما نیہ میں اقلیتو ں کو مستحکم انداز میں ابھر نے کا مو قع ملے گا۔

یو رپی قوتوں نے عثمانیوں کو اس معا ہدے کے بعد اتنا دبایا کے رشید پاشا کے دور میں مسلمانوں کی حق تلفی کر کے اقلیتوں کو خوش کرنے کے لیے زیادہ مراعات دی گئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سلطنتِ عثمانیہ کے حدود میں آباد عیسائی‘ یہودی اور دیگر اقوام ’’ریاست کے اندر ریاست‘‘ کی حیثیت اختیا ر کر گئے۔ عیسائیوں نے سفارتی ذرائع استعمال کر کے وہ مراعات حاصل کر لیں جو اُن کے اجداد تلوار کی نوک پر بھی حاصل نہ کر سکے تھے۔ سلطنتِ عثمانیہ ان حالات میں غیر معمو لی دبائو کا شکار تھی۔ معاشی اور فوجی امداد کی پیش کش کے عوض عالمی طاقتو ں نے سلطنتِ عثمانیہ میں بسنے والے عیسائیو ں اور دیگر اقلیتوں کے لیے زیا دہ سے زیادہ مراعات کو یقینی بنایا۔ کریمیا کی جنگ کے بعد 18 فروری 1856ء کو Hatt-i-Humayun نے جو فرمان جاری کیا اُس نے دولتِ عثمانیہ کے غیر مسلموں کو مسلمانوں کے برابر لا کھڑا کیا۔

سلطنتِ عثمانیہ کو اندرونی طور پر کمزور کر نے کے لیے یورپ کی عیسائی طاقتوں نے اقلیتوں کا سہارا لیا۔ املاک کو تباہ کرنے یا اس پر قبضے کی سازش بھی کی گئی اور اس میں یورپی قوتیں کافی حد تک کامیاب ہوئیں۔ ہر جنگ کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کو کچھ زمین اور اچھی خاصی دولت سے محروم ہونا پڑا‘ ترک خزانے لوٹ لیے گئے، مساجد اور مدارس کو شہید کرکرکے ان میں جوئے کے اڈے اور رقص گاہیں، شراب خانے یا اصطبل کھو ل دیے گئے۔ لاکھوں مسلمانوں کو قتل یا بے گھر کر دیا گیا اور خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کتاب کے آخر میں ترکی میں مختلف اقوام کی نسبت اعداد و شمار بھی پیش کیے ہیں جن میں یورپین ترکی، ایشیائے کوچک، ولایت سمرنا، ارمن ولایت شا مل ہیں۔ یہ اعداد و شمار مشہور فرنچ جغرافیہ دان موسیووٹا کوئنٹ نے اپنی کتاب ’’ترکی ڈی ایشیا‘‘میں پیش کی تھیں۔

سید ابوالاعلیٰ کا ترجمہ ’’سمرنا میں یونانی مظالم‘‘ جو مختلف رپورٹوں پر مبنی ہے‘ یہ رپورٹ اتحادی حکومتوں (امریکا، برطانیہ، فرا نس، اٹلی) کے مقرر کردہ کمیشن کی تحقیق پر مبنی ہے جسے لوزین کی انجمن عثمانیہ نے شائع کی تھی۔ یہ کتاب بھی اردو خواں طبقے کے لیے کئی لحاظ سے اہم ہے۔ اس میں سید مودودی نے جامع مقدمہ بھی تحریر کیا۔ یونانیوں کا دعویٰ یہ تھا کہ سمرنا میں یونانیوں کی تعداد ترکوں سے زیا دہ ہے اس لیے اس پر اہل یونان کا حق ہے۔ سید مودودی نے اس دعوے کی نفی کرتے ہو ئے سمرنا میں بسنے والی مختلف اقوام کی آبا دی کا جائزہ بھی پیش کیا تھا جس سے یونانی قوم کے دعوے کی نفی ہوتی تھی۔

شہرِ سمرنا چوں کہ ایسا سمندری راستہ تھا جسے عثمانی ترکوں سے چھین لینے کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ ساری دنیا کے دست نگر بن کر رہ جائیںاور پھر برطانوی حکومت ان سے اپنے مطالبا ت منوانے میں کامیاب ہو سکے۔ جنگِ سمرنا کے موضوع پر ہندوستانی دانش وروں کی ایک کثیر تعداد ایسی تھی جس نے برطانوی حکمت عملی کو نہایت مکروہ قرار دیا۔ ان کے مضامین اور کتابوں کے تراجم ان خیالات کی ترجمانی کرتے دکھا ئی دیتے ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کی یہ کتاب اب کم یاب ہے‘ اس کے موضوعات بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرانے ہو چکے ہیں‘ مگر اس وقت کی صورت حال اور عثمانیوں اور یونانیوں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے اس کا مطالعہ بھی اہم ہے کیوں کہ اس میں موجود تاریخی حقائق یونانی دراندازی کی وجوہات پر روشنی ڈالتے نظر آتے ہیں خا ص طور پر برطانوی کردار اس سلسلے میں کیا رہا تھا اس کو ایک جگہ بیان کرتے ہوئے مولانا نے لکھا ہے کہ:

’’انگریز اگرچہ اسلامی ممالک پر قبضہ کرنے میں بہت کم تامل کرتے ہیں۔ مگر مسلمانوں کو احمق بنانے کے لیے وہ بعض ممالک پر خود قبضہ کرنا مناسب نہیں سمجھتے اور دوسری چھوٹی چھو ٹی ریاستوں کو اکساتے ہیں، یہی حال سمرنا کا تھا۔ اگرچہ انھوں نے خود اس پر قبضہ نہیں کیا لیکن وہ یونان کے قبضے کو بھی اپنے ہی قبضے کے برابر سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی کونسل نے نہایت آزادی کے ساتھ یونان کے مقبوضہ علا قے میں ایک ارمن کا فیصلہ کر دیا۔‘‘

وہ تما م رپورٹیں جو اس کتاب میں درج کی گئی ہیں مختلف ذرائع سے حاصل کی گئی تھیں۔ جن سے سمرنا پر یونانی قبضے کے بعد کی صورت حال سامنے آجا تی ہے۔ سمرنا کی تاریخ پر جتنی کتا بیں لکھی جائیں ان میں اس کتاب کو ضرور حوالے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایسی رپورٹیں بھی شامل ہیںجو مختلف سیاسی، سما جی اور صحا فتی خدمات انجا م دینے والو ں نے دیکھی تھیں جیسے کپتان ڈکسن جانسن سمرنا سے 21 مئی 1919ء کو خط میں لکھتا ہے کہ جب ترک افواج بیرکوں میں واپس چلی گئیں تو یونانی انھیں بیرکوں سے واپس نکال لائے اور ہر اُس شخص کو قتل کر دیا جس نے زیٹو دینی زیلوس کا نعرہ نہیں لگایا۔ ڈکسن جانسن نے اور بھی دو خطوط سمرنا کے حوالے سے لکھے تھے، وہ ان واقعات کا عینی شاہد تھا کیوں کہ سمرنا کے یونانی قبضے کے دوسرے دن وہ وہاں پہنچا تھا۔ اس نے یہ خطوط لندن میںموجود دفاع اسلام کے نام پر بھیجا تھا۔‘‘

مودودی صاحب نے عثمانی ترکوں کے کردار پر اپنی کتاب ’’تنقیحات‘‘ میں خالدہ ادیب خانم کے خطبات کے مجموعے ’’ترکی میں مشرق و مغرب کی کشمکش‘‘ کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ترکی کی نئی نسل جس نے خلافت کے ادارے کا خاتمہ کر دیا اب وہ مادہ پرستی، دہریت، مغرب سے کا مل مرعوبیت، مغربی تخیلات کی اندھی تقلید کر رہی ہے۔ وہ اسلامی وحدت اور قدیم چیزوں سے بے زاری کا اظہا ر کر رہے ہیں۔ ان کے دل میں یہ خیال راسخ ہو گیا ہے کہ اگر ترقی کرنی ہے تو بالکل مغربی طرز پر چل کر ہی ترقی کا قصر تعمیر کرنا پڑے گا۔‘‘ سید مودودی نے اس رویے پر وہا ں کے علما کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اُن کا یہ کہنا درست تھا کہ بدلتے ہوئے حالا ت میں ترکی کے علما نے وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی اس وقت ضرورت تھی۔

وقت گزرنے کے ساتھ مولانا مودودی کی یہ بات درست ثا بت ہو ئی۔ ترکوں نے نہ صرف اپنے رسم الخط کو تبدیل کر دیا بلکہ معاشرتی بنیادوں میں اسلام بے زاری کو بھی فر وغ دیا۔ اس انتہا پر جانے کے باوجود ترکو ں کے دل سے اسلام کی محبت کو مٹایا نہیں جا سکا‘جس کی مثا ل آج کے ترکی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ حال ہی میں ترکی کے صدر طیب اردوگان نے ’’تہذیبو ں کے اتحاد‘‘ کے نا م سے اقوام متحدہ کے ادارے میں ویانا کے ہاف برگ پیلس میں تقریر کر تے ہو ئے کہا ہے کہ:

’’ہماری توجہ ان جھگڑوں پر مسلسل مرکوز رہنی چاہیے جو ایشیا اور افریقا میں چل رہے ہیں۔ خاص طور پر بلقان اور مشرق وسطیٰ میں پائے جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ خوابیدہ خطرات بھی جو دنیا کے ممکنہ جنگوں میں موجود ہیںہماری نظروں سے اوجھل نہیںہونے چاہئیں۔ بد قسمتی سے شام کے معاملے میں جدید دنیا اس امتحان پر پوری نہیں اتر سکی۔ ہمیں علم ہے کہ گزشتہ دو سال میں 70 ہزار کے قریب لوگ اپنی جانوں سے ہا تھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ بات کہ دنیا نے اس صورت حال پر کوئی خاص رد عمل ظا ہر نہیں کیا۔ احساس انصاف کو سنگین طور پر مجروح کر تا ہے۔ اسی طرح تہذیبو ں کے اتحا د کے روبرو یورپ میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی پُر مسائل شعبہ ہے۔ مزید برآں، مسلم مما لک سے لاتعلقی کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ جو مسلمان اپنے ملک کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں سکونت پذیر ہیں تو انھیں درشت، معاندانہ اور ہتک آمیز رویوں کا سامنا ہے۔

طیب اردگان نے اس رویے پر سخت تنقید کی اور کہا کہ یہ ایک نامعقول عمل ہے جو دنیا بھر میں جاری ہے۔ ہماری کوشش ہو نی چاہیے کہ دیگر لوگوں کے عقائد اور ثقافتوں کے بارے میںمعلومات حاصل کریں۔ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے عمل کی بنیاد تعصب ہے اور وہ دوسروں کا مقاطعہ کرتے ہیں اور ان سے نفرت برتتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم صہیونیت، اسلام دشمنی اور فسطائیت کو بھی انسانیت کے خلاف ایک جرم قرار دیں۔ انھوں نے ذرائع ابلاغ پر نکتہ چینی کر تے ہو ئے اس کے کردار کو نفر ت اور اشتعال دلانے والا قرار دیا اور کہا کہ اس عمل سے تعصب کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں۔

طیب اردگان کے خیالات موجودہ ترکی کے سیاسی کردار کو بھی واضح کر تے ہیں۔ مشر ق وسطی میں ما ضی کی طرح جغرافیا ئی، تہذ یبی اور فکر ی انتشار جس انداز میں پھیلایا گیا ہے وہ وہی ہے جو انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں سلطنتِ عثمانیہ کے سا تھ اُس وقت برطانیہ اور اس کے اتحادی قوتوں نے کھیلا تھا۔ روس اور امر یکا کے مفادات خواہ مشترک نہ ہوں مگر اُن کا کردار مسلمانوں کے ساتھ معاندانہ رویے کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ شام، عراق اور یمن میں جاری خانہ جنگی کے نتائج کیا برآمد ہوتے ہیں اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے مگر جارحانہ قوتوں کی حکمت عملی اگر اسی طرح مسلم ممالک میں جاری رہیں تو مسلمان حکمرانوں کے کردار پر بحث کی گنجائش موجود ہو رہے گی کہ وہ مسلسل ناکامی سے کیوں دوچار ہیں۔

ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ ترکی کی سیاسی حکمت عملی میں اتحاد اسلام کو فروغ دینے کی کوششیں بارہا دکھائی دیتی ہیں۔ دنیائے اسلام میں سیاسی برتری جس طرح ترکوں کے حصے میں آئی ہے ویسی کسی دوسری قوم کو نصیب نہیں ہوسکی۔ ترکوں میں انجمن نوجوانان کی تحریک نے ترکوں کو عہدِ اسلامی کی تاریخ سے جس طر ح قطع تعلق پر مجبور کیا ہے اس کی داستان نہایت طویل ہے اور اس کا خمیازہ بھی ترکوں کو کئی نسلوں تک بھگتنا پڑے گا۔

جنوبی ایشیا کے مسلمان ترکوں کی تاریخ اور تہذیب سے ربط رکھتے ہیں اس لیے وہاں کی سیاسی زندگی میں ہونے والی تبدیلی کے اثرات یہاں پر بھی پڑتے ہیں۔ مذہبی طبقہ یہ چاہتا ہے کہ ترک احیائے اسلام کی جدوجہد میں دوبارہ وہی کردار ادا کرے جو اُن کے آبا کر تے رہے ہیں۔ جب کہ جدیدیت کے حامی ہر اس وحی کو جو انقرہ سے نازل ہوتی ہے‘ مسلمانوں کے سامنے اس طر ح پیش کرتے تھے گویا قرآن منسوخ ہو چکا ہے اور رسالت ختم ہو گئی ہے۔ اب ہدایت ہے تو اتاترک کے اسوہ میں ہے۔

یورپی اور امریکی سیاسی تناظر میں ترکی اور دیگر مسلمان ممالک کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ دکھائی دے گا کہ جس عالمی رواداری کا مظاہرہ مسلمانوں نے کیا ہے وہ مغربی اقوام کی دہشت و بربریت کے سامنے ایک مثال ہے بہ شرطیکہ ہم انصاف سے تا ریخ اور موجودہ تناظر کا مطالعہ کریں۔ موجودہ عہد میں مسلمان ملکوں میں دیگر اقوام کو جس طر ح مذہبی آزادی حا صل ہے وہ اکیسویں صدی کے یورپ اور امر یکا میں مسلمانوں کو میسر نہیں ہے۔ اس لیے فرانس اور جرمنی میں حجاب پر پابند ی کے حوالے سے جو ردعمل ظا ہر ہوا ہے وہ ان کی حکومتو ں کے ذہنی رویے کی عکاس ہے۔

جدید ترکی نے یورپی قوتوں کے ساتھ اپنی خواہشات سے بڑھ کر دیا ہے‘ مگر وہ تاریخ کے ان مسائل کو کبھی حل نہیں کر سکتا جو سلطنت عثمانیہ اور اہل یورپ کے ساتھ کئی صدیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس کی حا لیہ مثال The Economist London کی 28 جنوری 2012ء کی ایک رپورٹ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جنوری 2012 ء میں فرانس کی سینیٹ میں ایک بل پیش کیا گیا جس کے تحت 1915ء میں آرمینیا میں ترکوں کے قتل عام کو جھٹلانا جرم قرار پائے گا۔ اس وقت کے ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان نے فرانسیسی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اس بل کو منظور کر کے قا نون بنانے کے خطرناک نتائج بر آمد ہوں گے۔

یورپ نے ترکی کو ان تاریخی حقیقتوں سے فراموش کر کے نہیں دیکھا اور نہ ہی آ ئندہ اس کے امکانات ہیں۔ روس کی شام میں بڑھتی ہو ئی مداخلت نے ترکی کی خارجہ پالیسی کو مشکلات کا شکار کر دیا ہے۔ اس سنبھلتی ہوئی قوت کو مشرقِ وسطیٰ میں جاری خانہ جنگی نے بیک وقت کئی محاذ پر مصروف کر دیا ہے جس سے موجودہ ترکی عہدہ برآں ہوتا ہے یا نہیں؟ یہ فیصلہ ہونا باقی ہے۔ روس سے ترکی کی جاری مخاصمت تین صدیوں پرانی ہے یہ دونوں ہمیشہ سے روایتی حر یف رہے ہیں۔

سید مودودی نے ترکی اور اسلامی ملکوں میں پروان چڑھتی نیشنل ازم کی تحریکوں پر تنقید کی ہے۔ انھوں نے اس نظر یے کو اسلامی فکر کے علی الرغم قرار دیا اور اتحاد امت کی تر ویج و اشاعت پر خصوصی توجہ دینے کے لیے کہا۔ ان کی فکر میں اتحاد امت ایک ایسی قوت بن کر سا منے آ تی ہے جو زندگی کے ہر دائرۂ کار میں کسی مسئلے کو علاقائی اور جغرافیائی بنیادوں پر نہیں دیکھتی بلکہ عالمی اسلامی برادری کے ایک شریک کار کے طور پر ان مسائل کا حل چا ہتی ہے جو دنیا میں پھیلے ہو ئے مختلف خطوں میں آباد مسلمانوں کو لاحق ہیں۔ انھوں نے مغرب کی جارح قوتوں کا محاکمہ اس انداز میں کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ:

’’اس وقت مغرب کی جابر قوتوں کی وجہ سے اسلامی مما لک میں کشمکش برپا ہے۔ ہماری ہمدردیاں ان ملکو ں کے ساتھ ہیں جو اپنے جائز حقوق کی جدوجہد کر رہے ہیں‘ اُن کے ساتھ ہمدردی صرف اس بنیا د پر نہیں کہ وہ مسلمان ہیں بلکہ اس بنیاد پر بھی ہے کہ وہ مظلو م ہیں۔ حق ان کے ساتھ ہے اور ان کاحریف سراسر ناحق ہے۔

نیشنل ازم کی بنیاد پر استوار ہونے کی وجہ سے ہم اپنے بھائی مسلمانوں کی جائز مدد کرنے کے بھی قابل نہیں رہتے۔ اسی لیے سید مودودی نے اس نظریے کو اسلام سے متصادم قرار دیتے ہوئے اس کے حاملین کے بارے میں کہا کہ ’’اس نظریے کے پیروکار خدا اور مذہب کو بھی قومی بنا دیتے ہیں۔ یہ نظریہ انسانوں میں ایسا تعصب پیدا کر دیتا ہے جسے جاہلی عصبیت کے سوا کچھ قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘

انھو ں نے لکھا کہ ’’نیشنل ازم اختیار کر کے اس کے فطری تقاضوں سے کون بچ سکتا ہے؟ غور کیجیے، آخر وہ کیا چیز ہے جو قوم پرستانہ طرز فکر اختیار کرتے ہی ایک مصری نیشنلسٹ کا رُخ خود بہ خود عہدِ فراعنہ کی طرف پھیر دیتی ہے؟جو ایرانی کو شاہ نامے کی افسانوی شخصیتوں کا گرویدہ بنا دیتی ہے؟ جو ہندوستا ن کو پراچین سمے کی طرف کھینچ کر لے جا تی ہے اور گنگ و جمن کی تقدیس کے ترانے اس کی زبان پر لاتی ہے؟ جو ترک کو مجبور کرتی ہے کہ اپنی زبا ن، اپنے ادب اور اپنی تمدنی زندگی کے ایک ایک شعبے سے عربی اثرات کو خارج کر کے اور ہر معاملے میں عہدِ جاہلیت کی ترکی روایا ت کی طرف رجوع کرے؟‘‘

ترکو ں نے جب اتحاد الاسلام کے نظر یے سے روگردانی کی تو اُن میں ایسی دل چسپیاں پروان چڑھیں جو تہذیبی و تمدنی اعتبار سے محدود دائرے میں تھیں اور اس دائرے میں خودکو مقید کر کے اس قوم نے عالمی اسلامی اقوام کی سیادت سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترک کئی معاملات میں تنہا ہو گئے۔ سید مودودی نے جدید ترکی کے بانی گوک الپ ضیا کے خیالات پر تبصرہ کر تے ہوئے کہا کہ نیشنل اَزم آدمی کے دماغ کو اسلا م سے جاہلیت کی طر ف پھیر دیتا ہے۔ کیو ں کہ گوک الپ ضیا نے کہا تھا کہ اسلام ہمارے مناسب حال نہیں ہوسکتا اگر ہم اپنے عہدِ جاہلیت کی طرف رجعت نہ کر یں تو پھر ہمیں ایک مذہبی اصلاح کی ضرورت ہے جو ہماری طبعیت سے مناسبت رکھتی ہو۔

21 اگست 1969ء میں جب مسجداقصٰی کو شہید کر دیا گیا تو لاہور میں مولانا مودودی نے 24 اگست 1969ء میں تقریر کرتے ہو ئے ترکو ں کے کردار پر نیشنل اَزم کے گہر ے اثرات کا تجزیہ پیش کیا۔ انھوں نے لکھا کہ مغربی سیاست کاروں نے‘ جس میں یہودی بھی کا م کر رہے تھے‘ سلطنت عثمانیہ کے حصے بخر ے کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا‘ انھوں نے ترکوں میں یہ تحریک اٹھائی کہ وہ سلطنت کی بنیاد اسلامی اخوت کے بجائے ترکی قوم پرستی پر رکھیں، حالاں کہ ترکوں کا جغرافیہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ترکی میں صرف تر ک آبا د نہیں ہیں بلکہ عرب اور کرد بھی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری نسلو ں کے مسلمان بھی آباد ہیں۔ ایسی سلطنت کی بنیاد صرف ترکی النسل لوگوں پر رکھنے کے صاف معنی یہ تھے کہ تمام غیر ترک مسلمانوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ ختم ہو جائیں گی۔ دوسر ی جانب عربوں اور دیگر اقوام کو اس با ت پر ابھارا گیا کہ وہ ترکوں کی غلامی سے نجات حاصل کرلیں۔

موجودہ ترکی میں جاری اندورونی مخاصمت کا اندازہ اس پس منظر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے کُر د صوبے آج بھی کئی حوالو ں سے ترک ریاست کے ہمراہ نظر نہیں آتے۔ مغربی قوم پرستی کی بنیاد پر استوار ہونے والے جد ید ترکی میں بڑھتی ہوئی خوں ریزی کی بنیادی وجوہات کو ان امور میں ساتھ تلاش کیا جانا کوئی مشکل امر نہیں۔ سید مودودی کے ان خیالات کا اعادہ اس لیے کیا جانا ضروری ہے کہ ترکوں نے سب سے پہلے اپنے آپ کو اسلامی فکر کے بنیادی تصورات سے شعوری طو ر پر علیحدہ کیا۔ بیسویں صدی میں ترکو ں کے انحطاط کی وجہ سے مسلمانوں کی وحدت کو نظری بنیادو ں پر اسی نیشنل اَز م کی تحریک نے نقصان پہنچایا تھا اسی لیے سید مودودی نے اپنی فکر میں اُمت کی تشکیلِ نو کو مرکزی اہمیت دی ہے۔

روس اور یورپ کی دولتِ عثما نیہ سے جاری مخاصمت کا مطالعہ مصطفی کمال پاشا (1874ء ۔1908ء) کی کتا ب ’’مسئلہ شر قیہ‘‘ میں موجودہے۔ جس کا اردو ترجمہ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کیا تھا۔ اس ترجمے سے سید مودودی کی فکری جہت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ عالم اسلام میںجاری مشرق و مغرب کی کشمکش میں تاریخی موڑ سلطنتِ عثمانیہ کا زوال تھا اور اس سقوط نے عالم اسلام کی تا ریخ سے خلافت کے تصور کو ناپید کر دیا اور مسلمان مرکزی حیثیت میں پھر کبھی مجتمع نہیں ہو سکے۔ مصطفی کمال پاشا کی اس کتاب کے ترجمے کی غایت یہی تھی کہ مسلمانوں کو مغربی حکمت عملی کے تضادات سے آگا ہ کیا جا ئے۔ اس کتاب کے مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی میں مسلمان عالمی قوتوں کی چیرہ دستیوں کا جس انداز میں شکار ہو رہے تھے اس کے تسلسل کو سمجھنے کے لیے ترکو ں کی تاریخ اور یورپ پر اُس کی فتح کا جائزہ لینا اشد ضروری ہے۔

حصہ