کراچی بلدیاتی انتخابات

234

پاکستان کی سیاسی، معاشرتی، معاشی اور اقتصادی ترقی کا روحِ رواں کراچی اِس وقت اپنی تاریخ کی بدترین حالت میں ہے۔ اس کی سڑکیں تاحال تمام دعووں کے باوجود خستہ حال ہیں۔ جابجا غلاظت کے ڈھیر ہیں۔ اہم سڑکوں، پلوں اور انڈر پاسز میں پڑے گڑھوں اور ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے مستقل ٹریفک جام رہنا معمول کی بات ہے۔ پارکوں میں کچرا کنڈیاں قائم ہیں اور ہر گلی، محلے میں گٹر ابل رہے ہیں۔ بجلی، گیس، پینے کے صاف پانی جیسی سہولتیں تک میسر نہیں۔ تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، انفرااسٹرکچر سمیت کئی بڑے مسائل ہیں۔ بدانتظامی کا عالم تو یہ ہے کہ مہنگائی اپنی جگہ لیکن شہر میں کوئی انتظام اور انتظامیہ نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کے شہری بنیادی ضرورت کی چیزیں مزید مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں، جس کی اہم وجہ مارکیٹوں اور بازاروں میں سرکاری نرخ نامے کو مکمل طور پر نظرانداز کرنا ہے۔ سبزیوں، پھلوں اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں جبکہ بچت بازاروں میں ناقص اور باسی اشیاء بیچی جارہی ہیں، اور کوئی دیکھنے اور روکنے والا نہیں ہے۔ ان سب کا تعلق بلدیات اور انتظام سے ہے، اور اگر یہ انتظام غلط ہاتھوں میں ہوگا تو انجامِ گلستاں ایسا ہی ہوگا جیسا ہم شہر میں دیکھ رہے ہیں۔

کراچی کے لیے رئیس امروہوی نے لکھا تھا:

مسائل کی کثرت ہے اس شہر میں
زمانے کی حالت یہ کیا ہو گئی
کراچی تھی پہلے عروس البلاد
مگر اب عروس البلا ہو گئی

ہر ہر عنوان سے لوگ تکلیف اور مشکل میں ہیں، اور ان تمام مشکلات کا حل صرف مقامی حکومت کے نظام میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مقامی حکومت کے قیام کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ شہر اور علاقے کے لوگ اپنے اپنے مقامی مسئلے مقامی سطح پر حل کریں۔ اب ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ اب کیا کھیل کھیل رہی ہے کے سوال کے ساتھ تادم تحریر 15 جنوری 2023ء کو، سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے تحت بلدیاتی انتخابات منعقد کیے جارہے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے کے 120 دن میں بلدیاتی انتخابات کرانے ہوتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہوا، اور ستمبر 2020ء میں بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے کے باوجود کراچی اور حیدرآباد میں انتخابات نہیں ہوسکے۔ ابتدا میں دسمبر 2021ء میں حکومتِ سندھ نے اعلان کیا کہ وہ فروری یا مارچ 2022ء میں بلدیاتی انتخابات کرائے گی۔ بعد ازاں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعلان کیا کہ انتخابات 24 جولائی 2022ء کو ہوں گے۔

تاہم صوبے بھر میں سیلابی صورتِ حال کا بہانہ بنا کر پولیس کی نفری نہ ہونے کا عذر کرکے سیکورٹی فراہم کرنے سے معذرت کرلی گئی تھی۔ جس کے بعد 28 اگست کی تاریخ رکھی گئی، لیکن اس تاریخ سے چند دن قبل پھر ایک اور تاریخ 23 اکتوبر رکھ دی گئی، مگر تیسری مرتبہ بھی انتخابات ملتوی کردیے گئے۔ اصل بات یہ تھی کہ سندھ حکومت اور اُس کے اتحادی چاہتے تھے کہ انتخابات کسی بھی حالت میں ملتوی ہوجائیں، لیکن جماعت اسلامی اور کراچی کے شہریوں کے دبائو نے اُن کو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا، جس کے نتیجے میں سندھ حکومت کے پا س بھی کوئی اور بہانہ بچا نہیں اور وہ خاموش ہوگئی، لیکن پسِ پردہ قوتیں ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو جمع کرکے ایک بار پھر انتخابات ملتوی کرانے کی پوری کوشش میں لگی رہیں اور ایم کیو ایم تو کھلی دھمکی پر اتر آئی۔اور اس نے ’15 جنوری کو انتخابات نہیں ہونے دیں گے کا علان کیا جس کے بعد اب رات گئے سندھ حکومت نے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کردیا ہےلیکن اس کے بعد ایک بار پھر ، الیکشن کمیشن نے کہا کہ کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی انتخابات 15 جنوری کو ہی ہوں گے،مزید الیکشن کمیشن نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وزارت داخلہ کو کہا جائے کہ انتخابات کے دوران انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنوں پر فوج/ رینجرز کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے۔

لیکن اب الیکشن کمیشن کے واضح اعلان اور ایک اور عدالتی فیصلے مورخہ 13جنوری 2023ء کے مطابق آج انتخابات ہورہے ہیں یا نہیں یہ ابہام تاحال اس لیے موجود ہے کہ خبر یہ ہے کہ سندھ حکومت ایک آرڈننس لارہی ہے ۔جس کے تحت الیکشن ممکن نہیں ہونگے لیکن جو بھی ہو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے کراچی دشمنی کو اپنے عمل سے ثابت کی ہے ۔

موجودہ بلدیاتی نظام میں 25 ٹاؤن میونسپل کارپوریشنیں ہیں، پورے کراچی کو 246 یونین کمیٹیوں میں تقسیم ہے، 984 یونین کمیٹی وارڈ بنائے گئے ہیں۔ 2013ء کے ایکٹ کے مطابق جو بلدیاتی نظام قائم کیا جارہا ہے وہ مکمل تبدیل شدہ ہے۔

کراچی کی سٹی کونسل میں ارکان کی تعداد مجموعی طور پر 367 ہوگی، 246یوسی چیئرمین کے ایم سی کی کونسل کے ممبر ہوں گے، خواتین ممبرز کی تعداد 81، لیبر 12، نوجوان 12، اقلیتی 12، خصوصی افراد 2 اور خواجہ سراؤں کے 2 ممبرز کو کونسل ممبرز اپنے ووٹوں سے منتخب کریں گے۔ مجموعی طور پر یہ 367 ممبرز میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب کریں گے۔

اس وقت حقیقت یہ ہے کہ جہاں کراچی کے انفرااسٹرکچر کے مسائل ہیں وہیں اس سے بڑھ کر نوجوان نسل کا بے سمت سفر ہے، اور شہر کا مستقبل مایوس ہے۔ کراچی کے نوجوان اس وقت تباہ حال ہیں۔ جہاں وہ سڑکوں پر اسٹریٹ کرائمز کا شکار بن رہے ہیں، وہیں نشے کی لعنت کا بھی بڑی تعداد میں شکار ہورہے ہیں۔ پورے ملک کو چلانے والے شہر کراچی کے نوجوان بڑی تعداد میں بے روزگار ہیں۔

کراچی کے عوام پیپلز پارٹی اور اُس کی اتحادی ایم کیو ایم کے خلاف سخت ردعمل دے رہے ہیں، کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی حالت بہتر ہو۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کا قدرتی بندرگاہ کا حامل شہر معاشی، صنعتی، تعلیمی، تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے دنیا کا اہم شہر ہے۔ وہ اس کی نفاست اور صفائی، خوبصورتی اور شاہراہوں کی خوشنمائی دوبارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ پھر سے اسے روشنیوں، رنگوں اور امنگوں کا شہر بنانا چاہتے ہیں، دوسرے شہروں کی طرح ترقی یافتہ شہر دیکھنا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے سندھ اور کراچی کو 14سال سے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ کراچی میں حکمران پارٹیوں کی بلدیاتی انتخابات سے فرار کی کوششوں کو اُن کی شکست کی واضح علامت کہا جاسکتا ہے، اور اگر پیپلز پارٹی نے آج کوئی نیا کھیل نہیں کھیلا تو شہر میں مخصوص سیٹوں کے سوا اُس کو اور ایم کیو ایم کو کچھ نہیں ملے گا، کیونکہ کچھ عرصہ قبل ایک سروے ہوا تھا اور سروے کرنے والی تنظیم ”پلس“ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں ووٹروں کی اکثریت نے جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کو ووٹ دینے کا ارادہ کیا ہے۔

میئر کے لیے ان کے ووٹوں کا تناسب 51 فیصد تک ہے، جبکہ 14 فیصد نے مصطفیٰ کمال کو ووٹ دینے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ پلس کنسلٹنٹ کے سروے کے مطابق 53 فیصد عوام نے ٹوٹی ہوئی سڑکوں کا تذکرہ کیا، 46 فیصد نے سیوریج کے پانی، 42 فیصد نے بجلی کی لوڈشیڈنگ اور 26فیصد نے پانی کے ایشو کے بارے میں رائے دی تھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ جماعت اسلامی نے بلاتفریقِ رنگ و نسل سب کی خدمت کی اور مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کا راستہ اختیار کیا، اور وہ شہر کراچی میں ایک بار پھر ایک بڑی قوت اور طاقت کے ساتھ ابھر رہی ہے۔ اس کی ”حق دو کراچی“ تحریک نے بہت تیزی کے ساتھ پذیرائی حاصل کی ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ کراچی کے ہر شہری کی تحریک بن چکی ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافط نعیم الرحمٰن نے ”اعلانِ کراچی“ میں وعدہ کیا ہے کہ ”بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے بعد آئندہ 4 سالوں میں ہر ضلع میں ایک بڑا اسپتال، ہر ٹاؤن میں چیسٹ پین سینٹر، پیچیدہ بیماریوں کے لیے مہنگے ٹیسٹ رعایتی بنیادوں پر کروانے کے لیے ڈائیگنوسٹک سینٹر قائم کیے جائیں گے۔ طالبات کے لیے یونیورسٹیاں، طلبہ کو تکنیکی تعلیم کی فراہمی کے لیے اداروں کا قیام، روزگار میں معاونت، شہر کے شایان شان جامع ماس ٹرانزٹ پروگرام، فلائی اوورز، انڈر پاسز، دو منزلہ سڑکیں، لائٹ ریل، سرکلر ریلوے کے علاوہ ہزاروں جدید بسیں اور سڑکوں کی بحالی ویژن 2023-2027 پروگرام کا حصہ ہوں گے“۔ انہوں نے کہا کہ”K-4 کے 650 ملین گیلن پانی کی فراہمی کے منصوبے کے تینوں فیز اور نکاسی آب کا منصوبہ S-3 مکمل کیا جائے گا۔ صنعتی اور تجارتی مراکز میں ہنگامی اور ترجیحی بنیادوں پر انفرااسٹرکچر بحال کیا جائے گا، پانی اور سیوریج کے نظام، گیس اور بجلی کی بلاتعطل فراہمی کے لیے جدوجہد کی جائے گی۔“

جماعت اسلامی کے پاس خواتین کے لیے بھی پروگرام موجود ہے۔ حافظ نعیم کے مطابق ”خواتین کے لیے محفوظ، سستی اور باعزت ٹرانسپورٹ، خواتین مراکز، ورکنگ ویمن کو تحفظ اور برابری کی سطح پر تنخواہ، ہر محلے میں فیملی پارک، گھریلو مسائل کے حل کے لیے یوسی کی سطح پر پنچایت کا نظام، خواتین کے لیے باعزت تعلیم و روزگار کا انتظام، خواتین کی بنیادی صحت کے لیے ڈسپنسریز کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔“

اگر آج انتخابات ہورہے اور آج نہ بھی ہوے ےتو کل ضرور ہونگے ایسے میں شہر کراچی کے لوگوں کے پاس اچھا موقع ہے، اُن کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو وہ انتخابات کے دن گھروں سے نکل کر کراچی کو ازسرنو تعمیر کرنے کے لیے، نوجوانوں اور نئی نسل کا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دیں اور ترازو پر مہر لگائیںاور پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی گمراہ کن،جھوٹ پر مبنی سیاست کو مسترد کردیں۔

حصہ