باتیں

235

’’مما ! وہ کون تھیں، جو آپ سے کل شادی میں بہت خوش ہوکر مل رہی تھیں؟‘‘ عاتکہ سے اس کی بیٹی نے پوچھا۔
’’میری کلاس فیلو تھی، شازیہ۔‘‘
’’لیکن وہ تو اتنی ینگ اور اسمارٹ تھیں، اور ان کا تو بیٹا بھی بہت چھوٹا سا تھا جب کہ آپ تو…‘‘ عائزہ کہتے کہتے رک گئی اور نظر بھر کر اپنی ماں کو دیکھا تو وہ بھی اتنی بڑی تو نہیں لگیں، مگر ان کے لباس اور بردباری نے انہیں شاید اپنی عمر سے کچھ زیادہ ہی بڑا بنا دیا تھا۔
’’ہیں تو ہم دونوں ہی برابر، مگر چونکہ میں 14 سال کی تھی تب میری شادی ہوگئی تھی اور سال بھر میں تم بھی ہوگئیں… اور اب میں 33 سال کی ہوں اور تم، تمہاری شادی بھی میری طرح ہی 15 سال کی عمر میں ہوگئی اور آج میں نانی بن گئی۔ اور یہ شازیہ… اس کی شادی پچیس سال کی عمر میں ہوئی اور بیٹا بھی دو سال بعد ہوا۔‘‘ عاتکہ نے تفصیل سے بتایا۔
’’لیکن امی! آپ دونوں کی عمر تو برابر ہے لیکن آپ تو اتنا میک اَپ بھی نہیں کرتیں اور اتنے اسٹائلش کپڑے بھی نہیں پہنتیں… کیوں؟ صرف اس لیے کہ آپ نانی بن گئی ہیں؟‘‘
عائزہ کی خود سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے! مگر عاتکہ کے کانوں میں اس کے بہت ہی قریبی اپنوں کے مختلف جملے گونج رہے تھے کہ ’’ساس کو ساس لگنا چاہیے۔‘‘
’’نانی بن گئی ہو نانی ہی لگو، الہڑ دوشیزہ نہیں۔‘‘
اُس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ وہ عائزہ سے کیا کہتی، یہ کہ ’’تم بھی ان جملوں کے لیے تیار رہو، کیوں کہ تمہاری شادی بھی جلدی ہوگئی ہے۔‘‘
مگر اس نے سر جھٹک دیا اور دل سے دعا کی کہ اس کی بیٹی کو ہمیشہ قدر دانوں سے واسطہ پڑے، کسی کے طعنے نہ سننے پڑیں اور وہ اپنے نواسے کی طرف متوجہ ہوگئیں۔
…٭…
’’تم نے تو حد کردی فرحانہ…! بیوہ ہوکر اتنے گہرے رنگ پہن رکھے ہیں!‘‘ فرحانہ کی نند کی ساس نے اس کو ٹوکا تو وہ چپ کی چپ رہ گئی۔
’’دیکھا تھا عاصمہ کو، بیٹی کی شادی پر بال سیٹ کرا رکھے تھے، توبہ ہے، بیٹی دو سال کی تھی جب بیوہ ہوئی تھی مگر آج تک دل کے ارمان ختم نہیں ہوئے۔‘‘
عاصمہ نے اپنی امی اور بہن بھائیوں کے مجبور کرنے پر بھائی کی شادی میں بال سیٹ کروالیے تھے، مگر فرح بھابھی کا جملہ جیسے دل کو اندر تک چیر گیا۔
یہ جملے ان عورتوں کے دلوں پر کیسے تیر بن کر لگتے ہیں… بولنے والے اگر محسوس کرسکتے تو بولنے سے پہلے سوچتے ضرور۔ اگر ایک لڑکی کی جلدی شادی ہوجاتی ہے اور وہ جلدی نانی یا دادی بن جاتی ہے تو کیا اس کے پہننے اوڑھنے پر پابندی ہے؟ اُس کا دل جوان ہے، اس کا شوہر اسے بنا سنورا دیکھنا چاہتا ہے تو آپ کو کیا حق ہے کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرنے کا؟ مگر اکثر لوگ چاہتے ہیں کہ دنیا اُن کے اشاروں پر چلے۔ وہ ہر کسی پر اعتراض اور نکتہ چینی اپنا حق سمجھتے ہیں۔ کسی کے دل پر کیا گزرتی ہے اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔
اسی طرح اگر کوئی لڑکی بیس سال میں ہی بیوہ ہو جائے تو کیا وہ ذہنی طور پر کبھی اس قابل نہیں ہوگی کہ اپنے بچوں کے لیے ہی خوش ہوسکے، اپنے ماں باپ کے لیے اچھا پہن اوڑھ سکے (کہ جن کا دل اس کو دیکھ دیکھ کر کٹتا ہے)؟ اس ماں کا دل کیسا خراب ہوتا ہوگا جو اپنی جوان بیٹی کو اجاڑ دیکھتی ہوگی؟ کیا اس کا دل نہیں چاہتا ہوگا کہ اس کی بیٹی بھی دوسری بیٹیوں کی طرح اچھا پہنے، اوڑھے؟ مگر اللہ سے زیادہ لوگوں کا خوف دلوں کو مارنے پر مجبور کردیتا ہے۔
کہتے ہیں نا، کہ تلوار کا گھاؤ بھر جاتا ہے لیکن زبان کا گھاؤ نہیں بھرتا۔ لہٰذا کسی پر بھی طعنہ زنی کرنے سے پہلے خود کو اس کی جگہ رکھ کر سوچنا چاہیے کہ کوئی اگر ہم کو ایسا کہے تو کیسا لگے گا؟

حصہ