قیصروکسریٰ قسط(83)

200

’’نہیں، عاصم میں مذاق نہیں کرتا۔ میرے نزدیک تم اُن انسانوں سے مختلف ہو، جو دیر تک آنکھیں بند کرکے کسی راستے پر چل سکتے ہیں۔ میں تمہارے ضمیر میں وہ روشنی دیکھ چکا ہوں، جو ایک انسان کو کسی اچھائی کو قبول کرنے کا حوصلہ اور کسی بُرائی کو ٹھکرانے کی جرأت عطا کرتی ہے۔ اگر مجھے تم اپنے دل کا سارا حال بتا کر جاتے تو بھی میں تمہارے متعلق یہی سوچتا کہ نئے راستوں اور نئی منازل میں بھی تمہارے ضمیر کی روشنی تمہارا ساتھ دے گی۔ اور تمہاری زندگی میں وہ لمحات بار بار آئیں گے، جب تم انسانیت کے متعلق اپنی ہنگامی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر سوچو گے۔ تم بدی کے طوفانوں کا ساتھ دینے کے لیے نہیں، بلکہ اُن کے خلاف سینہ سپر ہونے کے لیے پیدا ہوئے ہو، اور میں تمہارے متعلق یہ کہنے کے لیے تیار ہوں کہ جب تمہاری بڑی سے بڑی خواہش یہاں تک کہ فسطینہ کی محبت بھی تمہارے ضمیر کی آواز کے ساتھ متصادم ہوگی تو آبنائے باسفورس کے پار ایرانیوں کی وسیع سلطنت تمہیں قسطنطنیہ کے ماحول سے کہیں زیادہ تنگ و تاریک محسوس ہوگی۔ اور اگر سچ پوچھو، تو میں یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوں کہ اُس روز تم واقعی باسفورس کے پار پہنچنے کا تہیہ کرچکے تھے۔ یہ صرف ایک ہنگامی جوش تھا، جسے دبانے یا شکست دینے کے لیے تمہاری اندرونی توانائی کافی تھی۔ تم نے تصور میں اپنی بعض خواہشات کے خلاف ایک جنگ لڑی تھی اور تم ان خواہشات کو مغلوب کرنے کے بعد واپس آگئے تھے‘‘۔

وہ کچھ دیر خاموشی سے چلتے رہے۔ بالآخر عاصم نے رُک کر کہا۔” کیا یہاں میرا ایک سرائے کے دربار پر قناعت کرلینا، اس بات کا ثبوت نہیں کہ میں کوئی خطرناک راستہ اختیار کرنے کی جرأت سے محروم ہوچکا ہوں اور میری ساری خواہشات صرف زندہ رہنے تک محدود ہیں؟‘‘۔

’’نہیں، عاصم میں نے تمہارے متعلق یہ کبھی نہیں سوچا کہ تم موجودہ حالات پر قانع رہ سکتے ہو۔ مجھے یقین ہے کہ تمہارے ضمیر کی آواز کسی دن اچانک تمہیں بے چین کردے گی اور تم بلاتوقف کسی طوفان کے سامنے کھڑے ہوجائو گے‘‘۔

’’آپ قسطنطنیہ کے حالات سے بے خبر نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود آپ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہاں لاکھوں انسانوں کو ہلاکت کے طوفانوں سے بچانے کے لیے میں کچھ کرسکتا ہوں۔ اگر آپ کو میری جرأت پر اعتماد ہوتا تو آپ یقیناً مجھے یہاں آرام سے بیٹھنے کی بجائے کلاڈیوس کا ساتھ دینے پر آمادہ کرتے۔ آپ اِس حقیقت سے بے خبر نہیں ہوسکتے کہ وہ ایک خطرناک مہم پر گیا ہوا ہے اور میں ان دونوں اور دشمن قبائل کے خاقان کے درمیان مصالحت کی افواہوں کے باوجود یہ محسوس کرتا ہوں کہ قسطنطنیہ کے خطرات دور نہیں ہوئے‘‘۔

فرمس نے جواب دیا۔ ’’کلاڈیوس، رومی فوج کا ایک سپاہی ہے اور اُس پر سلطنت کی حفاظت کے لیے ہر خطرے کا سامنا کرنا کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن تم اپنے ضمیر کی آواز پر چلنے کے لیے آزاد ہو‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’آپ کو معلوم ہے، کہ اگر کلاڈیوس اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دیتا، تو میں کبھی انکار نہ کرتا‘‘۔

’’مجھے معلوم ہے، لیکن اگر کلاڈیوس تمہیں اپنے حصے کی ذمہ داریوں میں شریک کرنے کی کوشش کرتا تو میں اُسے تمہارا دوست خیال نہ کرتا‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’آپ جانتے ہیں کہ اپنی عمر کے چند سال ایرانیوں کی فتوحات میں اضافہ کرنے کے باوجود میری ساری ہمدردیاں رومیوں کے ساتھ ہیں۔ اور کبھی کبھی یہ خیال مجھے بے چین کردیتا ہے کہ میں کلاڈیوس کے ساتھ نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ بازنطینی سلطنت کے آلام و مصائب کا دور ختم ہوجائے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ دور کب اور کیسے ختم ہوگا۔ خدا کے لیے مجھے بتائیے، کہ میں کیا کرسکتا ہوں‘‘۔

فرمس نے جواب دیا۔ ’’تم صرف انتظار کرسکتے ہو، عاصم اور بعض اوقات موزوں حالات کا انتظار کرنے کے لیے ناموزوں حالات کے ساتھ نبرد آزما ہونے کی نسبت زیادہ ہمت اور استقلال کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں تمہیں صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ اِس جنگ کو ایرانیوں، رومیوں یا تاتاریوں کے وحشی قبائل کی تلواریں ختم نہیں کرسکتیں۔ وہ صرف اُن لڑائیوں میں ایک دوسرے کو شکست دے سکتے ہیں جن کے نتیجہ میں آج کا ظالم کل کا مظلوم بن سکتا ہے، لیکن دائمی جنگ کا خاتمہ صرف کسی ایسے اصول کی فتح سے ہوسکتا ہے جو مشرق و مغرب کے ہر انسان کو امن اور خوشحالی کی ضمانت دے سکتا ہو۔ اور ایسا کوئی اصول نہ ایرانیوں کے پاس ہے اور نہ رومیوں اور اُن کے مغربی حریفوں کے پاس‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’ہم پھر اپنی بحث کے نقطہ آغاز پر پہنچ گئے ہیں۔ اور مجھے ڈر ہے کہ آپ پھر اُس رہنما کا ذکر چھیڑ دیں گے، جس کے بغیر آپ کے نزدیک انسانیت کی نجات ممکن نہیں‘‘۔

’’جو شخص پیاس سے مر رہا ہو، وہ پانی کے سوا کسی اور چیز کا نام نہیں لے سکتا۔ ادھر دیکھو‘‘۔ فرمس نے سامنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اگر میں غلطی پر نہیں تو وہ مرقس کا غلام ہے اور شاید ہمارا پتا کرنے آرہا ہے‘‘۔

وہ رُک گئے۔ غلام انہیں دیکھ کر بھاگتا ہوا قریب پہنچا اور اُس نے کہا۔ ’’میں آپ کی طرف آرہا تھا چھوٹے آقا آپ کو بلاتے ہیں‘‘۔
’’کون! کلاڈیوس؟‘‘۔ فرمس نے سوال کیا۔
’’جی ہاں‘‘۔
’’وہ کب آئے؟‘‘۔

’’جی وہ کل شام گھر پہنچے تھے اور اُسی وقت قیصر کے ساتھ ملاقات کے لیے چلے گئے تھے۔ آج بھی وہ دوپہر تک گھر سے باہر مصروف رہے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد وہ آپ کے پاس آنا چاہتے تھے لیکن لوگوں نے انہیں گھر سے نکلنے کا موقع نہیں دیا۔ اس وقت بھی اُن کے کئی دوست اور سینٹ کے چند ارکان اُن کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں‘‘۔

فرمس نے عاصم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’معلوم ہوتا ہے کہ کلاڈیوس کوئی اہم خبر لے کرآیا ہے‘‘۔

’’ہاں‘‘۔ نوکر نے کہا۔ ’’وہ یقیناً کوئی اہم خبر لائے ہیں۔ ورنہ فوج کے بڑے بڑے عہدہ دار اور سینٹ کے ارکان اس طرح بھاگے ہوئے اُن کے پاس نہ آتے۔ صبح اسقفِ اعظم نے بھی اُن کے ساتھ ملاقات کی تھی‘‘۔

کلاڈیوس کے مکان میں شہر کے اکابر کی آمدورفت اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ وہ واقعی کوئی اہم خبر لے کر آیا ہے۔ عاصم اور فرمس نے باہر نکلنے اور اندر جانے والے مردوں اور عورتوں سے کتراتے ہوئے صحن عبور کیا لیکن ملاقات کے کمرے کے دروازے سے باہر برآمدے کی سیرھیوں تک لوگوں کا ہجوم دیکھ کر انہیں رکنا پڑا۔

غلام نے قدرے توقف کے بعد کہا۔ ’’ہم پچھلی طرف سے اندر جاسکتے ہیں، آپ میرے ساتھ آئیں‘‘۔

وہ غلام کے پیچھے چل دیے، لیکن مکان کے عقبی حصے میں خواتین کا شور سن کر پھر اُلٹے پائوں واپس آگئے۔ چند ثانیے بعد جب پندرہ بیس آدمی کمرے سے باہر نکلے اور برآمدے کا ہجوم اندر گھس گیا، تو فرمس اور عاصم کو دروازے میں کھڑے ہونے کی جگہ مل گئی۔

کلاڈیوس پچھلی دیوار کے قریب کھڑا لوگوں کے سوالات کے جواب دے رہا تھا۔ اُس کے دائیں بائیں چند معززین کرسیوں پر اور باقی نیچے قالینوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک سیاہ فام اور قوی ہیکل غلام برآمدے میں داخل ہوا اور اُس نے کچھ کہے بغیر عاصم اور مرقس کو ایک طرف دھکیل کر اپنے پیچھے آنے والے ایک عمر رسیدہ رومی کے لیے راستہ صاف کردیا۔ رومی کمرے میں داخل ہوا اور لوگ جلدی سے اُٹھ کر اِدھر اُدھر سمٹنے لگے۔ کلاڈیوس عمر رسیدہ رومی کو دیکھ کر آگے بڑھا اور اُس کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے بولا۔ ’’مجھے سب سے پہلے آپ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے تھا، لیکن لوگوں نے مجھے گھر سے باہر نکلنے کا موقع نہیں دیا‘‘۔

عمر رسیدہ رومی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ مجھے معلوم تھا کہ اس خبر کے بعد قسطنطنیہ کا ہر باشعور آدمی تمہیں دیکھنے کے لیے بیتاب ہوگا‘‘۔

کلاڈیوس کا باپ مرقس اُٹھ کر آگے بڑھا اور اُس نے نووارد کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنی کرسی پر بٹھادیا۔ ولیریس نے اپنی کرسی مرقس کے لیے خالی کردی اور خود ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہوگیا۔

اس عمر رسیدہ رومی کا نام مارٹن تھا، اُس کے تین بیٹے آرمینیا اور شام کی جنگوں میں کام آچکے تھے۔ وہ رومی سینٹ کے اُن چند ارکان میں سے ایک تھا، جنہیں قیصر کے دربار اور قسطنطنیہ کے بازاروں میں یکساں عزت اور احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ حاضرین کی نگاہیں کلاڈیوس کی بجائے اس معزز رومی کی طرف مبذول ہوچکی تھیں۔ اُس نے قدرے توقف کے بعد کلاڈیوس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں قیصر سے مل کر آرہا ہوں، اِس لیے تمہیں بے فائدہ سوالات سے پریشان نہیں کروں گا۔ میں صرف اپنے کانوں سے یہ سننا چاہتا ہوں کہ تم واقعی ان درندوں کے خاقان سے مل چکے ہو‘‘۔

کلاڈیوس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’جناب یہ خبر اب اتنی پرانی ہوچکی ہے کہ اب اگر میں اِس کی تردید کروں تو بھی کسی کو یقین نہیں آئے گا‘‘۔

مارٹن نے کہا۔ ’’بیٹا میں تمہیں مبارکباد دیتا ہوں، اور اگر اس ملاقات کے نتائج کے بارے میں قیصر کی توقعات درست ثابت ہوئیں تو مستقبل کے مورخ تمہیں روم کے نجات دہندہ کی حیثیت سے یاد کریں گے، لیکن تمہیں یقین ہے کہ یہ وحشی ہمارے ساتھ کسی باعزت سمجھوتے پر آمادہ ہوجائیں گے؟‘‘۔

کلاڈیوس نے چند ثانیے سوچنے کے بعد کہا۔ ’’میں آپ کے اِس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکتا۔ مجھے صرف اس احساس نے تاتاریوں کے کیمپ میں جانے پر مجبور کردیا تھا کہ موجودہ حالات میں ہمارے لیے دو محاذوں پر لڑنا ناممکن ہے۔ اور کے خاقان کے ساتھ میری ملاقات کے بعد کم از کم یہ خیال غلط ثابت ہوچکا ہے کہ ایرانیوں کی طرح ان لوگوں کو بھی مصالحت پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا‘‘۔

ایک اور رومی نے کہا۔ ’’اگر خاقان نے مصالحانہ گفتگو کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی تو اُسے قسطنطنیہ آنے پر کیوں اعتراض تھا‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ