امام غزالی  آداب حکمرانی

327

امام غزالی ؒمقتدمین علما‘ فضلا‘ صلحا اور صوفیائے کرام میں ایک خاص مقام کی حامل شخصیت ہیں۔ ان کی شہرئہ آفاق تصنیف احیا العلوم کے علاوہ ان کی تصانیف کی تعداد ۷۷ ہے جن کے نام حروفِ تہجی کی ترتیب سے مولانا شبلی نعمانی ؒنے اپنی گراں قدر کتاب الغزالی میں تحریر کیے ہیں۔ احیا العلوم میں زندگی میں پیش آمدہ تمام امور کا وضاحت سے بیان ہے اور دین و دنیا سے متعلق تمام مسائل پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔

امام غزالی ؒنے رعایا کی نگہداشت اور حکمرانی اور فرماںروائی کے موضوع کو کیمیاے سعادت میں ۱۰عنوانات کے تحت بیان کیا ہے ۔ امام غزالی ؒ کے نزدیک حکمرانی آسان کام نہیں بلکہ نہایت کٹھن اور مشکل فریضہ ہے کیونکہ زمین پر خلیفتہ اللہ کے مقام پر فائز ہونا بہت بڑے فرض کی ادایگی کا نام ہے۔ خلافت کے حقوق کی تکمیل کے لیے ’’عدل‘‘ شرطِ اوّل ہے۔ اگر عدل کے بجائے ظلم ہو تو یہ ’’خلافت ِ الٰہی‘‘ نہ ہوگی بلکہ اسے ’’خلافت ِ ابلیس‘‘ گردانا جائے گا۔ علاوہ ازیں فرماں روائی اور حکمرانی کی بنیاد علم و عمل پر قائم ہے‘ یعنی والی اور حکمران کے لیے ضروری ہے کہ اسے علم ہو کہ اسے اس دنیا میں کیوںکرلایا گیا ہے؟ اور اس کا اصل اور آخری ٹھکانہ کہاں ہے؟ کیونکہ یہ دنیا تو نشانِ راہ ہے‘ اسے منزل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ’’دارالعمل‘‘ ہے ’’دارالجزا‘‘ تواُخروی زندگی ہے۔

سلطانِ عادل کی خصوصیات اور مقام کا ذکر کرتے ہوئے امام غزالی ؒ یوں رقم طراز ہیں کہ سلطانِ عادل اللہ تعالیٰ کا عزیز ترین دوست اور مقرّب ہوتا ہے‘ جب کہ ظالم حکمران اللہ تعالیٰ کا بدترین دشمن ہوتا ہے۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلّم کے ارشاد گرامی کے مطابق عادل حکمران کے اعمال میں ہر روز اتنے نیک عمل لکھے جاتے ہیں جتنے کہ اس کی رعیّت نے اس روز کیے ہوں۔امام غزالی ؒکے نزدیک آدابِ حکمرانی کی تکمیل اور انداز فرماں روائی کو رضاے الٰہی کے مطابق ڈھالنے کے لیے‘ حاکم کو درج ذیل قواعد و ضوابط کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔

۱- پسند و ناپسند کا معیار : جب کوئی مقدمہ اور معاملہ حاکم کے رُوبرو پیش کیا جائے تو وہ یہ سمجھے کہ وہ رعایا میں سے ایک فرد ہے‘ حاکم کوئی اور شخص ہے ۔پھر وہ اندازہ کرے کہ اسے رعیّت کی حیثیت سے کون سی چیز پسند ہے اور کون سی ناپسند؟ ظاہر ہے اس قاعدے پر عمل کرتے ہوئے حاکم جو اپنے لیے پسند کرے گاوہی رعایا کے لیے پسند کرے گا لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ آدابِ حکمرانی میں خیانت کا مرتکب گردانا جائے گا۔ اس کی تائید کے لیے امام غزالی ؒنے ایک حدیث مبارکہ نقل فرمائی ہے:

غزوئہ بدر کے دن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلّم سایے میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپؐ کے اصحاب دھوپ میں تھے۔ عین اس وقت جبریل ؑ آئے اور کہا:— ’’ آپؐ سایے میں ہیں اور آپؐ کے اصحاب دھوپ میں ہیں؟‘‘ حضرت جبریل ؑنے فرمایا: — ’’جس کسی کو دوزخ سے نجات اور جنت کے حصول کی خواہش ہو اسے چاہیے کہ لا الٰہ الا اللہ پڑھ کر موت کا استقبال کرے‘ اور جو چیز وہ اپنے لیے پسند نہیں کرتا وہ کسی بھی مسلمان کے لیے پسند نہ کرے‘‘۔

۲- رعایا کی حاجت روائی ‘ ترجیح اوّل : حاکمِ وقت کے خصائل حسنہ میں یہ بات بھی شامل رہنی چاہیے کہ وہ اپنے مسائل اور مصائب کے حل کے لیے سائلین اور درخواست گزاروں کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھے‘ اظہارِ نفرت نہ کرے اور نہ بے زاری ہی کا تاثر دے بلکہ اسے یہ فکر دامن گیر رہے کہ مبادا کسی ضرورت مند سائل کی حاجت روائی سے قاصر تو نہیں رہا۔ جب تک تمام امور سلطنت میں مشغول ہو‘ اسے نفلی عبادت کی بھی خواہش پیدا نہ ہو کیونکہ رعایا کی حاجت روائی کو نفلی نماز پر فضیلت ہے۔

اس سلسلے میںایک حکایت درج فرمائی کہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ؒعوام کے مسائل میں اس قدر مصروف رہے کہ نماز ظہر کا وقت آپہنچا اور آپ تھک کر چور ہو رہے تھے۔ چنانچہ اُٹھ کرگھر چلے آئے کہ گھڑی بھر آرام کرلیں۔ یہ کیفیت دیکھ کر ان کے بیٹے نے کہا: آپ کس بات پر مطمئن ہو گئے؟ اگر ابھی آپ کو موت کا بلاوا آجائے اور باہر کوئی حاجت مند انصاف کے انتظار میں کھڑا ہو تو کیا آپ قصوروار نہ ٹھیریں گے؟— فرمایا: ہاں بیٹا! تم سچ کہتے ہو۔ یہ کہہ کر اُٹھ بیٹھے اور فوراً باہر چل دیے۔

۳- قناعت و صبر بہ طور شعار: آدابِ حکمرانی میں یہ شامل ہے کہ حاکمِ وقت اپنے آپ کو نفسانی خواہشات میں مشغول نہ کرے‘ عمدہ پوشاک اور لذیذکھانے کا عادی نہ بن بیٹھے بلکہ قناعت و صبر کو اپنا شعار بنائے۔ کیونکہ صبروقناعت کے بغیر عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔

اس سلسلے میں ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے جب حضرت سلمان فارسی ؓ سے دریافت کیا کہ میری کون سی بات ہے جو آپ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کے ہاں ایک وقت میں دو‘ دو سالن پکتے ہیں اور آپ کے پاس دو پیراہن ہیں جن میں سے آپ ایک دن کو اور ایک رات کو پہنتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اس کے علاوہ بھی کچھ سنا؟ کہا: — نہیں‘ اور تو کچھ نہیں سنا۔ فرمایا: جن دو چیزوں کے بارے میں آپ نے شکایت کی ہے وہ بالکل غلط ہیں۔

۴- درشتی کے بجائے نرمی: عادل حکمران کے لیے ضروری ہے کہ وہ نرمی اختیار کرے اور ممکنہ حد تک درشتی سے اجتناب کرے۔

سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلّم کا ارشاد گرامی ہے کہ جو حکمران رعایا کے ساتھ نرمی کرے گا اس کے ساتھ قیامت کے دن نرمی برتی جائے گی۔ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلّم نے یوں دعا فرمائی کہ: ’’خدایا! جو والی اور حاکم اپنی رعایا پر رحم کرتا ہے تو قیامت کے روزاس پر رحم فرما اور جو حاکم سختی کرتا ہے اس پر سختی کر!‘‘ اور فرمایا:عطاے حکومت اسی شخص کے لیے نعمت و برکت ہے جو اسے بہ طریق احسن نبھا سکے اور اس کا صحیح طور پر حق ادا کر سکے ورنہ ایسے شخص کے حق میں تو یہ ایک بری چیز ہے جو اس کا حق ادا کرنے سے قاصر رہے‘‘۔

۵- خوشامد پسندی سے اجتناب:حکمران کی بھرپور کوشش ہونی چاہیے کہ اس کی تمام رعایا اس سے خوش رہے جیسے کہ شریعت مطہرہ کا تقاضا ہے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کا ارشاد ہے کہ ’’اے لوگو! بہترین حاکم وہ ہے جو تمھیں عزیز رکھے اور تم اسے عزیز رکھو۔ اور بدترین وہ ہے جو تمھارا دشمن ہو اورتمھیں اس سے دشمنی ہو اور تمھاری طرف سے ہمیشہ اس پر لعنت و ملامت ہوتی رہے اور اس کی طرف سے تم پر!‘‘

اسی پانچویں ضابطے کے ضمن میں حاکم کے لیے مزید شرط یہ ہے کہ وہ خوشامد پسند نہ ہو‘ یعنی اگر ہرآنے والا اس کی تعریف ہی کرتا ہے تو یہ نہ سمجھے کہ ہر کوئی واقعی اس سے خوش ہے۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض جھوٹے خوشامدی ہوں یا سب خوف کے مارے اس کی تعریف کر رہے ہوں۔ حاکم کے لیے ضروری ہے کہ وہ قابل اعتماد لوگوں کو مقرر کرے اور صحیح صورتِ احوال معلوم کرنے کا اہتمام کرے کیونکہ اپنے عیوب اور حماقتوں کے بارے میں حقیقت حال تو دوسروں ہی سے معلوم ہو سکتی ہے۔

۶- خدا کی خوشنودی کو مقدم رکھنا: حاکم کے لیے‘ اس شرط پر کاربند رہنا ضروری ہے کہ وہ کسی ایسے فرد‘ جماعت یا حکومت کی رضامندی کا جویا نہ ہو جو شریعت کی مخالفت سے رضامند ہو سکتا ہو۔ کیونکہ ایسے افراد کی مخالفت اور ناراضی سے حاکم عادل کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔

اس امر کی تائید میں امام غزالی ؒنے حضرت عمرؓ کا قول نقل فرمایا ہے کہ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ’’میں ہر صبح جب بیدار ہوتا ہوں تو آدھی مخلوق کو اپنے سے ناخوش پاتا ہوں اور یہ ہے بھی ناگزیر۔ کیونکہ جو کوئی میرے انصاف سے سزا کا مستحق ٹھیر گیا وہ مجھ سے ناخوش ہی ہوگا۔ میں دو دشمنوں کے مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت فریقین کو خوش کرنے سے تو رہا!اور سخت جاہل ہے وہ جو لوگوں کی رضامندی حاصل کرنے کی خاطر اللہ تعالیٰ کی رضا کو پس پشت ڈال دے۔ایک اور واقعے کا ذکر کرتے ہوئے امام غزالی ؒ اس امر کی تائید فرماتے ہیں کہ حضرت امیرمعاویہؓ نے حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں بذریعہ خط درخواست کی کہ مجھے کوئی مختصر سی نصیحت فرمایئے۔ حضرت عائشہ ؓ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے سنا ہے کہ جو حکمران لوگوں کی خوشنودی کو بالاے طاق رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا متلاشی ہوتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاتا ہے اور لوگوں کو بھی اس سے راضی کر دیتا ہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے عوض لوگوں کی رضا کا طالب ہوتا ہے‘ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور لوگوں کو بھی ناخوش و ناراض ہی رکھتا ہے۔

۷- حکمرانی ‘ ایک کٹھن فریضہ : عادل حاکم کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ فرماں روائی اور حکمرانی بڑا کٹھن اور صبرآزما کام ہے‘ اور مخلوق خدا کی خدمت اور حاجت روائی کوئی معمولی چیز اور مذاق نہیں۔ جو حاکم اپنی ذمہ داری کا حق ادا کر سکے‘ اس کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس مقام بلند پر پہنچا دیا جاتا ہے کہ اس کے بعد کوئی اور سعادت ہو ہی نہیں سکتی‘ اور اگر اس حق کی ادایگی میں کوئی تقصیر یا غفلت ہو جائے تو وہ حاکم ایسی شقاوت میں مبتلا کر دیا جاتا ہے کہ کفر کے بعد اس سے بڑھ کر کوئی بدبختی نہیں۔

امام غزالی ؒنے اس ضمن میں ایک حدیث مبارکہ نقل فرمائی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ میں آکرغلاف کعبہ کو ہاتھ میںتھام لیا۔ اس وقت قریش کے کچھ لوگ اندر بیٹھے ہوئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: امام اور سلاطین قریش میں سے ہوں گے لیکن اس وقت تک جب تک وہ تین امور پر کاربندرہیں گے:

الف – جب ان سے رحمت طلب کی جائے تو وہ رحمت سے کام لیں۔
ب- جب ان سے انصاف طلب کیا جائے تو انصاف دینے میں بخل سے کام نہ لیں۔

ج- جو کچھ کہیں اسے پورا کریں۔ کیونکہ جو کوئی ایسانہیں کرتا اس پر خدا‘ فرشتوں اور تمام خلائق کی لعنت ہوتی ہے۔ اس کے فرض قبول ہوتے ہیں نہ سنت!

اس سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کے ارشادات گرامی بھی امام غزالی ؒ نے نقل فرمائے ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو مسلمانوں پر حکمرانی بخشی جائے اور وہ انھیں اپنے بچوں کی طرح نہ رکھے‘ تو اس سے کہہ دو کہ جائو دوزخ میں اپنا ٹھکانہ ڈھونڈ لو‘ اور فرمایا: میری اُمت میں دو طرح کے شخص ہوں گے جو میری شفاعت سے محروم رہیں گے۔ ایک ‘ظالم حکمران اور دوسرے‘ وہ بدعتی جو دین میں غلو کرتے کرتے حد سے گزر جائیں‘ اور فرمایا کہ قیامت کے روز سب سے سخت عذاب ظالم بادشاہوں کو دیا جائے گا۔

۸- علماے حق سے رہنمائی : حکمران کو ہمیشہ علماے حق کی ملاقات کا شوقین رہنا چاہیے کہ ان کے پندونصائح سے وہ بہرہ مند ہوتا رہے‘ اور علماے سوء اور حریص علما سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ اس حاکم کی بے جا تعریف کریں گے۔ اس کی رضا کے لیے خوشامد کریں گے اور حیلوں بہانوں سے وہ اس سے ناجائز فائدہ اُٹھائیں گے۔

علمائے حق کی تعریف یہ ہے کہ جنھیں طمع و لالچ کی ہوا بھی نہ لگی ہو اور وہ حاکم کو ہمیشہ عدل و انصاف پر کاربند رہنے کی ترغیب دیتے رہیں۔ اس سلسلے میں خلیفہ ہارون الرشید کا ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ خلیفہ نے حضرت شفیق بلخی ؒسے کہا:مجھے کچھ نصیحت فرمایئے۔ آپ نے فرمایا: تو ایک چشمہ ہے اور تیرے مقرر کردہ عامل اس دُنیا میں نہروں اور دریائوں کی مانند ہیں۔ یاد رکھ! اگر چشمہ صاف رہے گا تو دریائوں اور نہروں کی تاریکی نقصان دہ نہیں لیکن اگر چشمہ ہی تاریک ہو تو نہروں کی روشنی اور صفائی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا‘‘۔

اس سلسلے میں امام غزالی ؒ نے ایک اور حکایت بیان فرمائی‘ جس میں حاکمِ وقت کی دین پسندی اور علماے حق سے تعلق خاطر کا ذکر ہے۔خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ؒ نے ایک مرتبہ محمد بن کعبؒ سے دریافت کیا کہ عدل کسے کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: عدل یہ ہے کہ جو مسلمان تم سے چھوٹا ہو اس کے ساتھ باپ کی طرح شفقت کرو‘ اور جو تم سے بڑا ہو اُس کے ساتھ بیٹوں کی طرح پیش آئو‘ اور جو تمھارا ہم عمر ہو‘ اسے بھائی سمجھو۔ ہر کسی کو سزا اُس کے جرم کے مطابق‘ اتنی ہی دیا کرو جو اُس کی قوتِ برداشت کے مطابق ہو‘ اور غصے سے بے قابو ہو کر کسی کو تازیانہ نہ لگائو ورنہ تمھارا مقام دوزخ ہوگا۔

۹- انتظامیہ کو ظلم سے روکنا: حکمران کو صرف اسی بات پر قناعت نہ کر لینا چاہیے کہ وہ ظلم سے کنارہ کش ہو گیا ہے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ اپنے مقرر کردہ عمل داروں‘ افسروں اور کارندوں کو مہذب اور شائستہ بنائے اور ظلم کرنے کی اجازت نہ دے کیونکہ ان کے اعمال کی بھی پرسش اس سے کی جائے گی۔حضرت عمرؓ نے اپنے عامل حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کو ایک مکتوب میں لکھا کہ ’’انتہائی نیک بخت عمل دار وہی ہے جو رعایا کے ساتھ نیک بختی کا مظاہرہ کرے اور رعایا اسے نیک بخت کہے‘ اور بدبخت ترین عامل وہ ہے کہ رعایا جس کے ساتھ بدبخت ہو۔ خبردار! کبھی بھول کر بھی بے جا فراخ دلی سے کام نہ لینا۔ کیونکہ تیرے ماتحت افسر بھی ویسا ہی رویہ اختیار کریں گے‘‘۔

آفتابِ عدل کا ظہور پہلے تو حاکم عادل کے اپنے سینے میں ہوتاہے اور پھراس کا نوراس کے اہل خانہ اور خواص میں سرایت کرتا ہے۔ تب اس کی شعاعیں عام رعایا تک پہنچتی ہیں اور جو شخص آفتاب کی عدم موجودگی میں شعاعِ آفتاب کا اُمیدوار ہو وہ ایسی چیز کا متلاشی ہے جس کا حصول ناممکن اور محال ہے۔

۱۰- تکبّر کے بجاے بردباری: والی و حاکم پر تکبّر کا غلبہ ہرگز نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ تکبّرہی آدمی کو غصّے سے مغلوب کر دیتا ہے اور انتقام کی طرف بلاتا ہے اور غصّہ عقل کا دشمن ہوتا ہے۔

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ جن لوگوں نے بردباری کو شیوہ بنایا انھوں نے انبیا‘ اولیا اور صالحین کی سی ناموری حاصل کی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوئے۔ اس کے برعکس جس نے غیظ وغضب کو اپنا شعار بنایا اسے دنیا نے ہمیشہ درندہ صفت احمقوں کے زمرے میں شمار کیا۔مشہور واقعہ ہے کہ ایک شخص کی پہلوانی کا ذکر کرتے ہوئے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ یارسولؐ اللہ! فلاں آدمی زبردست طاقت و قوت کا مالک ہے اور اس کی مردانگی کا جواب نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کیسے؟ عرض کیا کہ جس سے بھی وہ کشتی لڑتا ہے اسے چاروں شانے چت مار گراتا ہے۔ فرمایا: یہ تو کوئی خاص بات نہیں۔ کیونکہ قوت ومردانگی تو یہ ہے کہ انسان اپنے غصّے پر غالب آجائے نہ یہ کہ کسی کو مار گرائے— اور فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں کہ جسے میسّرآجائیں اس کا ایمان مکمل ہو جاتا ہے۔ ایک یہ کہ غصّہ آنے پر بھی باطل کا قصد نہ کرے۔ دوم یہ کہ خوشی و مسّرت میں بھی خدا کو نہ بھولے۔ سوم یہ کہ قدرت رکھنے کے باوجود اپنے حق سے زیادہ نہ لے۔

ایک مقام پر ہے کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: مجھے کوئی ایسا کام بتا دیجیے کہ اس کی بدولت جنت میں داخل ہو جائوں۔ فرمایا: ’’غصّہ چھوڑ دو تو جنت تمھاری ہے‘‘۔

یہ تمام احادیث ‘ حکایات اور اقوال حکمرانوں کی اصلاح کے لیے کافی ہیں بشرطیکہ ایمان کا ایک شمّہ بھی ان کے دل میں باقی ہو۔

حصہ