ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن کا مشاعرہ

124

ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن ایک سماجی تنظیم ہے جو خدمتِ خلق میں کراچی سے کشمور تک مصروف عمل ہے۔ اس کے روح رواں مظہر ہانی شاعر بھی ہیں جو کہ تواتر کے ساتھ مشاعرے کرا رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ریڑھی میاں گوٹھ میں اختر سعیدی کی صدارت میں رشید اثر کی یاد میں مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں انورانصاری مہمان خضوصی تھی جب کہ محمد علی گوہر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ سعید احمد نے تلاوتِ کلام کی سعادت حاصل کی شمیم بانو نے نعت رسولؐ پیش کی۔ مظہر ہانی نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ ان کا ادارہ علم دوست ادارہ ہے جو مرحوم قلم کاروں کے لیے تعزیتی ریفرنس ترتیب دیتا ہے۔ آج ہم معروف شاعر رشید اثر کی یاد میں مشاعرہ کرا رہے ہیں۔ رشید اثر ایک قادرالکلام شعر تھے ان کے دو شعری مجموعے ہیں جو اردو ادب کے سرمائے کا حصہ ہیں۔ وہ زندگی بھر ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۱‘ وہ سچائی کے علمبردار تھے‘ ان کی شاعری میں غم جاناں کے ساتھ ساتھ غمِ دنیا بھی نظر آتا ہے انہوں نے سہل ممتنع میں اشعار کہے تاکہ ابلاغ میں آسانی رہے۔ تاہم ان کے یہاں بڑی بحریں بھی موجود ہیں۔ آج وہ ہم میں موجود نہیں اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ اختر سعیدی نے خطبۂ صدارت میں کہا کہ آج کی تقریب اسکول میں ہو رہی ہے جس میں اسکول کا اسٹاف اور طلبہ و طالبات شریک ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ادب کے پروگرام ہونا قابل ستائش ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں اب مشاعرے اور بیت بازی کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے اس کے علاوہ اسکولوں سے لائبریری سسٹم بھی ختم ہو چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رشید اثر ایک سینئر استاد شاعر تھے‘ ان کی شاعری زندگی سے مربوط تھی۔ وہ غزل کے روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ جدید لب و لہجے کے شاعر تھے۔ وہ زندگی کے مختلف روّیوں سے گزرے تھے جن کا اظہار ان کی شاعری میں موجود ہے۔ ہم ان کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ انور انصاری نے کہا کہ اچھی قوم اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہے آج ہم رشید اثر کے لیے جمع ہوئے ہیں جن کا انتقال ہو چکا ہے لیکن وہ اپنی شاعری کے باعث ہمارے دلوں میں زندہ ہیں‘ ان کے اشعار حالتِ سفر میں ہیں ان کی شاعری میں جھوٹ اور غلو نہیں ہے بلکہ وہ سچائی کے سفیر تھے انہوں نے حقائق بیان کیے‘ زندگی کے کرب اور مسائل ان کا پسندیدہ موضوع تھا وہ چاہتے تھے کہ ہر شخص سکون و آرام سے زندگی بسر کرے وہ استحصالی قوتوں سے نبرد آزما تھے ان کی وفات سے ہم ایک کہنہ مشق شاعر سے محروم ہو گئے ہیں۔ اسکول کی پرنسپل ارج نے کہا کہ ان کے اسکول میں غیر درسی سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ تعلیمی نصاب کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیاں طلبہ و طالبات کو سنوارتی ہیں۔ مشاعرے میں اختر سعیدی‘ انور انصاری‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ مظہر ہانی‘ محمد علی گوہر‘ یوسف چشتی‘ افضل ہزاروی‘ تنویر سخن اور کامران صدیقی نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

حصہ