درازی عمر اور صحت

417

بڑھاپے کو دور رکھنے کیلئے چند کارآمد مشورے

’’ادھیڑ عمری‘‘ اور ’’بڑھاپا‘‘ دو ایسے الفاظ ہیں جن سے ہر انسان خوف زدہ نظر آتا ہے۔ یہ احساس بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے کہ اب میں جوان نہیں رہا۔ پہلے سا طاقت ور اور صحت مند نہیں رہا۔ میرے سر کے بال گرتے جا رہے ہیں اور ان میں سفیدی بھر رہی ہے‘ چہرے اور ہاتھوں پیروں پر جھرّیاں نمودار ہو رہی ہیں‘ بینائی کم ہو رہی ہے اور ذرا سا کام کرنے سے تھکن آ لیتی ہے۔

بڑھاپے سے انسان کا خائف ہونا بالکل فطری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں اب تک جتنے انسان آئے ہیں وہ سب بچپن‘ جوانی اور بڑھاپے کے تدریجی عمل سے گزرے ہیں۔ الّایہ کہ کسی کی زندگی کا چراغ اس کے بچپن یا جوانی میں موت کے بے رحم ہاتھوں سے گُل کر دیا ہو‘ جتنے انسانوں کو دنیا میں آنا ہے انہیں بھی اس تدریجی عمل سے گزرنا ہے‘ یہ قانون فطرت کے عین مطابق ہے‘ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’پیرانہ سالی‘‘ کوئی مرض نہیں بلکہ یہ ایک فطری عمل ہے جس کی ابتدا شکم مادر سے ہی ہو جاتی ہے۔ بچے کا جسم دھیرے دھیرے بڑھنا شروع ہوتا ہے اس کا جسم جن خلیوں سے بنا ہے ان میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی رہتی ہے اور ان کی جگہ نئے خلیے بنتے رہتے ہیں بچہ بڑا ہو جاتا ہے‘ لڑکپن اور پھر جوانی کے دور میں قدم رکھتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ ادھیڑ عمری کی طرف بڑھتا ہے اور ایک غیر محسوس طریقے سے اس پر بڑھاپا طاری ہو جاتا ہے۔ یہ ایک لازمی عمل ہے لیکن بڑھاپے کو کب آنا چاہیے؟ یہ سوال ذرا بحث طلب ہے۔ یہ چالیس سال کی عمر میں بھی آپ کی ذات تک دبے پائوں پہنچ جاتا ہے۔ پچاس سال کی عمر میں بھی آتا ہے اور بعض ساٹھ سالہ بوڑھے تو کسی زاویے سے بوڑھے کہلائے ہی نہیں جاسکتے۔

دراصل بڑھاپے کی آمد کا انحصار جسم کے برتائو اور ذہن کے احساس پر ہے گو کہ آج تک یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکا کہ انسان کی طبعی عمر کیا ہے اور کس عمر میں پہنچ کر اگر وہ ہم سے جدا ہو تو اسے طبعی موت کہا جاسکے گا۔ لیکن ہمارے معاشرے میں عام طور پر پچاس سال کی عمر کو بڑھاپے کی آمد سمجھا جاتا ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بڑھاپا بہر طور ہر اس انسان کو جھیلنا ہے جو بڑھاپے کی عمر تک زندہ رہے لیکن بہت سے ایسے طریقے ہیں جن پر عمل کرکے انسان بڑھاپے کو خاصے عرصے تک کے لیے خود سے دور رکھ سکتا ہے یا کم از کم بڑھاپے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فطری کمزوریوں کو خود پر ہاوی یا اثر انداز ہونے سے کسی نہ کسی حد تک روک سکتا ہے۔

دنیا بھر کے معالجین اور سائنس دان حضرات انسان کی درازیٔ عمر کے لیے کوشاں ہیں اور اس ضمن میں رات دن تحقیق و تجربات میں مصروف ہیں ہم ان کوششوں کا ایک مختصر جائزہ پیش کرنے کے بعد بتائیں گے کہ وہ کون سے طریقے ہیں جن کو اختیار کرکے دنیا میں بہت سے لوگوں نے لمبی عمر کے ساتھ ساتھ اچھی صحت پائی۔

دنیا بھر کے معالجین اور سائنس دان حضرات انسان کی درازیٔ عمر کے لیے کوشاں ہیں اور اس ضمن میں رات دن تحقیق و تجربات میں مصروف ہیں ہم ان کوششوں کا ایک مختصر جائزہ پیش کرنے کے بعد بتائیں گے کہ وہ کون سے طریقے ہیں جن کو اختیار کرکے دنیا میں بہت سے لوگوں نے لمبی عمر کے ساتھ ساتھ اچھی صحت پائی۔

مشہور سائنس دان ڈاکٹر فلورنس نے انسان کی طبعی عمر ایک سو چالیس سال بیان کی ہے‘ ان کا خیال ہے کہ دودھ دینے والے تمام جان دار اپنی جسمانی تکمیل کی مدت (یعنی جتنے عرصے میں ان کا جسم مکمل طور پر بڑھتا ہے) سے سات گنا عرصے تک زندہ رہتے ہیں اور انسان کا جسم چونکہ بیس سال میں اپنی نشوونما مکمل کرتا ہے اس لیے اسے ایک سو چالیس سال تک زندہ رہنا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ جوانی میں امراض بھی قریب نہیں آتے لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ جسم کی قوتِ مدافعت کمزور ہوتی جاتی ہے اور انسان امراض کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ نتیجتاً امراض اس پر حاوی آجاتے ہیں اور جسم کو کمزور کر سکتے ہیں اس لیے ہمیں موت کے خلاف نہیں بلکہ بڑھاپے کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر فلورنس یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے جسم کے خلیات کو چند غدود سے رطوبت ملتی ہے جو جوانی‘ قوت اور شباب کو قائم رکھتی ہے لیکن عمر کی زیادتی کے ساتھ اس رطوبت میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے جس کی وجہ سے بڑھاپا ظاہر ہونے لگتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس ضمن میں بارہ سال کی عمر کے مینڈھوں پر تجربات کیے۔ (مینڈھے کی طبعی عمر 14 سال ہوتی ہے) یہ مینڈھے کمزور ہو کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے تھے اور ان کے دانت گر چکے تھے۔ ڈاکٹر فلورنس نے آپریشن کے ذریعے جوان مینڈھوں کے غدود ان بوڑھے مینڈھوں کو لگا دیے۔ نتیجتاً ان ’’بوڑھوں‘‘ کی صحت بہتر ہونے لگی۔ ان کا وزن بڑھ گیا اور وہ صاحبِ اولاد بھی ہوئے اور بیس سال کی عمر ہونے پر بھی زندہ رہے۔ ایک اور سائنس دان ڈاکٹر چارلس کے خیال میں انسانی عمر کو صدیوں تک بڑھایا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس کی جسمانی نشوونما میں کمی نہ ہونے دی جائے۔ دوسری جانب بعض ماہرین کا خیال ہے کہ انسانی عمر میں ایک دن کا بھی اضافہ کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔

عمر کے ساتھ ساتھ جسم میں جو ظاہری تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں آیئے ان پر بھی ایک نظر ڈالیں۔ ان میں سرفہرست بالوں کا سفید ہونا ہے۔ بالوں کے سفید ہونے کے لیے کوئی خاص وقت متعین نہیں کیا جاسکا تاہم عام طور پر چالیس سال کی عمر میں سر اور کنپٹیوں کے بال کہیں کہیں سے سفید ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ سے سفیدی پورے سر کو اپنے لپیٹ میں لے لیتی ہے ساتھ ہی ڈاڑھی اور مونچھوں کا نمبر آتا ہے۔ ابرو اور پلکیں بہت بعد میں جا کر سفید ہوتی ہیں۔

دوسری چیز جو بڑھاپے کی آمد کی چغلی کھاتی ہے وہ جِلد ہے عمر کے ساتھ ساتھ جلد پتلی ہونی لگتی ہے اور اس میں لچک کم ہو جاتی ہے اس وجہ سے اس کی سطح کے نیچے مختلف مادے جمع ہونے لگتے ہیں یہی مادے جلد میں جھریاں اور سلوٹیں پیدا کر دیتے ہیں۔

عمر بڑھنے کے ساتھ جسم پر بالوں کی کثرت ہو جاتی ہے مگر افسوس کہ یہ کثرت سر پر نہیں ہوتی اور سر کے بال رفتہ رفتہ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق 12 فیصد مردوں میں پچیس سال کی عمر سے بال گرنے کا آغاز ہو جاتا ہے وہ خوش نصیب مرد جو ساٹھ سال کی عمر میں اپنے بالوں سے محروم ہو جاتے ہیں ان کا تناسب محض پانچ فیصد ہے ورنہ مردوں کی اکثریت 35 اور 40 سال کی عمر کو پہنچنے پر ’’فارغ البالی‘‘ کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔

درازیٔ عمر کے ساتھ نظر بھی متاثر ہوتی ہے۔ آنکھ کا عدسہ عمر کے بڑھنے ساتھ ساتھ سخت ہوتا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ چالیس برس کی عمر کو پہنچنے پر مردوں کے قریب کی نظرکمزور ہو جاتی ہے۔ آنکھ کے سوراخ میں تنگی پیدا ہونے کے باعث آنکھ کے پردے تک کم روشنی پہنچ پاتی ہے اس لیے کم روشنی میں پڑھنا دشوار ہو جاتا ہے ساٹھ سال کی عمر میں یہ نوبت بھی آسکتی ہے کہ رات کو مشکل سے نظر آتا ہے اور روشنی سے اندھیرے میں جانے پر نظر دیر میں بحال ہوتی ہے۔

عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ قد میں بھی کمی واقع ہونے لگتی ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کے درمیان جو کری ہڈی کی ٹکیاں موجود ہوتی ہیں وہ گھس چکی ہوتی ہیں چنانچہ دو مہروں کا فاصلہ کم ہو جاتا ہے اور کسی شخص کا قد اگر تیس برس کی عمر میں پانچ فٹ دس انچ تھا تو ستر برس کی عمر میں یہ قد گھٹ کر پنچ فٹ سوا آٹھ انچ رہ جاتا ہے۔ درازیٔ عمر کے ساتھ جسم بھاری اور بدوضع ہوتا چلا جاتا ہے یہ بدوضعی ان لوگوں میں نمایاں ہوتی ہے جو پُرخور ہوں اور سست زندگی بسر کریں۔

اب ہم ان لوگوں کا ذکر کریں گے جنہوں نے طویل عمر پائی اور آخر عمر تک ان کی صحت قابل رشک رہی۔ بنگال سے تعلق رکھنے والے سرسریندر ناتھ بنرجی لکھتے ہیں کہ میری تندرستی کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ میں روزانہ مقررہ وقت پر ورزش کرتا ہوں‘ چہل قدمی میرے خیال میں بہترین ورزش ہے۔ خوراک کا خاص طور پر خیال رکھتا ہوں‘ ٹھیک وقت پر کھانا کھاتا ہوں۔ میری غذا زود ہضم ہوتی ہے‘ اپنے آرام کا خاص خیال رکھتا ہوں‘ رات جلد سوتا ہوں اور صبح جلد اٹھتا ہوں۔ تمباکو اور منشیات سے پرہیز کرتا ہوں‘ سونے سے قبل افکار و خیالات سے اپنے ذہن کو آزاد کر لیتا ہوں تاکہ روح اور دماغ کو تازگی ملے۔

امریکا کے سابق صدر ابراہام لنکن نے درازیٔ عمر کے جو اصول وضع کیے تھے وہ یہ ہیں:

-1 تشویش اور فکر میں مبتلا مت ہوں۔ -2 دن میں تین مرتبہ کھانا کھائیں‘ -3 روزانہ اطمینان قلب کے ساتھ دعا مانگیں‘ -4 ہر ایک سے خوش مزاجی کے ساتھ پیش آئیں‘ -5 ہاضمہ کا نظام درست رکھیں۔ -6 پابندی سے ورزش کریں۔

فرانس کے مشہور کیمیا دان شوال کی جب سو سالہ سالگرہ منائی گئی تو انہوں نے اپنی درازیٔ عمر اور اچھی صحت کی وجہ اس طرح بیان کی:

’’میں فکر و پریشانی کو قریب نہیں آنے دیتا‘ گوشت نہیں کھاتا‘ تمباکو‘ شراب‘ چائے اور قہوہ نہیں پیتا۔‘‘

کمبرلینڈ کے مشہور طبیب ڈاکٹر فلچر نے درازیٔ عمر کے لیے جو اصول بیان کیے وہ یہ ہیں:

-1 شراب اور تمباکو سے پرہیزکیا جائے‘ -2 صرف ناک سے سانس لی جائے‘ -3مزاج کے مطابق پوری نیند حاصل کی جائے‘ -4 اپنے کمرے کو بالکل بند نہ کیا جائے‘ -5 بغیر بھوک کے کھانا نہ کھایا جائے‘ -6 جو غذا راس آئے وہی خوب چبا کر کھائی جائے‘ -7 دانت صاف رکھے جائیں‘ -8 روزانہ غسل کیا جائے‘ -9 عام طور پر خوش رہنے کی کوشش کی جائے‘ -10 موسم کے لحاظ سے لباس کیا خیال رکھا جائے‘ -11 خود کو مصروف رکھا جائے‘ -12 پابندی سے ورزش کی جائے۔

ڈاکٹر اسٹیفن اسمتھ نے بھی سو سال زندگی پائی۔ وہ تمباکو اور شراب سے قطعی پرہیز کرتے تھے۔ قہوہ بہت کم استعمال کرتے تھے۔ وہ آنتوں کے مریض تھے‘ غذا میں دودھ اور روٹی کے سوا اور کوئی غذا استعمال نہیں کرتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ طویل عمر تک زندہ رہے‘ یہ انہی کا قول ہے کہ ’’اگر درازیٔ عمر حاصل کرنا چاہو تو کسی کہنہ مرض میں مبتلا ہو جائو تاکہ اس کی وجہ سے پرہیز کی زندگی پر مجبور ہو جائو۔‘‘

ایک عرب طبیب حارث بن کلدہ ثقفی جو طائف میں پیدا ہوئے تھے‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی زندہ تھے اور حضرت امیر معاویہ‘ کے دور تک بقید حیات رہے۔ ان کی طبی مہارت کا دور دور تک شہرہ تھا اور صحت سے متعلق ان کے اقوال زریں آج بھی نقل کیے جاتے ہیں۔ ایک بار حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے دریافت فرمایا کہ ’’طب کیا ہے؟‘‘ حارثؓ نے جواب دیا ’’ازم‘‘ یعنی پرہیز۔

حارث بن کلدہؓ کا ایک طویل مکالمہ ایران کے بادشاہ نوشیرواں عادل سے ہوا تھا۔ اس کا کچھ حصہ جو ہمارے مضمون کے موضوع سے تعلق رکھتا ہے یہاں نقل کیا جاتا ہے جس سے ظاہر ہوتا کہ حارث بن کلدہؓ کو اللہ نے کس قدر ذہانت اور فراست سے نوازا تھا۔

شاہ ایران نے حارثؓ سے پوچھا ’’مہلک مرض کیا ہے؟‘‘
’’پہلی غذا ہضم ہونے سے ُپہلے دوسری غذا کھا لینا۔‘‘ حارثؓ نے جواب دیا۔
بادشاہ نے پوچھا ’’حمام کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘
جواب ملا ’’حمام میں پیٹ بھر کر داخل ہونا ہرگز مناسب نہیں۔‘‘
بادشاہ کا اگلا سوال تھا ’’دوا کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘

طبیب نے جواب دیا ’’صحت کی حالت میں دوا سے بچو اور مرض کی حالت میں اس کے جڑ پکڑنے سے پہلے دوا شروع کر دو۔ چونکہ جسم کی حالت زمین کی طرح ہے جس کی اصلاح ہوتی رہے تو درست رہتی ہے ورنہ بنجر ہوجاتی ہے۔‘‘

بادشاہ نے پانی کے بارے میں جاننا چاہا تو حارثؓ نے جواب دیا ’’پانی جسم کی روح ہے اور صحت اس سے قائم ہے لیکن اگر پانی بے اندازہ پیا جائے یا سو کر اٹھنے کے فوراً بعد پیا جائے تو مضر ہے۔ پانی کی صفت یہ ہے کہ رقیق ہو۔ صاف و شفاف ہو‘ بڑے بڑے موجزن دریائوں کا ہو‘ جنگلوں کی کثافتیں اس میں شامل نہ ہوئی ہوں‘ ٹھنڈا ہو‘ بے ذائقہ‘ بے رنگ اور اس حد تک شفاف ہو کہ ہر چیز کا عکس مع رنگوں کے اس میں صاف نظر آجائے۔‘‘ (عالمی ادارۂ صحت نے پینے کے پانی کے جو اوصاف لکھے ہیں وہ ہوبہو یہی ہیں۔)

بادشاہ حارث بن کلدہؓ کے ان جوابات سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے طبیب کو بیٹھنے کے لیے کہا جو ان کے دربار میں بڑا اعزاز تھا اور ساتھ ہی بادشاہ نے حکم دیا کہ حارثؓ سے ہونے والی گفتگو کو ضبطِ تحریر میں لایا جائے۔

کلام پاک کی آیت مبارکہ ’’کھائو پیو اور زیادتی نہ کرو۔‘‘ میں صحت و تن درستی قائم رکھنے کے بارے میں وہ ہدایت دی گئی ہے جو کم سے کم الفاظ میں پوری صحت انسانی کے منشور کے مترادف ہے تمام محققین کی رائے کا ہم جائزہ لیں تو ان کی گفتگو ایک نکتہ پر مرکوز نظر آتی ہے اور وہ ہے اعتدال‘ کھانے پینے سونے اور ہر کام میں اعتدال بہت ضروری ہے اور اسی طرح صحت و تن درستی قائم رکھی جاسکتی ہے۔

حصہ