ننھے جاسوس

184

کمال اور جمال جڑواں بھائی تھے جو پورے محلے میں بہت ہی مشہور تھے۔ یہ دونوں جڑواں بھائی نہ صرف اپنی اچھی صفات کی وجہ سے پورے محلے کی آنکھ تا تارا تھے بلکہ اکثر اوقات وہ محلے کے شرارتی بچوں یا نادان بڑوں کی چھوٹی موٹی وارداتوں کا پتا لگانے میں بھی کامیاب ہو جاتے تھے۔ بس اسی واسطے وہ پورے محلے میں ننھے جاسوس کے خطاب سے پکارے جاتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو الگ الگ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ کوئی پڑھائی میں بہت تیز ہوتا ہے تو کوئی کھیل کے میدان کا بڑا کھلاڑی۔ اسی طرح کسی کا دل کسی کو پریشان کر کے خوش ہوتا ہے اور کوئی کسی کی پریشانی دور کرکے شاد رہتا ہے۔ اسی وجہ سے معاشرے میں جہاں اچھے لوگ اچھی اچھی باتیں کرکے خود بھی خوش رہتے ہیں وہیں ان کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی خوش رہتے ہیں۔

یہ جڑواں کمال اور جمال جو ننھے جاسوس کے نام سے مشہور تھے تیرہ یا چودہ سال کی عمر کے تھے۔ ایک تو اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ صلاحیت عطا کی تھی کہ جس چیز کو، خواہ وہ مصنوعات میں سے ہو یا مخلوقات میں سے، ایک بار دیکھ لیتے تو اس کی شکل و صورت ان کے دماغ میں اس طرح نقش ہو جاتی کہ پھر وہ اسے کہیں بھی دیکھ لیتے تو فوراً اسے پہچان جاتے تھے۔ یہی وہ خداداد صلاحیت تھی جو انھیں کھوج لگانے میں بڑی مدد دیتی تھی۔

محلے والوں میں یہ شکایت عام ہوتی جا رہی تھی کہ جب وہ مسجد جاتے ہیں تو دورانِ نماز ان کے جوتے یا چپلیں غائب ہو جاتی ہیں۔ یہ شکایت جس مسجد کے متعلق تھی وہ محلے کی مسجد ہی تھی۔ وہ خود بھی اسی مسجد میں نماز پڑھنے جایا کرتے تھے لیکن اپنے جوتے یا چپل مسجد کے اندر، جوتے رکھنے والے ریک میں رکھا کرتے تھے، اکثر لوگ یا تو جلدی کی وجہ سے یا کاہلی کے سبب جوتوں کو مسجد کے صحن سے باہر ہی چھوڑ دیا کرتے تھے۔ چوری ہونے کی سب واداتیں صحن سے باہر پڑے جوتے یا چپلوں کی سننے میں آنے لگیں تھیں۔ محلے کی اس چھوٹی سی مسجد کے دروازے کے باہر ہی ایک دکان تھی جو نماز کے اوقات میں بھی کھلی رہا کرتی تھی۔ لوگ دکان والے سے جب بھی یہ شکایت کرتے کہ ہمارے جوتے یا چپل کوئی اٹھا کر لے گیا ہے، کیا اس نے کسی آدمی کو ایسا کرتے دیکھا تو اس کا جواب انکار ہی میں آتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر جوتے کون اٹھا کر لے جاتا ہے۔ بس یہی سوچ کر اہلِ محلہ نے ان جڑواں بچوں سے مدد مانگ لی۔ بچوں نے کہا کہ کام اس وجہ سے مشکل ہے کہ اگر ہم نگرانی کریں گے تو ہماری جماعت نکل جائے گی۔ محلے والوں نے زور دیا تو انھوں نے چور کو تلاش کرنے کی حامی بھر لی۔ اس دوران دو تین اہل محلہ کے ساتھ جوتا چوری کی واردات ہوئی انھوں نے ان سے پوچھا کہ پھر آپ مسجد سے کیسے آئے۔ تین افراد میں سے ایک فرد نے تو یہ کہا کہ جب مجھے میرے جوتے نہیں ملے تو میں نہ جانے کس کے جوتے پہن کر آ گیا۔ دو نے کہا کہ ہم مسجد سے باہر نکلے تو ہماری ایک ایک چپل غائب تھی اس لیے ہم ایک چپل ہی پہن کر آ گئے۔ ننھے جاسوسوں نے پہلے والے سے سوال کیا کہ کیا آپ کی ایک چپل غائب ہوئی تھی یا دونوں تو جواب ملا کہ میری بھی ایک ہی چپل غائب ہوئی تھی لیکن میں ایک کا کیا کرتا۔ یہ سن کر دونوں ننھے جاسوسوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھ کر معنی خیز انداز میں گردن ہلائی۔ جو انکل کسی کی چپل پہن کر آئے تھے، بچوں نے کہا کہ آپ جس کی بھی چپل پہن کر آئے ہیں اس کی تو دونوں ہی چپل غائب ہو گئیں ہیں ناں۔ خیر ہم پھر بھی کوشش کریں گے کہ اس قسم کی وارداتیں کرنے والوں کا کھوج لگائیں۔ ان سے انویسٹی گیشن کے بعد وہ دونوں ایک جگہ بیٹھ کر ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرنے لگے۔ کمال نے جمال سے کہا کہ دیکھو کیا یہ بات عجیب نہیں کہ تینوں کی ایک ایک چپل ہی غائب ہوئی۔ چور کو بھلا صرف ایک چپل سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ دونوں چپل غائب ہونا ضروری نہیں کہ چوری ہی ہو۔ جیسے انکل کسی اور کی چپل پہن آئے ہیں اسی طرح کوئی بھی اپنی چپل غائب ہوجانے پر دوسروں کی چپل پہن کر جا سکتا ہے۔ خیر معاملہ صرف ایک چپل غائب ہونے کا ہے اس لیے یا تو کسی ایک ٹانگ والے انسان کو تلاش کرنا ہوگا یا پھر چور کی بجائے مذاق یا شرارتاً ایسا کرنے والے کو پکڑنا ہوگا۔ پورے محلے میں کوئی بھی ایک ٹانگ والا آج تک دیکھا نہیں گیا رہا شرارت کرنے والا تو وہ زیادہ امید یہی ہے کہ بچہ ہی ہوگا، کوئی بڑا شاید ہی ایسا مذاق یا شرارت کرے۔ جب دونوں کا اس رائے پر اتفاق ہو گیا تو یہ طے کیا گیا کہ ہم ایسا کرتے ہیں کہ کمال جماعت کی پہلی رکعت میں اس وقت شرکت کرے جب امام صاحب تلاوت ختم کرکے سجدے میں جانے والے ہوں اور جمال دعا میں شرکت کئے بغیر جلدی سے باہر آجایا کرے۔ اس طرح بعد میں شرکت اور پہلے آجانے کی وجہ سے نگرانی کا وقت بھی مل جائے گا اورنماز با جماعت بھی ہو جائے گی۔ ترکیب کامیاب رہی اور دوسرے ہی دن چور کا پتا چل گیا۔ جیسے ہی جمال نماز کے بعد کمال سے ملا تو کمال نے بتایا کہ چور پکڑا گیا اور امید ہے کہ اب تک چوری ہونے والے جوتے بھی بر آمد ہو جائیں۔ جمال نے حیرت سے کہا وہ کیسے۔ اس نے کہا کہ بس گھر سے ایک ڈنڈا اٹھاؤ اور میرے ساتھ چلو۔ ڈرنے کی ضرورت نہیں بس احتیاطاً ایک ڈنڈے کا ہونا ضروری ہے۔ گھر سے ہاکی اٹھانے کے بعد وہ گھر سے نکلے۔ راستے میں دوسرے بھائی نے لاکھ پوچھنا چاہا کہ آخر چور کا پتا تو بتاؤ لیکن کمال نے کہا کہ بس ساتھ چلے چلو۔ محلے سے ذرا سے فاصلے پر ایک کچی پہاڑی تھی۔ اس میں ایک چھوٹا سا غار بنا ہوا تھا۔ جب یہ دونوں بھائی اس میں داخل ہوئے تو انھوں نے وہاں درجن بھر جوتے اور چپل دیکھے جو ایک ہی پاؤں کے تھے۔ جمال سارا ماجرہ سمجھ چکا تھا۔ ایک تھیلے میں وہ سارے جوتے بھر کر محلے والوں کے پاس لے آئے اور کہا کہ جس جس کے بھی ہوں وہ انھیں لے جائیں۔ جب محلے والوں نے حیرانی کے ساتھ پوچھا کہ یہ سب کیا ہے تو وہ دونوں کہنے لگے کہ یہ چوری کسی انسان چور نے نہیں کی بلکہ پہاڑی سے آنے والے کتے کی شرارت ہے۔ ہم میں سے ایک نے مسجد سے باہر اسے جوتا منہ میں دبا کر لے جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ آپ کو تو علم ہی ہے کہ ہماری پہچان بہت تیز ہے۔ ہم اس کتے کو اکثر آتے جاتے دیکھا کرتے تھے۔ ہم نے وہ جگہ بھی دیکھی تھی جہاں یہ رہا کرتا تھا اس لیے ہم نے یہی اندازہ لگایا کہ اس سے پہلی وارداتیں بھی اسی نے کی ہونگی۔ لہٰذا ہم نے اس کی “بھٹ” کی تلاشی لی تو ہمارا شک یقین میں بدل گیا۔ سب محلے والے ان کے اس کارنامے پر بہت خوش ہوئے اور ان کی ذہانت کی داد دی۔

حصہ