عصر حاضر میں اسلام کو ایک قابل عمل نظام زندگی کے طور پر پیش کرنا ہوگا

406

پروفیسر خورشید احمدکا ایک اہم یادگار انٹریو
جماعت اسلامی میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے بعد علم و دانش کا ایک خلا پیدا ہوا جو تاحال موجود ہے۔ یوں تو تقسیم سے قبل ہی مولانا سید ابوالالحسن علی ندوی‘ مولانا منظور نعمانی اور مولانا جعفر شاہ پھلواری جیسے جید علما جماعت اسلامی سے علاحدگی اختیار کر چکے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد مشہور زمانہ ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں جماعت کی سیاست میں حصہ لینے یا نہ لینے کے مسئلے پر اختلاف رائے کے بعد شیخ الحدیث مولانا عبدالغفار حسن اور ڈاکٹر اسرار احمد اور کچھ عرصہ بعد مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی اپنی راہیں جدا کر لیں پھر بعد کے حالات میں وہ دانش ور اور اہل علم جو جماعت کے مقاصد سے مخلص اور ہمدرد تھے مثلاً سلیم احمد اور محمد صلاح الدین شہید جیسی شخصیات کو جن کے فکر و کردار کی پختگی اور بے نفسی پر کوئی دو رائے نہیں تھی‘ جماعت کے اندر فکر و نظر کی کشادگی کے فقدان نیز جماعت کی پالیسی کے تابع نہ ہونے کی بنا پر جماعت کے اخبار جسارت سے علاحدہ کر دیا گیا تھا۔ یوں علمی ادبی اور صحافتی حلقوں میں جماعت اپنے اثرات کے اعتبار سے سمٹتی سکڑتی چلی گئی۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت میں جو بچی کھچی شخصیات رہ گئیں ان میں خرم مراد اور پروفیسر خورشید احمد خصوصیت سے قابل ذکر ہیں‘ جنہوں نے فکر مودودی کی اشاعت و فروغ میں حصہ لے کر علم و دانش کی اس روایت کو آگے بڑھایا جو مولانا مرحوم کا نمایاں ترین امتیاز تھا۔ پروفیسر خورشید احمد یوں تو طویل مدت سے جماعت اسلامی کے نائب امیر ہیں لیکن انہوںنے ابتدا ہی سے اہل علم طبقے میں جماعت سے ہٹ کر بھی اپنی شخصیت کا ایک آزاد امیج بنایا۔

پروفیسر صاحب زمانۂ طالب علمی سے اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہو گئے تھے۔ اس زمانے میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے نہایت ذہین اور پڑھے لکھے طلبہ کا گروپ جمعیت سے منسلک تھا جن میں ڈاکٹر اسرار احمد‘ ڈاکٹر منظور احمد‘ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری اور دیگر۔

پروفیسر خورشید احمد بھی اسی کارواں مں شامل بلکہ آگے چل کر میر کارواں نبے کہ جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب کیے گئے۔ زمانۂ طالب علمی میں طلبہ کا یہ گروپ چونکہ انگریزی زبان پر قدرت رکھتا تھا‘ لہٰذا انگریزی کا ایک اخبار ’’اسٹوڈنٹس وائس‘‘ نکلا تو اس کے روح رواں پروفیسر صاحب ہی تھے۔ زبان‘ مواد اور پیش کش کے اعتبار سے یہ نہایت اعلیٰ معیار کا حامل تھا۔ کراچی یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے امتیازی نمبروں سے کرنے کے بعد آپ اسی شعبے میں لیکچرار تعینات ہوئے۔ اس زمانے میں پروفیسر صاحب نے ’’اسلامی نظریۂ حیات‘‘ نامی کتاب مرتب کی جو علمی اعتبار سے بلند پایہ اور طلبہ و اساتذہ کی نصابی ضرورتوں کو پورا کرنے والی کتاب تھی۔ اس کتاب کا شمار یونیورسٹی کے شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کی ان چند کتابوں میں ہوتا ہے جن کی آج بھی مانگ ہے۔ پروفیسر صاحب جماعت کے علمی رسالے ’’چراغ راہ‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ ان کے زمانۂ ادارت میں اس رسالے کا علمی معیار بلند رہا۔ علمی حلقوں میں اسے بہت پزیرائی ملی۔ پھر آپ پی ایچ ڈی کے لیے وظفیہ ملنے پر لندن چلے گئے اور وہیں کے ہو رہے۔ وہاں وہ دی اسلامک فائونڈیشن برطانیہ کے چیئرمین رہے۔

وطن واپسی پر انہوں نے ایک علمی و تحقیقی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ اسلام آباد کی بنیاد ڈالی۔ یہ ادارہ سرکاری پالیسیوں کے آزادانہ تجزیے اور تبادلۂ خیال کا ہے جس کی مجلسوںمیں ہر مکتبہ خیال کی شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے۔ ادارے کے تحت اہم قومی‘ ملی اور تعلیمی و تہذیبی امور پر معلومات افزا فکر انگیز کتابوں کی اشاعت ہوتی ہے۔ ’’اسلام اور مغرب‘‘ ایک رسالہ بھی چھپتا ہے جس میں مغربی صحافیوں اور دانش وروں کے اسلام اور مسلم دنیا سے متعلق مضامین کے تراجم پیش کیے جاتے ہیں۔ اس کے مدیر پروفیسر خورشید احمد کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر انیس احمد ہیں جو رفاہ یونیورسٹی‘ اسلام آباد کے وائس چانسلر اور ملک کے معروف دانش ور ہیں۔ نئی کتابوں پر تبصرے کا ایک منفرد اور وقیع مجلہ ’’نقطۂ نظر‘‘ ڈاکٹر سفیر اختر کی زیر ادارت مرتب ہوتا ہے۔ پروفیسر خورشید احمد مولانا مرحوم کے رسالے ’’ترجمان القرآن‘‘ کے (جو اب عالمی ترجمان القرآن کے نام سے نکلتا ہے) مدیر بھی ہیں۔ وہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیات‘ ڈپٹی چیئرمین منصوبہ بندی کمیشن (1978ء 1979)‘ سینیٹ آف پاکستان کے ممبر (1985ء۔ 1997ء) بھی رہے۔ عصرِ حاضر میں اسلامی فکر کو درپیش چیلنج کا جواب دینے اور اسلامی اداروں میں ربط و ارتباط پیدا کرنے کے ساتھ آپ نے اسلامی معاشیات کی جدید تعلیم و تدریس کی تشکیل میں اہم خدمات انجام دی ہیں جس پر 1982ء میں ملائشیا یونیورسٹی نے تعلیم کے مضمون میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ الخبرو یونیورسٹی برطانیہ نے 2003ء میں ڈاکٹر آف لٹریچر کی ڈگری عطا کی۔ انہیں پہلا اسلامی ترقیاتی ایوارڈ (1988ء) اور شاہ فیصل ایوارڈ (1990ء) ملنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ آپ 70 سے زائد کتابوں کے مولف و مصنف ہیںجن میں تذکرۂ زنداں (1965ء)‘ سوشلزم یا اسلام (1969ء)‘ پاکستان میں آئین کی تدوین اور جمہوریت کا مسئلہ (1972ء)‘ نظام تعلیم: نظریہ روایت‘ مسائل (1993ء)‘ امریکا: مسلم دنیا کی بے اطمینانی (2002)‘ اسلام ہے زندگی (دو جلدیں) قابل ذکر ہیں۔ آپ نے انگریزی میں بھی قابل قدر کتابیں تصنیف کی ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر جبری قبضے کے بعد پروفیسر صاحب کراچی تشریف لائے تو اسلامک ریسرچ اکیڈمی میں جس کے وہ سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں‘ ملاقات ہوئی۔ بات چیت تازہ سیاسی صورت حال سے شروع ہوئی اور پھر عالم اسلام اور مغرب کے تصادم تک جا پہنچی۔ پروفیسر صاحب لکھنے لکھانے کی طرح بولنے میں بھی رواں ہیں۔ جس سے ان کی وسعت مطالعہ اور کثرتِ علم کا اظہار ہوتا ہے سو مجھے زیادہ سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

…٭…
طاہر مسعود: پروفیسر صاحب 12 اگست کے بعد سے جو سیاسی منظر نامہ ابھرا ہے اور جس میں ایک نئی فوجی حکومت قائم ہوئی ہے تب سے لے کر اب تک قومی سطح پر جو معاملات رہے ہیں‘ اس میں آپ کے لیے اطمینان اور تشویش کے پہلو کیا کیا ہیں؟ ذرا اس بارے میں کچھ اظہار خیال فرمائیں۔

پروفیسر خورشید احمد: دیکھیے! اطمینان کے پہلو تو میرے نزدیک صرف دو ہیں۔ ایک یہ کہ بدقسمتی سے سیاسی قیادت نے اختیارات اور وسائل کا ناجائز استعمال کیا۔ اپنی ذات میں اقتدار کو مرکوز کرنا اور قومی اہمیت کے معاملات پر بیرونی مفادات کے آگے گھٹنے ٹیکنا۔ یہ وہ فیصلے تھے جس کے نتیجے میںملک کی آزادی‘ اس کا نظریاتی تشخص اور قومی سلامتی سب دائو پر لگ گئے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ایک بحران سے وقتی طور پر نکل گئے تھے۔ دوسری چیز جس پر میں اطمینان کا پہلو محسوس کرتا ہوں‘ یہ ہے کہ اس وقت ملک میں بدقسمتی سے فوج کے سوا کوئی ادارہ باقی نہیں رہا اور اگر کچھ امید اس ملک کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کی ہے تو وہ فوج کے ذریعے ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ خدانخواستہ اگر فوج ناکام ہوئی تو کوئی راستہ نہیں پھر عوامی انقلاب کا راستہ ہوگا اور وہ راستہ خونی راستہ ہے۔ اس سے بچ کر میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کریٹیکل اپرچونٹی ہے۔ یہ مثبت پہلو ہیں۔ منفی پہلو جو میں دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے سامنے جو قومی ایجنڈا ہے وہ میری نگاہ میں چار نکات مشتمل ہے۔ پہلا وہ تمام لوگ خواہ ان کا تعلق بیورو کریسی سے ہو‘ فوج سے ہو‘ ڈپلومیٹ سے ہو یا ججوں سے ہو یہ سب کے سب Abuse of power کے میجرم ہیں ان کے لیے احتساب کے مؤثر عمل کو شروع کر دینا کہ ایک آزاد اور مؤثر نظامِ احتساب وجود میں آجائے اور اپنا کام شروع کردے اور یہ اوپر (Top) سے شروع ہو‘ نیچے سے نہیں اوپر سے احتساب شروع ہو۔ یہ خودکار نظام ہو جو آگے بڑھے۔ دوسرے معیشت اس وقت بہت برے حال میں ہے اور اگر مزید قرضے لے کر ملک کو آکسیجن ٹینٹ میں آکسیجن دی گئی تو یہ مسئلے کا حل نہیں اور مفاد پرست عناصر بھی راستہ چاہتے ہیں خواہ ان کا مفاد ملک کے اندر ہو یا یا ملک کے باہر ہو۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ خود انحصاری کی ہنیاد پر معیشت کو ایک رخ پر ڈالنے کی کوشش کی جائے۔ گو اس سے سارے مسائل حل نہیں ہو جائیں گے لیکن ایک رخ پر ڈالنے کی کوشش کی جائے۔ تیسری چیز جو ہمیں فوری خطرہ ہے وہ خطرہ ہمیں بھارت سے ہے اور یہ جموں و کشمیر میں ہے اور انڈرو امریکن کوالی بریشن سیاس ریجن میں خطرہ ہے جس کی زد جہاد کشمیر پر بھی پڑ رہی ہے جس کی زد میں نیو کلیئر ڈیٹرنٹ بھی ہے۔ اس کے بارے میں ایک واضح مؤقف اختیار کیا جائے۔ چوتھی اور آخری چیز ایک ایسے انتخابی نظام کو وجود میں لانا جس کے نتیجے کے طور پر جس طرح ماضی میں ایک ہی قسم کی بدنام سیاسی قیادت ابھری وہ راستہ بن ہو سکے اور تبدیلی ٔ قیادت کا راستہ کھل سکے۔ میری نگاہ میں ہمارے ہاں جو نظام انتخاب رہا ہے اس نے Colonial legacy کو بڑھایا ہے اور عوام تک انتقالِ ا قتدار نہیں ہو سکا۔ آئینی طور پر تو ہو گیا ہے لیکن سیاسی اور عملی طور پر نہیں ہو سکا۔ وہ اسی وقت ہوگا جب ایک ایسا نظامِ انتخاب آئے جو جاگیردار‘ زمین دار‘ سرمایہ دار اور برادری جو قبائلی اور وڈیرہ شاہی کے عناصر ہیں‘ ان کے اثر سے آزاد ہو سکے۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ -1 الیکشن کمیشن خود مختار اور طاقت ور ہو‘ اس کی اپنی مشینری اور اپنی مالیات ہو‘ وہ کسی کا اثر قبول نہ کرے۔ -2 انتخاب کی فہرستیں صحیح ہوں حقیقت پر مبنی ہوں‘ بوگس ووٹنگ کا پلندہ نہ ہو۔ -3 شناختی کارڈ لازمی ہو‘ انتخاب کے لیے ایسا نظام وضع کیا جائے کہ پیسہ اہم نہ رہے بلکہ یہ انتخابی مشینری کی ذمہ داری ہو کہ وہ امیدواروں کو اس کو رٹنائز بھی کرے اور ان کو پروجیکٹ کرنے کا انتظام بھی کرے۔ ٹرانسپورٹ ایک بہت بڑا آئٹم ہے جس کی وجہ سے ووٹروں کو متاثر کیا جاتا ہے اس کے لیے کوئی ایسا راستہ اختیار کیا جائے کہ پبلک ٹرانسپورٹ فری ہو یا پولنگ اسٹیشن اتنے قریب ہوں کہ لوگ آسانی سے پہنچ سکیں اور پھر دستور میں آرٹیکل 62 جن چیزوں لازمی قرار دیتا ہے اور جس کے بارے میں عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ ان کو آپریشنلائز کیا جائے‘ اثاثوں کا اعلان کیا جائے اور ہر شخص کو اعتراض کرنے کا حق اور پبلک اجتماع کے اندر امیدواروں کو سامنا کرنے کا موقع دیا جائے‘ وہ دیکھیں وہ سامنا کر پاتے ہیں یا نہیں۔ جو دستور کے تقاضے ہیں ان کے بارے میں ان سے سوالات ہوں۔ دیکھیں وہ جواب دے سکتے ہیں یا نہیں اور آخری چیز یہ ہے کہ مکمل طور پر متناسب نمائندگی کے نظام کو لایا جائے یا کم از کم پچاس فیصد تاکہ سیاسی جماعتوں کی اہمیت بڑھے۔ بلاشبہ سیاسی جماعتوں میں انتخابات کو لازمی کیا جائے۔ ٹرانسپرنسی ہو‘ ان کے اکائونٹس کلیئر ہوں لیکن اس کے باوجود جب تک عوام یا سوسائٹی کا جو سیاسی زاویہ نظر ہے وہ پارلیمنٹ میں نافذ نہیں ہو پاتا جب کہ متناسب نمائندگی ایسا نہیں ہے کہ یہ خامیوںسے مبرا ہے لیکن اس کی خوبی یہ ہے کہ اس کے نتیجے کے طو پر ان لوگو ں کی چھینا چھپٹی ختم ہوگی اور عوام کے نقطہ ہائے نظر پارلیمنٹ کے اندر منعکس ہوں گے۔ یہ چار چیزیں موجودہ حکومت کرے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہے۔

طاہر مسعود: آپ نے بتایا کہ جمہوریت کس طرح صحیح سمتوں میں نافذ ہو سکتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی جمہوریت ہمارے ہاں آتی ہے ادارے بننے شروع ہوتے ہیں‘ کام شروع کرتے ہیں تو فوج کسی نہ کسی بہانے دوبارہ اقتدار پر قابض ہو جاتی ہے اور پھر سارے ادارے تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں تو یہ جو ایک مسئلہ ہے کہ گزشتہ 52 سال سے ہم ایک ہی دائرے کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں تو ہم اس دائرے سے کب نکل سکیں گے اور کب ایسی جمہوریت نافذ ہو سکے گی جو مستقل اور پائیدار ہو۔ ایسی صورت میں اس حکومت سے وہ توقعات وابستہ کرنا جس حکومت کی اپنی ہی کوئی Validity نہ ہو‘ کس حد تک درست ہوگا؟ پروفیسر خورشید احمد: دیکھیے میں Validity کے مسئلے میں تو نہیں جانا چاہتا کیوں کہ اس میں بڑا کنفیوژن ہے اور مختلف آرا ہیں اور میری نگاہ میں بھی انہیں Affalute Legitimacy حاصل نہیں ہے ایک فنکشنل Legitimacy حالات نے انہیںدے دی ہے اور Legal Legitimacy شاید جو کیس سپریم کورٹ میں ہے‘ اس کے نتیجے میں سامنے آسکے لیکن اگر سپریم کورٹ انہیں جائز قرار دے بھی دے تب بھی میری نگاہ میں کوئی مستقل چیز نہیں ہے اور نہ ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس طرح یہ دستور کو بدل دیں گے اور نیا نظام لے آئیں گے۔ اسے ایک عبوری نظام سمجھنا چاہیے لیکن میں آپ سے صاف کہوں گا کہ جہاں فوج میں بونا پارٹ ازم موجود رہا ہے اور خواہ وہ ایوب خان ہو‘ یحییٰ صاحب یا ضیا صاحب ہوں‘ ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں بونا پارٹ ازم کا مظاہرہ کیا اور موجودہ فوجی قیادت کو بھی اس سے مکمل Exclude نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاست دانوں نے ایسی فضا بنا دی ہے جس میں فوج کو یہ کام کرنے کا موقع ملا اور بہ حیثیت مجموعی لوگوں نے ردعمل میں فوج کو خوش آمدید کہا۔ جمہوریت ملک میں اس وقت جڑ پکڑے گی جب سیاست دان جمہوری رویہ اختیار کریں گے اور سبق سیکھیں گے میں کہا کرتا ہوں کہ Pakistani Democracy has been an experiment in the Democracy with out democrate تو Democrates کے بغیر ڈیمو کریسی نہیں آسکتی اور اسی لیے میں یہ کہتا ہوں کہ یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا کہ جو افراد پیران تسمہ پا بن کر اس ملک کی قیادت پر مسلط رہے اور زیادہ سے زیادہ پانچ سو خاندان جو ان باون سال میں کسی نام سے کسی بھی پارٹی یا کسی بھی چینل کے ذریعے سے مسلط رہے۔ اس ارسٹو کریسی سے نجات پائے بغیر آپ جمہوریت نہیں لا سکتے اور اس کے لیے راستہ انتخابی نظام کی تبدیلی ہے۔ میں پوری توقع رکھتا ہوں کہ انتخابی نظام اگر بدل جائے اور بہتر قیادت میسر آئے اور احتساب کا نظام ملک میں زندہ رہے تو پانچ دس سال میں جمہوریت کے لیے جڑیں پکڑنا ممکن ہوگا اور پھر برگ و بار وہ آہستہ آہستہ لا سکے گی اس لیے کہ چرچل نے جو کہا تھا‘ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ جمہوریت ایک بہت ہی کمزور اور خاص نظام ہے لیکن باقی ہر نظام سے بہتر ہے۔ اس پہلو سے اس کی تمام تر خرابیوں کے باوجود بھی جمہوریت کی طرف جانے کی کوشش کی جائے تو فوج بھی مداخلت نہیں کرسکتی اگر جِمہوری نظام ٹھیک چلایا جا رہا ہو عوام کی تائید آپ کو حاصل ہو‘ آپ منصفانہ نظام چلا رہے ہوں تو فوج کو قابو کرنا بھی اس وقت ممکن ہے اور مجھے یقین ہے کہ پاکستانی فوج میں ایسے عناصر موجود ہیںکہ جو اگر صحت مند حدود میں جمہوریت پروان چڑھے تو وہ فوج کو اپنے حدود میں رکھیں گے۔ باقی ہر ملک میں‘ ہر فوج میں ایڈونچررسٹ اور بانا پارٹسٹ ہوتے ہیں‘ ہم ان کو نظر انداز نہیں کرسکتے لیکن اگر نظام مضبوط ہو تو ان عناصر کو قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔

طاہر مسعود: جن لوگوں کو اس وقت حکومت میں لیا گیا ہے ان کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کا خمیر اس مٹی سے نہیں اٹھا ہے۔ اسی طرح فیڈرل شریعت کورٹ نے سود کے بارے میں جو فیصلہ دیا ہے اور اس کے بعد جو کمیشن بنا ہے اس میں بھی زیادہ تر ان ہی لوگوں کو لیا گیا ہے جو سودی نظامِ معیشت کے حامی ہیں۔ اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟

پروفیسر خورشید احمد: یہ تمام باتیں میری تشویش کا باعث ہیں‘ میں ان کا ناقد ہوں۔ سول چہرہ اس حکومت کا کوئی قابل قبول چہرہ نہیں ہے اور بیشتر افراد اس میں وہ بھی جو مغربی کلچر‘ بیرونی تہذیبی مفادات‘ انگلش میڈیم این جی او پروڈکٹ ہیں اور یہ کبھی جمہوریت ملک کو نہیں دے سکتے۔ اور یہ بڑی غلطی ہے فوجی حکمرانوں کی کہ یہ انہیں جو تاریخی موقع حاصل ہوا تھا عوام کے اعتماد جتینے کا تو انہیں اچھی امید دلانے کے بجائے انہوںنے مینگنیاں ڈال کر دودھ پیش کیا۔ سود والے معاملے میں آپ تو صرف اتنا کہہ رہے ہیں میری اطلاع یہ ہے کہ یونائیٹڈ بینک Review میں چلا گیا ہے اور بلاشبہ یونائیٹڈ بینک ایک سرکاری بینک ہے۔ اس کا صدر منسٹری فائنانس کے تحت ہے۔ یہ ساری چیزیں اضطراب کا باعث ہیں۔ اسی بنا پر ہم اس حکومت سے توقع نہیں رکھتے کہ یہ حکومت کوئی بڑی اصلاح ڈیلیور کرسکے گی۔ ہم اس حکومت سے بس اتنی توقع رکھتے ہیں کہ یہ تبدیلی کے پروسس کو شروع کر دے۔ اگر اس سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کرتے ہیں تو ان کے لیے بھی اس میں خیر نہیں ہے کیوںکہ جو فوج زیادہ عرصے تک سیاست میں رہے گی وہ پولیٹی سائز ہوگی۔ وہ فوج متنازع ہوگی۔ اس فوج کے بارے میں مایوسی اور ناکامی کا تاثر ابھرے گا اور جو فوج سیاست میں ڈیلیور نہ کرسکے خود دفاع کے بارے میں اس پر اعتماد نہیں رہے گا۔ یہ اپنے اعتماد کو بحال رکھیں اور اس کے لیے کم سے کم وقت میں اپنے فریضے کو انجام دیں اس لیے کہ کامیاب فوجی حکمراں وہ ہے جو کم سے کم مدت میں اپنی ذمے داری کو ادا کرکےExit Root کو Open رکھے اور جس نے Exit Rootکا دروازہ بند کیا اور لمبے عرصے تک قیام کیا وہ نہ ڈیلیور کرسکے گا اور نہ عزت سے رخصت ہو سکے گا۔ ایوب اور یحییٰ دونوں کے انجام سے سبق لینا چاہیے۔

طاہر مسعود: پروفیسر صاحب آپ ایک دانش ور بھی ہیں۔ اس حوالے سے کچھ سوالات میں حالات سے ہٹ کر کرنا چاہوںگا۔ آپ یہ فرمایئے کہ پچھلی صدی جو گزر گئی اس میں امت مسلمہ کے بڑے بڑے مسائل کیا تھے؟

پروفیسر خورشید احمد: دیکھیے تاریخ کو ماہ و سال سے مقید نہیں کیا جاسکتا۔ زمانے کی حیثیت ایک بہتے ہوئے دریا کی ہے جس میں نیا پانی برابر آتا رہے گا لیکن بند باندھ کر اس دریا کو نہیں پہچان سکتے۔اقبالنے صحیح کہا تھا:

زمانہ ایک حیات ایک کائنات بھی ایک ہے
دلیل کم نظری قصہ قدیم و جدید

بیسویں صدی کا جائزہ لیتے ہوئے زبانی حدود و قیود کو سامنے رکھنا ہوگا لیکن حقیقت یہ ہے کہ تہذیبوں کی تاریخ کو محض صدیوں اور سالوں کے پیمانے میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔ مسلم امت کے نقطہ نظر سے جب میں تاریخ کا جائزہ لیتا ہوں تو میں اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ نے تاریخ کو جس رخ پر ڈھالا میں اس میں ایک حدِفاصل کا قائل ہوں اور ختم نبوت سے مجھے یہ پیغام ملتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دور قیامت تک جاری رہے گا۔ اس میں نشیب و فراز ہوںگے اور ہوئے۔ مسلمانوں نے تاریخ کی بلندیوں کو چھوا ہے‘ سائنسی ترقی‘ فکری انقلاب‘ عالمی اثرات ان سب میں وہ بلندیوں تک پہنچے ہیں اور ان کے قدم لڑکھڑائے بھی ہیں۔ وہ اس گھڑ دوڑ میں گرے بھی ہیں‘ ان کی سلطنتیں تہہ و بالا ہوئیں‘ بغداد کی تباہی غرناطہ کا سقو ط بھی ہماری تاریخ ہے۔ اس طرح نشیب کے مخلتف پہلو ہیںجس طرح تاریخ کے مختلف فراز۔ اس لحاظ سے جب میں تاریخ کو دیکھا ہوں تو دو چیزیں مجھے بیسویں صدی کے آغاز پر محسوس ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ چودہویں صدی عیسوی سے جو یورپ میں ایک نئی بیداری شروع ہوئی تھی جو فکر کے اور ادب کے میدان میں نشاۃ الثانیہ‘ مذہب کے میدان میں اصلاح‘ سائنس کے میدان میں گیلیلیو اور نیوٹن کی ایجادات‘ سیاست کے میدان میں رومن امپائر کا ختم ہونا‘ معاشی اعتبار سے زرعی و صنعتی انقلاب اور پھر اسپین سے آغاز ہو کر پانچ عالمی طاقتوں کا ابھرتا اسپین‘ اٹلی‘ ڈچ‘ فرانس‘ یہ بڑے بڑے استعمار ابھرے نیز بیسویں صدی میں امریکا نے کروٹ لی اور وہ ایک بڑی طاقت کے طور پر سامنے آیا۔ انیسویں صدی میں ایک حیثیت سے مغربی تہذیب مغرب کی سائنس و ٹیکنالوجی دنیا بھر چھا گئی تھی یہی وجہ ہے کہ انیسویں صدی میں مغربی تہذیب کو یہ زعم تھا کہ اب کوئی دوسری قوت اس کو چیلنج نہیں کرسکتی اور جو مقام انہیں حاصل ہو گیا اس کو کس طرح زوال نہیں۔ ان کی رعونت اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ انگریزی میں کہا جاتا تھا کہ ساری دنیا کے سمندر کے پانیوں پر ان کی حکمرانی ہے۔ یہ مملکت اتنی وسیع ہو گئی کہ کہیں نہ کہیں سورج اس کے خطے پر روشن رہتا اور غروب نہیں ہوتا تھا۔ یہ بڑا غیر معمولی انقلاب تھا۔ سامراجی قوتیں اس سے پہلے بھی ابھریں لیکن تاریخ میں کوئی اور مثال ایسی نہیں تھی جو مغرب کے استعمار میں ملتی ہے کہ نہ صرف انہوں نے اپنی حکمرانی قائم کی‘ اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی بلکہ ایک مستقل اسٹرکچر ایسا بنایا کہ جس میں مغربی ممالک تو محور و مرکز بن گئے اور ایک منظم مہم کے تحت وسائل کی منتقلی ہوئی اور سارے وسائل چند اقوام اور چند علاقوں کی ترقی میں استعمال ہوئے۔ مسلمانوں نے بھی ساری دنیا پر حکومت کی ہے لیکن کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ وسائل اور دولت کی بڑے پیمانے پر منتقلی عمل میں آئی ہو لیکن جہاں ان کی حکومت قائم ہوئی ہے وہاں کے لوگوں پر اعتماد کیا گیا۔ ان ہی کو نظام سونپا گیا‘ ان کو فوجوں میں شامل کیا گیا‘ ان ہی لوگوں کو گورنر اور حکمران بنایا گیا اور ان کی ترقی کا سامان کیا گیا۔ لیکن مغربی استعمار انسانی تاریخ میں پہلا استعمار ہے جس میں جان بوجھ کر وسائل اور دوِلت کو منتقل کیا گیا اور صرف سرمائے کی کی منتقلی نہیں ہے بلکہ سیاسی قوت سائنس اور ٹیکنالوجی کی منتقلی ہے اور اس کے ذریعے ایسے منصوبے بنائے گئے کہ جس سے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں رکھا جاسکے۔ یہ استعمار بیسویں صدی کے آغاز پر اپنے نقطہ عروج پر تھا۔ اس کے برعکس مسلم دنیا کی حالت کیا تھی؟ مسلم دنیا تاریخ میں پہلی مرتبہ اٹھارہویں صدی کے وسط سے لے کر بیسویں صدی کے آغاز تک اسی مقام پر پہنچی جہاں انگریز پہنچے تھے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ جو قوم مدینے کے قیام کے سو سال کے اندر اندر ایک عالمی قوت بن گئی تھی اس قوم کی پہلی مرتبہ اقتدار پر گرفت ختم ہو گئی۔ میری نگاہ میں یہ ایک واقعہ بھی ہے اور بہت سے واقعات کا نتیجہ بھی۔ یہ مسلمانوںکی محض عسکری اور سیاسی شکست نہیں تھی بلکہ صدیوں پر محیط زوال کے اسباب تھے جنہوں نے اس صورت حال کو جنم دیا اس کا سب سے بدترین پہلو 1924ء میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ تھا۔ اس کے بعد صرف چار مسلمان ممالک باقی رہ گئے تھے جن کو نیم آزاد کہا جاسکتا تھا۔ اس صورت میں بیسویں صدی کا آغاز ہوا۔ امت مسلمہ بیسویں صدی میں اپنی تمام تر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود اکیسویں صدی کے آغاز پر ایک بہترین پوزیشن میں ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز پر مسلمان دنیا کی آبادی کا 7/1 تھے اس وقت مسلمان 5/1 ہیں اس بات کی پیش گوئی کی جارہی ہے کہ اکیسویں صدی کی دسری ربع میں یعنی 2025 سے 2049 تک مسلمان دنیا کی آبادی کا ایک تہائی ہوں گے۔ بیسویں صدی کے آغاز پر ہمارے پاس صرف چند ہزر مربع میل پر پھیلی ہوئی چار بیمار مملکتیں تھیں جنہیں برائے نام آزاد کہا جاسکتا تھا۔ افغانستان‘ ترکی کا باقی حصہ‘ یمن اور جزیرۃ العرب دنیا کے رقبے کا بائیس فی صد ہیں جہاں مسلمان برائے نام ہی سہی مگر اپنی آزاد مملکتیں رکھتے ہیںاور یہ مملکتیںخواہ کسی کے بھی زیر اثر ہوں اپنا ایک وجود رکھتی ہیں اور او آئی سی کی ممبر ہیں اور یہ سب یو این او کی بھی رکن ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے دنیا کی پچاسی سے زائد مملکتوں میں اس وقت 850 ملین مسلمان آباد ہیں اور تقریباً ساڑھے تین سو سے چار سو ملین مسلمان دنیا کے باقی ممالک میں آباد ہیں۔ تاریخ انسانی میں یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ انتقال آبادی کے طور پر یورپ اور امریکا میں مسلمانوں کو خاصی اہمیت حاصل ہوئی ہے۔ تقریباً تییس پینتیس ملین مسلمان یورپ میں آباد ہیں جو بارہ سے چودہ ملین مسلمان یورپ میں آباد ہیں اگر ترکی کو شامل کر لیں تو یورپ میں ایک سو ملین مسلمان آباد ہیں جو امریکا میں بارہ سے چودہ ملین مسلمان نارتھ اور سائوتھ امریکا میں موجود ہیں دنیا میں کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے جہاں مسلمان موجود نہ ہوں اور ان 56 مملکتوں میں سے ایسے ہیں جو نیم صنعتی ممالک ہیں جن کے پاس اتنی ٹیکنالوجی ہے کہ اگر یہ اپنے وسائل کو ٹھیک ٹھیک استعمال کریں تو دوسروں پر انحصار کے بغیر ترقی کے آگے کے مراحل خود طے کر سکتے ہیں۔

1972-73 میں تیل کی قیمتوںکا جو فرق واقع ہوا اس کے نتیجے کے طور پر Relocation of Economic Power واضح ہوا جو بڑی حد تک مسلمانوں کے حق میں تھا اور یہ اور بات کہ اس سے نہ صرف یہ کہ ہم نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ بڑی حد تک اس فائدے کو کھو دیا۔ 1985ء میں سعودی عرب کے پاس 590 بلین ڈالر کے ریزرو تھے آج سعودی عرب مقروض ہے۔ الجیریا ایک آئل پاور ہونے کے باوجود مقروض ہے‘ انڈونیشیا ایک آئل پاور ہونے کے باوجود مقروض ہے‘ جہاں تک وسائل کا تعلق ہے قدرتی وسائل کے اعتبار سے مسلمانوں کے ممالک خاصے متمول ہیں۔ سب سے بڑھ کر بیسویں صدی اس حیثیت سے منفرد مقام رکتی ہے کہ زوال کی تہہ تک پہنچنے کے بعد پھر مسلمانوں میں اپنی اسلامیت کا شعور اپنی شناخت کی دریافت اور اسلام کی طرف رجوع پایا جاتا ہے۔ اسلامی تحریکات مسلمانوںکے نئے ذہن‘ نئی امید اور نئے ہدف متعین کرتی ہیں۔ اقبال‘ ابوالکلام آزاد‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودوی‘ حسن البنا‘ سید قطب‘ پوری مسلم دنیا میں یہی وہ شخصیات نظر آتی ہیں جنہوں نے اس تاریکی میں نئے چراغ روشن کیے۔ بیسویں صدی میں مسلمانوں کی تحریکات آزادی تھی‘ سیاسی آزادیوں کی تحریک نہیں تھی بلکہ ان کے پیچھے بہترین طاقت‘ ایمان کی قوت ‘اسلام کی شناخت کا جذبہ کار فرما تھا۔ خواہ قیادتیں کیسی بھی ہوں‘ خواہ نعرے کوئی بھی ہوں لیکن عوامی سطح پر جس چیز نے مسلمانوں کو ابھارا‘حیاتِ نو دی وہ یہی اسلامی تصور تھا اور بیسویں صدی کے اختتام تک صورت حال یہ ہے کہ ایک گروہ کو چھوڑ کر بحیثیت مجموعی دوست اور دشمن سب اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے۔ اسلام کا تعلق محض نجی زندگی سے نہیں ہے‘ محض عبادات تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہے۔ اس کا اپنا تصور تعلیم‘ تصور سیاست اور تصور معیشت ہے۔ یہ کوئی معمولی چیز نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ جو کمزوریاں اور تضادات اور ہمارے زوال کا باعث تھیں اس نئی لہر اور نئی زندگی پیش رفت کے باوجود وہ بڑی حد تک موجود تھیں۔ اکیسویں صدی میں ہم داخل ہو رہے ہیں کچھ مثبت اور کچھ منفی پہلو اس کے ساتھ ہیں۔ انسانیت کے پاس اس وقت کوئی خیال اور کوئی پیغام دنیا کو دینے کے لیے نہیں ہے مگر یہ الگ موضوع ہے۔

طاہر مسعود: ملک میں اسلامی انقلاب بپا کرنے کے حوالے سے آپ کو کیا امکانات نظر آتے ہیں؟

پروفیسر خورشید احمد: اسلامی انقلاب کے لیے بلاشبہ ماڈل تو مکے اور مدینے کا ماڈل ہے‘ جو محیط ہے انقلاب اور تبدیلی کے پورے تصور کے اوپر لیکن بعد کے ادوار میں خصوصاً برصغیر میں اس لیے کہ لوگ بھول جاتے ہیں ساری خرابی کے باوجود انیسویں صدی تک اسلامی ادارے موجود تھے۔ قوانین موجود تھے‘ عدالتیں موجود تھیں‘ بادشاہت تھی‘ مسلمانوں کا اقتدار موجود تھا۔ آج ہم جس صورت حال سے دوچار ہیں وہ یہ ہے کہ ایک انقطاع واقع ہوگیا ہے‘ وہ مسلم حکومتوںکا تسلسل تھا‘ ٹوٹ گیا ہے۔ اقتدار گیا‘ فوجی قوت گئی‘ قانون گیا‘ عدالتیں گئیں‘ تہذیب و تمدن گیا‘ قیادت گئی اور آخر میں خاندان اور مسجد و مدرسہ باقی رہ گئے۔ جنہوں نے بچایا بھی اور بیج بن گئے آگے کی تبدیلی کے۔ آج دراصل مسئلہ صرف کہیں سے کوئی نظام لانے کا نہیں بلکہ قیادت کے ساتھ ساتھ نئے ادارے تعمیر کرنے کا ہے اور اپنے دور کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ماضی سے انسپریشن لے کر یہ کام کرنا ہے۔ یہ مشکل کام ہے اور برصغیر میں اس کام کو انجام دینے کے تین ماڈل مجھے نظر آتے ہیں ایک سید احمد سرہندی نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بجائے اقتدار کو متاثر کی کوشش کی۔ اسلام کو ارباب اقتدار تک پہنچانے کا طریقہ اختیار کیا۔دوسرا شاہ ولی اللہ کا جنہوں نے ایک طرز فکر اپنے اصل روپ میں مرتب کیا اور سچی بات یہ کہ تصورِ دین کی مکمل تشریح و توضیح کی۔ شاہ ولی اللہ علم کا مینار تھے لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے سیاسی اقتدار کی بقا کے لیے احمد شاہ ابدالی کو دعوت دی کہ اگر باہر کہیں مسلمان قوت ہے تو وہ آئے اور اس روبہ زوال نظام کو سہارا دے اور تیسرا ماڈل ہے سید احمد شہید کا جنہوں نے قوت منظم کرکے حکومت کو اپنی گرفت میں لانے کی کوشش کی۔ میری نگاہ میں یہ تینوں ماڈل حالات کے مطابق ایک ساتھ سامنے رکھے جائیں البتہ آج کے حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کی اصلاح کی کوششیںکی جائیں اور اسلام کو عصرِحاضر کی زندگی میں ایک قابلِ عمل نظامِ زندگی کے طور پر پیش کرکے اسے ایک کار فرما قوت بنایا جائے۔ اس کے بغیر اسلام اور خود ہم مسلمان نہ قومی سطح پر کوئی مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں اور نہ عالمی سطح پر اکیسویں صدی کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت‘ اس کی مدد اور استعانت‘ یہاں تک کہ اس کے فرشتوں کی معاونت آج بھی حاصل ہو سکتی ہے لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم مسلمان خصوصاً وہ مسلمان جو اپنے دین سے محبت رکھتے ہیں اور اسے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کرنا چاہتے ہیں‘ وہ اپنے حصے کا کام کریں۔ قرآن نے بھی مومنوں سے اپنے گھوڑے تیار رکھنے کی تلقین کی ہے۔ گھوڑے تیار رکھنے کا مطلب ہے وقت کی ٹیکنالوجی کو اپنے قبضے و تصرف میں اس طرح رکھنا کہ دشمن پر ہیبت طاری ہو۔ امت مسلمہ کا اصل چیلنج ایک طرف اللہ کے دین کے صحیح تصور کا عَلم بردار بننا ہے اور دوسری طرف وہ دولت اور خزانے جو مسلم ملکوں کے پاس ہیں‘ وہ ان کی اقتصادی اور سیاسی ترقی کے لیے بہت کافی ہیں۔ جن مسلم ملکوں میں یہ صورت نہیں ہے وہاں انہیں اقتصادی اور سیاسی ترقی کے لیے بہت کافی ہیں۔ جن مسلم ملکوں میں یہ صورت نہیں ہے وہاں انہیں اقتصادی استحکام کے ساتھ ساتھ اللہ کے دین اور اس کے پیغام کو عالم انسانیت تک پہنچانے کا کام بھی انجام دیا جانا چاہیے۔

اکیسویں صدی ایک روشن صدی ہوگی۔ یہ صدی انسانیت کے لیے امن و سکون‘ نیکی اور عدل کی صدی ہوگی اور ظاہر ہے اس کے لیے کام کرنا ہوگا‘ اس لیے کہ تبدیلی انفرادی سطح پر آئے یا قومی اور عالمی سطح پر اس کے لیے خونِ جگر صرف کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم نے یہ ذمہ داری ادا نہ کی تو یہ کہنے کی غالباً ضرورت نہیں کہ ہم تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانیت کو کسی تباہ کن انجام سے دوچار ہونے سے بچائیں اور ہمیں اپنے فرائض انجام دینے کی توفیق دیں۔ پچھلے صدی جیسی گزر گئی‘ خدا کرے موجودہ صدی اس سے بہتر ہو اور ہم اس مقصد کے قریب پہنچ سکیں جس کے لیے ہمیں دنیا میں بھیجا گیا ہے اور ذمہ دار بنایا گیا ہے۔

حصہ