شادی میں جلدی اور سادگی بہت سے مسائل کا حل ہے

498

تاخیر کی شادیاں آج کا ایک اہم مسئلہ ہے جس کی بنیادی وجہ اچھے سے اچھے روزگار کا انتظار ہے۔ حالانکہ اللہ نے انسان کی پیدائش سے بھی پہلے اس کے حصے کا رزق لکھ دیا اور پیدائش سے پہلے ہی خوراک بہم پہنچانے کا انتظام بھی کیا۔ خالق اپنے مخلوق کی ضروریات سے بے خبر کیسے رہ سکتا تھا اور انہیں بے یار و مددگار کیسے چھوڑ سکتا تھا۔

انسان کی ایک اہم اور لازمی ضرورت بلوغت کے بعد جذباتی و نفسیاتی اور ذہنی و جسمانی تسکین کے لیے نکاح کرنا ہے۔ مگر افسوس کہ وہی والدین جو خوراک، لباس کی سہولیات سے بہ خوبی آگاہ ہوتے ہیں‘ نکاح کے معاملے میں عجلت سے کام لینے کے بجائے غیر ضروری تاخیر کرتے ہیں۔ بلوغت کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد جن ذہنی و جسمانی تبدیلیوں سے گزرنا پڑتا ہے وہ اس بات کی متقاضی ہوتی ہیں کہ والدین اور اولاد کے درمیان اعتماد و دوستی کا رشتہ پروان چڑھے۔ والدین اگر اس دور میں اولاد کی بدلتی ہوئی کیفیات میں مناسب رہنمائی نہیں کرتے اور انہیں جذباتی ہیجان کے اس خطرناک دور میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں، انہیں یہ بتانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے یا بے نام جھجھک کا شکار رہتے ہیں کہ یہ کیفیت نارمل ہے اور اس دور سے ہر نوجوان کو گزرنا پڑتا ہے، تو وہ خواہ مخواہ کے احساس جرم کا شکار رہتے ہیں، اس دور میں نو عمر بچوں کو احساس کمتری سے بچانے کے لیے یہ بتانا ضروری ہے گناہ کیا ہے؟ انہیں تسلی دینی چاہیے کہ اس دور میں جنس مخالف کی کشش اور جذبات میں ہیجان فطری ہے مگر جوانی کے منہ زور جذبات پر ’’ضبطِ نفس‘‘ کا پہرا بٹھانے کی بھی تلقین کی جانی چاہیے۔ اولاد کو تسلی دینی چاہیے اور آپ کے قول عمل سے اس کا اظہار ہوتا رہنا چاہیے کہ آپ اولاد کی اس فطری ضرورت سے بھی بہ خوبی آگاہ اور اس کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں۔

والدین نکاح کے عمل کو جلد ممکن کیوں نہیں بنا پاتے، اس عمل میں حائل رکاوٹوں میں سے بعض کو ہم نے بجائے خود رکاوٹ سمجھ لیا ہے مثلاً تعلیم۔ سنت کے لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ سیدہ عائشہ ؓ کی تعلیم کی راہ میں شادی رکاوٹ ثابت نہ ہوئی بلکہ چوٹی کے فقہاء میں ان کا شمار ہوا، وہ 2210 روایات کی راوی ہیں۔ حضرت عطا رضی اللہ عنہ فرماتے ہے ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں سے بڑھ کر فقیہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر عالمہ اور تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اچھی رائے رکھنے والی تھیں۔‘‘ ( المستدرک الحاکم)

عقلی لحاظ سے بھی فطری ضرورت کی تکمیل کے بعد تو سیکھنے کے عمل میں یک سوئی آ جانی چاہیے۔ فیشن بنا دینا بھی غلط ہے اور خود مختاری کے نام پر تاخیر سے شادیاں اور ذمے داریوں سے خود کو آزاد رکھنا بھی غلط ہے۔

نکاح میں ارادی تاخیر تو معاملہ ہی الگ ہے‘ مگر ایک رویہ اس سلسلے میں عفریت بن چکا ہے اور وہ ہے ’’دیکھنے‘‘ کے نام پر گھر گھر جا کر بیٹیوں کی عزت نفس کو پارہ پارہ کرنا۔ بڑے بڑے مذہبی اور سمجھدار خاندان اس قبیح فعل میں مبتلا ہیں۔ بھئی، آپ اس جگہ پر جائیں ہی کیوں جہاں آپ کرنا نہیں چاہتے اور جہاں کرنا چاہتے ہیں وہاں بلا جواز تبصرے اور نکتہ چینی چہ معنی دارد؟ اس سلسلے میں گھر سے نکلنے سے پہلے سمجھ لینا چاہیے کہ کیا واقعی ہم نکاح کے سلسلے میں سنجیدہ ہیں؟ کیا ہم ارادی تاخیر تو نہیں کر رہے؟ کسی کے گھر جاتے ہوئے یاد رکھیے کہ آپ تمدن کے پہلے ادارے ’’گھر‘‘ میں جا رہے ہیں نا کہ مارکیٹ سے اپنی پسند کی شے کی خریداری کرنے کہ جو نہ پسند آئی تو رد کی جا سکتی ہے۔ آپ کو گھر اور مارکیٹ کے قواعد و ضوابط اور اصولوں میں فرق رکھنے کی تہذیب ہے تو آئیے! نکاح کے عمل کو آسان آور جلد ممکن بنانے میں حصہ لیں لیکن اگر آپ میں اتنی بھی تہذیب نہیں اور آپ گھروں اور خاندانوں کو مارکیٹ سمجھ کر داخل ہوتے ہیں تو اللہ کے لیے مہذب اطوار اپنایئے اور انسان ہونے کا ثبوت دیجیے۔اللہ ہمیں اس قبیح فعل سے بچائے اور نکاح کو آسان بنانے کی توفیق سے نوازے۔آمین

حصہ