صبح کی رونق

388

’’ پورب کا دروازہ کھلا
ٹھنڈی ٹھنڈی چلی ہوا
جاگو جاگوصبح ہوئی‘‘

صبح ہوتے ہی زندگی ایک نئے عزم کے ساتھ آغاز لیتی ہے، نکلتے سورج کی کرنیں امید کا پیغام لاتی ہیں۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا اعصاب کو سکون اور تازگی کا احساس دلاتی ہے، گویا صبح کا سہانا وقت ہمیں دن بھر کے لیے چاق و چوبند کر دیتا ہے۔

صبح سویرے کی چہل پہل اور رونقوں میں ایک بڑا حصہ بچوں کے اسکول کالج کی تیاری اور مرد حضرات کا اپنے کاموں کے لیے روانہ ہونے کا بھی ہوتا ہے۔ خواتین ایسے میںپھرکی کی طرح گھوم رہی ہوتی ہیں۔ ان کی نظریں ایک جانب گھڑی پر ، ہاتھ کاموں میں اور دماغ دن بھر کی متوقع مصروفیات پر اٹکے دکھائی دیتے ہیں۔

بچوں اور حضرات کو وقت پہ جگانا ، دماغی طور پر حاضر کرنے کو آتے جاتے با آواز بلند پکارتے رہنا ’’اٹھ جاؤ اسکول کودیر ہو رہی ہے۔‘‘ تو کبھی ’’اٹھ جائیے آفس کو دیر ہو جائے گی…‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ افراد خانہ کے ناشتے کی فکر بھی خاتون خانہ کے ذمے ہوتا ہے۔

’’ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے…‘‘ یا پھر ’’ناشتے میں کیا لیں گے؟‘‘ ایسے بہت سے مناظر تقریباً ہر گھر کے ہوتے ہیں۔ صبح سویرے ایسے بے شمار جملے گھروں میں گونجتے ہیں۔ کسی کو پیار بھری ڈانٹ تو کسی کے لیے دعائیہ کلمات، کسی کو تنبیہ تو کسی کو تلقین، لگے ہاتھوں اپنی کارکردگی پر بھی دو چار جملے کس دیے جاتے ہیں۔

’‘جتنی بھاگ دوڑ میری لگ ر
ہی ہے ناں اولمپکس گیمز میں حصہ لوں تو پہلے نمبر پر آؤں۔‘‘

’’مجال ہے جو کوئی خود بھی ذمے داری کا مظاہرہ کرے ۔‘‘

صبح کے اس شور شرابے سے گھروں کے در و دیوار بھی مسکراتے اپنی منزلوں کو روانہ ہونے والوں کوخاموش وداع کرتے ہیں پھر ہمارے ساتھ ساتھ یہ بھی تو اگلی صبح بلکہ اک نئی صبح کا انتظار کرتے ہیں۔

حصہ