عشق

222

’’آپ کی یہ زینب ماسی اتنے گندے برتن دھوتی ہے، اس سے کہہ دیا کریں اندر سے صفائی کیا کرے۔‘‘

نئی نویلی بہو نے پہلے دن کڑوے لہجے کہا تو مسز سرفراز نے مسکرا کر کوئی جواب نہ دیا ان کی نظر میں اچھی ماسی خدا کی سب سے بڑی نعمت تھی اس کو اس کی کسی غلطی یا بے دھیانی پر ٹوک بھی دیتیں۔

بہو تو سیدھا کمرے میں چل دی تھیں انہیں غصہ تو کسی اور بات پر تھا۔

ایک ہفتہ پہلے ہی بیٹے نے دو سوٹ لاکر ان کودیے تھے،جب بہوکمرے سے باہر آئیں تو بیٹے نے ان کو بھی بلایاجو زوجہ محترمہ کو گراں گزرا، وہ اپنے خیال میں یہ سمجھ بیٹھی تھیں کہ گھر میں اب ان کا شوہر جو چیز بھی لائے گا، پہلے ان کے قدموں میں لاکر ڈالے گا، مگر یہاں پسند کی شادی کا مطلب کچھ اور منظر پیش کر رہا تھا، پھر امیر گھرانے کی بیٹی ہونے کا زعم الگ تھا، اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی اور دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔

مسز سرفراز معاملے کی نزاکت دیکھ کر فوراً ہی بہو کے کمرے کی طرف لپکیں، وہی سوٹ بہو کے حوالے کیے یہ کہہ کر کہ ’’میری اب یہ رنگ برنگ کپڑے پہننے کی عمر ہی نہیں ہے۔‘‘

مگر بہو نے تیوری چڑھائے رکھی، چپ سادھے رہی۔

ساجد سرفراز صاحب کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا، یونیورسٹی سے انجینئرنگ کے بعد ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں منیجر ہوگیا تھا، جب کہ بڑے بھائی ماجد اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کینیڈا شفٹ ہوگئے تھے۔ مسز سرفراز نے اپنی من پسند لڑکی تعلیم یافتہ گھرانے سے چن کر اپنے خواب پورے کیے تھے، دو بیٹیوں کو ساتھ بیاہ کر نمٹایا تھا۔ ادھر ساجد نے خود ہی لڑکی پسند کرکے اپنی فرمائش سے آگاہ کردیا، بڑھاپے کی آمد آمد تھی، ماں باپ کو اولاد کی خوشیاں عزیز تھیں‘ سو انہوں نے رضامندی ظاہر کی۔ یوں شادی کا سلسلہ شروع ہوا تو مسز سرفراز نے ہر مرحلے پر اپنی سادگی اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا مگر ساجد کے انتخاب پر وہ اندر ہی اندر سلگ کر رہ گئیں، ان کی نظر میں سادگی، شرم و حیا اور رشتوں کا تقدس اہم تھا۔ دونوں بیٹیوں کی شادی انہوں نے دینی گھرانوں میں سادگی کے ساتھ شرعی حدود میں کی تھی اور یہاں پیسے کی بہتات تھی اور ساتھ اسراف ہی اسراف۔

انہوں نے ساجد کو بارہا سمجھایا مگر بیٹے کو اس عشق نے اندھا کر رکھا تھا، شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی، بہو دعائوں کے سائے میں لے کر آنے والی مسز سرفراز نے منہ دکھائی کی انگوٹھی دلہن کے ہاتھ میں پہنائی۔

اگلے دن پہلا پہاڑ یہ ٹوٹا کہ ’’انگوٹھی بھی دینے کی چیز ہوتی ہے منہ دکھائی میں۔‘‘بس پھر کیا تھا سرفراز صاحب کے ساتھ جیولرز کے پاس پہنچ گئیں، سیٹ خرید لائیں، یہ کہہ کر کہ اپنے گھر کی اکلوتی بہن اکلوتی بیٹی ہے، تو ہماری بھی چہیتی بہو ہے۔

وہ دوپہر میں سب کاموں سے فراغت کے بعد بستر پر نیم دراز ہوئیں تو ماضی کی کھڑکی کھل گئی،جب ساس کے ساتھ مل کر وقت گزاری کیا کرتیں، ایک آنگن میں چار لوگ مل کر خوشی غمی بانٹ لیتے، وہ دن بیت گئے تھے، یادوں کے بسیرے تھے اب۔

دنیا جہاں کے غم تھے، سکون تھا مگر کیوں تھا؟ ان کے اس خیال نے انہیں چونکا دیا، وہ منظر پھر سے آنکھوں میں گھومنے لگا، جب ساجد نے ان کی پلیٹ میں لاکر گرم کباب رکھ دیے تھے یہ کہہ کر کہ ’’امی جان ہمیں پورا دن گرم گرم کھانے بناکر کھلاتی ہیں، ان کا بھی حق ہے کہ جب وہ کھانے پر بیٹھیں تو ان کو گرما گرم کھانا ملے۔‘‘

اس پر بہو بیگم چپ تھیں، لاشعور میں چھپی یہ بات آج مسز سرفراز کو رہ رہ کر یاد آرہی تھی، پھر وہ منظر بھی گھوم گیا، جب ان کے شوہر نے گھونٹ گھونٹ اپنی محبت کے جام پلا کر سسرال کی محبت کی چاشنی اس میں گھول دی تھی، انہی کی چاہت کا تو جادو تھا کہ کبھی کسی سے موازنہ نہ کیا، ہمیشہ حسنِ ظن رکھا کہ پھر سسرال سے مضبوطی پیدا ہوئی، گرچہ یہ عورت ہی ہے کہ جو گھر کو گھر بناتی ہے‘ مگر مرد کا صحیح وقت پر مخلص ساتھ اسے کبھی ٹوٹنے اور بکھرنے نہیں دیتا۔ وہ جو پسلی سے پیدا کی گئی ہے،شوہر کے بے جا بدسلوکی سے بھپر جاتی ہے، نامنصفانہ رویے کی بھینٹ چڑھتی ہے تو سسرال کے رشتے بھی کچے دھاگے کی طرح ہوجاتے ہیں۔

شام کی گلابی رنگت جب ذرا اور گہری ہوئی، تبھی ساجد کی آواز ان کو سنائی دی، وہ بہو کو ان کے میکے چھوڑ کر واپس آیا تھا، ماں کو چائے پیتے دیکھ کر وہیں بیٹھ گیا۔

اسے دیکھ کر مسز سرفراز نے چائے کپ میں انڈیلی اور اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولیں ’’بیٹا ساجد! عورت پھول کی طرح ہوتی ہے، اسے ایسے ہی رکھنا چاہیے۔‘‘

وہ چائے کا گھونٹ اتار کر بولا ’’ارے کیا ہوگیا امی جان؟ ایسے ہی تو رکھا ہوا ہے۔‘‘

’’نہیں ناں…‘‘

وہ بولیں ’’بیٹا! محبت اور اعتماد دینے سے پیدا ہوتی ہے، ابھی وہ اس گھر میں نئی ہے، اُسے تمہارے تعاون کی ضرورت ہے، اگر کچھ غلط بھی کرے تو جھک جائو، اتنی محبت دو کہ وہ محبت تم سے جڑے رشتوں میں سفر کرتی نظر آنے لگے، بہت نیا رشتہ ہے، نیا گھر ہے اس کے لیے وقت کے ساتھ وہ بڑھ کر خود تم سے جڑے رشتوں کی قدر کرے گی اور تم یہ دیکھوگے۔‘‘

وہ کہہ رہی تھیں، ساجد چائے کے مگ میں اڑتی بھاپ کو دیکھتے ہوئے خاموشی سے سن کر غورو فکر کررہا تھا۔

اگلے دن ہی جب ساجد آفس سے اپنی بیوی کو میکے سے لیتا ہوا گھر میں داخل ہوا تو گھر میں ایک تقریب کا سماں تھا، اس کی دونوں بہنیں ملیحہ اور سعدیہ اپنے بچوں سمیت آموجود تھیں، ساجد اور اس کی بیوی سے سب ہی مل کر خوش ہوگئے، بس ماجد بھائی کی کمی مسز سرفراز بہت زیادہ محسوس کررہی تھیں۔

اپنی آنکھوں کے آنسو چھپاتی کمرے میں چلی گئیں، ان کے پیچھے ملیحہ بھی چلی آئی ’’کیا ہوا ہے امی؟ آپ نے بھی بہو کو اتنی شہ دے رکھی ہے کہ وہ جب چاہے منہ پھلاکر بیٹھ جاتی ہیں۔‘‘ وہ بے تکان بولنا شروع ہوگئی۔

مسز سرفراز اسے حیرت سے دیکھتے ہوئے بولیں’’ارے اس کی وجہ سے نہیں رو رہی اور یہ تمہیں کس نے کہا کہ بہو منہ پھلاتی ہے؟‘‘

ملیحہ سے اس کے بے تکے سوال پر خبر لی گئی تو وہ بولی ’’مجھے ماسی زینب نے سب بتا دیا ہے۔‘‘

’’اُف…! ایک تو یہ آج کل کی ماسیاں چلتی پھرتی انٹرنیٹ ہوگئی ہیں، معلوم کچھ ہوتا نہیں ہے،رپورٹر بنی پھرتی ہیں خاندان کی، آجائے ذرا تو خبر لیتی ہوں۔‘‘

’’اور آئندہ اپنی بھابھی کے لیے اس طرح سے نہ بولنا نہ ایسا سوچنا، وہ نئے گھر میں آئی ہے، پیر جمانے میں وقت تو لگے گا اس کو۔‘‘

’’اچھا!ہمیں تو آپ نے سسرال کی خدمت پر اتنی گردانیں یاد کرائیں اور تربیت کے لیے ماسی کو چھٹی دے کر برتن منجھوائے، اس کو آپ نے شہزادی بناکر رکھا ہوا ہے۔‘‘ملیحہ اپنے بچے کو فیڈر پلاتے ہوئے بولی۔

مسز سرفراز نے کہا’’بیٹا! تمہیں بھی سنبھلنے اور پرکھنے میں وقت لگا‘ وہ بھی دھیرے دھیرے رشتے پرکھنا سیکھ لے گی، پھر سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا، میری بیٹیوں جیسی ہے، تمہارا سلوک، تعاون اور ساجد کی محبت ہی اس کو ہمارے گھر کا چراغ بنائے گی ناں۔‘‘

بہو کھڑی سن رہی تھی دروازے کے عقب میں۔ جب وہ دو زینہ چڑھ کر ساس کے کمرے میں چائے لے کر آرہی تھی، تب ملیحہ اور مسز سرفراز کی باتوں نے اسے دروازے پر کھڑا کر کے کسی اور ہی دنیا میں بھیج دیا تھا، وہ خود کو خوش قسمت محسوس کر رہی تھی، اس کی ساس سے متعلق سارے گمان چھٹتے بادلوں کی طرح اس کے دل کے آسمان سے صاف ہوگئے تھے۔

حصہ