جہان شاہین

699

سال2022 اپنے اختتام ہوچکا ہے ۔دن تیزی سے اپنی مسافتیں طے کر رہے ہیں ۔ہر گزرتا دن معاشرے میں تیزی سے تبدیلیاں لا رہا ہے لیکن افسوس صد افسوس کے مثبت تبدیلیاں کم اور منفی تبدیلیاں زیادہ بڑھ چکی ہیں بہتے دریا کے ساتھ ہر کوئی بہنا چاہتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ موجیں انہی ڈبو بھی دیں گی ۔معاشرے کی بڑھتی ہوئی بے حیائی غلاظت، جہالت ،اداسی اور مسائل کو دور کرنے کے لیے اگر بہترین اقدامات کیے جائیں تو معاشرے میں کچھ بہتری ضرور آئے گی ۔اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے جے آئی یوتھ وومن کراچی کی طرف سے علامہ اقبال کے نظریات کی روح نوجوانوں میں بیدار کرنے کے لیے کراچی میں جہان شاہین کے نام سے ایک بہترین اور با مقصد پروگرام منعقد کیا گیا .اس پروگرام میں زندگی کے مختلف شعبہ جات سے خواتین کو بطور مہمان بھی مدعو کیا گیا جو اپنے اپنے شعبوں میں مہارت رکھتی تھی ۔ آج جب معاشرے میں نوجوانوں کو قوالی کے نام پر بھنگڑے ،علم کی اہمیت کے بجائے فضول قسم کی چیزوں کو سراہےجانے کا شوق اور سادگی کے بجائے عیاشی اور پھر اس مقام تک پہنچنے کے لئے حرام اور حلال سے بیگانہ ہوکر زندگی گزارنے کا ڈھنگ آ گیا ہے اور یہ تمام شوق کسی زہر کی طرح ہمارے نوجوانوں کے اندر پھیل چکے ہیں تو ایسے میں جے آئی یوتھ وومن کراچی کی طرف سے جہان شاہین کو منعقد کرنا بلا شبہ ایک بڑا کارنامہ تھا۔جے آئی یوتھ وومین کراچی کی انتظامیہ اس اقدام کے لئے مبارکباد کی مستحق ہے ۔اس تقریب میں موٹیویشنل اسپیکر سلمان آصف صدیقی نے *شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا ، کے موضوع پر خطاب کیا جس میں آپ نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے بہترین نکات پر تبصرہ کیا آپ نے کہا کہ “اقبال کے ہاں شاہین مرد مومن کی علامت کے طور پر ملتا ہے آج کے مغرب زدہ معاشرے میں شاہین اور مومن کی صفات کو اجاگر کرنا ناگزیر ہوگیا ہے ۔آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہو سکتا ہے اگر وہ اپنی فطری صلاحیتوں پر نظر رکھے اور کچھ مثبت کر دکھانے کی لگن بھی رکھے ” بعد میں آپ نے طالبات کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی سابق ممبر قومی اسمبلی نے بھی نوجوان طالبات سے *اقبال عورت اور بیداری کی لہریں* کے موضوع پر خطاب کیا جس میں انہوں نے خواتین کے اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ جوہری ہمیشہ سونے اور جواہرات کو تجوری میں رکھتا ہے کیونکہ وہ قیمتی ہوتی ہیں اسی طرح آپ بچیاں بھی قیمتی ہیں تو اپنے آپ کو ڈھانپ کر رکھیں۔عورت کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے آپ کا کہنا تھا کہ وہ عورت ہی تھی کہ جس نے بہن کے روپ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی اسلام کی طرف موڑ دی۔عورتوں کو اپنے کردار کو مضبوطی دینی ہوگی۔عورتیں نسلوں کی معمار ہیں ۔عورت مضبوط ہے حضرت مریم علیہ السلام نبی نہیں تھی لیکن قرآن پاک میں آپ کے نام سے سورت ہے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہ کا درجہ انتہائی بلند ہے کہ جن کو حضرت جبریل امین نے اللہ کا سلام پہنچایا ۔اقبال کا وژن جانے سے قبل یہ دیکھیں کہ اقبال کی تربیت کن ہاتھوں میں ہوئی اور وہ کس ماحول میں پروان چڑھے خواتین اپنے گھروں کے ماحول پر توجہ دیں ۔

ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کی باتوں سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا تھا کہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جو عورتوں کو بے پناہ عزت دیتا ہے اور آج سے صدیوں قبل ہی اللہ رب العزت نے عورت کا درجہ بہت بلند کر دیا تھا عورت کو اس بحث کی ضرورت ہی نہیں کے عورت اور مرد برابر ہیں مردوں اور عورتوں کی ذمہ داریاں الگ ہیں حقوق و فرائض الگ ہیں لہذا بحیثیت مسلمان ہمیں اس بات پر ضرور توجہ دینی چاہیے کہ ہم اس بحث میں الجھنے کے بجائے اپنے اعلی مقاصد کی طرف توجہ دیں ۔اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو پروان چڑھانے میں ان کی والدہ نے حرام سے بچنے کا خاص خیال رکھا ۔ ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی کے بعد صدر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان صاحب نے بھی قوم کی بیٹیوں سے **تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے* کے موضوع پر خطاب کیا آپ کا کہنا تھا کہ” آج باقاعدہ ایجنڈے کے تحت عورت کے ہر کردار کو مسخ کیا جارہا ہے اخلاقی اقدار کو تباہ کرکے ہماری نسلوں کو تباہ کیا جارہا ہے امامت کا حق ادا ہو گا جب ہمارے حکمران اپنے آپ کو رب کے حضور جواب دے سمجھیں ۔اس پروگرام میں وقفے کے دوران ji یوتھ وومن کراچی نے خواتین انٹرپرینیور کے لیے اسٹال کا بھی انتظام کیا جس میں انہوں نے اپنے ہاتھ سے بنی ہوئی چیزیں اور دیگر اشیاء لوگوں میں متعارف کروائیں “اس پروگرام میں بیت بازی،مصوری اور بلاگ رائٹنگ کے مقابلے بھی منعقد کیے گئے بیت بازی کے مقابلے میں مختلف کالجز اور یونیورسٹیوں کی طالبات نے حصہ لیا جن میں جناح یونیورسٹی فور وومن، عثمان کالج، ڈگری کالج ،خاتون پاکستان کالج اور KDMC کالج کی طالبات شامل تھی ۔ نوجوان طالبات کو اقبال کے بہترین اشعار پڑھتا دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا اور ہر شعر سننے کے بعد ایسا ہی محسوس ہوتا تھا کہ یہ دور حاضر کے اعتبار سے کہا گیا ہے۔ آخر میں کیلیگرافی اور بیت بازی میں جیتنے والوں کو انعامات اور سرٹیفکیٹ دیے گئے ۔

اس تقریب میں اسماء سفیر صدر جے آئی وومن کراچی اور عذرا سلیم صدر جے آئی یوتھ وومن کراچی نے مہمانوں کو تحائف پیش کیے مہمانوں کو پیش کیے جانے والے تحائف میں ایک ایسا بہترین اور منفرد تحفہ تھا جس کو دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا یہ ایک ایسا چھوٹی سی کتابی شکل کا کی چین تھا جس میں علامہ اقبال کی شاعری اور فلسفہ موجود تھا ۔اگر ہمارے نوجوان اور آرگنائزر اس طرح کے پروگرام منعقد کروانا شروع کر دیں تو یقیناً معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔کیونکہ

’’آج بھی ہو اگر ابراہیم سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا ‘‘

حصہ