لاوارث کراچی

174

ایک وقت تھا کہ کراچی روشنیوں کا شہر تھا یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں چند دہائیاں پیچھے کی بات ہے۔ وسائل کم تھے لیکن امن و امان تھا، سکون تھا۔ لیکن چند دہائیوں سے کراچی پیچھے کی طرف جارہا ہے، کہنے والے تو یہی کہیں گے کہ ’’باقی پاکستان کا کیا حال ہے؟‘‘ تو معذرت کے ساتھ کہوں گی کہ کراچی جو پاکستان کا ایک بڑا شہر ہے معیشت کا بوجھ اسی پر ہے، اسے پاکستان کا دل کہا جاتا ہے آج لاوارث ہے، اسے چھوڑ دیا گیا ہے کسی چھوٹے سے مکان میں رہائش پذیرکا بھی ایک سرپرست ضرور ہوتا ہے جو لائحہ عمل اور منصوبہ بندی سے، مشاورت سے اس مکان اور رہنے والوں کی بھلائی کے لیے اقدامات اٹھاتا ہے ان ہی خصوصیات کی بدولت وہ مکان گھر بنتا ہے جبکہ کراچی جو پاکستان کا ایک بڑا شہر ہے اس کے لیے کوئی ’’سرپرست‘‘ نہیں جو جیسا چاہتا ہے اپنے مفاد کے مطابق کام چلا رہا ہے یہ شہر جو اپنے اندر تمام قومیتوں اور زبانوں کو سمیٹے ہوئے ہے اس کے لیے بلاتعصب و بغض کے کوئی سر پر ہاتھ رکھنے والا اور اس کے امن و امان اور یہاں کے رہنے والوں کے تحفظ کے لیے کوئی تو نگہبان اور سرپرست ہو، یہی وجوہات ہیں جو کراچی اور کراچی والے مسائل کا شکار ہیں اور دن بدن اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے یوں لگتا ہے کہ لاقانونیت کا راج ہے جس کی وجہ امن وامان کا فقدان ہے تو دوسری طرف جرائم میں بھی اضافہ ہے، تمام محکمے من مانی کررہے ہیں جس سے محکموں کی کارکرگی کا گراف دن بدن نیچے کی طرف آرہا ہے، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر اگر کام ہوبھی رہا ہے تو غیر منظم طریقے سے، جی ہاں غیر منظم طریقے سے، سڑک تو بن رہی ہے لیکن گٹر لائنوں کی طرف توجہ نہیں، فٹ پاتھ ویسے ہی ٹوٹے پھوٹے ہیں۔ اگر ٹھیکہ دیا جارہا ہے تو ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھ کر ٹھیکے دیئے جائیں اس ناقص اقدامات کی وجہ سے ناقص تعمیرات کے سامان کی وجہ سے کچھ عرصہ کے بعد گٹر لائنوں کی خرابی کی وجہ سے وہ نئی سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ تو ایک مثال ہے، بجلی کا معاملہ بل کی رقوم اور ٹیکس بڑھتے جارہے ہیں جبکہ ہر وقت آدھا شہر اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے، بچوں بڑوں ہرایک کا گھر سے نکلنا دشوار ہوگیا ہے چند دہائیاں پیچھے کی بات ہے ہم بہنیں پیدل پندرہ بیس منٹ کی مسافت اسکول اکیلی جاتی اور آتی تھیں، رات کو دیر گئے بابا کے ساتھ آئس کریم کھانے پیدل ہی جاتے تھے، لیکن کبھی کسی ناگوار واقعے سے واسطہ نہیں پڑا، آج ہم اپنے بچوں کو یہ بات بتاتے ہیں تو وہ یوں حیران ہوتے ہیں جیسے ہم بچپن میں پریوں اور دیو اور جنوں کے واقعات سن کر حیران ہوتے تھے۔ آج دو قدم پر بچوں کو ہم اکیلا نہیں چھوڑ سکتے، آئے دن کے پیش آنے والے ان ناگوار واقعات نے عوام الناس کو نفسیاتی عارضوں میں مبتلا کردیا ہے، ایسی صورت حال کے پیش نظر ہر ایک منتظر ہے کہ کراچی کو خصوصی طور پر کسی ایسے میئر اور انتظامیہ کی ضرورت ہے جو اس لاوارث مسائل میں گھرے شہر کی دادرسی کا ذریعہ بنے۔ کیونکہ پچھلے برسوں میں جن کے بھی حوالے کراچی کو کیا گیا انہوں نے اپنی ’’جیبیں‘‘ بھریں اور شہر کو نظر انداز کیا جو کسی سے بھی ڈھکی چھپی حالت نہیں کہ کیا کچھ یہاں ہوتا رہا ہے اور اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ مخلص اور محب وطن عوام ان نام نہاد پارٹیوں سے بیزار آچکے ہیں جنہیں صرف اپنا مفاد اور اپنی کرسی عزیز ہے جن کے بڑے بڑے جرائم پر بھی ’’قانون خاموش‘‘ ہے اور پردہ ڈالا ہوا ہے ۔کیا یہ ایک اسلامی ریاست کی عدالتوں کو زیب دیتا ہے کہ مجرموں کو اس طرح چھوڑ دیا جائے اگر ہم سب پاکستان اور خصوصی طور پر کراچی کی بھلائی چاہتے ہیں تو ہر صورت میں ایسی قیادت کا انتخاب کرنا لازم ہے جو آج کے حالات و مسائل سے دیانت داری اور بغیر تعصب کے ساتھ نمٹ سکے اور وہ قیادت و پارٹی جماعت اسلامی ہی ہے جو کراچی کے مسائل کوحل کرکے یہاں امن و امان قائم کرسکتی ہے کیونکہ ماضی میں جماعت اسلامی کے میئر کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے جدید سہولیات کے فقدان کے باوجود اس وقت کراچی کو مثال شہر بنانے کے لیے اہم اقدامات اٹھائے لہٰذا اپنا ووٹ ایمان داری سے استعمال کریں جو ملک و طن کی بہتری کے لیے ہو۔

کہتے ہیںکہ دیکھی مکھی بار بار نہیں نگلی جاتی لہٰذا اپنے قیمتی ووٹ کا ایمان داری سے استعمال نہ صرف ہمارے لیے بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بھی کامیابی کی ضمانت ہوگا۔ کراچی کا ایمان دار و محب وطن میئر کراچی کے لوگوں کی امید ہے، اللہ رب العزت ہم پاکستانیوں کو شعور عطا فرمائے کہ ہم صحیح اور غلط کی پہچان کرسکیں، آمین ثم آمین۔

حصہ