قیصروکسریٰ قسط(82)

196

کیا دنیا سے تمام رشتے، توڑنے کے بعد یہ بات میرے وہم و گمان میں آسکتی تھی کہ میں اپنی انا کی تسکین کے لیے درندوں کا ساتھی بن جائوں گا؟ کیا شام سے حبشہ کی حدود تک ایرانی لشکر کے جھنڈے تلے سفر کرنے والے اور وہاں سے قسطنطنیہ کی طرف فرار ہونے والے انسان کے دو راستے ایک دوسرے سے مختلف نہ تھے…؟ کیا ان تمام واقعات کے بعد میں اپنے دل و دماغ پر بھروسہ کرسکتا ہوں…؟ مجھ جیسے انسانوں پر قدرت کا سب سے بڑا احسان یہی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی عمر کا ایک حصہ مختلف اور متضاد راہوں پر بھٹکنے کے بعد تھک کر ایک جگہ بیٹھ جائیں اور اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرلیں کہ یہ دنیا اُن سے پہلے بھی اِسی طرح چلتی رہی ہے اور اُن کے بعد بھی اِسی طرح چلتی رہے گی۔ فرمس میں تھک چکا ہوں، میری ہمت جواب دے چکی ہے۔ اب مستقبل کے ہر راستے پر مجھے تاریکی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ آپ اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ جب تاریکی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو خدا کا کوئی بندہ ایک صبح درخشاں کا پیغام لے کر آتا ہے۔ اور انسانوں کے تھکے ہارے قافلے نئی امیدوں اور نئے حوصلوں سے سرشار ہو کر اُس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ لیکن کاش میں اپنی زندگی کا سفر شروع کرنے سے پہلے کسی ایسے رہنماکو تلاش کرسکتا جس کی آواز مجھے اپنے ضمیر کی آواز محسوس ہوتی۔ جو مجھے یہ بتا سکتا کہ میں اِس دنیا میں کیوں آیا ہوں۔ وہ کون سا راستہ ہے جس پر چلنے والے آخری دم تک مایوسی اور بددلی کا شکار نہیں ہوتے وہ کون سے ضابطے اور اصول ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم انسانی زندگی کے آلام و مصائب سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ وہ کون سی قوت ہے جو ظالم کی تلوار کے سامنے مظلوم کی ڈھال بن سکتی ہے۔ اور وہ کون سا قانون ہے جس کی بدولت نسلوں، قبیلوں اور خاندانوں کے درمیان اخوت اور مساوات کے رشتے قائم ہوسکتے ہیں؟‘‘۔

فرمس نے کہا۔ ’’میرے دوست تم تنہا نہیں ہو۔ اِس دُنیا کے ہر گوشے میں ہزاروں ایسے انسان ہیں جو تمہاری طرح سوچتے ہیں۔ تم جس رہنما کے متلاشی ہو، اُس کے ظہور کے تمام اسباب مکمل ہوچکے ہیں، جس طرح رات کی تاریکی میں ستاروں کی جگمگاہٹ صبح کی آمد کی پیغام دیتی ہے، اِسی طرح انسانیت کے مستقبل پر یقین رکھنے والے اُس رہنما کی آمد کا پتا دے رہے ہیں، جس کے نُور سے مشرق اور مغرب کے ظلمت کدے روشن ہونے والے ہیں۔ میں خدا کے اُن نیک اور پاکباز بندوں کو دیکھ چکا ہوں جن کے نزدیک اُس کی راہ دیکھنا زندگی کی سب سے بڑی سعادت ہے۔ میں نے اُن میں سے اکثر کو یہ کہتے سنا ہے کہ اب اس دُنیا کے معاملے سلجھانے کے لیے کلیسا کے پیشوائوں کا تقدس اور سلطنت کے کجکلاہوں کا تدبر جواب دے چکا ہے۔ اب سسکتی اور دم توڑتی ہوئی انسانیت کو نجات کا راستہ دکھانے کے لیے اُس ہادی کی ضرورت ہے، جس کو دیکھنے والے یہ محسوس کریں کہ وہ خدا کا نور دیکھ رہے ہیں۔ عاصم! تمہیں معلوم ہے کہ سرائے کے کاروبار سے میری رغبت کی وجہ کیا ہے؟ سنو! میں کئی برس سے یہ سوچ رہا ہوں کہ ایک دن دنیا کے کسی دُور افتادہ گوشے سے کوئی مسافر میرے پاس آئے گا اور مجھے یہ خوشخبری دے گا کہ وہ جس کی تم برسوں سے راہ دیکھ رہے ہو نمودار ہوچکا ہے۔ پھر میں سب کچھ چھوڑ کر اُس کے ساتھ روانہ ہوجائوں گا۔ ایک مرتبہ عرب کے تاجروں کی زبانی میں نے یہ سنا تھا کہ مکہ میں کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے لیکن یہ تاجر اُس کا مذاق اُڑا رہے تھے۔ اِس کے بعد میری یہ خواہش تھی کہ اگر مکہ کے کسی سنجیدہ آدمی سے ملاقات ہو تو میں اُس کے متعلق مزید معلومات حاصل کروں، میری تشنگی کا یہ عالم تھا کہ بذاتِ خود وہاں جانا چاہتا تھا لیکن پھر ایسے حالات پیش آئے کہ مجھے وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ ہوسکتا ہے کہ مکہ میں ایک نبی کے ظہور کی اطلاع صرف ایک مذاق ہو لیکن میں اب تک مایوس نہیں ہوا۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ اُس کی آمد کا زمانہ قریب ہے۔ وہ باتیں جو میں نے کئی بزرگوں سے سنی ہیں غلط نہیں ہوسکتیں‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’لیکن میں آپ کی طرح نہیں سوچ سکتا۔ اور اگر میں آپ کی طرح سوچنا شروع کردوں، تو بھی مجھے اپنی نگاہوں پر، جو مجھے کئی بار دھوکا دے چکی ہیں، کیسے اعتبار آئے گا۔ میں حقیقت اور سراب میں کیسے امتیاز کرسکوں گا۔ میں کیونکر یہ سمجھ لوں گا کہ جس ضمیر کی آواز نے مجھے ایرانی لشکر شامل ہونے پر آمادہ کردیا تھا، دوبارہ مجھے دھوکا نہیں دے رہا۔ مجھے یہ کیسے یقین آئے گا کہ وہ رہنما جسے لوگ خدا کا نبی سمجھتے ہیں، عام انسانوں سے مختلف ہے؟‘‘۔

فرمس نے جواب دیا۔ ’’اُس کے ساتھ خدا کی نشانیاں ہوں گی۔ اُس کے بدترین دشمن بھی اُس کی نیکی اور صداقت کا اعتراف کریں گے۔ وہ ناداروں اور بے کسوں کو اپنی پناہ میں لے گا اور وہ یہ محسوس کریں گے کہ اُن کے سر پر خدا کا ہاتھ ہے۔ وہ عدل و انصاف کا بول بالا کرے گا اور اُس کے جلال کے سامنے طالموں کی گردنیں جھک جائیں گی۔ اُس کا راستہ روکنے والے تنکوں کی طرح بہہ جائیں گے۔ وہ جس زمین پر قدم رکھے اُس پر خدا کی نعمتوں کی بارش ہوگی۔ اُس کی اطاعت کرنے والے فلاح پائیں گے اور اُس سے سرکشی کرنے والے ذلیل و خوار ہوں گے، وہ ضرور آئے گا، عاصم! تم اُسے دیکھتے ہی یہ محسوس کرو گے کہ تمہارے مقدر کی تاریک رات بیت چکی ہے‘‘۔

عاصم کچھ دیر خاموشی سے فرمس کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اُس نے کہا۔ ’’کاش! میں آپ کی باتوں پر یقین کرسکتا‘‘۔

’’جب تم میری عمر کو پہنچو گے تو تم یہ محسوس کرو گے یہ یقین تمہارا آخری سہارا ہے‘‘۔ فرمس یہ کہہ کر کھڑا ہوگیا۔

عاصم نے پوچھا۔ ’’آپ جارہے ہیں؟‘‘۔

’’ہاں! میں نے انطونیہ سے وعدہ کیا تھا اور وہ میرا انتظار کررہی ہوگی۔ اور اگر تم جولیا سے بہت زیادہ خوفزدہ نہیں ہو تو تھوڑی دیر کے لیے میرا ساتھ دینے میں کوئی ہرج نہیں، چلو!‘‘۔

عاصم مسکراتا ہوا اُٹھا اور فرمس کے ساتھ ہولیا۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد اُس نے کہا۔ ’’میں جولیا سے خوفزدہ نہیں ہوں، میرے نزدیک وہ قسطنطنیہ کے چوراہوں پر نصب اُن مرمریں مجسموں سے مختلف نہیں، جنہیں صرف چند قدم دور سے دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُس کے نازک ہاتھ کسی دن میرے پرانے زخموں کو کرید ڈالیں گے۔ اُس کا وجود ایک آئینہ ہے اور میں اُس کی طرف دیکھ کر یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ماضی کی ایک تصویر میرے دل کی گہرائیوں سے نکل کر میری نگاہوں کے سامنے آگئی ہے۔ میں یہ جانتا ہوں کہ جولیا احسان مندی کے تقاضوں سے مجبور ہو کر مجھ میں دلچسپی لینے کی کوشش کرتی تھی لیکن اُس کی شفقت اور مروت سے متاثر ہو کر، میں ایسا محسوس کرتا تھا کہ فسطینہ ایک نئے روپ میں میری نگاہوں کے سامنے جلوہ افروز ہے اور وہ مجھ سے یہ کہہ رہی ہے کہ میں سین کی بیٹی ہونے کے باوجود مغرور اور خود پسند نہیں ہوں۔ تمہارا یہ خیال غلط تھا کہ عمر کے ساتھ میرا شعور پختہ ہونے لگے تو ماضی کے واقعات کے ایک مذاق معلوم ہوں گے۔ تمہارا یہ خیال بھی صحیح نہیں تھا کہ میرے باپ نے صرف تم سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے تمہیں مصر کی مہم پر بھیج دیا تھا۔ میں نے اُس سے اپنے دِل کا حال پوشیدہ نہیں رکھا۔ تم مجھ پر یہ الزام نہیں دے سکتے کہ میں نے تمہیں جنگ میں حصہ لینے پر مجبور کیا تھا۔ نہیں، تمہارا یہ اقدام تمہاری خودپسندی کا نتیجہ تھا، اور مجھے صرف تمہاری خوشی منظور تھی، اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ فتوحات کا شوق تمہیں مجھ سے چھین لے گا تو میں دونوں ہاتھوں سے تمہارا دامن پکڑ لیتی۔ تم واپس آجائو، عاصم میں صبح و شام تمہارا راستہ دیکھتی ہوں۔ اگر تم زخمی ہو تو میں تہارے زخموں پر مرہم رکھوں گی، اگر تم بیمار ہو تو میں تمہاری تیمارداری کروں گی تم میری نگاہوں میں سین کی بیٹی کی خود پسندی اور غرور کی بجائے اُس لڑکی کا عجزوانکسار دیکھو گے، جس نے ایک دن بے بسی کے آنسوئوں سے تمہاری محبت کا سودا چکایا تھا‘‘۔

عاصم یہاں تک کہہ کر تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگیا، لیکن چند قدم اور چلنے کے بعد اُس نے کہا۔ ’’فرمس، مجھے معلوم نہیں، میں کیا کہہ رہا ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر میں کچھ دیر اور اِسی طرح باتیں کرتا رہا تو آپ مجھے دیوانہ سمجھنے لگ جائیں گے۔ آج میں یہ تسلیم کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتا کہ فسطینہ کی یاد اب بھی کبھی کبھی مجھے بے چین کردیتی ہے۔ میں دُنیا کی ہر حسین لڑکی کو اُس کے چہرے کا آئینہ سمجھ لیتا ہوں۔ ایک دن صبح میں کلاڈیوس کے گھر سے نکلا تھا اور رات کے وقت واپس آیا تھا۔ آپ کو معلوم ہے میں کہاں گیا تھا؟‘‘۔

فرمس نے جواب دیا۔ ’’تم نے ہمیں صرف یہ بتایا تھا کہ تم سیر کرتے کرتے شہر سے باہر نکل گئے تھے اور پھر شام کی تاریکی میں واپسی پر راستہ بھول گئے تھے۔ اور مجھے تمہارا چہرہ دیکھ کر صرف یہ احساس ہوا تھا کہ تم بہت زیادہ پریشان ہو‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’سُنئے، میں نے اُس دن سارات وقت اُن ٹیلوںکے آس پاس گھوم کر گزارا تھا، جہاں سے باسفورس کے دوسرے کنارے ایرانی لشکر کے خیمے دکھائی دیتے ہیں۔ اور اس دن مجھ پر کئی لمحات ایسے بھی آئے تھے، جب میں آبنائے باسفورس کو عبور کرنے پر آمادہ ہوگیا تھا اور مجھے اس بات کی پروا نہ تھی کہ پہرے داروں کے تیر میرا جسم چھلنی کر ڈالیں گے۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ اگر میں یہاں سے بچ کر نکل گیا، تو دوسرے کنارے مجھے ایرانیوں کے تیروں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن فسطینہ کو دیکھنے کی خواہش میرے ہر احساس پر غالب آچکی تھی۔ میرا دل مجھے بار بار یہ فریب دے رہا تھا کہ فسطینہ دوسرے کنارے میرا انتظار کررہی ہے۔ کسی نہ کسی طرح اُس کے پاس پہنچ جائوں گا۔ پھر مجھے اِس بات کی پروا نہیں ہوگی کہ ایرانی مجھے ایک مفرور سمجھ کر میرے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ فسطینہ کو صرف ایک نظر دیکھنے کے لیے میں موت کے دروازے دستک دینے کے لیے تیار تھا۔ میں اُسے یہ بتانا چاہتا تھا کہ اپنی بے بسی اور بے چارگی کے باوجود میں اس سے محبت کرتا ہوں۔

غروب آفتاب کے بعد میں نے کئی بار پانی میں کودنے کا ارادہ کیا، لیکن ہر بار میری ہمت جواب دے گئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آپ نے میرا دامن پکڑ لیا ہے اور آپ یہ کہہ رہے ہیں، عاصم پاگل نہ ہو، تم تیر کر دوسرے کنارے نہیں پہنچ سکو گے۔ تم اگر رومیوں کے ہاتھوں نہیں تو ایرانیوں کے ہاتھوں مارے جائو گے، اور فسطینہ کو یہ معلوم بھی نہیں ہوگا کہ تم اُس کی خاطر اپنی جان پر کھیل گئے۔ پھر میں نے رات کی تاریکی میں ایک کشتی چرانے کا ارادہ کیا، لیکن مجھے موقع نہ ملا اور ایک ساعت اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بعد میرے تمام تمام ولوے سرد ہوچکے تھے۔ اور مجھے محسوس ہوتا تھا کہ میں ایک بھیانک خواب سے بیدار ہوا ہوں۔ قسطنطنیہ پہنچنے کے بعد اپنے ماضی کی طرف لوٹنے کے لیے یہ میری پہلی اور آخری کوشش تھی۔ اگر میری زبان شکست، ندامت اور بے بسی کے احساس سے گنگ نہ ہوجاتی، تو اُس رات میں آپ سے یہ باتیں چھپانے کی کوشش نہ کرتا۔ لیکن میں ایک بات پوچھتا ہوں۔ فرض کیجیے، میں اُس دن واپس نہ آتا اور آپ کو کسی طرح یہ معلوم ہوجاتا کہ میں آبنائے باسفورس عبور کرکے سین کے پاس جاچکا ہوں، تو آپ میرے متعلق کیا خیال کرتے؟‘‘۔

فرمس نے جواب دیا۔ ’’میں صرف یہ خیال کرتا کہ ایک غیر معمولی انسان کسی غیر معمولی مہم پر روانہ ہوچکا ہے۔ تم نے باسفورس کے پار کسی مظلوم کی چیخیں سنی ہیں یا کسی نے خواب میں تم سے فریاد کی ہے اور تم نے اُس کی اعانت اور دلجوئی کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ لیا ہے‘‘۔

عاصم نے قدرے لاجواب ہو کر کہا۔ ’’اور اگر میں آپ کو یہ بتا کر گھر سے نکلتا کہ آج میری مہم جوئی فسطینہ کو دیکھنے تک محدود ہے۔ یا میں پھر ایک بار ماضی کے سراب کے پیچھے بھاگنا چاہتا ہوں تو آپ کا ردعمل کیا ہوتا؟‘‘۔

فرمس نے دوبارہ اُسی اطمینان سے جواب دیا۔ ’’میں پھر بھی تمہارے پیچھے بھاگنے یا تہارا راستہ روکنے کی کوشش نہ کرتا۔ اوّل تو مجھے اِس بات پر یقین نہ آتا کہ تم کسی بلند مقصد کے بغیر اپنی جان پر کھیل جائو گے اور اگر مجھے یقین آ بھی جاتا تو بھی میں تمہارے ایک اضطراری عمل کو قابل ملامت خیال نہ کرتا۔ میں زیادہ سے زیادہ یہ سوچنے کی کوشش کرتا کہ تمہارے زندہ و سلامت باسفورس کے دوسرے کنارے پہنچ جانے کے امکانات کیا ہیں اور اگر تمہیں کوئی خطرہ ہے تو میں تمہاری کیا اعانت کرسکتا ہوں‘‘۔

عاصم نے انتہائی پریشانی کی حالت میں اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’آپ مذاق کررہے ہیں‘‘۔ (جاری ہے)

حصہ