میرے ابا جی ۔۔۔مشعل راہ

ایک سال اور بیت گیا‘ اُس دن کہیں قرار نہیں مل رہا تھا‘ عجب بے چینی کی سی کیفیت تھی۔ دل اتنی زور سے دھڑ رہا تھا کہ جیسے پھٹ کر باہر آجائے گا۔

26 دسمبر 2012ء کی رات اطلاع ملی کہ میرے والد سکون و اطمینان کے ساتھ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ابا جی کی پُرنور چہرہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اُن کی زندگی کا ایک ایک پل اپنے رب کی رضا اور خوشنودی کے لیے وقف تھا۔ یارب العالمین! میرے ابا جی کو اپنی آغوشِ رحمت میں رکھنا۔ میرے والد کی قبر کو نور سے منور رکھنا۔ ابا جی کو اپنے نیک بندوں میں شامل رکھنا جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرنا‘ آمین۔

اباجی صابر و شاکر‘ قناعت پسند‘ عدل و انصاف کی روشن علامت‘ غرور و تکبر سے پاک‘ دین دار‘ تحمل پسند‘ منکسرالمزاج‘ محبت و شفقت کے پیکر‘ قد آور شخصیت کے مالک تھے۔ابا جی کی تاریخ پیدائش 11 جون 1927ء ہے‘ ان کا آبائی شہر بانس بریلی یو پی ہے۔ ابا جی کا بچپن نینی تال میں گزرا۔ کم عمری میں ہی ابا جی کے والد محترم دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ ابا جی کا بچپن عسرت‘ تنگ دستی اور سختیوں میں گزرا۔

ابا جی کم عمری سے ہی انتہائی رحم دل تھے۔ اباجی کے پڑوس میں ایک صاحب شدید بیمار تھے‘ جب وہ درد سے کراہتے تو ابا جی ان کی آواز سن کر رونا شروع کردیتے۔

ابا جی نے زندگی سادگی‘ کفایت شعاری اور رزق حلال کی میں گزاری۔ وہ صاف شفاف بے غرض انسان تھے۔ میں نے انہیں کبھی اونچی آواز میں بات کرتے نہ سنا‘ نہ کبھی کسی کو جھڑکا نہ ڈانٹا۔ ابا کی کشادہ پیشانی پر ہمیشہ اولاد کے لیے مسکراہٹ اور پیار ہوتا۔ ہم سب بہن بھائیوں کو مضبوط سائبان فراہم کیا‘ ہم ابا جی کی زندگی میں دنیا کی فکروں سے آزاد رہے۔ انہوں نے ہمیں زندگی کی ہر سہولت اور آرام مہیا کیا تھا۔

میری امی نے اپنی پوری زندگی ابا کی خدمت میں گزاری۔ اللہ پاک نے امی کو ایسی صلاحیتوں سے نوازا تھا جو ہمیں کہیں نظر نہیں آتیں۔ امی کا انتقال اکتوبر 2008ء میں ہوا۔ ابا جی اس دن بچوں کی طرح رو پڑے کہ میری آدھی زندگی چلی گئی۔ امی کے جانے کے بعد ابا جی کی صحت آہستہ آہستہ گرتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ امی اپنے بچوںسے کہیں زیادہ ابا جی کا خیال رکھتیں۔ ابا جی نے کبھی بھی اپنے من پسند کھانے کی فرمائش نہیں کی۔ سادہ غذا لیا کرتے جو امی اپنے ہاتھوں سے بناتیں یہاں تک کہ ابا جی کے لیے میدہ بھی گھر میں نکال لیتیں اور مزے دار نمک پارے کھلاتیں۔ امی نے وفا شعار اور سعادت مندی سے گھر کو سنبھالا۔ ابا جی کو رات گھر آنے میںکتنی ہی دیر کیوں نہ ہو جائے وہ ان کا انتظار کرتی تھیں کہ ابا جی کہیں کھانا کھائے بغیر نہ سو جائیں۔ امی کی رحلت کے بعد اکثر مجھے یہ خواب ستانے لگتے کہ امی نے کھانے کی ذمہ داری میری لگائی تھی‘گھبرا کر آنکھیں کھلی جاتیں کہ میں نے ابا جی کو کھانا کھلایا نہیں۔

ابا جی ہماری امی کا بہت احترام کرتے۔ امی نے نہ صرف اپنے گھر بلکہ پورے خاندان کو نبھایا اور ابا جی کو گھر کی فکروں سے آزاد رکھا۔

ابا جی جماعت اسلامی کا روشن ستارہ اور جماعت کی قیادت میں ایک نہایت قیمتی ہیرا تھے۔ ابا جی نے اپنی ساری حیات جماعت کی خدمت میں گزار دی۔ انہیں جسارت اخبار سے خاص لگائو تھا۔ ہم نے گھر میں ہمیشہ جسارت اخبار ہی آتے دیکھا۔

ابا جی کو اللہ پاک نے صبر و شکر خوب عطا کیا۔ ان کے صبر اور برداشت کا یہ عالم تھا کہ 2007ء میں عمرے کی سعادت کے لیے مکہ المکرمہ گئے‘ وہاں ابا جی کی چپل گم ہوگئی جیسا کہ عموماً ہو جاتا ہے اور لوگ دوسروںکی چپل پہن لیتے ہیں۔ مگر والد صاحب کے دل نے یہ گوراہ نہ کیا اور وہ شدید گرمی میں بغیر چپل کے ہی ادائیگی کو جاری رکھا یہاں تک کہ پیروں میں آبلے پڑ گئے۔ جب واپس آئے تو پیروں میں پٹیاں بندھی تھیں۔ درد اور تکلیف کا سوچ کر ہماری آنکھوں میں آ نسو آگئے۔

گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی بنا پر مجھے والدین کا بھرپور پیار ملا۔ والد نے کبھی بھی بیٹوں اور بیٹیوں میں معمول فرق بھی روا نہ رکھا۔ ہمیں گھر میں ہر سہولت فراہم کی یہاں تک کہ جب ٹیلی ویژن نیا نیا آیا تو ابا جی نے ہماری اس فرمائش کو بھی پوری کی۔

ابا جی ہمیں اسکول سے واپسی میں بسا اوقات پیر صاحب پگارا اور شیر باز مزاری کے گھر کے لے جایا کرتے تھے۔ میٹنگ کے دوران ہم ابا جی کے پاس بیٹھے رہتے۔ وہاں ہماری خواب تواضع کی جاتی۔ جب میں چھوٹی تھی تو ابا جی کے مہمانوں کے لیے چائے بھی لے جایا کرتی تھی۔ اکثر ابا جی خود چائے کی ٹرے واپس باورچی خانے میں رکھ دیا کرتے تھے۔ ہمارے گھر سیاسی سرگرمیاں چلتی رہتی تھیں جب مہمان گھر کے لان میں مدعو ہوتے تو امی گھر کی لائٹیں بند کر دیا کرتی تھیں کہ کہیں بے پردگی نہ ہو جائے۔
ابا جی جب بھی غیر ملکی سفر پر جاتے واپسی پر ہمارے لیے تحائف لے کر آتے۔ ایک بار میری بہن اور میرے لیے گھڑی لائے۔ مجھے آج بھی ابا جی کے دیے ہوئے سارے تحائف یاد ہیں۔

بچپن میں ابا جی کے آفس جانے کے بعد ان کے کمرے میں ریڈیو سنا کرتی تھی۔ مجھے ان کے کمرے میں بہت سکون محسوس ہوتا تھا۔ میں ان کے کمرے میں موجود الماری کھول کر دیکھتی جہاںنہایت قرینے اور سلیقے سے کتابیں‘ اخبارات اور ضرورت کے سامان رکھے ہوتے تھے۔ میں سوچا کرتی تھی کہ معلوم نہیں ابا جی نے اتنے سارے پرانے اخبارات کیوں رکھے ہوئے ہیں بعد میں اندازہ ہوا کہ ابا جی نے ان اخبارات کی مدد سے آٹھ کتابیں لکھ ڈالیں۔ ابا جی کی میز پر ہمیشہ ایک ڈائری ہوتی تھی جس پر وہ دن بھر کی مصروفیات تحریر کرتے تھے۔ ابا جی وقت کے نہایت پابند تھے‘ جب کوئی دعوت دیتا قبول کرتے‘ شادی بیاہ و دیگر تقریبات میں وقت پر پہنچ جاتے۔ کوئی بیمار ہو تو سب سے پہلے اس عیادت کو جاتے۔ ابا جی کے انتقال سے آٹھ روز قبل میری ممانی جان کا انتقال ہوا۔ ابا جی نقاہت کے باوجود ان کے گھر گئے‘ زینہ چڑھنے کی ہمت نہ کرسکے لہٰذا گاڑی میں ہی بیٹھ کر تعزیت کی۔

ابا جی مصروفیات کے باوجود اپنی بیٹیوں کے گھر جانا نہیں بھولتے۔ صبح ہی لالہ کو بتا دیتے کہ کس بیٹی کے گھر جانا ہے۔ (ہمارے ہاں سب لالہ کو جانتے ہیں جنہوں نے ہمارے ہاں امی اور ابا جی کے آخری ایام تک خدمت کی والدین کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد آج بھی لالہ اپنی بہنوں کی طرح خیر خیریت پوچھتے رہتے ہیں۔) ابا جی جب ہمارے گھر آتے وہ دن ہمارے لیے عید کے دن جیسا ہوتا۔ وہ پھلوں سے بھرے تھیلے اور موسمی سوغات لے کر آتے۔

ابا جی کی وفات کے بعد ان کے ہاتھ سے لکھا ہوا پرچہ ’’یٰسین و القرآن الحکیم‘‘ اور ابا جی کی ایک تصور میں نے اپنے بٹوے میں رکھ لیا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب کورونا نے پوری دنیا پر اپنے پنجے گاڑ لیے تھے اور ملک میں لاک ڈائون تھا۔ 16 مارچ کو خیال آیا کہ پرس سے غیر ضروری سامان نکال دوں۔اس غرض سے دیکھا تو پرس میں بٹوا موجود نہیں تھا۔ پورے گھر میں تلاش کرنے بعد دکان پہنچی لیکن وہاں سے بھی مایوسی ہوئی۔ گھر آکر رو رو کر اللہ سے دعا کی کہ مجھے بٹوے کی ذرا بھی فکر نہ تھی دکھ اُس پرچے کا تھا جو ابا جی کے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا وہ کاغذا میرا قیمتی اثاثہ تھا۔ اسی دن دوپہر میں میرے شوہر کے پاس فون آیا اور بٹوے سے متعلق ضروری معلومات لینے کے بعد کہا کہ آکر لے جائیں۔ وہ مجھے بنا بتائے لینے چلے گئے اور لا کر میرے ہاتھوں میں تھما دیا۔ لمحہ بھر تو مجھے سکتہ ہو گیا۔ الحمدللہ بٹوے میں تمام چیزیں جوں کا توں موجود تھیں۔

جب ساری بہنیں ابا جی کے گھر اکٹھے ہوتے تو بچے خوب شور مچاتے۔ نانا‘ نانی کا گھر بچوں کی بہترین تفریح ہوا کرتی تھی مگر کبھی بھی ابا جی نے بچوں کو شور مچانے یا کھیل کود سے منع نہیں کیا اور شفقت اور پیار سے ان کے سروں پر ہاتھ کر دعا دیتے۔ ابا جی نہایت دور اندیش تھے‘ وہ یہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ ان کی اولاد جائداد کی وجہ سے آپس میں لڑ پڑے۔ جب ابا جی نے گھر کو بیچنے کا ذکر کیا تو ہم نے انہیں اس سے روکا۔ لیکن پھر ایک دن اچانک ابا جی نے خاموشی سے گھر کا سودا کر دیا اور اپنی زندگی میں ہی یہ فرض بھی اد اکر دیا۔ یہ ابا جی اور امی کی ایک عظیم قربانی تھی کہ بڑے گھر کو چھوڑ کر چھوٹے گھر میں رہائش اختیار کرلی۔ جس وقت ابا جی نے میرے ہاتھ میں چیک دیا تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے جس پر ابا جی نے مجھے شفقت سے ڈانٹا۔
امی کے انتقال کے بعد ہم رات کا کھانا ابا جی کے ساتھ کھایا کرتے۔ اس وقت ابا جی میں باپ کی شفقت کے ساتھ ماں کی مامتا بھی دکھائی دیتی۔

میں 19 دسمبر 2012 کی دوپہر اپنی بیٹی کے ہمراہ ابا جی سے ملنے گھر گئی جو آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ ابا جی کی دعائوں کی بازگشت آج بھی کانوں میں گونجتی ہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ابا جی نے ملک و قوم کی بھلائی کے لیے جو بھی دعائیں مانگی ہیں ان سب کو قبول فرمائے‘ اور میرے ابا جی کے درجات بلند فرمائے‘ ان کی قبر کو کشادہ اور نور سے بھر دے‘ آمین۔