گھروندا

362

’’امی پلیز، میرے لیے بھی سینڈوچ بنادیں۔‘‘ زارا نے امی کو بھائی کے لیے ناشتا بناتے دیکھا تو کہہ دیا۔
’’طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟ امی بنائیں گی تمہارے لیے ناشتا، بجائے اس کے کہ تم امی کے لیے بناؤ!‘‘ امی کے جواب دینے سے پہلے ہی بھائی نے ناگواری سے کہا۔
’’تو تمہارے لیے بھی تو بنا رہی ہیں نا، میرے لیے بھی بنادیں گی تو کیا ہوگا! امی کوئی بات تو نہیں ہے نا؟‘‘ زارا نے حیرت سے کہا۔
’’نہیں بھئی! بلکہ میں نے سب کے لیے ہی بنا دیا ہے، تم بھابھی کو بھی بلا لاؤ، وہ بھی معاذ (بیٹے) کے ساتھ رات بھر کی جاگی ہوئی ہے۔‘‘
امی نے کہا تو زارا جو ابھی اپنے لیے امی کو ناشتا بنانے کا کہہ رہی تھی‘ بول اٹھی ’’امی آپ ساس ہیں، کبھی ساسیں بھی بہوؤں کے لیے ناشتا بناتی ہیں! ہم نے تو کہیں نہیں دیکھا بہوؤں کے اتنے نخرے اٹھاتے کسی کو۔‘‘وہ ناگواری سے بولی ۔
زیادہ تر گھروں میں دیکھا گیا ہے کہ بیٹے، بھائی، شوہر، ساس سسر کے ہی کاموں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ گھر کی عورتوں کی ذمے داری ہے کہ گھر کے بزرگوں اور مردوں کے آرام کا خیال رکھیں۔ وہ باہر سے روزی روٹی کما کر گرمی اور ماحول کی سختی جھیل کر گھر آئیں تو اُن کو گھر کا آرام ملے تاکہ جو دوڑ دھوپ وہ اپنے گھر والوں کے لیے کررہے ہیں اُن کو معلوم ہو کہ گھر والوں کو اُن کی محنت کا احساس ہے، اور یہی احساس انہیں دوسرے دن کے لیے پھر سے تازہ دم کردیتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی گھر میں موجود خواتین جو سارا دن نظر نہ آنے والے کام کاج خاموشی سے سرانجام دے رہی ہوتی ہیں، وہ بھی ستائش کی متمنی ہوتی ہیں۔
گھر کی وہ کنواری بیٹی یا بہن جو پڑھائی کے ساتھ ساتھ بظاہر سارا دن آرام کرتی یا بھانجوں بھتیجوں سے کھیلتی یا لڑتی نظر آرہی ہوتی ہے وہ بھی کتنے ہی چھوٹے موٹے کام ایسے کررہی ہوتی ہے جو کسی کی بھی نظر میں کام نہیں ہوتے۔ یا وہ بہو جو رات رات بھر بچوں کے ساتھ جاگتی ہے اور پھر صبح ہوتے ہی چائے کا بڑا سا مگ پی کر زبردستی اپنی آنکھیں کھول کر کام میں جت جاتی ہے ان دونوں کو بھی اگر ماں یا ساس اپنے ہاتھ سے ناشتا بناکر دے دے، یا ان کو صبح زیادہ دیر تک سونے دے تو کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ بھی ضروری ہے کہ ساس اگر بہو کو کچھ آرام دے رہی ہے تو وہ اللہ کی رضا کے لیے ایسا کرے۔ بہو سے بدلے کی چاہ نہ ہو، بلکہ یہ سوچ کر کرے کہ آج وہ کسی کی بیٹی کو آرام دے گی تو کل اِن شاء اللہ اس کی بیٹی کو بھی قدردان لوگ ملیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ بہوئوں کو بھی چاہیے کہ ساس کی قدر کریں۔ ضروری نہیں ہے کہ ان کی برائی کا بدلہ برائی سے ہی دیں۔ وہ آپ سے عمر میں کئی گنا بڑی ہیں اور ان کے دماغ میں بھی کوئی ایک نہیں بلکہ کتنے ہی کام چل رہے ہوتے ہیں، تو جیسے ساسیں بہوؤں کو مارجن دیتی ہیں ایسے ہی بہوؤں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ گھر میں ان کے آنے سے یقینا کچھ تبدیلیاں آتی ہیں، ان کو قبول کرنے میں ساسوں کو بھی وقت لگتا ہے۔
صرف چھوٹے یعنی بہو اور بیٹی ہی کا فرض نہیں ہے کہ ماں اور ساس کی خدمت کرے، بلکہ بڑوں کو بھی اپنا بڑاپن دکھاتے ہوئے اپنا دامن وسیع رکھنا چاہیے۔

حصہ