اظہار یکجہتی ۔۔۔مگر کیسے ؟

240

پچھلے دنوں گھر والوں نے لاہور جانے کا پروگرام بنا لیا، چونکہ ماہِ دسمبر کے آخر میں سردیوں کی چھٹیاں ہوجاتی ہیں، اس لیے میں نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا۔ میرا خیال تھا کہ سالانہ چھٹیاں ہونے سے قبل اسکول سے چند روز کی مزید رخصت لے کر انہیں لاہور بھیج دوں تاکہ سارے گھر والے دسمبر کا ٹھنڈا اور حسین موسم بھرپور انداز میں انجوائے کرسکیں۔ بس اسی پر عمل کرتے ہوئے میں نے گزشتہ ہفتے اپنی فیملی کو لاہور کے لیے روانہ کردیا۔ میں جس روز کینٹ اسٹیشن کے لیے نکلا مجھے ایک نئی دشواری کا سامنا کرنا پڑا، میرا مطلب ہے کہ ہم خاصی دیر تک ٹریفک جام میں پھنسے رہے، گو کہ ٹریفک جام کراچی کا معمول ہے لیکن یہاں اسے ”نئی دشواری“ لکھنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اُس دن سڑکوں پر سندھی ٹوپی، اجرک ڈے منانے کے لیے جانے والے قافلوں اور بے ترتیب کھڑی گاڑیوں کا ایک سیلاب تھا۔ خیر، جیسے تیسے کرکے ہم کینٹ اسٹیشن پہنچ گئے اور تمام مسافر وقتِ مقررہ پر منزل کی جانب کوچ کرگئے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی، بلکہ اصل کہانی تو اُس وقت شروع ہوئی جب گھر واپسی کے لیے میں نے کورنگی روڈ کا انتخاب کیا اور اپنے ایک دیرینہ دوست سے ملنے اُس کے گھر جا پہنچا۔ حمید سادہ ذہن اور ملنسار شخص ہے، مزاح اس کی طبیعت میں شامل ہے، مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا: ”میاں! کہاں کی خاک چھان کر آرہے ہو؟ حلیے سے تو لگتا ہے جیسے آثارِ قدیمہ میں ملازمت اختیار کرلی ہے۔“

میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے چائے کی فرمائش کچھ اس انداز میں کردی: ”خاک در خاک جناب کے قدموں کی خاک، اس خاکسار کو ایک کپ چائے کی طلب ہے۔“

میرے اندازِ گفتگو پر حمید نے میرا کاندھا تھپتھپایا اور مسکراتے ہوئے چکرا گوٹھ میں قائم ایک کیفے کی جانب چل پڑا جہاں سندھی ٹوپی اجرک پہنے درجنوں افراد موجود تھے۔ ہم دونوں بھی اُن کے درمیان جا بیٹھے۔ اس سے پہلے کہ حمید چائے کا آرڈر دیتا اور ہم دونوں گپ شپ کرتے، میری ساری توجہ کیفے میں موجود اُس نوجوان کی جانب ہوگئی جسے اُس کے دوست سندھی ٹوپی اجرک ڈے کی اہمیت بتانے یا اُسے اس پر قائل کرنے کی سر توڑ کوشش میں مصروف تھے۔ ان کے درمیان ہونے والی گفتگو انتہائی دلچسپ تھی۔ جس وقت میں اُن کی جانب متوجہ ہوا، امداد علی نامی شخص اپنے سے دوست کچھ یوں ہم کلام تھا:

”سندھی ٹوپی اجرک ڈے! یہ کون سا دن ہے؟چھوڑو بھائی کوئی اور بات کرو۔“

بس پھر کیا تھا، ایک لمبی بحث چھڑ گئی۔ ساتھ بیٹھے سارے نوجوان امداد علی کی جانب متوجہ ہوگئے، خاص طور پر حسن شیخ جذباتی ہوتے ہوئے کہنے لگا:

”کیسی باتیں کررہے ہو! تمہیں خبر نہیں کہ ہر سال کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر اور صوبے کے تمام شہروں میں بسنے والے سندھی ٹوپی، اجرک اور روایتی قمیص شلوار زیبِ تن کرکے سندھی ثقافت سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ثقافتی جلسوں کی مدد سے سندھی عوام اپنی روایات اور ثقافت سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ دن سندھی کلچرل ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن تمام نوجوان سندھ دھرتی سے اظہارِ یکجہتی کرتے اور سندھ کی ثقافت کو روشناس کرانے کے لیے سندھی اجرک ٹوپی پہن کر نکلتے ہیں، علاقائی دھنوں پر رقص کیا جاتا ہے، جبکہ ثقافتی رنگوں میں رنگ کر خواتین اور بچے بھی پُرجوش نظر آتے ہیں۔ یہ دن نہ صرف سندھ میں یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے، بلکہ دنیا بھر میں آباد سندھ سے تعلق رکھنے والے اس دن کی مناسبت سے خصوصی پروگراموں کا اہتمام کرتے ہیں۔ کہیں ریلیاں نکالی جاتی ہیں، کہیں ڈھول کی تھاپ پر جھوم جھوم کر رقص کیا جاتا ہے، کہیں لوک فنکار دل کو چھو لینے والے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اور تو اور یہ دن ایک ایسا ثقافتی جشن ہے جسے لڑکے، لڑکیاں، بچے اور بوڑھے بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔‘‘

’’بھائی صاحب! میں نے کہا نا کہ اس راگ مالا کو چھوڑو، کوئی دوسری بات کرو۔ روزی روٹی کمانے کی بات کرو۔‘‘

’’کیسے چھوڑ دوں! تم سندھ کی تہذیب کے خلاف بات کررہے ہو۔ ٹوپی، اجرک تو ہمارے صوبے کی ثقافت ہے، اور تم بجائے اس سے محبت کا اظہار کرنے کے، بات گول کیے جا رہے ہو۔ دیکھو یہ اچھی بات نہیں۔‘‘

’’یار تم میری بات کو غلط رنگ دینے کی کوشش نہ کرو، میں بھی اس دھرتی کا سپوت ہوں، مجھے بھی اس سے پیار ہے، میں بھی اس کی ثقافت سے محبت کرتا ہوں، میرے دل میں بھی ٹوپی، اجرک کی اتنی ہی قدر و محبت ہے جتنی کسی اور کے دل میں ہے۔ میں اس کا اظہار کروں یہ ضروری تو نہیں، کیوں کہ اس بارے میں میری رائے تم سے کچھ مختلف ہے، اس لیے تم اپنا نظریہ نہ چھوڑو اور نہ ہی اپنے خیالات مجھ پر مسلط کرو۔“

”چلو میں خاموش رہتا ہوں لیکن تمہیں اس کی مخالفت کی وجہ ضرور بتانی ہوگی، یا پھر تم اپنی منطق بیان کرو۔“

”بھائی صاحب! اگر میری رائے جاننے کی قسم کھالی ہے تو سنو.. سوچو، جہاں غریب آدمی کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہاں ایسے تہوار منانا پیٹ بھروں کا مشغلہ تو ہوسکتا ہے، ایک عام آدمی خاص طور پر مجھ جیسے غریب شخص کے دل کی آواز نہیں۔ میں مزدوری کرتا ہوں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں ناسمجھ ہوں۔ میں نے انٹر کیا ہے، اس لیے اچھے برے میں تمیز جانتا ہوں۔ گھریلو حالات کی وجہ سے مزید تعلیم حاصل نہ کرسکا۔ اخبارات و رسائل پڑھتا ہوں، حالات سے باخبر ہوں۔ تم ٹوپی اجرک ڈے منانے کی بات کررہے ہو، اصل حقائق تو یہ ہیں کہ پاکستان میں ہر سال تین سے ساڑھے چار ہزار عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں اور ان میں سب سے بڑی تعداد صوبہ سندھ میں ’’کاروکاری‘‘کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کی ہے۔ کیا کسی نے کبھی کوئی ایک دن بھی کاروکاری یا نام نہاد غیرت کے نام پر قتل ہونے والی ان خواتین کے ساتھ یکجہتی کے طور پر منانے کی بات کی؟ تھانوں میں پولیس، اور وڈیروں، خانوں، چودھریوں کی اوطاقوں اور ڈیروں پر ہر روز ہاریوں اور مزارعوں کی پگ پر ہاتھ پڑتے ہیں… کیا کبھی جاگیردارانہ نظام کے خلاف کوئی دن منایا گیا؟ پچھلے پانچ برس میں 1300 سے زائد افراد نے اپنے ہی ہاتھوں زندگی کا خاتمہ کرلیا… عمر کوٹ، تھرپارکر اور میرپورخاص میں خودکشی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے جن میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں اور خواتین کی ہے۔ صرف تھر کی بات کریں تو وہاں غربت، بے روزگاری، ذہنی امراض اور قرضوں کی عدم ادائیگی کے باعث لوگ خودکشیاں کررہے ہیں۔ بھوک نے تو پہلے ہی ڈیرے ڈال رکھے تھے، اب بات خودکشی تک جاپہنچی ہے۔ قحط سالی سے لوگوں کی جانیں جارہی ہیں، مایوسی نے نوجوانوں کو خودکشی کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا، ان بدترین حالات پر مختلف فلاحی اداروں کی رپورٹیں کئی بار منظرعام پر آچکی ہیں، لوگوں کے مالی حالات انتہائی خراب ہیں، ایسے حالات میں ٹوپی اجرک پہن کر مصنوعی خوشی تو حاصل کی جاسکتی ہے، اصل خوشیوں کا حصول ممکنات میں سے نہیں۔‘‘

”یہ سب اپنی جگہ درست ہوگا، لیکن سال میں ایک مرتبہ اگر سندھی ثقافت ڈے مناکر خوشیاں بانٹنے کا موقع ملتا ہے تو اس میں حرج کیا ہے!“

”تم میری بات سمجھنے کے بجائے اب بھی اسی حصار میں بند ہو۔ جب تک میری بات خالی الذہن ہوکر نہیں سنو گے، سمجھنے سے قاصر رہو گے۔ چلو میں اپنی بات اور آسان کیے دیتا ہوں، میں مزدوری کرنے سے پہلے ایک ادارے میں ملازمت کرتا تھا، دو ماہ قبل میری نوکری ختم ہوگئی ہے یعنی مجھے نوکری سے نکال دیا گیا، اب میں بے روزگار ہوں، حساب کیے جانے کے بعد کمپنی کی طرف سے مجھے جو پیسے ملے تھے وہ اب ختم ہوچکے ہیں، ظاہر ہے پانچ سات دن لگائی جانے والی دہاڑیوں کی رقم اتنی زیادہ تو نہیں ہوگی جس سے پورا مہینہ گزارا کیا جاسکے۔ جیسے رقم ہاتھ آئی تھی ویسے ہی چلی گئی۔ اب گھر میں سوائے فاقوں کے کچھ نہیں۔ محلے کے دکاندار نے بھی ادھار دینے سے منع کردیا ہے۔ بچوں کو اُن کے ننھیال بھیج کر اپنی قسمت پر ماتم کررہا ہوں۔ کئی کمپنیوں سے رابطہ کیا، ہر جگہ سے نفی میں ہی جواب ملا۔ اب تم ہی بتاؤ جب نوکری نہ رہے اور جیب میں ایک ٹکا تک نہ ہو، ایسی صورت میں ثقافت ڈے منانے سے مجھے روزگار مل سکتا ہے؟ ٹوپی اجرک پہن کر ڈالے جانے والے دھمالوں سے میرے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھ سکتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہر غریب اور بے روزگار شخص کو میرا مشورہ ہوگا کہ وہ غربت اور بے روزگاری سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایسے تہوار نہ صرف سال میں ایک مرتبہ بلکہ ہر روز منائے۔‘‘

”بے روزگاری اور غربت پر تمہاری باتیں اپنی جگہ، لیکن یہ تو ہماری ثقافت ہے۔“

”تم پھر ثقافت کو بیچ میں لے آئے ہو۔ میں کب اس سے انکاری ہوں! دیکھو میں نے بھی اجرک اوڑھ رکھی ہے۔ شاید تم نے بھی میرے اسی حلیے کو دیکھتے ہوئے مجھ سے بات شروع کی ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ مجھے اس کلچر سے مسئلہ نہیں۔ چلو میں مزید ایک قدم آگے بڑھ کر کہتا ہوں کہ تمام زبانیں بولنے والوں کو اپنا اپنا کلچرل ڈے منانا چاہیے، مجھے اس سے کوئی اختلاف نہیں، لیکن تم اس بات کا تو جواب دو کہ 2009ء سے پہلے یہ دن کیوں نہیں منایا جاتا تھا؟ 2009ء سے قبل ٹوپی اجرک کیا ہماری ثقافت نہیں تھی؟ دیکھو سندھ دھرتی کی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے، یہ دس بارہ سال کی بات نہیں۔ ہم ہزاروں سال سے اپنی معاشرتی تہذیب کے امین ہیں، ہمیں اس زمین کا وارث ہونے پر فخر ہے،ہم سندھ دھرتی کے بیٹے ہیں، لہٰذا میری وفاداری پر بھی کسی کو شک کرنے کی ضرورت نہیں۔ تہذیب اور ثقافت سیاست سے پاک ہوا کرتی ہے، اس میں محبتوں کے خوبصورت پھول ہوتے ہیں جن کی خوشبو سے سارا چمن مہکتا ہے۔ اگر میری بات ٹھیک ہے تو سوچو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ تہذیب اور ثقافت کی خوشبو صرف محلات تک ہی محدود رہے! نہیں نہیں ایسا بالکل نہیں ہے، خدا نے ہر انسان کو واجب تکریم پیدا کیا اور انہی میں سے چند لوگوں کو اقتدار دیا تاکہ وہ اس کی مخلوق کی تمام ضروریاتِ زندگی پوری کریں، انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں، طبقاتی تفریق کا خاتمہ کریں، رزق کی فراوانی میں رکاوٹ نہ بنیں، قرآن کا نظام قائم کریں، ایسا نظامِ حکومت جہاں انسانی زندگی کی قدرو قیمت ہو، جہاں زکوٰۃ دینے والے ہوں مگر لینے والا نہ ہو، جہاں طبقاتی تفریق نہ ہو۔ ایسی ریاست کے قیام سے ہی نہ صرف غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے بلکہ لوگوں کو خودکشی جیسے انتہائی اقدام سے بھی بچایا جاسکتا ہے۔ تم یقین جانو یہی نظام خوشحال پاکستان کی ضمانت اور ہماری ثقافت کی مٹھاس ہے، بصورتِ دیگر یہ سیاسی شعبدہ بازی کے سوا کچھ نہیں۔‘‘

امداد علی اور اُس کے دوست حسن شیخ کے درمیان ہونے والی گفتگو سن کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حسن شیخ کی باتوں میں اگر سندھ دھرتی سے محبت کا اظہار ہے تو دوسری جانب امداد علی کی سوچ بھی قابلِ غور ہے۔ جبکہ میں اس پر اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ جس تیزی سے دنیا میں دن منانے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ آنے والے برسوں میں ہمیں سال کے تین سو پینسٹھ دن کبھی صحافت کا دن، کبھی زمین کا تو کبھی پھول کا دن، محبت کا دن تو کبھی ماں کا دن، باپ کا دن تو کبھی تعلیم، صحت اور ماحولیات کا دن منانا پڑے گا۔ یہاں اگر سال کے تقسیم کیے گئے دنوں کی تفصیل لکھی جائے تو خاصا وقت درکار ہوگا، لہٰذا یہ کہتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں یکجہتی کے نام پر جس طرح نئی روایات ڈالی جارہی ہیں کم سے کم مجھے تو یہ خاصا عجیب سا لگتا ہے۔ اب ماں سے منسوب دن کی مثال کو ہی لے لیجیے، سال میں ایک مرتبہ ماں سے مل کر محبت کا اظہار کرلیجیے، ایک سوٹ یا گلدستہ پیش کرکے اپنی ذمہ داری پوری کرلیجیے، باقی 364 دن وہ اپنی اولاد سے ملنے کو ترستی رہے، سارا سال اس کی کیا ضروریات ہیں، وہ کیا چاہتی ہے یا اس کے احساسات کیا ہیں؟ یہ باتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ بس چند گھنٹوں کا یومِ اظہار یکجہتی مناکر اس کے اُن تمام احسانات کا بدلہ اتار دیا جائے جو وہ بچوں کی پیدائش سے لے کر ان کی جوانی بلکہ اپنی موت تک کرتی کرتی رہتی ہے۔ میں پھر کہتا ہوں میرے نزدیک زمانے کی بنائی ہوئی ایسی تمام رسومات خصوصاً ماں سے اظہار محبت کی یہ رسم ماں کا دل دُکھانے کے سوا کچھ نہیں۔

یہاں ماں جیسی عظیم ہستی کے نام سے منسوب دن کی مثال دینے کا مقصد صرف یہی ہے کہ میرے پاس اس سے بڑا کوئی اور ثبوت نہیں جس سے مغرب کی خودساختہ روایات کی نفی کر سکوں جو ہمارے اوپر مسلط کی جا رہی ہیں، اور ہم عین عبادت سمجھ کر ان پر عمل کیے جا رہے ہیں۔ آخر میں یہی دعا ہے کہ خدا پاکستان کو ترقی و خوشحالی عطا فرمائے اور اس کا ہر دن یہاں کے باسیوں کے لیے خوشیوں کا تہوار ہو۔

حصہ