جنگِ قادسیہ

1744

اسلام صرف تبلیغ سے نہیں پھیلا۔ تعلیماتِ اسلامی کے لیے بے شک تبلیغ ضروری ہوتی ہے۔ تبلیغ سے مراد یہ ہے کہ اسلام کے پیغام کو ہر عام و خاص تک پہنچایا جائے۔ چناچہ اللہ کے نیک بندے پوری دنیا میں اللہ کے پیغام کو لے جاتے رہے ہیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ جب بھی دعوتِ حق کو لے کر اللہ کے نیک بندے اہلِ کفر و شرک کے پاس جاتے ہیں، انہیں کافروں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر اللہ کے پیغام لے جانے والوں کو سخت اذیت پہنچانے کے ساتھ ساتھ شہید بھی کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو ہر فرد و بشر تک پہنچانا ہر مسلمان پر فرض ہے اس لیے جہاد کرنا پڑتا ہے اور اللہ کے خلاف ڈٹ جانے والوں اور اس کے حکم کو نہ ماننے والوں کے خلاف جنگ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ جب ہمارے پیارے رسول محمد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچانا شروع کیا تو عرب کے لوگوں نے آپؐ کو بہت اذیتیں پہنچائیں اور مسلمان ہوجانے والے صحابہ کرام کو بہت دکھ دیئے یہاں تک کہ بہت سارے صحابہ کرام کو شہید تک کر ڈالا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم آیا کہ اللہ کے دین کو نافذ کرو خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی بری لگے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اسلام کو دور دور تک پھیلانے کے لیے بڑی بڑی جنگیں کیں۔ میں جنگِ یرموک کے ایک واقعے کا ذکر پہلے ہی کر چکا ہوں جس میں صرف 60 مسلمان مجاہدین نے 60 ہزار کافروں کو میدان چھوڑ کر بھاگ جانے اور اپنے پیچھے اپنے سپاہیوں کی 5 ہزار لاشیں چھوڑ جانے پر مجبور کر دیا تھا۔ آج میں ایرانیوں کے ساتھ لڑی گئی ایک جنگ جس کو جنگ “قادسیہ” کے نام سے تاریخ میں درج کیا گیا ہے، کا حال سناتا ہوں کہ مسلمان مجاہدین نے کیسے ایران کی دو لاکھ فوج کو، جس کے پاس نہایت قوی ہیکل ہاتھی بھی تھے، انھیں نہ صرف میدان چھوڑ کر بھاگ جانے پر مجبور کردیا تھا بلکہ ان کے ہاتھیوں پر اتنا شدید حملہ کیا کہ ہاتھی پلٹ کر اپنی ہی فوج کو کچلتے ہوئے بھاگ جانے پر مجبور ہو گئے تھے۔
یاد رہے کہ یہ جنگ تین دن تک جاری رہی، پہلے دن کے مقابلے میں ہاتھیوں کی وجہ سے مسلمانوں کا کافی جانی نقصان ہوا لیکن جو جو سردار اور شہسوار مبارزت طلب کرتا رہا، مسلمان مجاہدین ان کو زندہ گرفتا کر کر کے لاتے رہے۔ رستم جو ایرانی فوج کا سردار تھا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا اور حیران رہ گیا کہ وہ جس پہلوان کو میدان میں اتارتا ہے، مسلمان مجاہدین اسے بچوں کی طرح گرفتا کرکے لے جاتے ہیں چنانچہ اس نے پوری فوج کو حملہ کر دینے کا حکم دیا۔ دونوں جانب سے نہایت زور دار جنگ ہوئی۔ جنگ کے پہلے دن ایرانیوں کو سخت جانی نقصان برداشت کرنا پڑا لیکن مسلمانوں کو بھی کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ پہلے دن “ہرمز” نامی ایرانی پہلوان کو غالب بن عبداللہ اسعد نے مقابلہ کرتے ہی گرفتار کیا۔ اسی طرح ایک اور ایرانی شمشیرزن میدان میں آیا جس کو عاصم نامی مجاہد نے گرفتا کر کے مسلمان سپہ سالار سعد بن ابی وقاص کے حوالے کیا۔
دوسرے دن کی لڑائی میں بہمن جادویہ پہلوان میدان میں اترا جس کو مسلمان مجاہد قعقاع نے قتل کر دیا۔ اس کے بعد کئی شہسوار میدان میں اترے لیکن وہ سب کے سب مجاہدین کے ہاتھوں ہلاک کئے جاتے رہے۔ رستم نے یہ صورت حال دیکھ کر ایک مرتبہ پھر پورے لشکر کے ساتھ حملہ کر دیا۔ اس مرتبہ بھی ایرانی لشکر کے ساتھ فیل بردار دستے کو میدان میں اتارا گیا لیکن مسلمانوں نے ہاتھیوں کا توڑ کچھ اس طرح نکالا کہ اونٹوں کو سر سے لیکر پاؤں تک کالی چادریں پہنادی گئیں۔ ہاتھیوں نے جب اس عجیب و غریب مخلوق کو دیکھا تو ہواس باختہ ہو گئے۔ جس طرح پہلے دن مسلمانوں کو ہاتھیوں کی وجہ سے بہت نقصان اٹھانا پڑا تھا بالکل اسی طرح ہاتھیوں نے اپنی ہی فوج کو بہت نقصان پہنچایا۔
جنگ کے تیسرے دن مسلمانوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ جس طرح بھی ہو ہاتھیوں کو مارا جائے۔ اس زمانے کے ہاتھیوں کی مثال آج کل کے ٹینکوں سے بھی زیادہ خوفناک سمجھی جا سکتی ہے۔ چنانچہ اتنی شدید تیر اندازی کی گئی کہ مخالف فوج کو تیر چلانے کی مہلت ہی نہ مل سکی ساتھ ہی ساتھ ہاتھیوں کی سونڈھوں کو کاٹا گیا۔ ہاتھیوں میں سفید ہاتھی کو جب زخمی کیا گیا تو وہ پلٹ کر بھاگا، ایک اور بڑا ہاتھی بڑھا تو اس کی سونڈھ اڑا دی گئی وہ بھی پلٹ کر بھاگا۔ ہاتھیوں نے جب ساتھی ہاتھیوں کو پلٹ پلٹ کر بھاگتے ہوئے دیکھا تو سارے ہاتھی پلٹ کر اپنی ہی فوج کو کچل کچل کر بھاگنے لگے۔ رستم جو ایرانی فوج کا سالار تھا، اس صورت حال سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر بھاگ نکلنے کے لیے مڑا تو مسلمان مجاہد ہلال بن علقمہ نے برچھی کا ایسا وار کیا کہ رستم کی کمر توٹ گئی اور وہ نہر میں جا گرا۔ ہلال بن علقمہ نے اسے نہر سے نکال کر قتل کیا اور اس کے تخت پر چڑھ کر اعلان کیا کہ کافرو میں نے تمہارے سالار کو ہلاک کر دیا ہے۔ یہ سن کر دو لاکھ فوج میں ایسا خوف پھیلا کہ وہ میدان چھوڑ کر بھاگ نکلی۔
جنگ ختم ہوتے ہی سعد بن ابی وقاص نے ایک تیز رفتار شتر سوار کو حضرت عمر (رض) کی جانب خوش خبری لے کر روانہ کیا۔ اِدھر مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عمر (رض) کا یہ عالم تھا کہ آپ مدینے کے باہر تک جنگ کی صورتِ حال معلوم کرنے کے لیے نکل جایا کرتے تھے۔ ایک دن انھیں ایک تیز رفتار اونٹ سوار آتا دکھائی دیا تو پوچھا کہ کیا تم قادسیہ سے آ رہے ہو۔ اس نے رکے بغیر جواب دیا کہ ہاں، اور میں امیر المومنین کے پاس یہ خوشخبری پہنچانا چاہتا ہوں کہ ہم نے ایرانیوں کو بہت زبردست شکست دی ہے۔ آپ اس سے جنگ کا حال پوچھتے جاتے اور اونٹ سوار کے ساتھ ساتھ دوڑتے جاتے۔ شہر کے قریب پہنچ کر جب اونٹ سوار نے ہر عام و خاص سے آپ کو امیر المومنین کہتے سنا تو ڈر گیا کہ میں تو اونٹ پر ہوں اور آپ میرے ساتھ دوڑے چلے آ رہے ہیں۔ اس نے اونٹ روک کر اترنا چاہ تو فرمایا، بیٹھے رہو اور مجھے حالات جنگ سناتے جاؤ۔ ایسے ہوا کرتے تھے ہمارے مجاہدین اور ایسے ہوا کرتے تھے ہمارے حاکم۔ اللہ ہم سب کو ان کی مثال بننے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔
( بحوالہ جنگـ-قادسیہ )
https://ur.wikipedia.org/wiki/

حصہ