یرقان: اس مرض میں پرہیز اور آرام بہت ضروری ہے

517

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طبیہ کالج سے اپنی تعلیم مکمل کرکے جب وطن مالوف بھوپال پہنچا تو علاج کا نیا نیا شوق عروج پر تھا۔ پانچ سال تک محنت کرنے کے نتیجے میں جو معلومات حاصل ہوگئی تھیں ان کی وجہ سے اس قدر جوش اور ولولہ تھا کہ خیال آتا تھا کہ شاید اب تو کوئی مرض روئے زمین پر باقی نہیں رہنا چاہیے۔ اور ظاہر ہے کتابوں میں جہاں مرض کی تفصیل درج ہوتی ہے وہیں ان کا علاج بھی بیان کر دیا جاتا ہے اور جب علاج سے واقفیت ہو تو پھر مرض کا باقی رہنا کیا معنی؟ لیکن کالج سے فارغ ہونے والے طلبا یہ بھول جاتے ہیں کہ قدرت نے ہر مرض کا علاج پیدا کیا ہے‘ مریض کا نہیں‘ ورنہ کم از کم جالینوس‘ ابن سینا اور حکیم اجمل خان تو ابھی تک بقید حیات ہوتے۔

یرقان بھی ایک پرانا مرض ہے۔ آیئے دیکھیں کہ طب یونانی اس مرض کے بارے میں کیا کہتی ہے۔ پہلے یہ دیکھیے کہ یرقان جسم کے کن اعضا میں خرابی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے جسم میں ایک اہم عضو جگر ہے جس کے کئی فرائض میں سے ایک اہم فریضہ یہ ہے کہ وہ خون سے زرد رنگ کی ایک رطوبت جدا کرتا رہے اور اسے جگر سے متصل ایک چھوٹی سی تھیلی میں جمع کرتا جائے۔ زرد رنگ کی یہ رطوبت صفراء (بائل) کہلاتی ہے اور جس چھوٹی سی تھیلی میں اسے جمع کیا جاتا ہے اسے مرارہ، پتہّ یا گال بلیڈر کہتے ہیں۔ پتہّ سے ایک باریک نالی‘ اس مقام پر آنتوں سے آکر ملتی ہے جہاں سے آنتیں شروع ہوتی ہیں‘ اس مقام کو اثناء عشری کہتے ہیں اور اس باریک نالی کو مجرائے صفراوی یا صفراوی نالی کہا جاتا ہے۔

صفراء ہمارے ہاضمہ کو درست رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ چربی کو ہضم کرنے میں مدد دیتی ہے‘ آنتوں میں موجود مضر اشیا پر حملہ آور ہو کر انہیں بے ضرر بناتی ہے اور اس کی تیزی آنتوں میں ہلکی سی چبھن پیدا کرکے اجابت کا احساس دلاتی ہے۔ قدرت کا یہ حیرت انگیز نظام ہے کہ یہی زرد رطوبت صفرا خود کار طریقے پر خون سے الگ ہو کر پتیّ میں جمع ہوتی رہتی ہے اور خون میں اس رطوبت کا تناسب ایک خاص سطح پر برقرار رہتا ہے۔ پھر پتہّ سے ضرورت کے مطابق یہ رطوبت آنتوں میں پہنچتی رہتی ہے جہاں یہ مفید خدمات انجام دیتی ہے لیکن اگر جگر کسی نقص کا شکار ہو جائے تو وہ خون سے اس رطوبت کا تناسب ایک خاص سطح پر برقرار رہتا ہے۔ پھر پتیّ سے ضرورت کے مطابق یہ رطوبت آنتوں میں پہنچتی رہتی ہے جہاں یہ مفید خدمات انجام دیتی ہے لیکن اگر کسی نقص کا شکار ہو جائے تو وہ خون سے اس رطوبت کو الگ نہیں کرسکتا یا پتۂ سے آنت تک اس رطوبت (صفراء) کو لے جانے والی نالی میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے تو یہ رطوبت آنتوں تک نہیں پہنچ پاتی۔ دونوں صورت میں ہوتا یہ ہے کہ خون میں اس رطوبت کا تناسب بڑھنٔے لگتا ہے‘ اسی کیفیت کو یرقان کہا جاتا ہے۔

خون میں اس رطوبت کا تناسب بڑھنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جسم کے مختلف حصوں مثلاً جلد‘ ناخن‘ آنکھوں رنگت زرد ہو جاتی ہے چونکہ گردے اس رطوبت کو چھان کر خارج کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے پیشاب بھی گہرے زرد رنگ کا آنے لگتا ہے اس طرح گردے بھی متاثر ہوتے ہیں اور اگر علاج نہ کیا جائے تو صفرا کا تناسب خون میں بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے جو جسم کے لیے زہر ثابت ہوتا ہے۔ مریض خون کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جگر خراب ہو تو بہت سے امراض حملہ آور ہوجاتے ہیں یوں تو عام طور پر یہ مرض جان لیوا نہیں لیکن اگر علاج کی جانب توجہ نہ دی جائے تو یہ مرض مریض کی جان لینے کا سبب بھی بن جاتا ہے۔

یہ مرض کبھی تو اچانک ظاہر ہو جاتا ہے اور کبھی اس کا انکشاف خاصے عرصے بعد ہوتا ہے اس لیے اس کی علامتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے اور مخصوص نوعیت کی شکایت پیدا ہوتے ہی معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔

یرقان کو عام بول چال میں ’’پیلیا‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ انگریزی میںاسے ’’جانڈس‘‘ اور لاطینی زبان میں ’’اکٹرس‘‘ کہا جاتا ہے اس کی ایک قسم یرقان سیاہ بھی لیکن یہ ایک الگ قسم ہے۔

یرقان کو عام طور پر دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے اگر صفرا کو آنتوں تک لے جانے والی نالی‘ مجرائے صفراوی کے بند ہونے کی وجہ سے خون میں صفرا کا تناسب بڑھ جائے تو اس نوعیت کا یرقان ’’یرقان انسدادی‘‘ کہلاا ہے اور اگر جگر کی خرابی یا کسی اور وجہ سے یہ مرض لاحق ہو جائے تو اسے ’’یرقان غیر انسدادی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات کسی کو دونوں اقسام کا یرقان بھی بیک وقت لاحق ہو سکتا ہے۔

’’یرقان انسدادی‘‘ صفرا کی نالی میں کسی رکاوٹ کے باعث ہو جاتا ہے‘ یہ رکاوٹ صفراوی نالی میں کسی پتھری کے پھنس جانے کے باعث پیدا ہو سکتی ہے جو پتھریاں پتے میں بنتی ہیںوہ اسی نالی کے ذریعے باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہیں اگر یہ پتھریاں صفراوی نالی سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں یا واپس پتے میںچلی جائیں تو یرقان نہیں ہوتا۔ کبھی آنتوں میں پائے جانے والے باریک کیڑے رینگتے ہوئے اس نالی کے سوراخ میں داخل ہو کر صفرا کی آمد کا راستہ بند کر دیتے ہیں‘ کبھی یہی کام غذائی اجزا یا لیس دار بلغم بھی انجام دیتا ہے۔ بعض اوقات صفراوی نالی میں ورم یا مسہّ پیدا ہو کر ایسی کیفیت ظاہر کرتا ہے۔ قریبی اعضا مثلاً معدہ‘ آنتوں یا تلی میں اگر رسولی یا ورم ہو جائے تو ان کا دبائو بڑھ کر بھی صفراوی نالی بند ہو سکتی ہے۔ خواتین میں بعض اوقات دورانِ حمل دبائو پڑنے سے بھی صفراوی نالی کا راستہ مسدود ہو سکتا ہے۔

’’یرقان غیر انسدادی‘‘ کی بڑی وجہ جگر کے امراض ہوتے ہیں۔ مثلاً جگر میں ورم ہو جائے‘ جگر کمزور ہو جائے یا جگر کی ساخت چربی میں تبدیل ہو جائے۔ جگر کے ورم کا مرض وبائی صورت میں بھی پھیلتا ہے اور اس کا سبب ایک قسم کا وائرس ہے۔ اس وائرس کی دو قسمیں ہیں ’’اے‘‘ اور ’’بی‘‘۔ ’’اے‘‘ قسم کا وائرس عام طور پر ناقص یا آلودہ غذا کھانے کے نتیجے میں جسم میں پہنچ جاتا ہے اور ’’بی‘‘ قسم کا وائرس انجکشن لگاتے ہوئے یا خون منتقل کرتے ہوئے احتیاط نہ کرنے اور صفائی کا خیال نہ رکھنے کے باعث جسم کے اندر تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ بعض اوقات خون کے اجزا میں تغیر ہونے یا خون کے امراض لاحق ہو جانے سے بھی یرقان ہو جاتا ہے‘ ٹائفائیڈ‘ ملیریا‘ یا زرد بخار کے دوران یا ان کے بعد بھی یرقان ہو سکتا ہے۔

بعض اقسام کے زہر خون میں تبدیلی پیدا کرکے یرقان کا سبب بن جاتے ہیں۔ مثلاً سیسہ اور پارہ وغیرہ۔ اس قسم کا یرقان عموماً ان افراد کو ہوتا ہے جو سیسے یا پارے کی کانوں میں کام کرتے ہیں یا ایسے کارخانوں میں ملازم ہیں جہاں یہ دھاتیں استعمال ہوتی ہیں مثلاً پینسلیں‘ موٹر کی بیٹری یا ڈرائی سیل بنانے کے کارخانے۔ سیسے کی وجہ سے وہ نوجوان بھی یرقان کا شکار ہو سکتے ہیں جو ائرگن سے شکار کرتے ہوئے ائر گن کے چھرے سہولت کی خاطر اپنے منہ میں رکھ لیتے ہیں۔ پارہ جن صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے‘ ان میں تھرما میٹر بنانے یا شیشوں پر پالش کرنے کے کارخانے شامل ہیں۔

یرقان لاحق ہو جانے کے کچھ اور اسباب بھی ہیں۔ دائمی قبض کی موجودگی‘ ہاضمہ کی خرابی‘ مرغن اور دیر سے ہضم ہونے والی غذائوں کا زیادہ استعمال‘ بازار کی بنی ہوئی ایسی غذائی اشیا کھا لینا جن کو تیار کرتے ہوئے صفائی کا لحاظ نہ رکھا گیا ہو یا جن پر مکھیاں بیٹھتی ہوں۔ یکایک سردی کا لگ جانا یا سست زندگی بسر کرتے رہنا۔

یرقان کی علامات کبھی رفتہ رفتہ اور کبھی اچانک ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر یہ علامات رفتہ رفتہ ظاہر ہوں تو ابتدا میں سر درد‘ سستی و کاہلی‘ بھوک کی کمی‘ متلی اور قبض کی شکایت ہو جاتی ہے کھانا ہضم نہیں ہوتا‘ اس لیے الٹیاں ہونے لگتی ہیں۔ جگر کے ورم کی وجہ سے دبائو پڑے یا پتیّ میں پتھری کی وجہ سے شدید درد اٹھے تب بھی الٹیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ دائیں جانب پسلیوں کے نیچے خفیف سا درد رہتا ہے اگر اس طرح کی علامات ظاہر ہوںتو فوری طور پر معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔ مرض کا حملہ یکایک ہو تو سب سے پہلے پیشاب کی رنگت زرد ہو جاتی ہے۔سفید کپڑے پر اگر پیشاب لگ جائے تو زرد رنگ کا دھبا پڑ جاتا ہے۔ اس کے بعد آنکھوں کی رنگت زرد ہونے لگتی ہے‘ پھر لب‘ مسوڑھے‘ زبان اور جلد کی رنگت بھی خفیف زدی مائل یا بھوری سیاہی مائل ہو جاتی ہے۔ ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے‘ ذائقہ تلخ محسوس ہونے لگتا ہے‘ بھوک غائب ہو جاتی ہے اور چکنی اور روغنی اشیا سے نفرت محسوس ہونے لگتی ہے۔

اگر صفراوی نالی بند ہونے کی وجہ سے یرقان ہو جائے تو اجابت کی رنگت مٹیالی یا سفیدی مائل ہو جاتی ہے اور اس میں تعفن ہوتا ہے۔ صفراوی نالی میں پتھری ہو تو پیٹ میں اس مقام پر جہاں پسلیاں ختم ہو کر محراب سی بناتی ہیں‘ شدید درد اٹھتا ہے جس کی ٹیس دائیں طرف جاتی محسوس ہوتی ہے۔ بعض اوقات جلد میں پھوڑے پھنسیاں نکل آتی ہیں اور خارش کی شکایت ہو جاتی ہے۔ مرض شدید ہو تو مریض کو ہر شے زرد نظر آنے لگتی ہے اگر کسی اور مرض یا زہر کی وجہ سے یرقان ہو تو اس مرض یا زہر کی مخصوص علامتیں پائی جاتی ہیں۔

یرقان کے علاج کے سلسلے میں لوگوں کا یہ خیال درست نہیں ہے کہ یہ وقت گزرنے کے ساتھ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ یرقان کی علامتیں ظاہر ہوتے ہی کسی اچھے معالج سے علاج شروع کردینا چاہیے۔ طب یونانی میں امراضِ جگر اور خصوصاً یرقان کے علاج کے لیے بڑی مؤثر دوائیں موجود ہیں۔ پاکستان میں ایک درخت کثرت سے پیدا ہوتا ہے اسے عام بول چال میں ’’جھائو‘‘ یا ’’گز‘‘ کہا جاا ہے۔ اس درخت سے حاصل ہونے والا نمک یرقان کے علاج میں غیر معمولی طور پر مفید ثابت ہوا ہے۔ پاکستان میں یونانی دوائیں تیار کرنے والے ایک بڑے ادارے نے اس نمک پر جرمنی میں مزید تحقیق کروائی ہے جس کے نتیجے میں اس نمک کی افادیت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اب اس نمک کی گولیاں ’’اکٹرین‘‘ کے نام سے بازار میں دستیاب ہیں۔ مرض کی نوعیت اور شدت کے اعتبار سے کم یا زیادہ مقدار میں یہ گولیاں استعمال کی جاتی ہیں۔

یرقان کے اسباب مختلف ہیں اس لیے اس کا علاج بھی صحیح تشخیص کے بعد ہی ممکن ہے۔ یہ مرض صفراوی نالی بند ہو جانے کی وجہ سے ہو تو صفراوی نالی کو کھولنے والی دوائیں استعمال کی جاتی ہیں اگر ورم کی وجہ سے ایسی صورت پیدا ہو گئی ہو تو مکوہ اور کاسنی کے پتے پچاس پچاس گرام لے کر انہیں پانی میں شامل کرکے کچل لیا جائے اور ان کا رس کپڑے میں چھان لیا جائے اس رس کو ہلکی آگ پر رکھ کر اس میں چٹکی بھر نمک ڈال لیں۔ تھوڑی دیر میں یہ دودھ کی طرح پھٹ جائے گا اور زرد رنگ کی رطوبت اس سے الگ ہو جائے گی۔ اس رطوبت کو چھان لیں اور مریض کو صبح کے وقت پلا دیں۔ یہی نسخہ شام میں بھی استعمال کریں۔ اگر اس میں شربت بزوری معتدل‘ کھانے کے دو چمچے ملا لیے جائیں تو یہ نسخہ مزید مفید ہو جاتا ہے یہی علاج جگر کے ورم کی صورت میں بھی مفید ہے۔ اگر مولی کے پچاس گرام پتے لے کر ان کا عرق صبح‘ شام استعمال کریںتو یہ عرق بھی یرقان کی بیشتر قسموں میں فائدہ مند ہے۔

صفراوی نالی پتھری یا سدوں کی وجہ سے بند ہو گئی ہو یا اس میں ورم پیدا ہو گیا ہو یا پھر متعدی بخار کی وجہ سے یرقان کی شکایت ہو تو یہ نسخہ استعمال کیا جاتا ہے۔ گلِ گائو زبان‘ تین گرام‘ گلِ نیلوفر چھ گرام‘ گلِ بنفشہ چھ گرام‘ آلو بخارا پانچ عدد‘ کاسنی کے بیج چھ گرام‘ کاسنی کی جڑ سات گرام‘ ککڑی کے بیج چھ گرام‘ خطمی کے بیج چھ گرام۔ خارخسک (گوکھرو) چھ گرام۔ ان تمام اجزا کو پانی میں جوش دے کر چھان لیا جائے اور شربت بزوری معتدل‘ کھانے کے دو چمچے یا خمیرۂ بنفشہ چائے کا ایک چمچہ شامل کرکے صبح اور شام پلایا جائے۔

اس مرض میں غذائی پرہیز اور آرام کی بہت اہمیت ہے۔ مریض کو چکنائی اور نشاستہ والی اشیا بالکل نہیں کھانی چاہئیں۔ گوشت بھی بند کر دیا جائے۔ سیال و رقیق اشیا سبزیوںکے سوپ‘ پھلوںکے رس‘ گنے کا رس بہت مفید ہے۔ پتوں والی سبزیاں بھی فائدہ دیتی ہیں‘ ان میں وٹامن بی ہوتا ہے‘ مولی کھانا بھی مفید ہے۔

عام طور پر یرقان کا مریض دو ہفتے میں صحت یاب ہو جاتا ہے لیکن اس کے بعد بھی خاصے عرصے تک چکنائی سے پرہیز لازمی ہے کیوں کہ چکنائی سے جگر پر بار پڑتا ہے اور یہ مرض لوٹ کر آسکتا ہے اس مرض میں آرام کرنا بہت ضروری ہے۔ آرام کرنے سے جگر کو بھی آرام ملتا ہے۔ چکنائی نہ دینے دے فاسد مادے نہیں بنتے اور زیادہ سیال چیزیں لینے سے فاسد مادے پیشاب اور پسینے کے راستے خارج ہو جاتے ہیں۔ اگر صاف ستھری غذائی اشیا نہ کھائی جائیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ یرقان کا وائرس ایک بار پھر آپ کے جگر کا مہمان بن جائے۔

حصہ