سوشل میڈیا پر فلمی مہمات

366

مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے بھارت میں عنقریب ریلیز ہونے والی فلم ’’پٹھان‘‘ کے ایک گانے پر،اس کے نام پر،اس گانے میں معمولی سے لباس پر، لباس کے رنگ پراور اداکارہ پر زبردست قسم کے اعتراض کرکے شاید خاموش مذہبی طبقات کے بھی دل جیت لیے اور اُن طبقات پر ضرب لگائی جو بھارت میں شیطانی لبرل اقدار کا فروغ چاہتے تھے۔ گانوں کے ذریعے شیطانی ایجنڈا منتقل کرنے پر میں نے پہلے کئی ہالی ووڈ کے گانوں کی مثالیں پیش کی تھیں، جہاں گانوں سے، ان کے الفاظ سے، ان کی موسیقی سے پورا پیغام دیا جاتا ہے۔

اس بات کا حوالہ میں نے کئی ماہرین دماغ و اعصاب کے دلائل سے بھی دیا تھا۔ پھر ایک مدلل جملے سے دوبارہ تذکیر کر دیتا ہوں کہ یہی وجہ ہے کہ شراب کی طرح، تصویر اور موسیقی بھی اسلام ہی نہیں دیگر تمام الہامی مذاہب میں ممنوع رہی ہے۔ بالی ووڈ مطلب بھارتی فلم انڈسٹری بہت بڑا دائرۂ اثر رکھتی ہے، اس لیے ایسا ممکن ہی نہیں کہ شیطان یہاں اپنا کام نہ کرے۔ انگریزی سمجھنا جن کے لیے مشکل ہے ان کے لیے یہ انڈسٹری شیطان کے پورے آلۂ کا ر کے طور پر کام کر رہی ہے۔ متذکرہ گانا بھی اس کی کامل مثال ہے۔ براہ کرم تحریر پڑھ کر یا چھوڑکر گانا ڈھونڈنے یا دیکھنے کی غلطی مت کیجیے گا۔ یہ تحریر فلم، گانے کی پروموشن نہیں، زہر کے مضر اثرات بتانے کے لیے ہے، زہر چکھنے کے لیے نہیں۔ کوئی آپ کو شیطان سے بچنے کا مشورہ و نقصا ن بتائے تو چیک کرنے کے لیے شیطان کی عبادت نہیں کی جا سکتی۔

آپ جانتے ہوں گے کہ 125 کروڑ کی آبادی والے بھارت میں مسلمان، عیسائی، سکھ، مذہبی ہندو ئوں کی بڑی تعداد بستی ہے۔ متذکرہ فلم پر ایک ماہ قبل سے ہی اس کے اداکاروں کے مختلف معاملا ت پر ذاتی موقف کی وجہ سے بھی بائیکاٹ کی مہم جاری تھی، مگر اُس موضوع میں اتنی جان نہیں تھی، کیوں کہ وہ موقف بکھرے ہوئے تھے۔ جب سے گانا ظاہر ہوا، بائیکاٹ مہم نے سب ایشوز کو ملا کر نیا رنگ پکڑ لیا۔ پہلے فلم کے نام پٹھان پر اعتراض چلا کیوں کہ یہاں سے مسلمان براہ راست نشانہ بن رہے تھے، اب جو گانا آیا تو مسلمانوں کے لیے مزید مشکلات ہوگئیں۔

سوشل میڈیا پر لوگ مثالیں یوں بھی دیتے رہے کہ مسلمان ویسے تو اپنی خاتون کو برقعہ میں رکھتا ہے اور متذکرہ فلم میں ایسا عریاں لباس میں پسند کرتا ہے۔گو کہ یہ طنز تھا کہ مسلمان بھی اس مہم کا حصہ بن جائیں اورسمجھ دار، غیرت مند مسلمانوں نے سوشل میڈیا پر مسلم اقدار کا بھرپور دفاع کیا۔ اس موقع پر برقعہ والی لڑکی کو پیش کیا گیا جس نے کسی صورت پردہ اتارنے سے انکار کر دیا تھا۔ سوشل میڈیا پر شاہ رخ خان، پٹھان اور بائیکاٹ پٹھان کے ہیش ٹیگ پورے بھارتی سوشل میڈیا پر چھائے رہے۔ جب کوئی معاملہ بھارت میں ٹرینڈ کرتا ہے تو جان لیں کہ دنیا بھر میں پھیلے بھارتی شہری بھی اُس معاملے سے جُڑ جاتے ہیں۔

جیسے ان کی فلمیں دنیا بھر میں ہٹ ہو جاتی ہیں ویسے ہی بائیکاٹ کی صدا پر بھی رسپانس ملتا ہے۔ فلم کے موضوع پر بات یوں بھی نکل آئی ہے کہ بھارت میں تواتر سے مذہبی بنیادوں پر فلموں کے بائیکاٹ کا سلسلہ چل پڑا ہے اور مذہبی رجحان کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ کچھ ماہ قبل ایک ایسے ہی نام کے مسلمان اداکار کی فلم کا بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی جس نے8 سال قبل کسی فلم میں ہندو مذہب کی مبینہ تضحیک کی تھی۔ اس بائیکاٹ مہم سے اُس مرکزی اداکار کو بطور پروڈیوسر کوئی 100کروڑ روپے کے مالی نقصان کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک اور بھارتی ہندو اداکار کے کچھ پرانے بیانات کی بنیاد پر اس کی حالیہ فلم جو کہ اتفاق سے روایتی خاندانی اقدار کی بحالی پر مبنی فلم تھی، اُس کا بھی بائیکاٹ کر دیا گیا۔ اسی طرح کئی اور فلموں کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر بائیکاٹ مہم چلائی گئی جو کہ کامیاب رہیں۔ ان بائیکاٹ مہمات کا دوسرا پہلو یہ ہوتا ہے کہ اب ہر فلم کے بجٹ میں سوشل میڈیا پروموشن کے لیے دو تین کروڑ روپے الگ سے رکھے جاتے ہیں تاکہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہونے والی ذہن سازی کو روکا جا سکے۔ اس لیے یہ سارے موضوعات آپ کو سوشل میڈیا پر خوب چھائے نظر آئیں گے۔

سوشل میڈیا پر اتر پردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کا 2015 کا وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر بہت وائرل کیا گیا جس میں وہ کہہ رہا ہے ’’اگر ہندو شاہ رخ خان کی فلموں کا بائیکاٹ کردیں اور انہیں سنیما میں جا کر نہ دیکھیں تو وہ بھی عام مسلمانوں کی طرح سڑکوں پر آجائیں گے۔‘‘

یہ بات اپنی جگہ 7 سال قبل کہی گئی، بعینہ اُسی نفرت کے پیرائے میں جسے آج پھر جوڑا جا رہا ہے۔ فلم کا متذکرہ گانا انتہائی فحش،عریاں مناظرپر مبنی ہے، ہندو رہنماوئوں کو انتہائی عریاں منظرمیں خاتون کے جسم پر معمولی سے کپڑے نظر آئے تو وہ اُن کے مذہبی رنگ ’پیلے،بھگوا‘ اور سبزکے، یہی نہیں‘ گانے کے الفاظ بھی، اس لیے عریانی، معمولی کپڑے اور گانے کے بول پھر اداکارہ پر بھی اس کے ماضی کے ایک عمل پر اعتراض کی بمبارٹمنٹ کر ڈالی۔

کہا گیا کہ ہندو مذہب جاگ گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر مباحث چھڑ گئے۔ سوال اٹھا کہ کیا پیلے رنگ کے کپڑے پہننے بند کرنے ہوں گے؟ کیا بھارتی سنسر بورڈ فیصلہ کرنے میں خود با اختیار اور سمجھ دار نہیں؟ جواب میں ایرانی فلم محمد و دیگر جن میں مسلمانو ں کومسئلہ تھا تو سنسر بورڈ کے پاس کے باوجود اُن فلموںکو نہیں لگنے دیا گیا‘ کی مثال دی گئی۔ یہی نہیں بدنام زمانہ ہندو مذہبی شخصیات کی تصاویر لگا کر یہ سوال پوچھے گئے کہ اِن بدنام افرا د کے پیلے کپڑے پہننے پر کوئی اعتراض کیوں نہیں؟ ان سب کے نتیجے میں اُس گانے نے کوئی 6 کروڑوں ویوز کما لیے تھے۔

ایودھیا کے مہنت راجو نے دھمکی دیتے ہوئے ناظرین سے کہا کہ ’’جن تھیٹر میں یہ فلم دکھائی جائے اسے بھی نذر آتش کردو۔‘‘ اپنے بیان میں شاہ رخ خان پر الزام عائد کیا کہ ’’یہ لگا تار سناتن مذہب کا مذاق بنا رہا ہے اور اس کے خلاف سبھی کو آواز اٹھانی چاہیے۔ ‘‘ ظاہر ہے اگر متذکرہ گانے میں خاتون کسی عمومی مکمل لباس میں ہوتی تو ایسا کوئی احتجاج نہ ہوتا، یہ احتجاج بنا ہی عریانیت کی وجہ سے ہے جو معاشروں میں قابلِ قبول نہیں۔ لبرل ازم کے تمام نظریات کو مجموعی طور پر دیکھیں تو لگے گا کہ جان لاک (JohnLock) تو نمائشی نام ہے دراصل یہ مکمل شیطانی منصوبہ ہے۔ میں بات سمجھانے کے لیے قرآن کے دو حوالے اس موقع پر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ ’’لوگو! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔ مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو۔‘‘

سید مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں صاف لکھتے ہیں کہ ’’اصل دعوت جو اس خطبے میں دی گئی ہے، وہ یہی ہے کہ انسان کو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جس ہدایت و رہنمائی کی ضرورت ہے، اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنے وجود کی غرض و غایت سمجھنے کے لیے جو علم اسے درکار ہے اور اپنے اخلاق، تہذیب، معاشرت اور تمدن کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جن اصولوں کا وہ محتاج ہے، اُن سب کے لیے اسے صرف اللہ رب العالمین کو اپنا رہنما تسلیم کرنا چاہیے اور صرف اسی ہدایت کی پیروی اختیار کرنی چاہیے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے بھیجی ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے رہنما کی طرف ہدایت کے لیے رجوع کرنا اور اپنے آپ کو اس کی رہنمائی کے حوالے کر دینا‘ انسان کے لیے بنیادی طور پر ایک غلط طریق کار ہے، جس کا نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں نکلا ہے اور ہمیشہ تباہی کی صورت ہی میں نکلے گا۔‘‘

اس آیت کو ذہن میں رکھ کر اب مد مقابل جو ’’اللہ کو چھوڑکر‘‘ کی بات کی گئی ہے، اس کو دیکھ لیں۔ وہ کون ہے؟ اس کا ذکر قرآن میں کئی بار آیا ہے۔ میں صرف ایک سورۃ حجر کا حوالہ دے رہا ہوں۔ ترجمہ وہ بولا ’’میرے رب، جیسا تو نے مجھے بہکایا اُسی طرح اب میں زمین ان کے لیے د ل فریبیاں پیدا کر کے اِن سب کو بہکا دوں گا، سوائے تیرے اُن بندوں کے جنہیں تُو نے اِن میں سے خالص کر لیا ہو۔‘‘ فرمایا ’’بے شک جو میرے حقیقی بندے ہیں‘ اُن پر تیرا بس نہ چلے گا۔ تیرا بس تو صرف اُن بہکے ہوئے لوگوں ہی پر چلے گا جو تیری پیروی کریں اور ان سب کے لیے جہنم کی وعید ہے۔‘‘ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کیوں لبرل ازم خالص شیطانی نظریہ ہے۔ شیطان نے اس بار یہ دل فریبی پیش کی کہ انسان کو ہی خدا کا درجہ دے کر اس کو خدا، رسول، وحی، کتاب سب سے کاٹ دیا۔ لبرل ازم سب سے پہلے خدا اور مذہب کے تصور سے آزادی کا متقاضی ہے۔ نفسانی خواہشات سے لے کر معاشی ضروریات تک سب کو اپنی مرضی سے پورا کرنے کی آزادی۔ اکثریت کے کسی برائی میں مبتلا ہو جانے پر اس برائی کے جائز قرار پا جانے کی آزادی۔ باہمی رضامندی سے کسی بھی ناجائز کام کو جائز کرنے کی آزادی۔ جس نے objectification of womenیعنی عورت کو ایک استعمال کی چیز کے طور پر پیش کیا ہے۔ کبیرہ گناہوں تک کے لیے لوگوں کے دلوں میں ردعمل کے بجائے نرمی اور شفقت اور قبولیت کے احساس کو پیدا کرتے ہیں، دین کا مکمل علم حاصل کیے بغیر قرآن اور حدیث کے متن سے مسائل ہی نہیں بلکہ ایسے نظریات بھی اخذ کرتے ہیں جن کی چودہ سو سال میں بھی کوئی دلیل نہیں ملتی۔

قرآنی آیا ت کے حوالوں سے یہ مت سمجھیے گا کہ لبرل ازم صرف مسلمانوں کے لیے مسئلہ ہے۔ یہ ہر اُس انسان کو جو کسی بھی مذہبی، اخلاقی، روحانی، معاشرتی، تہذیبی قدر سے جڑا ہوا ہو، اس کو وہاں سے کاٹتا ہے۔ عالمی مبلغ اسلام ڈاکٹر ذاکر نائیک کی زبانی آپ نے ضرور سنا ہوگا کہ ’’سناتن (ہندو) مذہب میں توحید کا اقرار، شرک کی شناعت، رسالت کا تصور اور آخرت پر ایمان موجود تھا لیکن تحریفات سے توحید کو مسخ کر کے شرک اور بت پرستی ویسے ہی داخل کر دی گئی جیسا دیگر پیغمبروں کی تعلیمات کو بعد میں مسخ کیا گیا۔ تاریخ ہند کی سب سے معتبر کتاب ’’کتاب الہند‘‘ ہے جس میں البیرونی نے ہندو قوم کی تاریخ اوراس کے عقائد و رسومات کے بارے میں تحقیق کی ہے کہ ہندو قوم میں بت پرستی کی ابتدا ’’راجا انبرش‘‘ کے زمانے کے بعد شروع ہوئی۔ (کتاب الہند مترجمہ اردو :از سید اصغر علی۔ ص 125)۔ پھر آپ اس بات سے ہی نوٹ کریں کہ ’معروف (نیکی )‘ کا تصور کیسے اور کیوں سب مذاہب میں یکساں ہے ماسوائے ’لبرل ازم‘ کے۔ اس لیے یہ ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ ہمارا سب سے بڑا دشمن صرف شیطان ہے، جو کسی انسان کا کسی بھی شکل میں اُس کے خالق سے تعلق نہیں چھوڑنا چاہتا۔

فحاشی،عریانی، مذہبی علامات، مذہبی شعائر کی تضحیک خالص شیطانی ایجنڈا ہے تاکہ وہ اپنے ہتھیاروں سے ہر وہ لائن کاٹ دے جو کسی انسان کو‘ کسی شکل میں بھی اُس کے رب کے کسی حکم کی پابندی سے جوڑتا ہو۔ اب یہ بات بھارتی فلم پروڈیوسروں کو کیسے سمجھائی جائے کہ عریانیت کسی کو بھی، کسی طور قبول نہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ کاملِ شیطانی ایجنڈا ہے۔ شیطان کا سب سے مؤثر ہتھیار عریانی اور فحاشی ہے۔ میڈیا نے یہی کام کیا ہے اور تصاویر سے جو زہر نسلوں میں اُتارا ہے اُسی کے اثرات ہمیں ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ لبرل اقدار اس مسئلے سے پریشان ہے مگر وہ اس کے حل کے لیے اور پیچیدہ سیکیورٹی کا مسئلہ تجویز کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے تمام سیکیورٹی اقدامات طفلِ تسلی کی اوقات بھی نہیں رکھتے۔ بھارت میں فلم ایک بڑی صنعت ہے، جو ان کی سوا ارب کی آبادی کو پوری طرح کنٹرول کرنے کے کام آتی ہے۔ بھارت آج بھی اس آبادی کی وجہ سے مکمل سیکولر، مکمل سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت میں نہیں آسکا۔ مسلمان، ہندو، ان کی ذاتیں، سکھ، عیسائی پھر علاقائی بنیادوں پرکئی ثقافتیں اپنے وزن اور شناخت کے ساتھ موجودہیں۔ ان سب میں اگر کوئی ایک چیز مشترکہ طور پر کنٹرول یا اثر انگیز ثابت ہوئی ہے تو فلم کا میڈیم ہے۔ فلم، ٹی وی اور اب ویب سیریز بھارت کو ایسے گرفت میں لیے ہوئے ہے جیسے انگریز استعمار نے لیا تھا۔ بھارت میں بہت ساری چیزوں کی حساسیت ختم کرنے کا یہ اہم ترین ذریعہ ہیں۔ ’’سروگیسی‘‘ (کرایہ پر کوکھ لینے) کا غلیظ ترین عمل ہمارے خطوں میں تیزی سے جگہ بنا رہا ہے۔ بھارت میں اس موضوع پر فلمیں، ڈرامے بننا شروع ہو چکے ہیں، یہی نہیں سائوتھ انڈین فلموں نے بھی اس کو موضوع بنایا۔

حالیہ دنوں ایک فلم کے ذریعے اس کام یعنی ’’سروگیسی‘‘ کے لیے جہاں ذہن سازی کی گئی‘ وہاں اس سے جڑے بدترین جرائم کو بھی سامنے لایا گیا۔ اس طرح وہ ایک تیر سے کئی شکار کر لیتے ہیں۔ بہرحال سوشل میڈیا پر کسی بھی وجہ سے عریانیت کے خلاف شور بلند ہونا علامہ اقبال کے ایک شعر کے مفہوم کے مطابق اس بات کی علامت ہے کہ ’’مٹی کو نرم کرکے زرخیز بنایا جا سکتا ہے‘‘۔

حصہ