جو نہیں ہے اسی کا رونا ہے

348

کیا دور تھا جب والد صاحب صبح سویرے دفتر جاتے اور شام مغرب سے قبل ہی گھر آجاتے تھے۔ میرے خیال میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ والد صاحب اپنے معمول سے ہٹ کر گھر آئے ہوں۔ اُس زمانے میں ہماری تمام ضروریاتِ زندگی اکیلے والد صاحب کی کمائی سے ہی پوری ہوجاتی تھیں۔ تہواروں پر خریداری سے لے کر جیب خرچ تک۔۔۔ سب اسی تنخواہ میں ہوجاتا جو اُس وقت ابو کو ملا کرتی تھی۔ گھر میں خدا کا دیا سب کچھ تھا۔ ایک تنخواہ میں گھر بھی چلتا اور سال بعد مختلف شہروں کی سیر بھی ہوجایا کرتی۔ میں نے ابو کو کبھی مالی طور پر پریشان نہیں دیکھا۔ یہ صرف ہمارے گھر کی بات نہیں بلکہ اُس دور میں محلے کے ہر گھر میں اسی قسم کے حالات ہوا کرتے تھے۔ کنبہ بڑا ہو یا چھوٹا، کمانے والا صرف ایک ہوتا جو پورے خاندان کی کفالت کیا کرتا۔

میرے بچو مجھے دل کھول کے تم خرچ کرو
میں اکیلا ہی کمانے کے لیے کافی ہوں

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدلنے لگا، رفتہ رفتہ آنے والے حکمرانوں نے عوام کے لیے جو پالیسیاں بنانا شروع کیں اُن کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی روپیہ جو پڑوسی ممالک سے زیادہ ویلیو رکھتا تھا، دن بہ دن نیچے کی طرف آتا گیا۔ یوں بے حس حکمرانوں کی معاشی پالیسیوں نے ملکی معیشت کو نہ صرف تباہ کرکے رکھ دیا بلکہ آنے والی نسلوں کو ایسا مقروض کر ڈالا جس سے نجات حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ راشی حکمرانوں کی جانب سے بنائی جانے والی پالیسیوں کے باعث مہنگائی ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتی گئی، ضروریاتِ زندگی عوام کی پہنچ سے دور ہوتی گئیں، اندرونی و بیرونی قرضوں کا بوجھ عوام پر ایسا پڑا کہ آج اگر کسی سے یہ کہا جائے کہ وہ ایک تنخواہ میں گھر چلائے تو یہ ناممکن ہوگا۔ آج حالات اس قدر خراب ہیں کہ ایک فرد دو دو نوکریاں کرکے بھی بمشکل دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر پا رہا ہے۔

مجھے اب تک یاد ہے وہ زمانہ، جب پاکستان میں فقط دو طبقات تھے، اگر کوئی امیر تھا تو دوسرا طبقہ غریب سے تھوڑا بہتر، جسے مڈل کلاس یا وائٹ کالر کہا جاتا۔ اب دوسرے درجے کے گھرانے کہاں ہیں، کسی کو کوئی خبر نہیں۔ پالیسیاں بنانے والوں نے اتنا بھی نہ سوچا کہ غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے اور آئی ایم ایف کے دیے ہوئے کلیے کے تحت جس معاشی نظام کو نافذ کیا جارہا ہے مستقبل میں اس کے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ سو جو نتیجہ نکلنا تھا وہی نکلا جو ہمارے سامنے ہے۔ لوگ روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں، بے روزگاری تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔

اول تو نوکری نہیں ملتی، اگر کسی سے کہہ سن کر کوئی کام مل بھی جائے تو اس سے کمائے ہوئے پیسوں سے گھر کا چولہا بھی نہیں جلتا۔ بے روزگاری کے باعث لوگ نہ صرف نفسیاتی مریض بنتے جارہے ہیں بلکہ خودکشیاں تک کرنے پر مجبور ہیں۔ ظاہر ہے جس معاشرے میں بھوک و افلاس ہو، وہاں ایسے حالات کا ہونا اچنبھے کی بات نہیں، بلکہ ایسے معاشرے میں جرائم کے ساتھ ساتھ مختلف بیماریوں کا بھی اضافہ ہوگا۔

غور طلب بات تو یہ ہے کہ حالات کی چکی میں دیہاڑی دار مزدور طبقہ ہی نہیں بلکہ دفتروں میں کام کرنے والا تنخواہ دار طبقہ بھی ایک تنخواہ میں گزارا نہ ہونے کے باعث پس رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب یہ طبقہ بھی پارٹ ٹائم کام کی تلاش میں رہتا ہے۔ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن حکمرانوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اُن کے نزدیک سب اچھا اور ٹھیک چل رہا ہے۔ انتہائی افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اگر کبھی کسی سیاسی رہنما سے ملکی معیشت پر بات کی جائے تو وہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے کی بات کرتا دکھائی دیتا ہے، اس کی منطق کے مطابق:لوگ خوش حال ہیں، سڑکوں پر گاڑیوں کا سیلاب ہے، ہر شخص موبائل فون استعمال کرتا ہے، چائے کے ہوٹلوں پر عوام کا رش بتاتا ہے کہ لوگ خوش حال ہیں، ترقی اور کیا ہوتی ہے! اسی کا نام تو خوش حالی ہے۔ لوگ تو بلاوجہ روتے رہتے ہیں۔ بازاروں میں جاکر دیکھو، خریداری کس طرح ہورہی ہے۔ لوگوں کی جیب میں مال ہے تبھی تو بازاروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں، رونا بعض لوگوں کی فطرت میں شامل ہوتا ہے، اگر چند لوگوں کے پاس پیسہ نہیں تو اس کی ذمے دار حکومت نہیں۔ پیسے کی تقسیم انسان کے بس کی بات نہیں، خوش حالی اور غربت رب کی دین ہے، ملک کی خاطر عوام کو قربانی دینی پڑتی ہے، قوم کو چاہیے کہ وہ اپنے اخراجات میں کمی کرے اور حالات کی بہتری کی امید رکھے، جلد غربت دور ہوگی۔

حکمرانوں کی باتیں سن کر اس بات پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ملک میں مہنگائی نام کی کوئی چیز نہیں، یہ تو ہمارا ہی قصور ہے کہ ہماری جیب خالی ہے، اگر ہم ضروریاتِ زندگی خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تو اس میں حکمرانوں کا کیا قصور ہے! یہ تو مال کا چکر ہے، جس کے پاس مال ہے وہ خوش حال ہے، باقی سب بدل حال ہیں، اس سے حکومت کا کیا تعلق! اس صورتِ حال میں اجمل سراج کے یہ شعر پڑھ کر دل کو تسلی دی جا سکتی ہے:

جو نہیں ہے اسی کا رونا ہے
غم کا رونا خوشی کا رونا ہے
سن یہ رونا نہیں گرانی کا
یہ تو بے قیمتی کا رونا ہے

بات بالکل ٹھیک ہے… اگر حالات کی وجہ سے آپ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں تو اس میں آپ ہی کے مالی حالات کا قصور ہے، ورنہ بازاروں میں ہر چیز دستیاب ہے، اس کا الزام بھلا حکمرانوں کو کیوں دیا جائے! یہ دوسری بات ہے کہ مہنگائی نے اگر غریب کے منہ سے نوالہ چھین لیا تو حکومت کو اس سے کیا!

خیر بات ہورہی تھی ملک میں غربت سے مجبور اُن افراد کی جو دو نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں نوکری پیشہ خود تو پریشانیوں اور ذہنی الجھنوں کا شکار ہوا ہی ہے، ساتھ ساتھ اس کا پورا خاندان بھی دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے پر مجبور ہے۔

اکثر مزدور تو دوسری نوکری بھی نہیں کرسکتے، کیوں کہ ان کی ایک ہی نوکری 12 سے 14 گھنٹے پر محیط ہوتی ہے۔ ان حالات میں ایسے فرد کو مجبوراً اپنا بچہ اسکول سے اٹھاکر کسی ورکشاپ میں لگانا پڑتا ہے۔ اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی اگر گھر میں رزق کی تنگی ہو تو پھر ان گھروں میں خودکشیاں ہونا یا پھر جرائم کی راہ اختیار کرنا فطری عمل ہے۔ بچوں کو تعلیم سے اٹھاکر نوکری پر لگانا، یا کسی شخص کا دوسری نوکری کرنا اس کا شوق نہیں، بلکہ حالات کے زمرے میں آتا ہے۔ ایسے میں اگر مالی حالات تبدیل نہ ہوں تو نتیجتاً کوئی بھی شخص انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو سکتا ہے۔ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں، آپ اپنے اطراف ہی دیکھ لیں، آپ کو ایسی کئی داستانِ الم ضرور سننے کو ملیں گی۔

مثلاً میرے ایک دوست کو ہی لے لیجیے، ابھی کچھ دن قبل میری اُس سے ملاقات ہوئی، باتوں باتوں میں اُس وقت میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے جب اُس نے بتایا کہ اُس کے گھر والوں نے مہینوں پہلے گوشت پکایا تھا۔ یہ بھی اُن لوگوں میں شامل ہے جو 12 سے 14 گھنٹے نوکری کرتے ہیں۔ اب بھلا ایک نوکری کے ساتھ وہ کس طرح اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی دے سکتا ہے! جبکہ اس کی بیوی گھر میں چھوٹے موٹے کام کرکے کچھ نہ کچھ رقم جوڑ لیتی ہے، لیکن وہ پیسہ صرف گھر کے راشن کے لیے ہی ہوتا ہے۔ مجھے یہاں اپنے دوست کے گھر کی کہانی لکھنے کا کوئی شوق نہیں، بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ غربت کے ہاتھوں تنگ نہ جانے کتنے ایسے لوگ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو عزت بچانے کی خاطر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، ورنہ یہ حقیقت ہے کہ سرکاری ملازمین خصوصاً چھوٹے اور کم تنخواہ دار طبقے کے ساتھ انتہائی ظلم ہورہا ہے۔ پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والوں کا حال تو اس سے بھی کہیں زیادہ بدتر ہے۔ اس سیکٹر سے وابستہ افراد کا حال بھی ناگفتہ بہ ہے، یہاں بھی ایک فرد کی کمائی سے گھر چلانا ناممکن ہوچکا ہے، اس لیے دو وقت کی روٹی کے حصول کی خاطر نجی اداروں سے منسلک افراد کو بھی دوسری نوکری کرنا پڑتی ہے۔ بات یہیں تک محدود نہیں بلکہ کوئی اپنے والدین کا علاج کروانے، تو کوئی قرض اتارنے کے لیے ڈبل نوکری کررہا ہے… کسی کو اپنے بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اس عذاب کو جھیلنا پڑرہا ہے، تو کوئی بجلی و گیس کے بلوں کی ادائی کے لیے اپنی جان ہلکان کرنے میں مصروف ہے۔

آخر میں اُن افراد سے متعلق کچھ کہنے کی جسارت کررہا ہوں جو دو وقت کی عزت کی روٹی کمانے کے باوجود دو دو نوکریاں کررہے ہیں۔ یقیناً دو نوکریاں کرکے کوئی بھی مسئلہ فوری حل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے بطن سے نہ جانے کتنے اور مسائل جنم لے لیتے ہیں… مثلاً جیسے ہم نے خود ہی معاشرے میں موجود غیر ضروری چیزوں کو اپنے لیے ضرورت بنا رکھا ہے، اس قسم کی کئی غیر ضروری چیزوں کو سہولت کے نام پر حاصل کرنے کی جدوجہد انسانی زندگیاں تباہ کرتی جارہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ معاشرے میں پھیلی ان غیر ضروری چیزوں کا استعمال ختم نہیں کیا جاسکتا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی غیر ضروری اشیا کے بغیر بھی زندہ رہا جاسکتا ہے، اور مشینوں کی طرح کام کرنے کے بجائے ایسے طریقے اپنانے کی عادت ڈالنی چاہیے جس سے زندگی میں آسانی پیدا ہو۔ دوسری طرف حکمرانوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ عوام الناس کو بنیادی ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کی ذمے داری حکومتِ وقت کی ہوا کرتی ہے، لہٰذا حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کریں اور سرکاری و نیم سرکاری اور نجی اداروں سے منسلک ملازمین کو معاشی تحفظ فراہم کریں۔ ریاست کو یہ بات بھی یاد رکھنی ہوگی کہ پُرامن معاشرہ ہی خوشحالی کی ضمانت ہوتا ہے، اگر ریاست کے باشندے خوش حال نہیں تو معاشرے میں لوٹ مار، رہزنی اور قتلِ عام ہوا کرتا ہے۔ تنگ دستی اور غربت ہی ان تمام مسائل کی جڑ ہے اور یہی معاشرے کی بربادی کا باعث بھی ہے۔ ان حالات میں نوجوان بے راہ روی کا شکار ہوجایا کرتے ہیں۔ یہی پاکستان میں خودکشیوں میں اضافے کے رجحان کا موجب بھی ہے۔ لہٰذا حکومت پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن کے نتیجے میں ملک سے غربت وافلاس کا خاتمہ ہوسکے اور عوام عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی کما سکیں، بصورتِ دیگر کہیں ایسا نہ ہو کہ غربت سے تنگ عوام اپنی زندگیوں کی پروا کیے بغیر اپنے حقوق کی خاطر میدانِ عمل میں نکل آئیں۔ اگر ایسا ہوا تو یقین مانیے پھر کسی کا حسب نسب اور منصب کام نہ آئے گا، پھر ایسا انقلاب آئے گا جس کی زد میں آنے والے تاریخ کی کتابوں میں گم ہوجائیں گے۔

حصہ