کنزیومر ازم کا اندھیرا کنواں: آج خریدیئے کل ادائیگی کیجئے

375

نصیب یہ ہے کہ آج ہمیں وہ تمام سہولتیں بہت آسانی سے میسر ہیں جو زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بناسکتی ہیں۔ ایسا سبھی کچھ ایجاد یا دریافت ہوچکا ہے جو ہمیں قدم قدم پر آسانی کی طرف لے جانے میں قابلِ رشک حد تک معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ایک بڑی، یا یوں کہیے کہ سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ ہم انتہائی الجھے ہوئے ہیں اور زندگی کو آسان بنانے والی ہر شے کے ذریعے زندگی کو زیادہ سے زیادہ دشوار بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ بنیادی سبب یہ ہے کہ آسانیوں نے ذہن کو الجھادیا ہے۔ ذہنی پیچیدگی کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ بالکل فطری ہے، کیونکہ عام آدمی اپنے ذہن کی تربیت کا اہتمام کرنے میں ناکام ہے اور اس ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اس حوالے سے کچھ سوچ ہی نہیں رہا۔

آج زندگی کا کوئی ایک معاملہ بھی ایسا نہیں جسے ہم ہر اعتبار سے سُلجھا ہوا قرار دے کر مطمئن ہو رہیں۔ یہ خامی یا خرابی اِس لیے ہے کہ ہم نے زندگی کے حوالے سے سنجیدہ ہونا چھوڑ دیا ہے۔ کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ ہم قدم قدم پر وہ سب کچھ کررہے ہیں جو ہمیں زیادہ سے زیادہ الجھن کی طرف لے جاسکتا ہے اور لے جارہا ہے۔ زندگی کو آسان بنانے میں کلیدی کردار کس چیز کا ہوتا ہے؟ اشیاء و خدمات کا؟ یقیناً، ایسا بھی ہے، مگر صرف ایسا نہیں ہے۔ ہمارے پاس چاہے کچھ بھی ہو، کوئی بھی چیز ہو جو زندگی کو آسان بناسکتی ہو، مگر زندگی میں آسانی اور سہولت صرف اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم اُس چیز سے کام لینا سیکھیں۔ اشیاء و خدمات سے مستفید ہونے اور اُن کا غلام ہوجانے میں بہت فرق ہے۔ اِس فرق کو نظرانداز کرنا زندگی کو داؤ پر لگانا ہے۔ افسوس کہ آج ہمارے معاشرے کی مجموعی روش یہ ہے کہ جیسے تیسے بہت کچھ حاصل کرو، پھر چاہے زندگی ہی داؤ پر لگتی ہے تو لگ جائے۔

ڈھنگ سے جینے کے لیے بنیادی چیز ہے سوچ۔ سوچ ہی کی بنیاد پر ہمارے رویّے کی تشکیل ہوتی ہے۔ رویہ یعنی طرزِعمل۔ ہم کسی بھی معاملے میں کیا کریں گے اِس کا تعین ہماری سوچ سے ہوتا ہے۔ ہم جیسا سوچتے ہیں ویسا ہی کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار کا مطلب ہے اپنے آپ کو مزید خرابیوں کی طرف دھکیلنا۔

پاکستانی معاشرہ بہت سی معاشی اور معاشرتی پیچیدگیوں سے اَٹا ہوا ہے۔ تمام پیچیدگیاں ایک دوسرے پر اثرانداز ہو رہی ہیں۔ کہیں معاشرتی خرابیاں معاشی الجھنیں بڑھارہی ہیں اور کہیں معاشرتی پیچیدگیوں کو ایڑ لگارہی ہیں۔ تمام معاملات آپس میں ایسے الجھ گئے ہیں کہ بہت سی باتوں کا کوئی سِرا ہاتھ نہیں آتا۔ ایسا نہیں ہے کہ معاملات کو سمجھنا بالکل ہی ناممکن ہوکر رہ گیا ہے۔ ہمیں بہت کچھ سیکھنا اور سمجھنا ہے اور یہ سب کچھ ہوسکتا ہے۔ سوال ارادے کا ہے۔ ہم کسی بھی معاملے میں کوئی ارادہ کرلیں تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ اِس بکھرے اور الجھے ہوئے معاشرے ہی میں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جو کئی حوالوں سے سلجھے ہوئے ہیں اور قدرے غیر پیچیدہ زندگی بسر کرنے میں کامیاب ہیں۔ اُن کی یہ کامیابی محض اتفاق نہیں۔ اُنہوں نے بہت کچھ سوچا اور کیا ہے تو یہ سب کچھ ممکن ہوسکا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ زندگی ہمیں کچھ دے نہیں سکتی۔ وہ تو ہمیں آج بھی بہت کچھ دے سکتی ہے، مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم زندگی سے کچھ لینے کے موڈ میں ہیں یا نہیں۔ زندگی سے کچھ لینے کا مطلب ہے کام کے معاملات کو انجام تک پہنچانا اور زندگی کے سفر کو غیر ضروری رکاوٹوں سے پاک کرنا۔

آج بہت سی رکاوٹیں ہمارے سفر کو خراب کررہی ہیں۔ یہ رکاوٹیں رجحانات اور عادتوں کی شکل میں ہیں۔ معاشرے کی مجموعی روش یہ ہے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے بس وہی کرتے رہیے۔ لوگ ایک دوسرے کی نقّالی کو زندگی بسر کرنے کا بہترین طریقہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں یہ روش کم و بیش تین عشروں سے پائی جارہی ہے۔ خرابیاں تو پہلے بھی تھیں اور خرابیاں بھلا کس دور میں نہیں تھیں؟ مگر صاحب! خرابیوں اور بے ذہنی کے ساتھ جینے میں بہت فرق ہے۔ گزرے ہوئے بہت سے ادوار میں پاکستانی معاشرہ مختلف معاشی اور معاشرتی پیچیدگیوں سے اَٹا ہوا تھا مگر اُن کی حدود تھیں۔ معاملات بے قابو نہیں ہوتے تھے۔ لوگ جو کچھ بھی کرتے تھے اُس کے حوالے سے چند ایک حدود کا تعین کرتے تھے اور اس حوالے سے کسی سے مشاورت پر بھی یقین رکھتے تھے۔ دیکھا دیکھی یا اندھی تقلید والا معاملہ بھی تھا مگر بہت کم اور ایک خاص حد تک۔ لوگ کسی بھی معاملے میں اگر کسی کی نقّالی بھی کرتے تھے تو اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ معاملات ہاتھ میں رہیں۔ آج کچھ بھی سوچا جارہا ہے نہ کسی بات کا خیال ہی رکھا جارہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام بنیادی معاملات ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں اور انسان صرف سوچتا رہ جاتا ہے۔

اب معاشی معاملات ہی کو لیجیے۔ ہم نے کم و بیش تین عشروں کے تفاعل میں ایک ایسی روش کو اپنایا ہے جو کسی بھی اعتبار سے معقول ہے نہ سُودمند۔ یہ روش ہے بے جا خرچ کی۔ سوچے سمجھے بغیر خرچ کرنا اب پاکستانی معاشرے کی ایک نمایاں شناخت ہوکر رہ گیا ہے۔ آج بیشتر پاکستانی اپنی آمدنی کی طرف دیکھے بغیر خرچ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ آمدنی میں اضافے کی راہیں تلاش کرنے پر توجہ برائے نام ہے اور زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کو منزل سمجھ کر اُس کی طرف بڑھتے رہنے ہی کو زندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھ لیا گیا ہے۔ اِسے کہتے ہیں کنزیومر اِزم، یعنی زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا۔ یہ محض رجحان نہیں بلکہ بیماری ہے، اور بیماری بھی ایسی جو جان لے کر ٹلے۔ آج پورا پاکستانی معاشرہ کنزیومر اِزم کے شکنجے میں ہے۔ اس میں دیہی اور شہری ماحول کی بھی کچھ قید نہیں۔ دیہات کے لوگ بھی اپنی آمدنی سے کہیں بڑھ کر خرچ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ شہروں کا تو خیر پوچھنا ہی کیا! شہروں کے رہنے والے تو یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ جس طور وقت لامحدود ہے بالکل اُسی طور وسائل بھی لامحدود ہیں۔ وقت واقعی لامحدود ہے مگر ہمیں عطا کیا جانے والا وقت لامحدود نہیں۔ ہماری سانسوں کی گنتی ہے۔ بالکل اِسی طور وسائل بھی محدود ہیں۔ یہ کائنات انتہائی وسیع ہے مگر ہماری زندگی اور اُس کے وسائل میں ایسی فراخی اور وسعت نہیں۔ ہمیں سمجھنے اور سوچنے والی مخلوق کا درجہ ملا ہے۔ ہمیں تو قدم قدم پر سوچنا ہے، سمجھنا ہے، منصوبہ سازی کرنی ہے تاکہ معاملات قابو میں رہیں۔

آج ہم نے کم و بیش ہر حوالے سے سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ معاشی معاملات میں یہ خرابی بہت زیادہ دکھائی دے رہی ہے۔ ایک ایسی سہولت ہاتھ لگی ہے جس نے زندگی کو انتہائی نوعیت کی دشواری سے دوچار کررکھا ہے۔ یہ سہولت ہے اُدھار کی۔ آج کسی بھی چیز کو بہت آسانی سے محض برائے نام ابتدائی قسط ادا کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اقساط پر اشیاء کا حصول پاکستانی معاشرے میں عشروں سے چلا آنے والا معاملہ تھا۔ یہ سب کچھ بہت محدود پیمانے پر تھا۔ لوگ پنکھے، ہیٹر، ٹی وی وغیرہ خریدتے تھے اور قسطیں ادا کرتے رہتے تھے۔ یہ دھندا ظاہر ہے، سُود پر مبنی تھا۔ مالیاتی اداروں نے اس معاملے کو انتہا تک پہنچادیا ہے۔ ایک ڈیڑھ عشرے کے دوران اُدھار خریداری کو بہت تیزی سے پروان چڑھایا گیا ہے۔ کریڈٹ کارڈز نے یہ معاملہ بہت پیچیدہ کردیا ہے۔ مالیاتی اداروں نے لوگون کو اُکسایا کہ جہیز بھی اُدھار کی بنیاد پر خریدا جاسکتا ہے۔ بیٹی کی رخصتی کے بعد چار پانچ سال تک ادائیگی کرتے رہیے۔ اِس کے نتیجے میں لوگوں نے ٹی وی، ریفریجریٹر، موٹر سائیکل، ایئر کنڈیشنر… سبھی کچھ اُدھار لینا شروع کردیا۔ جنہیں کسی چیز کی کچھ خاص ضرورت نہیں تھی انہوں نے اُدھار کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کے چکر میں اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کا عمل شروع کیا۔

انسان مزاجاً ایسا ہی تو واقع ہوا ہے۔ جب کچھ آسانی سے مل رہا ہو تو فوراً اُس کی طرف لپکتا ہے اور یہ بھی نہیں سوچتا کہ جال بچھایا گیا ہے۔ ادھار بھی ایک ایسا ہی جال ہے۔ دنیا بھر میں کننریومر اِزم کو پروان چڑھانے کے لیے کاروباری اداروں نے یہی جال تو بچھایا ہے۔ اگر کچھ خریدنے کی سکت نہیں تو کوئی بات نہیں، فی الحال خرید لیجیے، پیسے بعد میں دیتے رہیے گا۔ جب انسان کو ایسی مزے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے تو منہ میں پانی بھر آتا ہے اور وہ سوچے سمجھے بغیر زیادہ سے زیادہ خریدنے کی راہ پر گامزن ہوجاتا ہے۔ ہم اس معاملے میں کوئی انوکھے نہیں۔ دنیا بھر میں یہی ہوا ہے۔ مغرب میں اس کلچر کو پہلے تو خوب پروان چڑھایا گیا،۔ پھر سخت قواعد و ضوابط کے ذریعے معاملات کو درست کرلیا گیا۔ ہمارے ہاں یہ روش ابھی تک صرف پروان چڑھائی جارہی ہے اور متعلقہ قواعد و ضوابط کے ذریعے معاملات کو قابو میں رکھنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جارہا۔ اور اِس سے بڑی نادانی یہ ہے کہ سوچنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جارہی۔

بارہ پندرہ برس پہلے ہمارے ہاں قسطوں پر گاڑیاں خریدنے کی وبا پھیلی تھی، بینکوں نے یہ ’’سہولت‘‘ فراہم کی تھی۔ لوگوں نے اپنی آمدنی ذہن نشین رکھے بغیر قسطوں پر گاڑیاں خریدیں اور بعد میں جب مالی سکت جواب دے گئی تب وہی گاڑیاں ضبط بھی کروائیں۔ یہ سراسر خسارے کا سودا تھا۔ ڈیڑھ دو لاکھ روپے ماہانہ کمانے والا شخص اگر قسطوں پر گاڑی خریدے تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے۔ خیر، ہے تو یہ بھی سُود ہی کا معاملہ مگر بات حرام و حلال سے ہٹ کر صرف منطق کی ہورہی ہے۔ اب اگر کوئی محض ساٹھ ستّر ہزار روپے ماہانہ کی تنخواہ کے ساتھ مہنگی موٹر سائیکل یا چھوٹی موٹی کار قسطوں پر لے، تو کھائے گا کیا اور پہنے گا کیا؟ قسطوں پر گاڑی یا کوئی اور بڑی چیز اُسی وقت خریدی جاسکتی ہے جب باورچی خانہ اور دیگر بنیادی معاملات متاثر نہ ہوتے ہوں۔

کنزیومر اِزم کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار اُدھار کے کلچر نے ادا کیا ہے۔ انسان اگر اپنی آمدنی پوری کی پوری فضول چیزوں کی خریداری پر ضایع کردے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ خالی ہاتھ ہوجائے گا۔ یعنی معاملہ مثبت صفر تک آئے گا۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ جو کچھ ابھی کمایا نہیں ہے اُس سے کچھ بھی خریدا جارہا ہے، اور جب کمائی ہوگی تو ادائیگی بھی ہوگی۔ یعنی معاملات صفر کی منزل سے کھسک کر منفی کی طرف جاچکے ہیں۔ جو کچھ ابھی کمایا ہی نہیں اُسے خرچ کر بیٹھنے کی صورت میں آمدنی پر اپنا کنٹرول رہتا ہی نہیں۔ اگر بروقت ادائیگی نہ کی جائے تو خریدی ہوئی چیز ہاتھ سے جاتی رہتی ہے۔ یہ معاملات اِتنے بگڑے ہوئے رہے ہیں کہ معاشرے میں اِس کے سنگین اثرات بہت آسانی سے محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ اُدھار خریدنے کی ایک اور صورت یہ بھی ہے کہ انسان کسی سے اُدھار لے کر متعلقہ تاجر کو ادا کرے، یا پھر کمیٹی ڈال کر پیسے لے لے اور بعد میں ٹکڑوں میں ادائیگی کرتا پھرے۔ یہ بھی دل و دماغ پر بوجھ ڈالنے والا ہی معاملہ ہوا۔

آج خریدیے، کل ادائیگی کیجیے۔ یہ بات کتنی سادہ سی لگتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس سادہ سی بات نے پورے معاشرے کو تلپٹ کردیا ہے۔ لوگ اپنی آمدن سے زائد خرچ کر ڈالتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ دیگر ضروری مدوں کے لیے مالی وسائل کہاں سے لائیں گے؟ اُدھار کے کلچر نے گھروں کو غیر ضروری اشیاء سے بھردیا ہے۔ اگر پُرانے لیپ ٹاپ سے کام چل سکتا ہو تو اُدھار کی بنیاد پر نیا اور خاصا مہنگا لیپ ٹاپ کمپیوٹر خریدنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہی حال دوسری بہت سی عمومی اشیاء کا بھی ہے۔ بہت حد تک پوسٹ پیڈ سیل فون کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ پری پیڈ کنکشن ہو تو انسان کو معلوم ہے کہ کہاں تک کالز کی جاسکتی ہیں۔ پوسٹ پیڈ کنکشن میں یہ سہولت ہے کہ جی بھر کے کالز کیجیے، ادائیگی بعد میں ہوتی رہے گی۔

آج ہمیں اپنی اصلاح کے لیے بہت سے کام فوری بنیاد پر کرنے ہیں اور جنگی بنیاد پر بھی۔ ایک بڑا کام یہ ہے کہ آمدنی دیکھ کر خرچ کیا جائے۔ اخراجات کنٹرول کرنا ہماری ایک بنیادی ضرورت ہے۔ دل چاہے کہ نہ چاہے، یہ تو کرنا ہی پڑے گا۔ کنزیومر اِزم کو لگام دینے کے لیے ناگزیر ہے کہ آمدنی کے مطابق خرچ کرنے کی عادت اپنائی جائے اور اُدھار کا کلچر اپنانے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ کسی بھی چیز کی خریداری میں محض سہولت نہ دیکھی جائے بلکہ اُس سہولت کے لیے ادا کی جانے والی قیمت پر نظر رکھی جائے۔

ڈھنگ سے جینے کی ایک معقول صورت یہ ہے کہ انسان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھنے والی ضرورتوں کے مطابق اپنی آمدنی بڑھانے پر متوجہ ہو، اور اگر کوئی چیز اُدھار خریدے بھی تو آمدنی بڑھانے کی نیت سے، یعنی ایسی اشیاء کی خریداری پر توجہ دی جائے جن کی مدد سے آمدنی میں اضافہ ممکن بنایا جاسکتا ہو۔

حصہ