قیصرو کسریٰ قسط(80)

207

عاصم نے جواب دیا۔ ’’بعض سراب اتنے نظر فریب ہوتے ہیں کہ انسان اُن کے پیچھے دم توڑ دیتا ہے میں نے بھی ایک سراب دیکھا تھا، لیکن اب وہ میری نگاہوں سے اُوجھل ہوچکا ہے۔ اب مجھے سین کی دوستی اور ایرانی فوج کے ساتھ اپنے کارنامے مذاق معلوم ہوتے ہیں۔ زمانے کے حوادث نے مجھے اُس خود اعتمادی سے محروم کردیا ہے جو ایک انسان کو سراب کے پیچھے بھاگنے پر آمادہ کرسکتی ہے۔ اب اگر کوئی سراب ایک حقیقت بن کر میرے سامنے آجائے تو بھی مجھے اُس کی طرف قدم اُٹھانے کا حوصلہ نہیں ہوگا۔ اب میری تمام دلچسپیاں صرف زندہ رہنے تک محدود ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اب میں تلوار نہیں اُٹھائوں گا۔ قسطنطنیہ میں اگر میرے لیے کوئی بات تکلیف کا باعث ہے تو وہ یہ کہ میں یہاں بیکار ہوں۔ اگر میں اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے کوئی کام تلاش نہ کرسکا تو مجھے اندیشہ ہے کہ سین کی طرح کلاڈیوس کی دوستی بھی مجھے ایک بار پھر ایک ایسے سپاہی کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور نہ کردے جو کسی مقصد یا اصول کی خاطر سینہ سپر ہونے کی بجائے اپنی بے مقصد اور بے کیف زندگی کا جواز ثابت کرنے کے لیے تلوار اُٹھا لیتا ہے۔ اب مجھے ایران کی فتوحات اور روم کے مستقبل سے کوئی دلچسپی نہیں، میں اپنی کتابِ حیات کا نیا ورق اُلٹ چکا ہوں۔ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ مجھے اپنی زندگی کے باقی دن قسطنطنیہ میں گزارنے پڑیں گے۔ میں شمال یا مغرب میں وحشی قبائل کے حملوں کے واقعات سنتا ہوں تو کبھی کبھی میرے دل میں پھر ایک بار تلوار اُٹھانے کا شوق کروٹیں لینے لگتا ہے۔ لیکن پھر میرے سامنے جب یہ سوال آتا ہے کہ کیا میرے خون کے چند قطروں سے ظلم اور وحشت کی وہ آگ بجھ جائے گی جو کبھی قیصر اور کسریٰ کے ایوانوں اور کبھی خانہ بدوشوں کے خیموں سے نمودار ہوتی ہے تو میرے حوصلے سرد ہوجاتے ہیں۔ مجھے اِس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ میں ایک معمولی انسان ہوں اور اپنی حدود سے باہر نکلنے کے بعد میں نے ہمیشہ ٹھوکریں کھائی ہیں۔ اگر میرے جیسے معمولی انسان قیصر اور کسریٰ کے جھنڈے اُٹھانے کی بجائے اپنے حال پر قانع رہ سکتے تو شاید اس دنیا کی حالت بہتر ہوتی‘‘۔

فرمس نے کہا۔ عاصم تم ایک معمولی آدمی نہیں ہو۔ بعض حالات میں تلوار نکالنے کی بجائے تلوار نیام میں ڈالنے کے لیے زیادہ حوصلے اور جرأت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ کل تمہارا فیصلہ کیا ہوگا۔ اگر میں نے تمہیں سمجھنے میں غلطی نہیں کی تو تم ان لوگوں سے مختلف ہو جو گمنامی اور بے چارگی کی زندگی پر مطمئن رہ سکتے ہیں۔ قدرت نے تمہیں پامال راہوں پر چلنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ اگر یہ بات ہوتی تو تم عرب سے نکل کر یہاں تک نہ پہنچتے اور آج تمہاری دلچسپیاں صرف اپنے دشمنوں سے انتقام لینے یا اپنے خاندان یا اپنے قبیلے کا بول بالا کرنے تک محدود ہوتیں۔ لیکن قدرت نے تمہیں اپنے لیے نئے راستے تلاش کرنے کی ہمت دی تھی، اور آج بھی یہ کہہ سکتا ہوں کہ زمانے کا کوئی انقلاب تمہاری اس ہمت پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ صحت کی خرابی کے باعث، تمہارے خیالات میں جو تبدیلی آئی ہے وہ میرے نزدیک عارضی ہے۔ جب تمہاری کھوئی ہوئی توانائی واپس آجائے گی تو تمہارا سوچنے کا انداز مختلف ہوگا۔ بہرحال میں تمہیں مایوس نہیں کروں گا۔ اگر تم ایک سرائے میں کام کرکے مطمئن رہ سکتے ہو تو میں ایک ہفتہ کے اندر سارا انتظام کرلوں گا۔ اگر ایرانی فوج کا ایک نامور سالار اس کام میں کوئی سبکی محسوس نہیں کرتا تو میں کیا جس نے ساری عمر یہ کام کیا ہے، کسی کی ناراضگی یا خفگی کی پروا نہیں کروں گا۔ عاصم! میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تمہاری رفاقت کو میں قدرت کا انعام سمجھوں گا‘‘۔

عاصم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ایک ہفتہ بعد آپ کو یہ شکایت نہیں رہے گی کہ میری صحت خراب ہے‘‘۔
اگلے روز سہ پہر کے قریب فرمس مکان کا سودا چکانے کے بعد واپس آیا تو کلاڈیوس مہمان خانے کے ایک کمرے میں عاصم کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اُس نے فرمس کو دیکھتے ہی سوال کیا۔ ’’کہیے، کوئی کامیابی ہوئی؟‘‘۔
فرمس جواب دینے کی بجائے پریشان سا ہو کر، عاصم کی طرف دیکھنے لگا اور وہ بولا۔ ’’آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، میں انہیں بتا چکا ہوں کہ آپ میرے لیے ایک سرائے خرید رہے ہیں۔ کلاڈیوس کو قیصر کی طرف سے ایک اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے اور یہ کل صبح یہاں سے روانہ ہوجائیں گے۔ اس لیے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ ان سے اجازت حاصل کرلی جائے‘‘۔
فرمس کلاڈیوس کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’آپ کہاں جارہے ہیں؟‘‘۔
اُس نے جواب دیا۔ ’’مجھے ہر قلیہ کے قریب ایک اہم چوکی کی حفاظت پر متعین کیا گیا ہے۔ میں ابھی قیصر اور سپہ سالار سے مل کر آیا ہوں۔ انہوں نے مجھے صبح ہوتے ہی کمک کے دستوں کے ساتھ کوچ کا حکم دیا ہے‘‘۔

فرمس کچھ کہے بغیر اُن کے قریب ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ کلاڈیوس نے قدرے توقف کے بعد کہا۔ ’’دیکھیے عاصم کے متعلق میرے جذبات آپ سے مختلف نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ انہیں ایک دن کے لیے بھی بیکار بیٹھنا پسند نہیں اور میری یہ خواہش تھی کہ جب یہ اچھی طرح تندرست ہوجائیں تو انہیں موزوں کام پر لگا دیا جائے۔ موجودہ حالات میں قسطنطنیہ کو سب سے زیادہ سپاہیوں کی ضرورت ہے اور میں کسریٰ کی فوج کے ایک تجربہ کار سالار کے لیے یہاں بھی کوئی عزت کا مقام حاصل کرسکتا ہوں، لیکن میں ایک ایسے دوست کو اپنے ساتھ گھسیٹنا پسند نہیں کروں گا۔ جو اپنی تلوار نیام میں ڈال چکا ہے۔ اب اگر یہ سرائے کے کاروبار میں خوش رہ سکتے ہیں، تو مجھے بھی خوش ہونا چاہیے۔ بلکہ میں یہاں تک کہنے کے لیے تیار ہوں کہ اگر یہ اپنی خوشی سے ایک ادنیٰ مزدور کا پیشہ اختیار کرلیں تو بھی میں ان کا دوست کہلانے میں فخر محسوس کروں گا۔ عاصم نے مجھے یہ نہیں بتایا، لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ اس کی طرح آپ بھی مجھے اپنی خدمت کا مزید موقع دینا پسند نہیں کرتے۔ اگر آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ میں قسطنطنیہ میں آپ کی آزادی پر کوئی پابندیاں عائد کرنا چاہتا ہوں، یا ایسے کاروبار سے میری تضحیک ہوگی تو آپ غلطی پر ہیں۔ اگر بابلیون میں ایک معمولی سرائے کا مالک میرے نزدیک دنیا کے تمام انسانوں سے زیادہ قابل احترام ہوسکتا تھا تو یہاں بھی عقیدت اور احترام کا وہ رشتہ قائم رہ سکتا ہے۔ انطونیہ نے یہاں پہنچتے ہی مجھ سے کہہ دیا تھا کہ آپ کام کے بغیر خوش نہیں رہ سکتے لیکن آپ کو یہ پریشانی ہے کہ جو کام آپ جانتے ہیں وہ ہمیں پسند نہیں آئے گا۔ آج جب عاصم نے مجھے یہ بتایا کہ آپ اُس کے لیے سرائے کا سودا کررہے ہیں تو میرے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ اِس کاروبار میں آپ بھی اُس کے ساتھ شریک ہیں۔ اب آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، میں اپنے باپ کے ساتھ بات کرچکا ہوں۔ انہیں کوئی اعتراض نہیں، وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی سرائے اتنی شاندار ہو کہ اونچے طبقہ کے لوگ وہاں ٹھہرنے میں عزت محسوس کریں اور اس مقصد کے لیے وہ آپ کو ایک معقول رقم قرض دینے کے لیے تیار ہیں‘‘۔

فرمس نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے اپنے داماد کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ کے والد اس قدر وسیع النظر ہیں تو مجھے اس قدر پریشان نہ ہوتی۔ لیکن میں موجودہ غیر یقینی حالات میں کسی وسیع پیمانے پر کوئی کاروبار شروع کرنا مناسب خیال نہیں کرتا۔ اب میں مکان خرید چکا ہوں اور جو تھوڑی سی پونجی ہمارے پاس بچ گئی ہے وہ کام شروع کرنے کے لیے کافی ہے۔ جب حالات بہتر ہوجائیں گے، مجھے آپ کے والد سے مدد لینے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا‘‘۔
ایک نوکر نے دروازے سے اندر جھانکتے ہوئے کہا۔ ’’ولیریس تشریف لائے ہیں‘‘۔

’’انہیں یہاں لے آئو‘‘، کلاڈیوس نے جواب دیا۔ نوکر واپس چلا گیا اور چند ثانیے بعد ولیریس کمرے میں داخل ہوا۔ عاصم، فرنس اور کلاڈیوس اُٹھ کر کھڑے ہوگئے اور وہ اُن کے ساتھ باری باری مصافحہ کرنے کے بعد ایک کرسی پر بیٹھ کر کلاڈیوس سے مخاطب ہوا۔ ’’میں صرف آپ کو الوداع کہنے کے لیے آیا ہوں۔ صبح تک قرطاجنہ سے رسد لانے والے جہاز بحیرئہ مارمورا میں داخل ہوجائیں گے۔ اور میں آج رات اُس کی حفاظت کے لیے جنگی جہازوں کے ایک بیڑہ لے کر روانہ ہوجائوں گا‘‘۔

کلاڈیوس نے کہا۔ ’’یہ عجیب بات ہے کہ میں بھی علی الصباح قسطنطنیہ سے کوچ کررہا ہوں اور ابھی تمہاری تلاش میں نکلنے کا ارادہ کررہا تھا‘‘۔
’’آپ کہاں جارہے ہیں؟‘‘۔
’’مجھے ہر قلیہ کے محاذ کی کمان سونپی گئی ہے‘‘۔
وہ کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے۔ بالآخر ولیرس نے کہا۔ ’’آپ وہاں تنہا جارہے ہیں؟‘‘۔
’’نہیں میں یہاں سے ایک کمک کے ساتھ جارہا ہوں‘‘۔
’’نہیں، نہیں میرا مطلب ہے کہ آپ اپنی بیوی کو ساتھ لے کر تو نہیں جارہے؟‘‘۔
’’نہیں، میں اتنا بیوقوف نہیں ہوں، مجھے وہاں کے حالات معلوم ہیں۔ ولیریس، میں تمہیں ایک اہم ذمہ داری سونپنا چاہتا ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ عاصم میری غیر حاضری میں ایک دوست کی کمی محسوس نہ کرے‘‘۔
اُس نے جواب دیا۔ ’’میں آپ کے ساتھ یہ وعدہ کرسکتا ہوں کہ اس مہم سے فارغ ہونے کے بعد میں دن میں کم از کم ایک بار ضرور اس کے پاس آیا کروں گا‘‘۔

’’عاصم یہاں سرائے کا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے، اور مجھے اُمید ہے کہ تمہاری موجودگی میں اسے کوئی پریشانی نہیں ہوگی‘‘۔
’’سرائے کا کاروبار؟‘‘۔ ولیریس نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔
’’ہاں! اور انطونیہ کے والد اس کے ساتھ شریک ہوں گے‘‘۔

ولیریس نے کہا۔ ’’یہ بات تو میری سمجھ میں آسکتی ہے کہ جو شخص ایرانی فوج میں شہرت اور کامیابی کی منازل طے کرچکا ہے، وہ اپنی زندگی کا راستہ تبدیل کرلینے کے بعد بھی ہماری فوج کے ساتھ کھڑا ہونا پسند نہیں کرے گا۔ لیکن ایک سپاہی کے متعلق یہ سوچنا کہ وہ سرائے بھی چلا سکتا ہے۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر عاصم آپ کی مہمان نوازی سے اُکتا گیا ہے تو میں اِس کے لیے فوج سے باہر بھی کوئی موزوں ملازمت تلاش کرسکتا ہوں‘‘۔

کلاڈیوس نے کہا۔ ’’ولیریس اب اس موضوع پر بحث کی ضرورت نہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ کل عاصم کے خیالات کیا ہوں گے، لیکن اس وقت اُس کا یہی فیصلہ ہے۔ مجھے صرف یہی ثابت کرنا ہے کہ میں اپنے محسن کی ہر خواہش کا احترام کرسکتا ہوں‘‘۔
ولیریس نے جواب دیا۔ ’’بہت اچھا میں بحث نہیں کرتا۔ اور میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ فرصت کے لمحات میں ان کی سرائے میری اور میرے تمام دوستوں کی توجہ کا مرکز بنی رہے گی۔ اگر مجھے کوئی غیر متوقع حادثہ پیش نہ آگیا تو میں چار پانچ دن تک واپس آجائوں گا۔ اب مجھے اجازت دیجیے‘‘۔

ولیریس نے کرسی سے اُٹھ کر کلاڈیوس کی طرف ہاتھ بڑھایا، لیکن اُس نے کہا۔ ’’تم ہمارے ساتھ نہیں جائو گے؟‘‘۔
’’نہیں، میں بہت مصروف ہوں‘‘۔
’’اچھا، تو میں دروازے تک تمہارے ساتھ چلتا ہوں‘‘۔
کلاڈیوس کی دیکھا دیکھی فرمس اور عاصم بھی اُٹھ کر ولیریس کے ساتھ چل دیے۔ دروازے سے باہر نکل کہ اس نے یکے بعد دیگرے اُن کے ساتھ مصافحہ کیا۔ جب عاصم کی باری آئی تو اُس نے جھجکتے ہوئے سوال کیا۔ اگر آپ بُرا نہ مانیں تو میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کی یہ مہم زیادہ خطرناک تو نہیں؟‘‘۔

’’نہیں‘‘۔ ولیریس نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ میں اس مہم سے سلامت واپس آئوں گا۔ ایرانی بیڑے کے متعلق جو اطلاعات ملی ہیں، اُن کے پیشِ نظر ہمیں کسی مزاحمت متوقع نہیں۔ ان دنوں دشمن کا کوئی جہاز مشرقی ساحل کے اڈوں سے زیادہ دور نہیں آتا۔ لیکن وہ اپنی بحری قوت میں بتدریج اضافہ کررہے ہیں اور اُن کا یہ عارضی سکون کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ میں جب قسطنطنیہ سے دور ہوتا ہوں تو مجھے ہر آن یہ خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ میری واپسی تک اس شہر کے باشندے کس حال میں ہوں گے۔ میں ایرانیوں سے زیادہ اُن وحشیوں کے متعلق پریشان ہوتا ہوں، جو کسی وقت بھی آندھی اور طوفان بن کر یہاں نازل ہوسکتے ہیں۔ اس وقت میری سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ جب میں واپس آئوں تو مجھے قسطنطنیہ کی خاموش دیواروں سے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آئے کہ بازنطینی سلطنت کے آخری محافظ کہاں ہیں؟‘‘۔
کلاڈیوس نے مضطرب ہو کر۔ ’’ولیریس مجھے یہ توقع نہ تھی کہ تم اس قدر مایوس ہوجائو گے‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ