گھر بار لٹاکر فٹ پاتھ پر آجانے والے پر عزم جوان کی کتھا

234

کسی نے صحیح کہا ہے کہ:
’’ماحول اچھا بھلا پر سکون اور نارمل ہوتاہے…!
بلڈ پریشربھی کنٹرول میں ہوتاہے…!
نیند بھی پوری آرہی ہوتی ہے…!
انسان فیس بک پراپنی وال پر اچھی اچھی باتیں اور کبھی کبھار لطیفے اور شگوفے شیئر کررہا ہوتاہے…!
محبت کے ترانے لکھ رہا ہوتاہے…!
سب کچھ مرضی کے مطابق ’’ٹھیک‘‘چل رہا ہوتا ہے…!
پھر اچانک کہیں سے ایسی کوئی ویڈیو سامنے آجاتی ہے…!
یا کوئی دوست ایسی کسی پوسٹ پر مینشن کرکے سب کچھ تہس نہس کردیتاہے…!
سب تلپٹ ہوجاتاہے…!
پھر کچھ بھی’’نارمل‘‘نہیں رہتا…!
باہر ہی نہیں’’اندر‘‘کے موسم بھی’’سوگوار‘‘ہوجاتے ہیں‘‘۔
مگر میرے اندر کا موسم سوشل میڈیا کی کسی پوسٹ کو دیکھ کر خراب نہیں ہوا،نہ ہی میرے کسی دوست نے کوئی کرب بھری ویڈیو یا پوسٹ مجھے مینشن کی،مجھے تو دکھ سے بھراجیتا جاگتا نوجوان ٹکراگیا،جس کی ٹکر سے میرا پورا وجود ہل گیا،میں کانپ کر رہ گیا،چشم ِ زدن میں رنگ ونور میں ڈوبی زندگی بے رنگ سی لگنے لگی۔ہوا کچھ یوں کہ گزشتہ دنوں گلشن ِ معمار گیا ،معمار سے گلشن ِ اقبال آنے کے لیے میں نے Uberبلائی،چند منٹ کے بعد سواری میرے سامنے تھی،جب میں Uberپر سوار ہوا تو میرے بیٹھتے ہی ڈرائیور کہنے لگا:
’’بھائی اے سی چلادوں‘‘؟
اندھا کیا چاہے،دو آنکھیں۔
میں نے اس سے کہا:
’’بالکل چلائو بھائی…نیکی اور پوچھ پوچھ‘‘
بات یہ تھی کہ میں نے Uber Miniمنگوائی تھی،جس میں اے سی نہیں ہوتا،تاہم جب اس نے خود آفر دی تو ہم نے ہاں کردی۔
اے سی آن کرتے ہی اس نے مجھ سے پوچھا۔
’’کہاں جاناہے‘‘؟
میں نے مطلوبہ مقام بتایا…جب اس نے گاڑی اسٹارٹ کر کے جیسے ہی گیئر پر ہاتھ رکھا تو میں اس کا ہاتھ دیکھ کر خوف زدہ ہوگیا،خوف کی ایک ہلکی سی لہر پورے وجود میں سرایت کرگئی،ایسا لگا جیسے اس کے ہاتھ میں سانپ کی جلد چڑھی ہوئی ہو۔ایک لمحے کو یہ خیال بھی آیا کہ یہ کوئی’’دوسری مخلوق‘‘ تو نہیں۔میں نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے اس سے پوچھایہ آپ کے ہاتھ کو کیا ہوا ہے؟تب اس نے اپنا دوسرا ہاتھ ،گردن اور جسم کا جو حصہ نظر آسکتا تھا وہ مجھے دکھایا،میں کچھ اور ڈر سا گیاپھر اس نے اپنی بپتا سنانی شروع کی۔
لیجیے آپ بھی سنیے:
’’آپ کو سانحۂ عباس ٹائون یاد ہے؟‘‘
میں نے اثبات میں سرکو ہلایا،ہاں یاد ہے۔
’’اس دھماکے میں میرے پورے گھر والے مرگئے،میرے ماں،باپ،بہن بھائی سب،کوئی نہیں بچا،بس میں بچ گیا…‘‘۔
’’آپ کیسے بچ گئے؟‘‘میں نے سوال کیا۔
کہنے لگا:’’دھماکے کے بعد جب میری آنکھ کھلی تو میں پٹیل ہسپتال میں تھا،حکومت نے زخمیوں کے علاج معالجے کے لیے ہسپتال کو فنڈ دیا تھا،میں کچھ دن وہاں ایڈمٹ رہا میرا پورا جسم پوری طرح جل چکا تھا،کچھ دنوں کے بعد ہسپتال والوں نے مجھے یہ کہہ کر ڈسچارج کردیا کہ حکومت نے جو فنڈ دیا تھاوہ ختم ہوچکا ہے،ہم اب مزید آپ کا علاج نہیں کرسکتے،میں ڈسچارج تو ہوگیا مگر جاتا کہاں؟نہ کوئی گھر تھا نہ گھر والے،جلے ہوئے جسم کے ساتھ میں فٹ پاتھ پر رہنے لگا،پھر کچھ ماہ بعد میرا زخم کچھ بہتر ہوا تو میں نے کچھ پیسے جوڑ کر یہ گاڑی لے لی،میرا جسم اب بھی جلتا ہے،میں اے سی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔اتنا کہہ کر وہ اپنے حلق کی نمکین رطوبت نگلنے کے لیے کچھ دیر کے لیے رکا تومیں نے دوسرا سوال کیا:
’’آپ رہتے کہاں ہیں؟‘‘
’’بس یہیں معمار کے بس اڈے پر اپنی گاڑی میں سوتا ہوں‘‘
’’کیوں گھر نہیں ہے کیا؟‘‘
’’ہاں گھر ہے،اورنگی ٹائون میں، میں نے ایک کمرے کا مکان کرائے پر لیا ہے،ہفتے میں ایک دن وہاں نہانے دھونے چلا جاتا ہوں،بقیہ دن یہیں بس اڈے پر رات گزارتا ہوں،ایک باجی ہیں جنہیں میں روز صبح ان کے آفس چھوڑتا ہوں،پھر یہیں آکر گاڑی کھڑی کردیتا ہوں‘‘۔
’’کسی سے امداد کا نہیں کہا آپ نے؟‘‘
’’آپ کی طرح کئی اور لوگوں نے میرے ساتھ سفر کیا،ان میں بعض ٹی وی کے افراد بھی تھے سب نے مجھے آسرا دیا مگر کسی نے کوئی مدد نہیں کی‘‘۔
’’تم شادی کیوں نہیں کرلیتے؟‘‘
’’شادی…؟‘‘
شادی کا نام سن کر اس نے ایک تلخ اور پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ اپنا منہ دوسری طرف ایسے موڑا کہ آگے میں کچھ بھی نہ کہہ پایا۔اور کہتا بھی تو کیا؟؟
26سالہ عزیر کی زندگی سے جڑے اور کئی سوالات تھے،جو میں نے پوچھے اور وہ بتاتا گیا،اب تک جو کچھ اس نے بتایا میرے لیے بس اتنا ہی کافی تھا،ایک ہفتے کی بے سکونی کا اچھا خاصا سامان تھا یہ۔بقیہ سفر میں نے خاموشی میں طے کیا۔میں خاموش تھا،عزیر بھی چپ ہوگیا تھا،مگر اس خاموش اور چپ میں وہ شور وشَین تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔میری منزل آچکی تھی،میں نے اسے کرایہ ادا کیا اوراس امید پر اسے اپنا وزٹنگ کارڈتھمایا کہ شاید کوئی عزیر کی کتھا سن کر اس کی کچھ مدد پر آمادہ ہوجائے۔میں گلشن کے بس اسٹاپ پر اتر گیا،عزیر بھی روانہ ہوا۔ بس اسٹاپ پراوور ٹیک کرتی ہوئی ایک منی بس آکر رکی،بس میں گاناچل رہاتھا:
ہر گھڑی بدل رہی ہے روپ زندگی
دھوپ ہے کبھی،کبھی ہے،چھائوں زندگی
اس کہانی کے لکھنے سے قبل میں کئی مرتبہ عزیر کا فون نمبر ڈائل کرچکا ہوں،مگر آگے مکمل خاموشی ہے،میں جب بھی اسے فون ملاتا ہوں تو بڑبڑانے لگتا ہوں… عزیر تم کہاں ہو؟فون اٹھائو یار۔۔۔۔!

حصہ