حضرت علی ؓ کا انصاف

646

بچو! آپ نے عدل و انصاف کا لفظ بارہا سنا ہوگا اور اس لفظ کے معنی بھی آپ سب کو اچھی طرح آتے ہونگے۔ دراصل انصاف کے معنی صرف اتنے ہی نہیں ہوتے کہ کسی قاضی یا جج کے سامنے کسی کا مقدمہ پیش کیا جائے اور وہ کوئی فیصلہ سنادے۔ بے شک اس کے فیصلے کو بھی مانا جانا ضروری ہوتا ہے ورنہ کار و بارِ زندگی کیسے جلایا جا سکتا ہے لیکن عدل یا انصاف کے اصل معنی یہ ہیں کہ جس کے حق میں فیصلہ آئے وہ بھی اور جس کے خلاف فیصلہ آئے، وہ بھی اس طرح مطمئن ہو جائیں کہ انھیں فیصلے کے ایک حرف پر بھی کوئی شکایت یا اعتراض کرنے کا خیال نہ آ سکے۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ کیا ایسا بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ مقدمہ ہار جانے والے کو بھی کوئی اعتراض نہ ہو اور وہ اپنے خلاف فیصلہ سننے کے باوجود فیصلے کو مان لینے کے لیے تیار ہو جائے۔
بات یہ ہے کہ ہم جس ماحول میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں وہاں عدالت کے فیصلے تو آ جاتے ہیں لیکن اس میں بہت سارے پہلو ایسے ہوتے ہیں جس کو سن کر ہار جانے والا فریق فیصلہ مان لینے پر مجبور تو ضرور ہوتا ہے لیکن وہ فیصلے پر مطمئن نہیں ہو پاتا کیوں کہ ہمارے ہاں انصاف حاصل کرنے کے لیے بھی ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ وکیلوں کی فیسیں، بار بار پیشیوں پر جانے کے اخراجات اور اسی طرح کی کئی مشکلات ہر غریب کی راہ کی رکاوٹ بن جاتے ہیں جس کی وجہ سے فیصلہ دولت مندوں کے حق میں آ جایا کرتا ہے۔
آپ نے سنا ہوگا کہ جب میدانِ حشر لگے گا تو وہاں بھی جھوٹ کو الگ اور سچ کو اس طرح الگ کر دیا جائے گا کہ کسی انسان کو بھی کوئی شکایت نہ ہو سکے گی۔ حشر کا میدان سجانے کا مقصد بھی اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ جو سچ ہے اور جو جھوٹ ہے، ہر فرد کے سامنے آ جائے ورنہ اللہ تعالیٰ کو اس بات کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ میدانِ حشر لگاتا۔ وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے۔ وہ چاہتا تو جس کے حق میں جزا ہے اسے جزا اور جس کے حق میں سزا ہے اسے سزا دے سکتا تھا۔ کیونکہ وہ عادل ہے اور عدل کا ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ جسے سزا دے جائے یا جسے جزا دی جائے، ہر دو صورت میں دونوں کو مطمئن کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اسی حوالے سے میں آپ کو ایک تاریخی قصہ سناتا ہوں جس سے آپ کو یہ بات اور بھی اچھی طرح سمجھ میں آ جائے گی کہ واقعی انصاف کہتے کسے ہیں۔ یہ قصہ میں نے اپنی ابتدائی جماعتوں کے نصاب میں پڑھا تھا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ دو بدو (عرب کے رہنے والے دیہاتی) سفر کے لیے نکلے ہوئے تھے۔ راستے میں دوپہر کا وقت ہو گیا تو سستانے کے لیے ایک گھنے درخت کی چھاؤں میں بیٹھ گئے۔ کھانے کا وقت بھی تھا اور بھوک بھی چمک رہی تھی۔ دونوں نے اپنے اپنے ساتھ لائے کھانے کھولے۔ ان میں سے ایک کے پاس تین روٹیاں تھیں اور ایک کے پاس پانچ۔ جب سب مل کر کھا رہے ہوں تو پھر یہ نہیں دیکھتے کہ کس کے پاس کیا اور کتنا ہے۔ ابھی انھوں نے کھانا شروع نہیں کیا تھا ایک اور مسافر ان کے ساتھ آ ملا۔ اس کے پاس کھانے کا کوئی سامان نہیں تھا لیکن وہ کافی پیسے والا لگتا تھا۔ عرب کے لوگ ہمارے دیہات میں رہنے والوں کی طرح بڑے مہمان نواز ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کوئی بات نہیں تم بھی ہمارے ساتھ شریک ہو جاؤ۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو تیسرے آدمی نے ان دونوں کا شکریہ بھی ادا کیا اور 8 اشرفیاں ان کو دیدیں اور کہا کہ خود ہی آپس میں بانٹ لینا۔ جس شخص کی 5 روٹیاں تھیں اس نے 6 اشرفیاں اپنے پاس رکھیں اور 2 اشرفیاں 3 روٹیوں والے کی جانب بڑھا دیں۔ جس کی روٹیاں 3 تھیں اس نے کہا یہ کیا بات ہوئی، میری روٹیاں 3 تھیں تم 2 کی بجائے 3 اشرفیاں مجھے دو اور 5 اشرفیاں اپنے پاس رکھو۔ 5 روٹیوں والے نے 3 روٹیوں والے کی بات نہیں مانی تو مقدمہ حضرت علی (رض) کی عدالت میں پیش ہوا۔ آپ نے تین روٹیوں والے کی پوری کہانی سن کر کہا کہ تم 2 اشرفیاں رکھ لو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اسے اس فیصلے پر بڑی حیرت ہوئی۔ کہنے لگا کہ یہ تو انصاف کی بات نہ ہوئی، آپ مجھے انصاف کرکے سمجھائیے۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ تم دونوں اپنی اپنی ہر روٹی کے تین تین حصے کرو۔ جس کی 3 روٹیاں ہیں اس کے حصے بنے 9 اور جس کی 5 روٹیاں ہیں اس کے حصے بنے 15۔ کل حصے ہوئے 24۔ کل آدمی تھے 3۔ گویا اس حساب سے سب نے آٹھ آٹھ حصے کھائے۔ اس لحاظ سے تم نے اپنی روٹیوں کے 9 حصوں میں سے 8 خود کھائے اور ایک حصہ مسافر کو دیا جبکہ جس کے 15 حصے تھے اس نے 8 حصے خود کھائے اور 7 حصے مسافر کو کھلائے اس طرح 8 اشرفیوں میں سے 7 اشرفیوں کا حق دار 5 روٹیوں والا بنتا ہے اور تم صرف ایک اشرفی کے حق دار ہو۔
یہ فیصلہ سن کر 3 روٹیوں والا ناراض نہیں ہوا بلکہ خوشی خوشی اس فیصلے کو قبول کر لیا۔ اب بتاؤ کہ کیا کوئی بھی اس ’’عدل‘‘ پر کچھ کہنے کی گنجائش رکھتا تھا۔ جواب ظاہر ہے کہ ’’نہیں ‘‘ میں آئے گا۔ اگر اسی طرح کے فیصلہ دنیا کی عدالتیں سنانے لگیں تو یقین مانیں اس دنیا سے سارے فتنے اور فساد ختم ہو جائیں اور یہ دنیا جنت کا نمونہ بن جائے۔

حصہ