سوشل میڈیا رقص اور پیسہ

389

کراچی میں 4 روزہ عالمی اردو کانفرنس میں اس بار بھی انور مقصود کی گفتگو کے کلپس بہت مقبول رہے۔ پاکستان کے سیاسی، سماجی، ادبی حالات پر انور مقصود کے تلخ مگر حقیقت پر مبنی جامع اور تیر بہ ہدف جملوں سے سیاسی شعور میں ضرور اضافہ ہوا ہوگا۔ ’جب بندوق کی زبان قومی زبان بن جائے تو حالات ایسے ہی ہوتے ہیں۔‘ ’غریب تو کہتے ہیں کہ ہمیں بدنام نہ کریں اپنے لیے مانگیں۔‘’پاکستان کی 60 فیصد آبادی غریب ہے اور 40 فیصد فوج ہے۔‘‘ ’’پاکستان کی کہانی فلم کی طرح ہے جو75 سال سے چل رہی ہے ۔ ہدایت کار پنجاب‘ شوٹنگ بلوچستان میں ہوئی۔ پس پردہ موسیقی آرمی بینڈ… اس کا انٹرول۔1971 میں ہوتا ہے۔‘‘
فیفا ورلڈ کپ کے مقابلے اور پنڈی میں پاک انگلینڈ کرکٹ ٹیسٹ میچ کی شکست بھی سوشل میڈیاپر ڈسکس ہوتی رہیں۔ فیفا میں اسپین کو شکست دے کر مراکش کی فتح عالم اسلام میں بڑے جوش و جذبے سے منائی گئی۔ ممکن ہے اس کی وجہ ماضی میں اسپین کی مراکش پر استعماری تسلط کی تاریخ ہو۔

پاکستان اسلامک ٹچ کی زبردست آماج گاہ ہے، مستقل دین سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے، مغرب سے سوشل میڈیا مفکرین یہاں آکر دین سکھاتے ہیں۔ گزشتہ ماہ نعمان علی خان پہنچے ہوئے تھے اب سنا ہے کہ سوشل میڈیا اسکالروں میں یاسر قاضی آنے کو ہیں۔ خیر یہ تو ابھی خبر ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ امریکی شہری جو کہتا ہو کہ اُسے قرآن پر شک ہے، انبیا کی تصاویر بنانے کی فقہی گنجائش موجود ہے تو ایسے ارتدادی نظریات والے شخص کو جہاں کے مقامی انگریز اسکالرز اس کو فارغ کر چکے ہوں، اس کو کیسے دین سکھانے کے نام پر عوامی خطابات کی پاکستان میں جگہ دی جا سکتی ہے؟

خواتین کے حوالے سے پچھلا ہفتہ اہم رہا۔ مولانا فضل الرحمن کا اپنے خطاب میں خواتین کے جذبات سے متعلق جملے سوشل میڈیا کو نئے ایشوز دے گئے۔ مولانا نے خالص عمران خان سے’’عوامی عقیدت کی انتہا‘‘ پر تنقید کرنا چاہی تھی مگر ہم یہی گمان کر سکتے ہیں کہ اُن کو بات سمجھانے کے لیے اس سے زیادہ مناسب مثالیں نہ ملی ہوں۔ اس کے پیچھے آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔ جو یہی بتا رہے تھے کہ عمران خان کی مقبولیت کے جھنڈے ابھی تک گڑھے ہوئے ہیں۔ جھنجلاہٹ یوں ظاہر ہوتی ہے کہ جے یو آئی اپنے ایونٹ میں عمران خان کو کیوں موضوع بناتی ہے؟ چلیں چھوڑیں مولانا کو، یوتھیو نے ’خنزیر ڈیزل‘ جیسے ہیش ٹیگ کو ٹرینڈ بنا کر معاملہ ’’برابر‘‘ کیا۔ جے یو آئی والے بھی جواب میں اپنے قائد کے دفاع میں ’’فحاشی کے دفاع نامنظور‘‘ کے ہیش ٹیگ کو ٹرینڈ بناتے نظر آئے۔ مولانا نے مزید کامیاب سیاسی قدم اٹھایا اور بلوچستان میں اسلم رئیسانی کی صورت شمولیت کی صورت جگہ بنائی۔ ن لیگی رہنما عطا تارڑ کی جانب سے سلگتے جملوں نے بھی یوتھیو کو غذا فراہم کی اور وہ ’’عطا ٹر ٹر لعنتی‘‘ کے ٹرینڈ کو لے کر کود پڑے۔ ہوا یہ کہ اسلام آباد میں مشہور ’سینچورس مال‘ میں آگ لگی جس کے بعد اسلام آباد انتظامیہ نے بلڈنگ مالکان کی غفلت قرار دے کر مال کو ’اٹکا‘ دیا۔ جیسے ہی بلدیاتی انتخابات کے نتائج مکمل ہوئے، سی ڈی اے نے مال کو مکمل سیل (بند)کر دیا۔ یہ مال آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کی ملکیت ہے اور وزیراعظم کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ اب مزید سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ دوسری جانب سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اپنے آخری خطاب کے چند جملوں کی وجہ سے جاتے جاتے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنے رہے۔ اُن کی جانب سے سیاست میں حصہ لینے کا اقرار میرے نزدیک قابل مذمت کے بجائے حقیقت کو دل سے ماننے جیسا تھا، کیوں کہ ان کے بقول فروری 2022 کے بعد سے فوج علیحدہ ہو گئی تھی مگر آرمی چیف کی تقرری کا پورا عمل اور اس میں سیاسی جماعتوں کی دل چسپی یہی بتا رہی تھی کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔’وہ دھوکے باز بھی تھا‘۔’تم ایک مہرہ تھے‘۔ ’عمران بمقابلہ کرپٹ مافیاز‘۔ اس کے علاوہ لاہور کی ایک کاروباری شخصیت چوہدری اختر کی دل چسپ وڈیو بہت وائرل رہی۔ ان کی ایک نعرے پر بنائی گئی ’لاہور دا پاوا اختر لاوا‘کی وڈیو ٹک ٹاک، ٹوئٹر سمیت دیگر پلیٹ فارمز پر انتہائی مقبول رہی۔

سوشل میڈیا پر ویسے خواتین کے ہر قسم کے رقص کی وڈیوز کی مقبولیت کوئی نئی بات نہیں مگر دو ہفتوں سے جس قسم کے رقص وائرل ہو رہے ہیں اُن پر بات کرنا ضروری ہے۔ دونوں رقص پاکستان میں ہونے والی شادی کی تقریبات کے ہیں۔ بے حیائی کو کسی صورت کوئی رعایت یا راستہ دیں گے تو وہ آگے چل کر اپنا پورا رنگ دکھائے گی۔ بے حیائی صرف ایمان ہی کو نہیں بلکہ اسلامی تہذیب کو بھی کھا جاتی ہے۔ ان رقص کی وڈیوز سے ہی سمجھ لیں۔ ایک رقص تو سوشل میڈیا پر اتنا مقبول ہوا کہ ایک ٹی وی چینل نے مارننگ شو میں لڑکی کو مہمان بلالیا؎ ، یہ بتا کر کہ رقص بالکل بھی کوئی بے ہودہ نہیں تھا۔ پورا زور اس بات پر تھا کہ رقص کرنا کوئی معیوب بات ہی نہیں کہ اتنا پیسہ جو کما لیا۔ ان کو یہ احساس ہی نہیں تھا کہ یہ سب کچھ بے شمار نامحرموں کے سامنے ہو رہا تھا جن کے سامنے بے حجابی ممنوع ہے وہاں کیمرہ پکڑے وڈیو میکر ان وڈیوز کے ساتھ کیا کچھ کر رہا ہوتا ہے۔ مارننگ شو کی میزبان نے لڑکی کو ایک ڈانس وڈیو سے لاکھوں فالوورز و سبسکرائبرز بن جانے پر جس حسد بھرے جملوں کا اظہار کیا وہ بھی یہ نفسیات سمجھانے کوکافی تھا۔ دوسرا رقص جو مقبول ہوا وہ بھی ایک شاد ی میں باپ بیٹی کا تھا۔ اسی کے ذیل میں موسیقی و ڈانس کے اساتذہ کی ٹریننگ کی ایک خبر بھی سوشل میڈیا پر چلتی نظر آئی۔ تو اب اندازہ کرلیں کہ ابھی یہ حال ہے تو جب اسکولوں میں گانا و ڈانس سکھائیں گے توکیا حال ہوگا۔ ٹوئٹر پر صارفین نے اس عمل کو شدیدتنقید سے گزارا #NidaStopObscenity کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ بنا، صارفین ندا یاسر کو فحاشی پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیتے رہے، مگر دوسری جانب جو پیمانے لوگ پیش کر رہے تھے اس میں بھی بے حجابی موضوع نہیں تھا۔ اس میں جو پوسٹ مقبول رہی اُس میں گلے میں بیسیوں میڈل ڈالے لاہور کے نجی میڈیکل کالج کے حافظ ولید اور پی ایچ ڈی بے روزگاروں کی تعداد پر مبنی پوسٹ کا موازنہ اُس لڑکی سے کیا گیاجس نے سوشل میڈیا سے ایک رقص کر کے 2 کروڑ روپے کمائے۔ یہ ہے فکر کی غلامی کا مظہر، جب پیمانہ پیسہ کمانا ہوگا تویہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کے لیے ڈاکٹری یا میڈل ہی شرط ہوگا؟

شادی ہمارے معاشرے سے جڑا خالص دینی عمل ہے، جس کی پوری ترتیب بتائی گئی ہے۔ رہنمائی یہاں تک دی گئی ہے کہ شب زفاف تک کے احکامات سکھا دیے گئے۔ نکاح کو ایسی سنت میں شامل کیا گیا کہ جو اس پر نہ چلے اُس کا تعلق اُمت سے ہی کاٹ دیا جاتا ہے۔ مگر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں شادی خوشی کے ساتھ ایسا عمل بن گئی جسے شیطانی طرز پر منایا جاتا ہے۔ موسیقی، رقص، وڈیو، فوٹوگرافی، مرد و زن اِختلاط، اَسراف سمیت جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے اُس کا ’خوشی‘ سے جو بھی تعلق ہو، مگر دین سے بالکل نہیں ہوتا۔ نامعلوم کیوں سیرت سے ایک واقعے پر خاموش رہنے کا متن اُٹھا کر سادہ لوح مسلمان وہ سب حلال کر لیتے ہیں جو کاملِ حرام کے درجہ میں ہے۔

سوشل میڈیا کا دور ہے، لوگ سمجھتے ہیںکہ یہ میڈیا بڑا کام کر رہا ہے مگر میں اس ضمن میںصرف انیسویں صدی کے عظیم مفکر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی مثال دینا چاہوں گا جن کی فکر سوشل میڈیا سے نہیں بلکہ فرداً فرداً پھیلی۔ انہوں نے صرف کتابوں کے صفحے سیاہ نہیں کیے بلکہ عمل کی پوری دُنیا کھڑی کر ڈالی اور برصغیر ہی نہیں پوری دنیا میں اثرات مرتب کیے۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ’حیا‘ کے موضوع پر سیکڑوں دروس جو کام نہیں کر سکے سید موددیؒ نے بغیر کسی فیس بک، ٹوئٹر ، انسٹا گرام کے ہزاروں لوگوں کی معاشرتی زندگی بدل ڈالی۔ مولانا کا تہذیب ِاسلامی کے ضمن میں پورا جامع لٹریچر پر مبنی زندہ کام ہے۔ مولانا مودودیؒکی پوری تہذیب ِاسلامی کی فکر قرآنی نظریات و احکامات پر کھڑی ہے۔ آج کوئی 45سال گزر گئے مگر اِس وقت بھی کسی اسلامی تحریک کے پاس مولاناؒ کی اسلامی تہذیبی فکر کی متبادل علمیت والی شخصیت موجود نہیںہے۔ قرآن کی صاف نص ہے کہ’ ولا تقربو الزنا‘، اب اندازہ کرلیں کہ زنا کے قریب بھی جانے سے روکنے والا دین جس نوعیت کی معاشرت پیدا کرے گی اُس میں مخلوط ماحول، بے پردگی، خروج فی البیت کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ ایک اہم ترین بات یہ کہ جب مولانا سید مودودیؒ کی پوری فکر قرآن و سنت کی دعوت اور پوری دنیا پر چھا جانے کے تصور پرکھڑی ہے تو اْس کا تہذیبی مظہر بھی نہ صرف قرآنی منصوص پر مشتمل ہے بلکہ ہر لحاظ سے اجماعی بھی ہے۔ حیا، عورت، پردہ کے بارے میں مولانا مودودیؒ کی پیش کردہ فکر سے تمام مکاتب فکر دیو بندی، بریلوی، اہلِ حدیث رتی برابر بھی اختلاف نہیں رکھتے۔ اس لیے کم ازکم یہ تو سمجھ لیں کہ تہذیبی معاملے میں مولانا مودودیؒ کو لپیٹ دینے کے بعد کہیں بھی کچھ نہیں بچے گا۔ اگر سید مودودیؒ کے تصور کے کسی متبادل ماڈل پر جائیں گے تو خلاف اجماع ہونے ، خلاف نصوص قرآنی ہونے کی وجہ سے تحریک اپنی فکری جہتوں سے خاموش فکری ارتداد کا شکار ہوگی اور نظری و عملی محاذ پر منافقانہ تضاد پیدا ہو جائے گا۔

جب یہ بات صاف ہوگئی کہ فی زمانہ ایک متفقہ اسلامی تہذیب کا ماڈل وہی ہے جو سید مودودیؒ نے پیش کیا تو پھر اِسلام کی پوری تہذیب حجابی ہے یا بے حجابی؟
وقرن فی بیوتکن ، ہماری تہذیبی حقیقت ہے یا نہیں؟ (سورۃ احزاب)
کیا سید مودودیؒ نے اسلامی تہذیب کے تناظر میں جو فکر اپنی کتاب ’پردہ‘ میں پیش کی، وہ سارافہم صاف اور قطعی قرآنی حکم ہے یا نہیں؟
کیا سید مودودیؒ کا فکر و فلسفہ کتابوں سے نکل کر تہذیبی حقیقت بن کر معاشرے کے سامنے نہیں آ یا؟
کیا سید مودودیؒ نے تہذیبی اسلامی کو ایک متوارث حقیقت کے طور پر بیان کیا ہے؟
خروج فی البیت کا فتنہ، فحش، روایتی تعلیم کے بجائے کسی سرمایہ دارانہ علم کی جانب آجائے تو کیا یہ مجموعی خیر ہے؟
مطلب لڑکی ناچ کر یا اداکاری کرکے، اپنی وڈیوز شیئر کرکے اس سے پیسہ کمائے۔ یہ عورت کے لیے دین کے طے کردہ مقاصد ہیں؟
مرد کمائے گا اور عورت گھر پر بچوں کی تربیت کرے گی، اس کو ترک کرکے دونوں صارفانہ علامت بن جائیں گے تو کیا یہ مجموعی خیر ہوگا؟
کیا سید مودودیؒ کی کتاب پردہ اسی مغربی بیانیہ کی داعی ہے یا اس کے یکسر مخالف ہے؟
پس اسلامی معاشرت اپنانے کے لیے اِن سوالات کے جوابات ہر باشعور مسلمان کو ضرور اپنے آپ سے کرنے ہوں گے۔

حصہ