شاعر زبان بناتا ہے لغت زبان نہیں بناتی‘ پروفیسر شاداب احسانی

229

جمعیت الفلاح ہال کراچی میں رشید اثر کی یاد میں تعزیتی ریفرنس اور ان کے مجموعہ کلام ’’جاگتے منظر‘‘ کی تعارفی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے ممتاز شاعر‘ نقاد اور ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ رشید اثر کی شاعری ادب کی کلاسیکی روایت سے جڑی ہوئی ہے‘ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کا کلام انہیں زندہ رکھے گا‘ ان کی یہاںسادگی اور پُرکاری ہے۔ شاعر زبان بناتا ہے‘ لغت زبان نہیں بناتی۔ آج کا شاعر سماعتوں کے لیے لکھ رہا ہے وہ سماعت پیدا نہیں کر رہا۔ آج تعلیم یافتہ آدمی نہیں مل رہا بلکہ ڈگری یافتہ آدمی مل رہا ہے‘ علمِ مجلسی بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر مختار حیات نے کہا کہ میری رشید اثر کے ساتھ 63 برس کی رفاقت تھی ان کا شمار قابل ذکر شعرا میں ہوتا ہے‘ ان کی پوری شاعری سچے جذبوں سے عبارت ہیں‘ ان کے لہجے میں دھیما پن موجود ہے۔ ہم ان کی یادوں میں شریک ہو کر انہیں خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ مہمان اعزازی حامد اسلام نے کہا کہ رشید اثر نے اپنی ذات کے حوالے سے اپنے معاشرے کو لکھا ان کی غزلیں اثر انگیز ہیں‘ وہ سستی شہرت سے دور رہتے تھے‘ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے‘ وہ روایت شکن نہیں تھے‘ وہ غزل کے میدان میں نامور شاعر تھے‘ ان کی شاعری ہمیں دعوتِ فکر دیتی ہے‘ ان کے اشعار میںان کی زندگی کا پس منظر اور پیش منظر دونوں موجود ہیں‘ ان کی غزل ان کی ذات کا اظہاریہ بھی ہے اور معاشرے کے حالات کا عکس بھی۔ اختر سعید نے کہا کہ رشید اثر کراچی کے سینئر شعرا میں شامل تھے‘ وہ اپنی عمر کے آخری حضے میں گوشہ نشین ہو گئے تھے‘ ان کی شاعری میں جدید لفظیات اور جدید استعارے نمایاں ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ سچ بولا۔ ان کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی موجود ہے۔ محمد علی گوہر نے رشید اثر کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ سلیم فوز نے کہا کہ رشید اثر ایک قابل قدر شاعر تھے وہ زندگی بھر مسائل سے نبرد آزما رہے۔ ان کے اشعار میں زمانے کا کرب اور تلخیاں ملتی ہیں لیکن غنایت بھی بہ درجہ اتم موجود ہے۔ حنیف عابد نے کہا کہ رشید اثر نے سچ بیانی سے کام لیا وہ مستند اور معتبر شاعر تھے۔ انہوں نے جدید تشبیہات اور استعارات سے اپنی شاعری میں خوب صورتی پیدا کی ان کے ہاں نزاکت و فکر اور بے ساختگی پائی جاتی ہے۔ محبتیں تقسیم کرتے تھے‘ تعصب سے انہیں نفرت تھی ان کی شاعری میں سادہ بیانی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ خالد معین نے کہا کہ رشید اثر قد آور شاعر تھے‘ وہ آسمانِ ادب کے درخشاں ستارے تھے‘ ان کے ہاں داخلیت اور خارجیت برابر ملتے ہیں وہ دونوں خاصیتوں کے حامل تھے انہوں نے غمِ جاناں اور غمِ دنیا کے روّیوں کو شامل کیا ہے‘ وہ میانہ روی اور توازن کے آدمی تھے۔ ان کی شاعری بہت آسان اور دل میں اترنے والی شاعری ہے‘ وہ اپنی خلوت میں مگن رہتے تھے۔ تقریب کی نظامت نظر فاطمی نے کی۔ قمر محمد خان نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ وہ شرکائے محفل کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہماری دعوت پر آج کی محفل میںشرکت کی۔ قیصر خان نے کلماتِ تشکر ادا کیے‘ ان کا کہنا تھا کہ جمعیت الفلاح کا ادارہ 1950ء سے ادبی تقریبات کا اہم محور ہے ہم اوردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں سرگرم عمل ہیں ہم آپ کے تعاون سے آگے بڑھ رہے ہیں ہم نے اپنے ادارہ کے ہال کو بہترین ترتیب میں لے آئے ہیں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ رشید اثر کو جنت الفردوس عطا فرمائے۔

حصہ