زندگی آسان

388

’’نہیں میں شلجم نہیں کھاتی۔‘‘ زارا نے کہا تو اس کی ساس نے حیرت سے اسے دیکھا۔

’’لیکن تمہاری اماں تو کہتی تھیں کہ تم سب کھاتی ہو۔‘‘

’’جی جی… میں سب کچھ کھا لیتی ہوں ، لیکن شلجم… نہیں کھاتی۔‘‘ زارا نے کہا۔

لیکن کچھ ہی دنوں بعد معلوم ہوا کہ وہ بھنڈی بھی نہیں کھاتی، ٹنڈے تو چکھتی بھی نہیں۔ اور پھر یہ فہرست لمبی ہوتی چلی گئی۔

زارا کی ابھی کچھ ماہ پہلے ہی شادی ہوئی تھی اور اس کے سسرال میں زیادہ تر سبزی ہی کھائی جاتی تھی، یعنی سبزی اور گوشت کا سالن۔ جب کہ میکے میں اکثر ہی چائنیز یا فرائی آئٹم یا چاول بنتے تھے۔ سبزی تو ابو، امی ہی کھاتے تھے، لیکن انہوں نے کبھی بچوں سے زبردستی نہیں کی کہ وہ بھی سب کچھ کھائیں، جس کی وجہ سے زارا کو سسرال میں خاصی پریشانی ہورہی تھی، وہ اکثر کھانے پر سے بھوکی ہی اٹھ جاتی تھی۔ رات کو کبھی چپکے سے کھانا ہوم ڈیلیور کروالیا جاتا، یا وہ باہر جاکر کھا لیتے… لیکن کب تک؟

ایک دن اس کی ساس نے جب کہ شلجم پکے ہوئے تھے اُس سے پوچھا ’’تم کو شلجم کیوں اچھے نہیں لگتے؟ تم نے کبھی چکھے ہیں؟‘‘

’’نہیں کبھی چکھے ہی نہیں، بس شلجم، ٹنڈے… نام ہی عجیب لگتا ہے اس لیے کبھی کھانے کی کوشش ہی نہیں کی۔‘‘

زارا نے کہا تو اس کی ساس نے اسے اپنے ہاتھ سے ایک نوالہ بناکر دیا کہ ’’آج چکھ کر تو دیکھو، اگر اچھا لگے تو کھانا ورنہ چھوڑ دینا، میں نے آلو کے کٹلس بھی بنائے ہیں تم وہی کھالینا۔‘‘

محبت سے دیے گئے اس لقمے کو زارا منع نہ کرسکی اور وہ حیران رہ گئی کہ اچھا خاصا ذائقہ تھا، پھر اس نے پیٹ بھر کر شلجم ہی کھائے… اور آہستہ آہستہ اس طرح سوائے ایک آدھ سبزی کے، سب کھانا شروع کردیا۔

اکثر گھروں میں دیکھا گیا ہے کہ اگر بچہ کسی چیز کو بہت چھوٹی عمر میں کھانے سے منع کردے تو پھر اس کے سامنے بار بار یہ دہرایا جاتا ہے کہ ’’ہمارا بچہ فلاں چیز تو بالکل ہی نہیں کھاتا‘‘ یا ’’ہمارے بچے کو تو یہ پسند ہی نہیں ہے۔‘‘ یہ باتیں سن کر بچے اور پکے ہوجاتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے اس چیز سے دور ہوجاتے ہیں۔ کبھی ان کا دل چاہتا بھی ہے تو نہیں کھاتے کہ ان کی ’’کچی‘‘ ہوجائے گی۔ اور صرف سبزی یا پھل ہی نہیں بلکہ کبھی کوئی گوشت نہیں کھاتا تو کبھی دال، کسی کو مچھلی نہیں کھانی ہوتی تو کسی کو انڈے سے بدبو آتی ہے۔ لیکن اگر بچوں کو بار بار سبزیوں کی طرف یا ان کے ناپسند کھانوں کی طرف راغب کیا جائے تو وہ سب کھانے لگتے ہیں۔ کچھ بچے صرف اپنے بڑوں سے ہی سن کر بہت کچھ کھانا چھوڑ دیتے ہیں، اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں کے سامنے کسی چیز کی برائی نہ کریں، اگر ہم نہیں بھی کھاتے تو بچوں کے سامنے خاموش رہیں، ہوسکتا ہے کہ بچے کی پسند ہماری پسند سے مختلف ہو۔ بچوں کو، خصوصاً بچیوں کو سب کچھ کم مقدار میں کھلانے کی کوشش کریں۔ بچپن ہی سے سبزی، گوشت، چکن، دال، پھل سب کی افادیت کے بارے میں بتائیں تاکہ وہ جان سکیں کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بے فائدہ نہیں بنائی۔ خصوصاً لڑکیوں کو ہر چیز چکھنے کی عادت ہو، کیوں کہ ان کو آگے کی نسل کی پرورش کرنی ہوتی ہے اور جب وہ خود ہی نہیں کھائیں گی تو اپنے بچوں کو کیسے سبزیوں، پھلوں یا دال،گوشت کی افادیت بتا سکیں گی!

بے شک آج کا دور فاسٹ فوڈ کا ہے، مگر اس سے نئی نسل میں طاقت کی کمی اور وزن میں اضافہ ہورہا ہے جو انتہائی نقصان دہ ہے، اور پھر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پریشان ہوتے ہیں جب نئی زندگی کی شروعات ہوتی ہے، لڑکیوں میں کمزوری کی وجہ سے آج کل بچوں کی پیدائش آپریشن سے ہونا ایک عام بات ہوچکی ہے، جب کہ پہلے کبھی کسی ایک، دو کا ہی آپریشن سے ڈیلیوری کا سننے میں آتا تھا تو اس پر بھی بہت پریشانی ہوتی تھی کہ آخر ایسا کیا مسئلہ ہوگیا کہ آپریشن کرنا پڑا؟ جب کہ آج کے دور میں کسی کے ہاں نارمل ڈیلیوری ہو تو حیرت ہوتی ہے۔

سلم اور اسمارٹ رہنے کے چکر میں مسلسل ڈائٹنگ بھی کمزوری کی وجہ ہے کہ ایک تو سبزیوں اور پھلوں سے دوری، پھر کتنی ہی چیزوں کا بائیکاٹ… یہ سارے عوامل انسان کو اندر سے کمزور کردیتے ہیں۔ اس لیے بچپن ہی سے بچوں کو اچھا اور صحت مند کھانا کھانے کی عادت ڈالیں اور ساتھ ہی گھر کے کام کاج بھی روزمرہ کے معمولات میں شامل رکھیں تاکہ صرف بیٹھ کر پڑھنے، موبائل چلانے اور ساتھ ساتھ جگالی کی (چپس، بسکٹ کھاتے رہنا) عادت نہ بنے، اور ورزش بھی ہوسکے۔

ایک پرانا محاورہ ہے ’’کھلاؤ سونے کا نوالہ، دیکھو شیر کی نگاہ سے‘‘۔ اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ایک صحت مند قوم وجود میں آسکے۔

حصہ