پیٹ کا درد

280

کہنے کو کروڑوں کیا اربوں اس دنیا میں پڑھے لکھے ہیں۔ لاکھوں ڈاکٹر ہیں، لاکھوں انجینئر ہیں، لاکھوں اساتذہ کرام ہیں، لاکھوں عالمِ دین ہیں اور نہ جانے کتنے لاکھ سائنسدان موجود ہیں لیکن ڈاکٹر ہوں، انجینئر ہوں، اساتذہ کرام ہوں، عالمِ دین ہوں یا سائنس د ان، ان میں کوئی کوئی فرد مشہور ہوتا ہے۔ جیسے کوئی ایک ڈاکٹر، انجینئر، عالمِ دین یا سائنس دان وغیرہ۔ کیا آپ کو پتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟۔ بات صرف اتنی سی ہوتی ہے کہ ہر وہ فرد جس کا اپنے علم پر مکمل عبور ہوتا ہے، وہی زمانے کی آنکھ کا تارا بن جاتا ہے۔ جیسے راہبر و رہنما نہ جانے کتنے ہونگے لیکن ہمارے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا نام ان سب میں بہت بلند ہے۔ نہ جانے کتنے ایسے شاعر جنھوں نے دین کی خدمت کے لیے شاعری کی ہوگی لیکن ان سب میں علامہ محمد اقبالؒ کا نام سب سے بلند ہے۔ یہی حال ڈاکٹروں کا ہے کہ ہر سال میڈیکل یونیورسٹیوں سے سیکڑوں طالب علم ڈاکٹرز کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن ان میں چند ہی ایسے ہوتے ہیں جو عوام میں مشہور ہوتے ہیں اور بہت نام کماتے ہیں۔
میں جب اتنا چھوٹا تھا کہ ہر جھوٹا بڑا مجھے “منا” کہا کرتا تھا تو میرے زمانے میں ایک حکیم صاحب تھے جو بہت مشہور تھے۔ ان کے پاس مریضوں کا ہجوم رہتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں اتنی شفا رکھی تھی کہ جو بھی ان سے دوا لیکر جاتا تھا، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے صحت یاب ہو جاتا تھا۔ ایک دن ہوا یوں کہ میرے ماموں نے گھر والوں کو پریشان کر کے رکھ۔ دیا۔ سخت سردیوں کا زمانہ تھا۔ شدید ترین نزلے اور کھانسی کی شکایت ہوئی، حکیم صاحب سے دوا لے کر آئے، ساتھ ہی ڈھیر سارا دہی بھی لائے۔ اپنی اماں یعنی میری نانی کے منع کرنے کے باوجود صبح ہی صبح خوب دہی کھایا۔ نانی اماں ہائے ہائے کرتی رہ گئیں کہ دیکھو تم یہ کیا کر رہے ہو، نزلہ پک جائے گا، کھانسی بڑھ جائے گی لیکن ہاتھ روکنے کی بجائے ماموں دہی کھاتے ہی چلے گئے۔ پھر غضب یہ ہوا کہ تھوڑی دیر کے بعد بغیر پانی گرم کئے نہالیے۔ پھر تو غضب ہی ہو گیا۔ نانی نے تو گھر سر پر اٹھالیا اور جب بے بس ہو گئیں تو باقائدہ رونا شروع کر دیا۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر ماموں گھبرا گئے پھر سارا ماجرا یوں بیان کیا کہ جب حکیم صاحب نے دوا دینے کے بعد دہی اور ٹھنڈا پانی پینے اور ٹھنڈے پانی سے نہانے کا پرہیز بتایا تو میں نے کہا کہ نہ تو میں دہی چھوڑوں گا اور نہ ہی ٹھنڈا پانی پینا اور اس سے نہانا۔ میری یہ بات سن کر حکیم صاحب مسکرائے۔ جس نسخے کے مطابق دوا بنائی تھی وہ دوا واپس لے لی، پھر یہ دوا بنا کر دی جو اب میں کھا رہا ہوں اور سختی سے کہا کہ دیکھو اگر دوا کھانے کے بعد تم نے دہی نہیں کھائی، ٹھنڈا پانی نہیں پیا اور دن میں کم از کم ایک مرتبہ ٹھنڈے پانی سے غسل نہیں کیا تو یہ دوا تمہارے لیے زہر بن جائے گی۔ تب جاکے نانی کا چیخنا پیٹنا بند ہوا اور ماموں حکیم صاحب کی باتوں پر سختی سے عمل کرتے ہوئے اور ایسے صحتیاب ہوئے جیسے کھانسی نزلہ زندگی بھر ہوا ہی نہ ہو۔
واقعہ سننے کے بعد مجھے بھی بڑا شوق ہوا کہ میں ایسے کامل حکیم کو دیکھوں۔ اتفاق سے میری امی کے پیٹ میں شدید درد اٹھا۔ ایک دو دن تو وہ برداشت سے کام لیتی رہیں لیکن تکلیف بڑھی تو میرا ہاتھ پکڑ کر حکیم صاحب کے مطب جا پہنچیں۔ حکیم صاحب نے دوا کے ساتھ ایک سفوف جیسی چیز کی پڑیا بنا کر بھی دی اور ہدایت کی کہ ہر کھانے کے بعد اسے پھانک لیا کیجے گا۔ بچوں میں جستجو کا بہت مادہ ہوتا ہے چنانچہ گھر میں موقع پاتے ہی اس پڑیا سے میں نے جو تھوڑا سا سفوف چکھا تو مزا ہی آ گیا۔ اتنا ذائقے والا چورن تھا کہ اس کا ذائقہ آج تک مجھے یاد ہے۔ بس پھر کیا تھا۔ جب امی یا کوئی بھی گھر والا حکیم صاحب کے پاس جاتا، میں ساتھ ہو لیتا اور حکیم صاحب کے پاس پہنچتے ہی پیٹ کے درد کا بہانا شروع کر دیتا۔ حکیم صاحب مسکراتے اور تھوڑا سا چورن مجھے چکھا دیتے۔ پانچ چھے مرتبہ کے بعد جب ایک دن حکیم صاحب کے مطب میں میں نے درد درد کرکے پیٹ دبایا، حکیم صاحب نے مسکرا کر چورن مجھے چٹا دیا۔ چورن کو چاٹنا تھا کہ منہ کڑواہٹ سے بھر گیا لیکن میں نے نہ تو ان کے سامنے تھوکا اور نہ ہی کوئی اور بات کی بس ضبط کئے بیٹھا رہا۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر حکیم صاحب کے مطب اپنی امی کے ساتھ جانا ہوا تو حکیم صاحب نے شرارتاً میری والدہ کو ایک پڑیا پکڑا کر کہا کہ آپ کے بیٹے کے پیٹ میں اکثر درد رہتا ہے، گھر جاکر اسے یہ چٹا دیجئے گا۔ یہ سننا تھا کہ میں نے زور زور سے کہنا شروع کر دیا کہ میرے پیٹ میں اب بالکل بھی درد نہیں ہوتا۔ میرا پیٹ بالکل ٹھیک ہو گیا ہے۔
امی وہ پڑیا گھر لے آئیں۔ بات تو ان کی سمجھ میں آہی چکی تھی اس لیے انھوں نے مجھ سے چورن کھانے کی ضد نہیں کی۔ ایک دن میں نے سوچا کہ ذرا دیکھوں تو حکیم صاحب نے جو پڑیا میرے لیے دی تھی آخر اس میں کیا ہے۔ الماری کھول کر وہ پڑیا نکالی تو اس میں چورن تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے چکھا تو وہ ویساہی ذایقے دار تھا جیسے پہلے والا تھا۔ میں نے وہ سارا کھا لیا لیکن یہ سچ ہے کہ حکیم صاحب کے سامنے میرے پیٹ میں پھر کبھی درد نہیں اٹھا۔

حصہ