ہجوم کا درد

170

اُس نے جب بولنا شروع کیا تو ہکلانے لگی، ماں باپ نے بہت علاج کرائے مگر وہ پھر مکمل طور پر صحت یاب نا ہو سکی ،پہلے جو وہ ایک جملے کے ہر لفظ پر ہکلاتی تھی اب ہر تیسرے لفظ پر ہکلاتی،اس کے باوجود بھی اُسے بچپن سے ہی مقررہ بننے کا شوق تھا، وہ گھر میں اونچی اونچی آواز میں تقریریں کرتی، مگر ہر تیسرا لفظ اُس کے منہ میں اٹک جاتا۔
اُس دن بھی کلاس میں اُس نے اُٹھ کر سب کے سامنے تقریر کرنا شروع کر دی، کلاس میں موجود لڑکیاں اُس کے ہکلانے پر زور زور سے ہنسنے لگیں، سب نے اُس کا بہت مذاق اُڑایا ،اُسے لگا سامنے بیٹھی لڑکیاں اُس کی کلاس فیلو نہیں بلکہ ایک ہجوم ہے دل دُکھانے والا ہجوم، اُس دن پہلی دفعہ اُسے ہجوم سے نفرت محسوس ہوئی۔
اُس کا دل ٹوٹا تو اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ آج کے بعد کبھی تقریر نہیں کرے گی بلکہ اپنے اندر سر اُٹھانے والی آوازوں کو وہ تحریر کیا کیا کرے گی بس اُس دن سے اُس نے کاغذ قلم تھام لیا اور لکھنے لگی۔
وقت گزرتا گیا وہ سکول سے کالج اور کالج سے یونی ورسٹی پہنچ گئی مگر اُس نے لکھنا نہیں چھوڑا۔یونیورسٹی میں وہ تحقیقی جریدے میں مضمون ضرور لکھتی، جسے طلباء بہت شوق سے پڑھتے اور اُس کی کاوشوں کو سراہتے۔بدھ کو اُردو کا لیکچر ہوا کرتا تھا وہ کلاس میں بیٹھی اپنے گزشتہ لیکچر کو پڑھ رہی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کلاس میں آئے لیکچر کے بعد وہ طلباء کو یونی ورسٹی میں ہونے والے تحریری اور تقریری مقابلے کے بارے میں بتانے لگے۔
“فاریہ آپ کا نام میں نے تحریری مقابلے کے لیے چنا ہے آپ نے “ہجوم انسانیت کو نگل رہے ہیں” اس عنوان پر مضمون لکھنا ہے
’’مگر سر مجھے ہ ہ ہ ہ ہجوم پسند نہیں، میں ہجوم سے نن ن ن نفرت کرتی ہوں، میں کبھی کک ک ک کسی ہجوم کا حصہ نہیں بنی۔‘‘
اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات ختم کرتی ڈاکٹر صاحب کلاس سے نکل کر ڈیپارٹمنٹ میں بھی پہنچ چکے تھے۔
دن بھر وہ اسی پریشانی میں مبتلا رہی کہ وہ اس عنوان پر کیسے لکھے گی؟ وہ سوچنے لگی، بہت سوچا مگر اُس کے ذہن میں ہجوم کا تصور صرف اُسے خوفزدہ کر رہا تھا۔اسی اثنا میں وہ گھر واپس آنے کے لیے یونیورسٹی سے نکل پڑی رکشے میں بیٹھی، کہ رکشہ تھوڑا سا فاصلہ طے کرتے ہوئے اچانک رُک گیا۔اُس نے دیکھا سامنے ایک بچہ اپنی جان چھڑوا کر بھاگنے کی کوشش کررہا ہے ، بچے کے پھٹے پرانے کپڑے گرد سے اٹے ہوئے تھے، معصوم چہرے سے خوف اور آنکھوں سے آنسو بیک وقت ٹپک رہے تھے، بچے نے ہاتھ سے ایک ڈبل روٹی کا پیکٹ پکڑا ہوا تھا اور سامنے کھڑا ہجوم بچے کو گالیاں دے رہا تھا۔ کچھ لوگ بچے کو تھپڑ مارتے تو کچھ چور چور کا نعرہ بلند کرتے بچہ اپنی جان چھڑوا کر بھاگتا کہ ہجوم میں سے کچھ اُس پر پتھر برساتے،اور باقی کا ہجوم خاموش تماشائی بنا سب دیکھتا رہا ۔یہ سب دیکھ کر اُس کا دل پارہ پارہ ہو گیا اُس نے ڈرائیور کو جلدی سے اس ہجوم سے نکلنے کا کہا، باقی پورا راستہ وہ یہ سوچتی رہی کہ ہجوم پر لکھنا اتنا مشکل تو نہیں جتنا اُسے لگ رہا ہے۔
گھر واپس آ کر اُ س نے جلدی جلدی کھانا کھایا اور سو گئی کیوں کہ آج شام چھ بجے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کا ایک اہم میچ تھا ،میچ شروع ہوا تو دونوں ٹیمیں خوب دل جمی سے کھیل رہی تھیں ،سٹیڈیم میں دونوں ٹیموں کے شائقین کی ایک بڑی تعداد جمع تھی ،لوگ اپنی اپنی پسند کی ٹیم کو سپورٹ کر رہے تھے ،مگر میچ تو کوئی ایک ٹیم ہی جیتتی ہے جیسے ہی پاکستانی ٹیم نے میچ جیتا مخالف ٹیم کے سپورٹرز نے اسٹیڈیم سے کرسیاں اُٹھا اٗٹھا کر لوگوں کو مارنا شروع کر دیں ،بپھرے ہجوم نے گالیاں بکیں،ایک دوسرے کو گھونسے مارے، لوگ لہولہان ہوئے ۔
وہ جلدی سے ٹی وی کے سامنے سے اُٹھی اور بھاگتے ہوئے کمرے سے اپنا رجسٹر لے آئی اور اُس نے ہجوم کے بارے میں لکھنا شروع کردیا ۔
…٭…
اگلی صبح وہ کافی دیر تک رکشے کا انتظار کرتی رہی مگر رکشے والا نہیں آ رہا تھا ۔جب وہ انتظار کرتے کرتے تھک گئی تو اُس نے رکشے والے کو فون کیا ۔
انکل کہاں رہ گئے ہیں آپ ؟؟
آ کیوں نہیں رہے ؟میں کافی دیر سے انتظار کر رہی ہوں ۔۔
بس فاریہ بیٹا میں راستے میں ہوں ۔پہنچنے ہی والا ہوں ۔
رکشے میں بیٹھتے ہی اُس نے سوال شروع کر دیے ۔
انکل اتنی لیٹ کیوں آئے آپ آج ؟کیا ہوا تھا ؟سب خیریت تھی ؟
“بیٹی لوگوں کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے ہر روز کوئی نا کوئی ہولناک واقعہ ہمارا منتظر ہوتا ہے ۔وہ لاری اڈے کے پاس جو فیکڑی ہے نا اُس کے مزدور مل کر فیکٹری کے چوکیدار کو سڑک کے درمیان میں لٹا کر لاتوں سے، لاٹھیوں سے مار رہے تھے ۔کیوں کہ وہ فیکٹری کے نوجوانوں کو چرس ساتھ لانے سے منع کرتا تھا ۔اتنی دیر رکشہ مشتعل ہجوم کے پاس سے گزرا ہجوم نے بوڑھے کو مار اُس کی لاش کو آگ لگا دی تھی اور اُس کےارد گر د جنگا لالہ ہو کرنے میں مصروف تھا ۔
بے رحم سفاک ہجوم نے ایک انسان کو جلا دیا تھا ۔اُس کے دن کا آغاز دل دہلا دینے والے انسانیت سوز واقعے سے ہو گیا تھا ۔وہ یونی ورسٹی جاکر سارا دن اداس رہی ،اُس نے کوئی لیکچر نہیں لیا گروانڈ میں بیٹھ کر خالی خالی نظروں سے آنے جانے والے طلباء کو دیکھتی رہی ۔
دن تھا کہ گزر ہی نہیں رہا تھا ،اُس نے اپنا موبائل نکالا اور فیس بک اسکرول کرنے لگی یونہی ویڈیوز دیکھتے دیکھتے اُس کی نظر ایک ویڈیو پر رُک گئی ۔ویڈیو میں ایک مولوی تھا جو کہ مولوی کم اور ایک مسخرا زیادہ لگ رہا تھا وہ منبر رسولؐ پر بیٹھ کرکبھی سامنے بیٹھے ہجوم کو جگتیں مارتا ،تو کبھی کوئی گالی بک دیتا کبھی کوئی واہیات سا لطیفہ سنا دیتا تو کبھی سامعین کے ہجوم کو ہی مذاق کا نشانہ بناتا ۔نیچے بیٹھا ہجوم اُس کی ہر لایعنی بات پر ماشاءاللہ ،سبحان اللہ کا نعرہ بلند کرتا ۔اُسے یہ ہجوم کچھ منفرد سا لگا ،کٹ پتلیوں کا ہجوم جن کی ڈوریاں اوپر سٹیج پر بیٹھے مولوی کے ہاتھ میں تھیں جن کو وہ اپنی مرضی سے چلا رہا تھا ۔اُس نے اس ہجوم کو بھی اپنی نوٹ بک پر نوٹ کر لیا ۔
…٭…
اگلے دن شہر میں لانگ مارچ کی وجہ سے سارے چوک چوراہے بند تھے، اُسے ماں کی دوا لانے میڈیکل اسٹور تک جانا تھا وہ باہر نکلی تو اُسے کوئی ٹیکسی رکشہ دور دور تک نظر نہیں آ رہا تھا، وہ پیدل چلنے لگی چلتے چلتے اُس نے دیکھا لانگ مارچ کے شرکا اُس کی طرف بڑھ رہے تھے ، جوشیلے نعرے لگاتے ہجوم کو دیکھ کر وہ ڈر گئی اور دوڑتی ہوئی ایک مارکیٹ کے اندر جا کر کھڑی ہو گئی، لانگ مارچ میں صحافی ہاتھوں میں مائیک پکڑے بڑی خبر سب سے پہلے حاصل کرنے کی تگ و دو میں تیزی سے بھاگ رہے تھے ہجوم” ہمیں ہماری آزادی دو” کے نعرے بلند کر رہا تھا کہ اچانک ایک خاتون صحافی بھاگتے بھاگتے نیچے گری ہجوم خاتون کے اوپر سے پھلانگتا ہوا گزر تا رہا خاتون چیختی رہی ہجوم نعرے لگاتا رہا،اور پھر خاتون صحافی کو ایک تیز رفتار گاڑی کچلتی چلی گئی آزادی لانگ مارچ خون سے نہا گیا،اگلے کچھ لمحوں میں منظر بدلا اب ہجوم میں ایک دہشت گرد اپنے اسلحے کے ساتھ داخل ہوا تھا آتے ہی اُس نے اندھا دُھند فائرنگ شروع کر دی ہجوم منتشر ہونے لگا سب کو اپنی اپنی جان کی فکر لاحق ہوئی فائرنگ کرنے والا درندہ کئی انسانی جانیں نگل گیا ۔ ہجوم خون میں لت پت پڑی لاشوں کو وہیں چھوڑ کر بھاگ گیا ،جونہی دہشت گرد کو پکڑا گیا ہجوم واپس اپنی اپنی جگہوں پر آ کرپھر وہ ہی آزادی کے مخصوص نعرے لگانے لگا ، وہاں پڑے انسانی لاشے ہجوم کی بے حسی پر ماتم کرنے لگے ،مارکیٹ میں کھڑے یہ منظر دیکھ کر اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا،وہ دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو پکڑتے ہوئے نیچے زمین پر بیٹھ گئی۔
اُس کو سانس نہیں آرہا تھا، ہاتھ پاؤں برف کی سل کی مانند ہو گئے اُس کی ٹانگوں میں اتنی سکت نا رہی کہ وہ اُٹھ کر بھاگ سکے، مگر اُس نے بہت ہمت پکڑی اور میڈیکل اسٹور پر جانے کی بجائے اپنے گھر کی طرف بھاگنے لگی اُسے لگا اگر وہ گھر نا گئی تو ہجوم اُسے بھی کچل دے گا۔
رات بھر اُس کی ماں کی طبیعت بہت خراب رہی صبح ہوتے ہی وہ اپنی ماں کو ہسپتال لے گئی۔ ڈاکٹر نے چیک کیا دوائی لکھ کر دی۔ جیسے ہی وہ ڈاکٹر کے کمرے سے باہر نکلی سامنے یونیفارم پہنے کسی کالج کے نوجوان لڑکے ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑے ہسپتال کے شیشے توڑ رہے تھے، ہجوم نعرے لگا رہا تھا “قاتل کو ہمارے حوالے کرو” ہجوم آہستہ آہستہ توڑ پھوڑ کرتا آگے بڑھ رہا تھا، اُس نے اپنی ماں کا ہاتھ زور سے پکڑا اور ایکسرے روم میں جا کر اندر سے دروازہ بند کر لیا، ہجوم کے سامنے جو بھی آتا وہ ہر ایک پر ڈنڈے برسانا شروع کر دیتے، اُس نے ایکسرے کرنے والے لڑکے سے پوچھا ۔
کیا ہوا ہے؟
کون قاتل ہے؟
تو وہ بتانے لگا۔۔
“آج صبح ان لڑکوں کے دوست کو ڈاکٹر نے ایکسپائر ٹیکا لگا دیا لڑکے کے مرتے ہی ڈاکٹر ہسپتال سے بھاگ گیا تھا،دیکھیں جی اب ڈاکٹر تو بھاگ گیا باقی مریضوں کا کیا قصور ہے وہ تو اپنی زندگی موت کے درمیان کھڑے ہیں پر کون سمجھائے ان غنڈہ گردی کرنے والوں کو۔۔
ہجوم نے پورا ہسپتال توڑ ڈالا وارڈز میں پڑے مریضوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ایمرجنسی مریضوں کی چیخ و پکار سے ڈر خوف سے سانسیں اٹک گئیں اور وہ ایکسرے روم میں بیٹھی آیت کریمہ کا ورد کرتی رہی کیونکہ اُسے اس مشکل گھڑی سے نکلنا تھا۔
اُس نے فرقہ واریت کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کو کافر، کافر کہنے والے ہجوم دیکھے، پدر شاہی سے آزادی حاصل کرنے والی عورتوں کے ہجوم دیکھے، عورت کو جوتے کی نوک پر رکھنے اور اُن پر زندگی کا دائرہ کار تنگ کرنے والے مردوں کے ہجوم دیکھے، اُس نے مطلقہ، بیوہ سے جینے کا حق چھیننے والے ہجوم دیکھے، اُس نے سڑک پر چلتی اکیلی لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے لفنگوں کے ہجوم دیکھے، اُس نے بھنگ کے ایک پیالے کی خاطر اپنے گھر کی عزت بیچ دینے والے نشئؤؤں کے ہجوم دیکھے، اُس نے بھوک سے بلکتے ہوئے غریب کے سامنے امیروں کے وہ ہجوم دیکھے جو اُسے انسانیت کے نام پر دھبہ محسوس ہوئے، اُس نے ٹریفک جام میں عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کو لہولہان کر دینے والے ہجوم دیکھے ،اُس نے سیاسی اور مذہبی ہجوم دیکھے ،زندہ رہنے لے لیے بنیادی حقوق مانگتے ہوئے معصوموں پر آنسو گیس کی شیلنگ کرنے والے اُن پر ڈنڈے برسانے والے ہجوم دیکھے ،اُس نے شاپنگ مالز میں ٹرالی پکڑ کر سودا سلف خریدنے سے لے کر کیش کاونٹر تک ہر جگہ ہجوم دیکھے وہ جہاں جہاں پر جاتی جہاں سے گزرتی اُسے اپنے اردگرد ایک مشتعل ہجوم ہی نظر آتا۔
وہ دیکھتی رہی اور لکھتی رہی اُس کا مضمون مکمل ہو گیا۔ اُس نے اُسے ایک لفافے میں پیک کیا اور یونی ورسٹی جا کر ڈاکٹر معیز کو ڈھونڈنے لگی۔
ڈیپارٹمنٹ میں جا کر اُس نے دیکھا وہاں ڈاکٹر معیز نہیں تھے۔
“میم ڈاکٹر مم م م م معیز کہاں۔” ابھی اُس نے اپنی بات مکمل بھی نہیں کی تھی کہ میم جلدی سے بولیں
فاریہ ڈاکٹر صاحب آپ کو آڈیٹوریم میں ملیں گے۔
وہ خاموشی سے ڈیپارٹمنٹ سے نکل گئی ایسا ہی ہوتا تھا اُس کے ساتھ وہ اپنی بات مکمل بھی نہیں کر پاتی تھی کہ اُسے جلدی سے جواب دے کر فارغ کیا جاتا تھا۔
آڈیٹوریم میں آج اُردو زبان میں برداشت اور رواداری کے حوالے سے سہہ روزہ سمینار منعقد کیا گیا تھا، وہ آڈیٹوریم پہنچی تو ڈاکٹر معیز ایک کونے میں بیٹھے کچھ فائلز دیکھ رہے تھے، سامنے دو لڑکوں کے گروپ بیٹھے آپس میں یوں ہی سیاسی بحث کر رہے تھے۔ بحث میں وہ اپنے اپنے سیاسی لیڈروں کے کارنامے ایک دوسرے کو سنا رہے تھے۔ دونوں طرف سے بڑے تحمل سے بات چیت جاری تھی کہ اُنہی میں سے ایک جذباتی نوجوان اُٹھا اور ہاتھ ہلا ہلا کر سامنے والے گروپ کو کہنے لگا،”ہونہہ ہے کیا تمہارا لیڈر کرپٹ، چور، غدار اور اُس کے پیچھے پیچھے ایک ایک کر کے باقی کے لڑکے بھی جذباتی ہونے لگے وہ سامنے ڈاکٹر معیز کے پاس بیٹھی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی کہ اُس کے ذہن میں کچھ دن پہلے ڈاکٹر مبارک علی کے کالم میں سے پڑھے “Gustave Le Bon” کے وہ لفظ یاد آنے لگے جو اُس نے اپنی کتاب “Psychology of Crowds” میں ہجوم کی نفسیات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھے ۔” یہ ضروری نہیں کہ ہجوم کسی منصوبے کے تحت جمع ہو، بلکہ یہ اچانک جمع ہو جاتا ہے اور مجمع کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اس میں موجود ہر شخص اپنی انفرادیت کھو کر مجمع کا حصہ بن جاتا ہے۔ چاہے وہ امیر ہو یا غریب، سب یکساں ہو جاتے ہیں اور اسی عمل سے ہجوم کی طاقت بنتی ہے۔ ہجوم کا اپنا کوئی پروگرام یا منصوبہ نہیں ہوتا ہے۔ ان کی طاقت کا انحصار ان کے جذبات اور احساسات پر ہوتا ہے۔ مجمع میں ہی سے جب کوئی ایک شخص راہنما کے فرائض سرانجام دیتا ہے تو وہ جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے نعروں اور الفاظ کا سہارا لیتا ہے،اور باقی سب آہستہ آہستہ اُس کی پیروی کرنے لگتے ہیں۔ ”
اُس کے ذہن میں ابھی یہ بات ہی گھوم رہی تھی کہ دونوں گروپ ایک دوسرے پر دھاڑتے ہوئے اپنی اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور ایک ہجوم کی شکل اختیار کر لی دونوں گروہ اپنے اپنے پسٹل نکال کر لہرانے لگے، ڈاکٹر معیز نے جب اُن کے ہاتھوں میں اسلحہ دیکھا تو وہ بھاگتے ہوئے چیختے ہوئے اُن کی طرف آئے۔
تم لوگوں کو اسلحہ یونیورسٹی کے اندر لانے کی اجازت کس نے دی؟
رکھو نیچے!
اپنے اپنے ہتھیار نیچے رکھ دو۔۔
ہجوم کو مشتعل ہوتا دیکھ اُس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا وہ اُٹھ کر تیزی سے بھاگنے لگی تا کہ وہ آڈیٹوریم سے نکل جائے۔ وہ ہجوم کے پاس سے ہوتے ہوئے باہر جانے کے لئے دروازے سے چند قدم ہی دور تھی کہ ہوا کو بجلی کی تیزی سے چیرتی پھاڑتی ہوئی ایک گولی اُس کے سر میں آ کر لگی،اُس کے قدم وہیں رُک گئے۔اُس کا بے جان ہوتا وجود زمین پر دھڑم سے آگرا ،ہجوم میں افراتفری مچ گئی ،وہ نیچے گری تڑپتی ہوئی کہہ رہی تھی ۔
کیوں مارا ہے م م م م مجھے
مجھے تو ہ ہ ہ ہ ہمیشہ سے ہجوم سے نفرت تھی
میں تو کبھی ک ک ک کسی ہجوم میں ش ش ش شامل نہیں ہوء ء ء
اُس کے آدھے ادھورے نامکمل ٹوٹے ہوئے لفظ اب کی بار ہمیشہ کے لیے اُس کے حلق میں اٹک گئے تھے۔

حصہ