سیکورٹی گارڈ

318

قلی کے بعد گارڈ سب سے پسماندہ ہوتے ہیں، جو غربت کی چکی میں پستے ہیں۔ قلی ٹھیکیدار کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں، اور گارڈ اپنے کمپنی انسٹرکٹر کی وجہ سے۔ یہ لوگ کام کی تلاش میں زیادہ تر گائوں دیہات اور گوٹھوں سے شہروں میں آتے ہیں۔ میٹرک اور انٹر پاس نوجوانوں کو گارڈ کی بنیادی تعلیم دے کر انسٹرکٹر گلی محلوں، شاپنگ مالز اور دکانوں کے باہر نوکری پر لگوا دیتے ہیں۔ تنخواہ مقرر کروانے کے بعد خود ان سے تنخواہ وصول کرتے ہیں اور گارڈ کو 18‘ 20 ہزار یا اس سے بھی کم دیتے ہیں۔ یہ بے چارے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حفاظت کرتے ہیں۔ ان میں کتنے ہی اپنی ڈیوٹی نبھاتے ہوئے دہشت گردوں کے ہاتھوں زخمی یا جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ بعد میں ان کے لواحقین یا خاندان بے یار و مددگار ہوجاتے ہیں۔
یہ کہانی بھی بہاولپور سے آئے ایک غریب آدمی طفیل کی ہے۔ طفیل میٹرک پاس تھا اور پرائیویٹ گارڈ کی نوکری کررہا تھا۔ پہلے ایک گلی میں ڈیوٹی کرتا تھا جہاں سے اٹھارہ ہزار روپے تنخواہ ملتی تھی۔ تین بچے تھے، ایک کمرے کا کرائے کا گھر تھا۔ بچے سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے، جب کہ بیوی کسی باجی کا کھانا پکاتی جس سے ان کی بمشکل گزر بسر ہوتی۔
اس کے گائوں کے ایک فرد رمضان نے اسے گورنمنٹ کے محکمے میں گارڈ کی نوکری دلانے کا وعدہ کیا تھا، وہ اس سلسلے میں ایک دوست کی مدد سے اسے وہاں لے کر گیا تو انٹرویو کے بعد اس کا میٹرک کا سرٹیفکیٹ رکھ لیا اور اگلے دن ڈیوٹی پر بلا لیا۔
وہ بہت خوش تھا۔ ایک سال تک تو اٹھارہ ہزار، اس کے بعد پچس ہزار، اور سال بعد بونس اور نوکری پکی اور پنشن بھی اگر کام سے محکمہ مطمئن ہوگیا۔
یہ دو کنال پلاٹ کا اسٹور نما ڈپو تھا جس میں پول پر لگنے والے مہنگے تاروں کے رول اور ٹرانسفارمر رکھے تھے۔ ان کی حفاظت طفیل کو کرنا تھی۔
رات آٹھ سے صبح پانچ بجے تک اس کی ڈیوٹی تھی، اس کے بعد دوسرے گارڈز آجاتے۔ طفیل بڑی تندہی اور ایمان داری سے ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔
ایک رات اچانک چوکیدار نے رات کو دو بجے گیٹ کھولا۔ چاروں گارڈ اپنی ڈیوٹی پر مستعد تھے۔ گیٹ کھلنے کی آواز سن کر طفیل نے چوکیدار سے پوچھا ’’رزاق بھائی گیٹ کیوں کھولا؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’انجینئر صاحب کا فون آیا ہے۔ تاروں کے رول لے کر جانے ہیں۔‘‘
’’پہلے تو دن میں لے کر جاتے تھے، اب رات میں کیوں؟‘‘ طفیل کی چھٹی حس نے کہا۔
تین دن تک ٹرک آتا رہا، سامان لے کر جاتا رہا۔
چوتھے دن اس کا ایک سال پورا ہوگیا۔ اس نے سوچا دفتر میں جاکر اطلاع کروں تاکہ نوکری پکی ہوجائے اور تنخواہ بڑھ جائے اور بونس بھی مل جائے۔ وہ دن میں دفتر سے خوشی خوشی نکلا، بچوں سے کہا ’’دعا کرنا، کام ہونے پر مٹھائی لے کر آؤں گا۔‘‘
دفتر پہنچنے پر اسے ایس ڈی او نے اپنے کمرے میں بلایا اور کہا ’’کل رات ڈپو میں چوری ہوئی تھی، تم چاروں گارڈ کہاں تھے؟‘‘
طفیل نے کہا ’’جناب! چوکیدار نے انجینئر صاحب کے کہنے پر گیٹ کھولا تھا، وہ ٹرک تین دن تک تاروں کے رول لے کر جاتا رہا۔‘‘
ایس ڈی او نے کہا ’’نہیں، انجینئر صاحب سے پوچھا تو انہوں نے انکار کیا کہ میں نے کوئی فون نہیں کیا سامان منگوانے کے لیے۔ چوکیدار اور تم لوگوں نے مل کر چوری کی ہے۔‘‘
طفیل پریشان ہوگیا۔ اتنے میں تین دوسرے گارڈ اور چوکیدار اندر آئے، سب نے قسمیں کھائیں مگر انجینئر اور ایس ڈی او نہ مانے۔
پولیس کو بلانے کی دھمکی دی اور کہا کہ تمہاری نوکری کا لائسنس کینسل کروادیں گے، سچ بتائو۔
انہوں نے قسمیں کھائیں مگر ایس ڈی او یقین نہیں کررہے تھے۔ آخر اس کو اپنا اکلوتا دوست رمضان یاد آیا۔ اس نے فون کرکے اسے بلایا، کیونکہ طفیل جانتا تھا کہ اس کی واقفیت ہے اس محکمے میں۔
رمضان فون سن کر دفتر پہنچا۔ اس نے ایس ڈی او کو یقین دلایا کہ یہ چاروں ایسے لوگ نہیں۔ تب وہ مانے اور کہا کہ انہیں جانے دو، ہم تفتیش کریں گے، پھر واپس نوکری پر رکھیں گے۔ ان کو پچھلے مہینے کی تنخواہ بھی نہ دی کہ محکمے کا لاکھوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔
پورا مہینہ اس معاملے کو رفع دفع کرانے میں لگ گیا، بڑی مشکل سے میٹرک کا سرٹیفکیٹ واپس ملا، اللہ اللہ کرکے جان چھوٹی۔
ایک دن ایس ڈی او کا چپڑاسی اچانک طفیل کو ملا، اس نے بڑا افسوس کیا۔ پھر اس نے اصل بات بتائی کہ ’’انجینئر اور تمام افسر ملے ہوئے ہیں اور وہ اسی طرح چوری کراتے ہیں۔ گارڈ کا بونس اور تنخواہ سب رکھ لیتے ہیں۔ جو ایمان دار ہوتے ہیں ان کے ساتھ ایسے ہی کرتے ہیں۔‘‘
طفیل کو بہت دکھ ہوا، اس نے سوچا اپنے پیٹ کو دوزخ کی آگ سے بھر رہے ہیں۔ اتنے سے روپوں کے لیے قیامت کے دن اللہ کو کیا جواب دیں گے!

حصہ