قیصروکسریٰ قسط(77)

255

نہیں بیٹی، تمہیں یہ مسئلہ اپنے باپ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ وقت آنے پر وہ ایرج اور اُس کے باپ کو مناسب جواب دے سکیں گے۔ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ تمہاری شادی کا مسئلہ تمہاری رضا مندی سے کیا جائے گا۔ عمر کے ساتھ انسان کے خیالات بدلتے رہتے ہیں، ممکن ہے کہ کل ایرج کے متعلق تمہاری رائے بدل جائے۔ اب چلو جلدی کرو‘‘۔
فسطینہ اپنی ماں کے ساتھ سیڑھیوں سے نیچے اُتری۔ تھوڑی دیر بعد یہ دونوں اپنے رہائشی مکان کے کمرے میں ایرج کا انتظار کررہی تھیں۔ ایک نوکر بھاگتا ہوا آیا اور اس نے کہا۔ ’’جناب ایرج آگیا ہے اسی وقت آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ آقا اُس کے ساتھ تشریف نہیں لائے اس لیے میں پوچھنا چاہتا ہوںآپ کا کیا حکم ہے؟
یوسیبیا نے جواب دیا۔ ’’ایرج ہمارے لیے اجنبی نہیں اُسے لے آئو، لیکن پہلے یہاں مشعل لے آئو‘‘۔
نوکر اس حکم کی تعمیل کے بعد واپس چلا گیا اور کچھ دیر بعد ایرج کمرے میں داخل ہوا۔ وہ بیش قیمت لباس ہوئے تھے اور اُس کے موٹاپے سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ محاذ جنگ پر بھی اُس کا وقت انتہائی عیش و آرام میں ہے۔ فسطینہ کے قریب ایک کرسی پر بیٹھنے کے بعد اُس نے یوسیبیا سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’میں رخصت پر آیا ہوں اور اگر فسطینہ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو آج رات میں آپ کا مہمان ہوں‘‘۔
’’فسطینہ کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ تم جتنے دن چاہو، یہاں ٹھہر سکتے ہو‘‘۔
’’شکریہ لیکن فسطینہ کی صورت بتا رہی ہے کہ یہ مجھے دیکھ کر خوش نہیں ہوئی۔ کیوں فسطینہ میں یہاں رہے سکتا ہوں؟‘‘۔
فسطینہ نے جواب دیا۔ ’’میرے خیال میں یہ قلعہ کافی کشادہ ہے اور اگر میں چاہوں تو بھی آپ کو یہاں ٹھہرنے سے منع نہیں کرسکتی‘‘۔
ایرج نے کہا۔ ’’دیکھا چچی جان فسطینہ ابھی تک مجھ سے ناراض ہے؟‘‘
یوسیبیا نے جواب دیا۔ ’’فسطینہ تم سے ناراض نہیں۔ اور اگر تم بچوں کی طرح لڑنے نہ لگ جائو تو میں تمہارے کھانے کا انتظام کرنا چاہتی ہوں‘‘۔
’’میں نے اپنے ساتھیوں کے کھانے کا انتظام کرنے کے لیے قلعے کے محافظ سے کہہ دیا ہے۔ اور اس لیے اس وقت کسی خاص تکلف کی ضرورت نہیں‘‘۔
فسطینہ نے کہا۔ ’’امی آپ بیٹھیں کھانے کا انتظام میں کرتی ہوں‘‘۔
’’نہیں فسطینہ میں تمہارے ساتھ چند باتیں کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ ایرج نے یہ کہتے ہوئے فسطینہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ بے بس سی ہو کر دوبارہ کرسی پر بیٹھ گئی۔
یوسیبیا کمرے سے نکل گئی تو ایرج نے قدرے توقف کے بعد کہا۔ ’’فسطینہ میں رخصت پر جارہا ہوں۔ ممکن ہے کہ وہاں مجھے کوئی نیا عہدہ پیش کردیا جائے اور میں واپس نہ آسکوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے۔ میرے والد نے تمہارے ابا جان کو ایک پیغام بھیجا تھا، لیکن ابھی تک وہ تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ محاذِ جنگ سے رخصت ہوتے وقت میں نے پہلی مرتبہ اُن سے کھل کر بات کرنے کی جرأت کی تھی، لیکن انہوں نے مجھے یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی تھی کہ ابھی میری بیٹی اپنے مستقبل کے متعلق سوچنے کے قابل نہیں ہوئی۔ اب میں اُن سے تمہارے ساتھ براہ راست گفتگو کرنے کی اجازت لے کر آیا ہوں۔ اور تمہیں صبح سے پہلے مجھے کوئی تسلی بخش جواب دینا پڑے گا‘‘۔
فسطینہ نے کہا۔ ’’میں تمہاری شکر گزار ہوں کہ تم نے مجھے ایک رات سوچنے کے لیے دی ہے، ورنہ تم یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ میرا وقت بہت قیمتی ہے، اس لیے میں شادی کی رسومات ادا کرنے والے کاہن کو اپنے ساتھ لے آیا ہوں‘‘۔
ایرج نے تلخ ہو کر کہا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ جب میں دوبارہ تمہارے پاس آئوں گا تو کاہن میرے ساتھ ہوگا۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ میں اتنا طویل سفر کرنا پسند نہ کروں اور تم خود میرے پاس آنے پر مجبور ہوجائو۔ تمہیں یہ بات ہر وقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تمہاری ماں عیسائی خاندان سے تعلق رکھتی ہے‘‘۔
فسطینہ اُٹھ کر کھڑی ہوگئی، لیکن ایرج نے جلدی سے اُس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’ہماری گفتگو ابھی ختم نہیں ہوئی، آج مین تمہاری زندگی کی سب سے بڑی الجھن دور کردینا چاہتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہارے تذبذب کی وجہ سے مفلس عرب تھا۔ لیکن اب وہ تمہیں پریشان نہیں کرے گا‘‘۔
فسطینہ کے چہرے پر اچانک زردی چھا گئی۔ اور ایرج اُس سانپ کی طرح اُس کی طرف دیکھ رہا تھا جو اپنے شکار کو ڈسنے کے بعد اُس کے گرنے کا انتظار کررہا ہو۔
اُس نے کہا۔ ’’تمہارا عاصم اب تمہارے پاس نہیں آئے گا۔ مصر سے اطلاع آئی ہے کہ اُسے سخت بخار کی حالت میں علاج کے لیے بابلیون بھیجا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد وہ کہیں روپوش ہوچکا ہے۔ ایک رومی غلام طیبہ سے اُس کے ساتھ کشتی پر سوار ہوا تھا۔ اور وہ بھی لاپتا ہے۔ اس غلام کی مصری بیوی اور اُس کا باپ بابلیون میں رہتے تھے۔ اور وہ بھی کہیں روپوش ہوچکے تھے۔ بابلیون کے حاکم کا خیال ہے کہ ان لوگوں نے عاصم کو قتل کرکے دریائے نیل میں پھینک دیا ہوگا۔ ورنہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ جنگ کی کلفتوں سے تنگ آگیا ہو اور صحت یاب ہونے کے بعد چھپتا چھپاتا اپنے وطن پہنچ گیا ہو۔ اگر تمہیں مجھ پر یقین نہیں آتا تو اپنے ابا جان سے تصدیق کرلینا وہ دوچار دن تک یہاں آجائیں گے‘‘۔
فسطینہ کچھ دیر سکتے کے عالم میں کھڑی رہی۔ پھر اُس کے بھنچے ہوئے اونٹ لرزنے لگے اور پتھرائی ہوئی آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب اُمڈ پڑا۔ ایرج نے اُس کا ہاتھ کھینچ کر اپنے قریب بٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ ایک جھٹکے کے ساتھ ہاتھ چھڑا کر چند قدم پیچھے ہٹ گئی۔
ایرج نے کہا۔ ’’فسطینہ تمہارے آنسو اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ میرے شبہات غلط نہ تھے۔ لیکن اب بھی اگر تم اپنے دل سے اُس کا خیال نکال دو تو میں تمہارے ماضی کی ہر لغزش فراموش کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔
فسطینہ کی رگوں کا سارا خون سمٹ کر اُس کے چہرے پر آگیا اور اُس نے کہا۔ ’’مجھ سے کوئی لغزش نہیں ہوئی اور مجھے تہارے رحم کی ضرورت نہیں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ تم ایک شریف اور بہادر آدمی کے ساتھ اس قدر نفرت کرسکتے ہو۔ تم شاید اپنے دل میں یہ خیال لے کر آئے تھے کہ عاصم کے روپوش ہونے کی اطلاع سن کر میں تم سے یہ کہوں گی کہ اب میرے دل میں تہارے لیے جگہ خالی ہوچکی ہے۔ لیکن تمہاری یہ خوشی بے معنی ہے۔ اگر وہ زندہ ہے تو تم مجھے اس کا انتظار کرنے سے نہیں روک سکتے۔ اور اگر وہ مرچکا ہے تو تم میرے دل سے اُس کی یاد نہیں بھلا سکتے۔ ایرج اگر تمہیں اپنی برتری کا غرور ہے تو سنو، اگر آسمان کے ستارے تمہارے پائوں چھونے کے لیے زمین پر اُتر آئیں، تو بھی میری نگاہوں میں تم عاصم نہیں بن سکتے‘‘۔
ایرج نے کہا۔ ’’مجھے معلوم نہ تھاکہ ایک وحشی عرب کی موت کی خبر سن کر تم اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھو گی‘‘۔
اُس نے جواب دیا۔ ’’میں جن لوگوں کو جانتی ہوں، وہ اُن سب سے زیادہ بہادر نیک اور رحم دل تھا اور اگر اُسے دیکھنا، جاننا اور پرستش کے قابل سمجھنا ایک لغزش تھی تو میں مرتے دم تک اپنی اس لغزش پر فخر کروں گی‘‘۔
ایرج نے زخم خوردہ ہو کر کہا۔ فسطینہ میں تمہیں چڑانے کے لیے نہیں آیا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ تم ایک احسان شناس لڑکی ہو، اور تمہارے دل میں ایک ایسے شخص کے لیے احسان مندی کے جذبات کا بیدار ہونا ایک قدرتی بات ہے جس نے مصیبت کے وقت تمہاری اعانت کی تھی۔ تمہاری وجہ سے اُسے میں بھی اپنا محسن سمجھتا تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک عرب ہمارے درمیان کھڑا ہوجائے۔ میں نے اگر تمہاری دل آزاری کی ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تم بارہا اُس کا نام لے کر مجھے چڑانے کی کوشش کرچکی ہو لیکن ان سب باتوں کے باوجود اگر میرے منہ سے کوئی ایسی بات نکل گئی ہے جس سے تمہاری غیرت کو ٹھیس پہنچی ہو تو میں صدقِ دل سے معافی کا طلبگار ہوں۔ فسطینہ آئو، میرے پاس بیٹھ جائو، میں آئندہ کبھی تم سے یہ نہیں کہوں گا کہ تمہیں عاصم کو بھول جانا چاہیے‘‘۔
ایرج اُٹھ کر آگے بڑھا۔ لیکن فسطینہ بھاگ کر برابر کے کمرے میں چلی گئی۔ اور جلدی سے دروازہ بند کرکے بستر پر منہ کے بل گرپڑی۔
ایرج نے دروازے کو دھکے دینے کے بعد کہا۔ ’’فسطینہ دروازہ کھولو، فسطینہ پاگل نہ بنو‘‘۔
یوسیبیا کمرے میں داخل ہوئی، اور ایرج پریشان ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔ یوسیبیا نے کہا۔ ’’معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری لڑائی شروع ہوچکی ہے‘‘۔
ایرج نے جواب دیا۔ ’’میں اسے ایک بُری خبر سنانے کی غلطی کرچکا ہوں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ مجھ سے اس قدر خفا ہوجائے گی‘‘۔
’’کیسی خبر؟‘‘ یوسیبیا نے بدحواس ہو کر سوال کیا۔
ایرج نے جواب دیا۔ ’’مصر سے اطلاع آئی ہے کہ عاصم لاپتا ہوچکا ہے‘‘۔
یوسیبیا کے استفسار پر ایرج نے اِس اطلاع کی تفصیلات بیان کردیں اور وہ نڈھال سی ہو کر کرسی پر بیٹھ گئی۔
ایرج نے کہا۔ ’’میں اپنے ساتھیوں کے پاس جارہا ہوں، اگر مجھے وہاں دیر لگ جائے تو آپ کھانے کے لیے میرا انتظار نہ کریں‘‘۔
یوسیبیا نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا، لیکن وہ اُسے کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر جلدی سے باہر نکل گیا۔ یوسیبیا کچھ دیر بے حس و حرکت بیٹھی رہی، پھر وہ اُٹھ کر آگے بڑھی اور برابر کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد فسطینہ کو آوازیں دینے لگی۔ ’’فسطینہ دروازے کھولو۔ فسطینہ! فسطینہ!‘‘۔
کچھ دیر اُسے اندر سے کسی جواب کے بجائے دبی دبی سسکیاں سنائی دیتی رہیں، پھر فسطینہ نے دروازہ کھول دیا اور روتی ہوئی اپنی ماں کے ساتھ لپٹ گئی۔
ماں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’بیٹی میں کئی دن سے یہ محسوس کررہی تھی کہ مصر سے کوئی بُری خبر آنے والی ہے۔ اب تمہیں ہمت سے کام لینا چاہیے‘‘۔
وہ بولی۔ ’’امی جان! عاصم کا خون میری گردن پر ہے۔ ’’میں نے ہی اُسے میدانِ جنگ کا راستہ دکھایا تھا۔‘‘
’’اب صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں بیٹی۔ کم از کم ایرج کے سامنے تمہیں حوصلے سے کام لینا چاہیے‘‘۔
فسطینہ نے جواب دیا۔ ’’آج ایرج کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مسکرانا میرے بس کی بات نہیں۔ اس دنیا میں میرے سوا عاصم کے لیے آنسو بہانے والا کون ہے؟‘‘۔
یوسیبیا نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹی! اگر وہ مرچکا ہے تو تمہارے آنسو اُسے واپس نہیں لاسکتے‘‘۔
’’امی جان! میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ زندہ ہے۔ اُسے زندہ رہنا چاہیے‘‘۔
’’بیٹی خدا کرے اُس کی موت کی خبر غلط ہو‘‘۔
’’امی جان! سچ کہیے، اگر وہ زندہ ہو اور یہاں پہنچ جائے تو آپ اپنے اوپر ایک بوجھ محسوس نہیں کریں گی؟‘‘۔
’’میں یہ محسوس کروں گی کہ قدرت نے اُسے میری بیٹی کے آنسو پونچھنے کے لیے بھیجا ہے۔ میںتمہاری ماں ہوں فسطینہ، اور ایک ماں کی اس سے بڑی خواہش اور کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا کی تمام نعمتیں اور زندگی کی ساری خوشیاں اُس کی بیٹی کے قدموں میں ڈھیر کردی جائیں‘‘۔
’’امی! ایرج، یہ محسوس کرتا ہے کہ اُس کے راستے سے پہاڑ ہٹ گیا ہے۔ وہ آج بہت خوش تھا۔ لیکن آپ میرے ساتھ وعدہ کریں کہ آپ اُس کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گی۔ ایسے سنگدل انسان کے ساتھ زندگی گزارنے کی بجائے میرے لیے ایک راہبہ بن جانا زیادہ آسان ہوگا۔ وہ آپ کا مہمان ہے، لیکن میرے پاس اُس کی ضیافت کے لیے آنسوئوں کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اُس نے کئی بار مجھ کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ ایران کا کوئی خاندان اُسے ناراض کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا اور اُس کے نزدیک میری یا میرے والدین کی پسند یا نا پسند بے معنی ہے۔ اگر میرے ابا جان اُس کے سامنے اس قدر بے بس ہیں تو میرا مرجانا بہتر ہے‘‘۔
’’تمہارے ابا جان، ایرج کے خاندان سے بگاڑنا پسند نہیں کریں گے لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں کوئی مرعوب کرسکتا ہے۔ اگر ایرج تمہیں ناپسند ہے تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں اُس کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ