سوشل میڈیا پر مورت مارچ کا شو

379

امریکہ میں وسط مدتی انتخابات مکمل ہوئے ، اس کے بڑ ے عجیب نتائج تھے، وہ ہمارا موضوع نہیں۔ مگر ایک اہم بات یہ ہے کہ اس بار حزب اختلاف کی مدد سے امریکہ میں ’ہم جنس افراد کی شادی‘ کا قانون منظور ہوجائے گا۔ اس بات اظہار 4 دن قبل ہی امریکی سینیٹ کے اکثریتی گروپ کے لیڈر چک شمر نے یوں کیا کہ،’اَب زندگی گزارنے کے لیےیہ ہمارےملک کو مزید بہتر بنا دے گا۔‘یہی نہیں اس بارامریکی ریاست میساچیوسٹس کی تاریخ میں پہلی بار ایک ہم جنس پرست خاتون گورنر منتخب ہوئیں۔ آپ تصور کریں کہ 1900 کی پہلی دہائی میں امریکہ میں اگر کسی کو معلوم ہوجائے کہ وہ ’ہم جنس پرست‘ ہے تو محلے کے لوگ اِس کے گھر میں گھس کر اُس کو قتل کرکے اس کے جسم کے ٹکڑے گھر کے باہر ٹانگ دیتے۔ یہ عمل امریکہ میںایسے ڈیل ہوتا تھا ، یہ سلسلہ 1970 تک چلتا رہا،مگر بعد ازاں یہ عمل ایک ’بیماری‘ قرار دے دیا گیاتاکہ لوگوں میں رحم پیدا ہو اوریہ لوگ قتل ہونے سے بچیں اور علاج کے لیے جائیں۔ پھر پوسٹ ماڈرن ازم مفکرین نے اس عمل کو اُن ’بیماروں‘کا جائز حق قرار دیا اور ان کی جنسی خواہش کی آزادی پر جبر قرار دیا ، مباحث چھڑ گئے اور’ہم جنس پرستی‘ بنیادی حق قرار پایا ، جب امریکہ نے ان کی ’شادی‘ کی اجازت دینے میں مزاحمت کی تو پھر دوبارہ شور اٹھا ، اتنی تحقیقات ، اتنے مقالے ، اتنے زور و شور سے دلائل دیئے گئےکہ مغرب نے گھٹنے ٹیک دیئے اور یوں ہم جنسوں کی شادی کے قوانین بن گئے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کے لیے ’شادی ‘ اور مسلمانوں کے لیے ’نکاح‘ بعینہ ایک جیسے معنی کی بات نہیں مگر معاشرتی معنی قریب قریب یکساں ہیں۔اس لیے مسلم معاشرت و نظام چاہنے والے اگر کہیں وجود رکھتے ہیں تو ان کے لیے کام بڑھ گیا ہے، کیونکہ ’امریکی آقا ‘کی غلامی کرنے والے اپنے آقاکو فخر سے ’فالو‘ کرتے ہیں۔
20نومبر کوسندھ مورت مارچ کی تیاریاں اس ہفتہ نجی جامعات میں جاکر پروگرامات ، رضاکاروں کی رجسٹریشن ، مالی تعاون کی اپیل کی صورت سوشل میڈیا پر زور و شور سے جاری رہیں۔ ہم ایک عورت مارچ ہی نہیں سنبھال پا رہے تھے کہ اب ’مورت مارچ‘ سے مزید جھٹکے آنے کو ہیں۔ ’مورت‘ کسی مٹی کے بےجان پتلے کو نہیں کہتے بلکہ اس سے مراد ’خواجہ سرا، ٹرانس جینڈر،مخنث‘ انسان ہیں۔ اللہ تعالیٰ آزمائش سے محفوظ رکھے مگر جن والدین کی اولادیں پیدائشی طور پر ایسی کسی جسمانی مسئلے کا شکار ہوتے ہیں، ان کے ساتھ غیر معمولی یاکم تر جان کر رویہ رکھنا، صرف معاشرتی دباؤ پر اپنی اولاد سے بیگانگی برتناسخت گناہ ہو سکتا ہے، یوں بھی کہ اس کے نتیجے میں اُن پر پڑنے والے اثرات مزید معاشرتی تباہی لاتے ہیں۔جنسی زیادتی کا توخواتین ہی نہیں مرد بھی شکار ہوتے ہیں اور وہ ایک ہی طرح کبیرہ گناہ اور جرم ہی ہے تو کسی خواجہ سرا کے لیے الگ ترتیب کیوں ہو سکتی ہے؟ مگر مورت مارچ کے 6مطالبات یہ ہیں کہ ’ صنفی شناخت کا تعین ہر انسان کا اپنا حق ہے۔ قانون دیت کوخواجہ سراؤں پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ خواجہ سراؤں کے خلاف نفرت انگیز تشہیری مہم جرم قرار دی جائے، مہنگی رہائش گاہ دینا جرم قرارد یاجائے، گھروں سے نکال کر وراثت سے محروم کرنا جرم قرار دیاجائے،سندھ حکومت 2018 ایکٹ کے مطابق قانون سازی کرے۔‘( نوٹ کرلیں کہ ان مطالبات کا ایل جی بی ٹی تحریک سے واقعی کوئی تعلق نہیں )۔
میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ ماڈرنسٹ فکر کا ایک انڈہ بچہ ’فیمن ازم ‘ کی شیطانی تحریک تھی ، جب اس کے تضادات سامنےآئے تو ’پس جدیدیت ‘یعنی ’پوسٹ ماڈرن ازم ‘نے اُنہی نعروں سے اپنی فکر کو مزید تازہ کر کے ’ہم جنس پرستوں ‘ کی عالمی تحریک کو پیدا کیا۔اس کی دلیل کے لیے مورت مار چ کا سلوگن بھی کافی ہے’زن۔ زندگی۔آزادی‘۔جی غور سے دیکھ لیں کہ ’مورت ‘، اپنے لیے مارچ میں زن یعنی ’عورت کی آزاد زندگی ‘ مانگ رہی ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ کسی جانب سے کوئی مزاحمتی شور نہیں ہےکہ ان کے اصل مسائل حل کریں اور غلط جگہ نہیں جانے دیں۔ ویسے ہو بھی کیوں ؟ جب پر امن احتجاج سب کا جمہوری حق ہے تو پھرکیوں کر کسی کو ،کسی بات کے اظہار سے روکا جا سکتا ہے۔انسان کو ’ہیومن‘ کی تعریف میں ڈھالنے سے ایسے ہی نتائج رونما ہوتے ہیں، کیونکہ ’ہیومن‘ تو اپنی نہاد میں خود ایک ’خدا‘ کا نام ہے، جو ’آزادی‘ کے لامحدود تصور، ’مساوات ‘اور ’ترقی‘ کو اپنا ’حق ‘مانتا ہے۔سندھ پر پیپلز پارٹی کی مضبوط حکومت ہے ، پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے نام پرکھڑی ہوئی اور کامیابی سے چل رہی ہے ۔اُن کے ہم نام پوتے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر، سوشل میڈیا پر’سندھ مورت مارچ ‘کے اہم میزبان کے طور پر سامنے کھڑے ہیں،یوں سندھ حکومت کی اس ایونٹ کی سپورٹ نمایاں ہے، ویسے بھی بلاول بھٹو نے بھی ہمیشہ ایسے ایشوز کی حمایت فرمائی ہے۔
اسی ضمن میں دوسری جانب 19 نومبر کو پاکستان کی مخصوص حدود میں جوائے لینڈ کو بالآخر نمائش کی اجازت مل گئی۔نا معلوم کونسی نادیدہ طاقتیں ہیں جنہوں نے ملک کے بیمار وزیر اعظم، بیمار ی بھی ہلکی پھلکی نہیں ، وہ جس نے پوری دنیا بند کرا دی، کروڑوں انسان مارے گئے ، جی کورونا کا شکار 71 سالہ بوڑھاوزیر اعظم کورونا کی حالت میں بھی اِس فلم کی نمائش کی خاطر متحرک نظر آیا۔اتنا متحرک کہ اس کی ماتحت وزارت نے فلم کی نمائش روک دی تو بیماری کے عالم میں ملک کے دیگر اہم امور پر فوقیت دیتے ہوئے فلم پر اعتراضات کا جائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی نئی کمیٹی تشکیل دی، کمیٹی نے فلم دیکھ کر کچھ مناظر کٹوائے اور نمائش کی اجازت دے دی۔ویسے تو اس کام میں ان کے لبرل مشیر سلمان صوفی سوشل میڈیا پر بھی فلم کے حق میں متحرک نظر آئے ۔
فلم کی ایک شریک پروڈیوسر کا کہنا تھا کہ “یہ فلم آسکرز کے لیے جا رہی ہے، جس کے لیے اس کا پاکستان میں ریلیز ہونا ضروری ہے۔اس فلم کو بنانے میں چھ سال لگے اور سینکڑوں لوگوں کی محنت لگی۔ یہ فلم پاکستان میں بنی اور پاکستانیوں کے لیے بنی لہٰذا، اگر وہی نہیں دیکھ پائیں گے تو کیا فائدہ۔‘اس فلم پر مستقل سوشل میڈیا پر دینی حلقوں سے اعتراضات کا سلسلہ جاری تھا کہ ، ہفتہ کی شب فلم کی نمائش پر پابندی لگانےکا اعلان ہوگیا۔ لوگ خوش ہوئے ، مگر نادیدہ طاقتوں نے وزیر اعظم تک رسائی لی اور دو ہی دن میں کمیٹی بنوا کر منظوری کی راہ نکلوا لی۔اہم بات یہ ہے کہ فلم پر اعتراض دینی جماعتوں کا بتایا گیا ، تو جائزہ لینے کے لیے دینی جماعتوں کے کسی نمائندے کو کمیٹی میں کیوں نہ ڈالا گیا؟گو کہ اسلام آباد سنسر بورڈ کی جانب سے فلم پر 13 نکاتی اعتراضات کی لسٹ بھی سوشل میڈیا پر لیک ہوگئی۔ پیر کی شب جیو نیوزکے پروگرام شاہ زیب خانزادہ میں فلم کے ڈائریکٹر نے صاف کہہ دیا کہ اسلا م آباد سنسر بورڈ نے 3اعتراض کیے تھے جوکہ دور کر دیئےگئے۔اس کے جواب میں رات ہی رات درست دستاویزات لیک ہوگئے، جس میں 13 اعتراضات تھے ۔ سنسر بورڈ کی لسٹ بتاتی ہے کہ فلم میں موجود کئی کئی منٹ کے بے حیا، واہیات، فحش مناطر و ڈائیلاگ تھے جنہیں انہوں نے نکالنے کی سفارش کی تھی۔ فلم کا مسئلہ یہ ہوا کہ وزیر اعظم کی کمیٹی نے فلم دیکھ کر چیک کرلیا کہ متذکرہ فلم قابل ریلیز ہے ، مگر اچانک پنجاب سے خط جاری ہو گیا کہ وہ نمائش کی اجازت نہیں دے رہے، کیونکہ صوبوں کے اپنے با اختیار سنسر بورڈہیں ۔مگر اُس نادیدہ قوت نے کام دکھایا اور جمعہ 19 نومبر کو معاملہ یہ ہوا کہ کراچی سمیت پنجاب کے کئی سینماؤں میں بھی یہ فلم جاری کر دی گئی (بحوالہ سینما کی آن لائن ٹکٹ بکنگ ویب سائٹ )۔سوشل میڈیا پر خاصا شور جاری رہا ، فلم کے کردار ٹی وی شوز میں صاف انکار کرتے رہے کہ فلم کا موضوع یہ ہے ہی نہیں جس پر اعترا ض کیا جا رہا ہے۔
آپ اندازہ کرلیں کہ فلم کی نمائش کی منظور ی کے بعد ہی سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنا دیاگیا،لوگ راجہ ضیا ( یوتھ کلب)، جماعت اسلامی کو تنگ نظر سمیت اپنی زبان خاص میں القابات دے رہے تھے، کیونکہ اس کے خلاف مہم میں جماعت اسلامی کے واحد رہنماسینیٹر مشتاق احمد سرفہرست تھے۔ان کے علاوہ شعور میڈیا نیٹ ورک اور آگہی نے بھرپور کام کیا، ان کے علاوہ ماریہ بی( فیشن ڈیزائنر،درزن) بھی ان کے ساتھ شامل نظر آئیں۔ ماریہ چونکہ لبرل کلاس کی نمائندہ ہےاور حیرت انگیز طور پر اس ایشو میں پوری مخالفت کے ساتھ اتر گئی تھی اس لیے اس کو اکیلا کرنے کے لیے الگ مہم چلائی گئی اور اس کے نا م سے بھی ایک ٹرینڈ ،لسٹ میں ابھرا، یہی نہیں فلم کی منظوری کے اعلان کی رات ہی جوائے لینڈ سمیت، ایل جی بی ٹی کیو ، ہم جنس پرستی کے ٹرینڈ بھی لسٹ میں اُبھرے۔اس میں پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا فورس بھی ہیش ٹیگ استعمال کر کے اپنے عمرانی بیانیے کے ساتھ زبردستی اتر ی نظرآئی۔ڈاکٹر تیمور بھی اس میں پیچھے نہیں رہے۔ سب سے مزے دار منافقت یہ دیکھنے کو ملی کہ لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ماریہ بی کی وہ تصاویر نکال کر لاتے رہے جس میں وہ نیم عریاں خواتین ماڈلز کے ساتھ تصویر کشی کرا تی رہیں۔جیسا میں نے کہاکہ وہ لبرل ایلیٹ طبقہ سے ہی تعلق رکھتی ہے، اس لیے اس پر زیادہ غصہ نکلے گا تو وہی ہوا ۔ کبھی اس کی خود کی بے پردگی پر سوال اٹھائے گئے ، کبھی اس کے دیگر غیر اسلامی اعمال پر ،جن سے یہ بات ضرور معلوم ہوئی کہ وہ سب بھی جانتے ہیں کہ اسلام کیا تقاضہ کرتا ہے ، تبھی تو ماریہ پر تنقیدی سوال کر رہے تھے۔ اب اس ضمن میں ان کے پاس راجہ ضیا الحق اور مشتاق احمد خان کے لیے قابل تنقید کچھ نہ تھا۔
اس پروگرام میں لاہور کےرہائشی فلم ڈائریکٹرصائم صادق نے صاف کہاکہ ،کسی فلم میں شراب پیتے دکھانے کا مطلب شراب کی پروموشن نہیں ہوتا، اُس ماحول ، اُس وقت ،اُس کردار کی عکاسی کرنا ہوتا ہے ۔اسی طرح خواجہ سرا کو دِکھانے کا مطلب پروموشن نہیں ہوسکتا۔اسی بات کو فلم کے ہیرو نے یوں دہرایا کہ فلموں ڈراموں میں قتل، چوری کے مناظر ہوتے ہیں ان کا مقصد قتل ،چوری کی پروموشن نہیں ہوتا تو اس فلم سے کیسے ہم جنس پرستی کی پروموشن ہوسکتا ہے وہ بھی فلم دیکھے بغیر۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر ریلیز شدہ پاکستانی فلموں کے فحش ڈانس ، پوسٹر و مناظر ڈال کر لوگ دھڑا دھڑ سوال پوچھتے رہے کہ اگر “یہ قبول ہے مگر جوائے لینڈ پر اعتراض کیوں”؟
مغربی تہذیب کو اپنانے کا اب لازمی انجام آپ کےIntellectual Disposession کی صورت سامنے آتا ہے۔یہ سوال اور اعتراض اس کی زندہ مثال ہےجو اسلامی بنیادوں پر اعتراض کرنے والوں کےبڑے علمی و فکری تضاد کو نمایاں کرتا ہے۔سیدھی بات ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ عورت کا عریاں لباس میں ، فحش رقص ،شراب نوشی و زنا کے مناظردیگرفلموں میں قابل قبول ہیں ، اُن سے اسلامی معاشرت پر کوئی فرق نہیں پڑتا تو کیا اس سے زیادہ کچھ اور ہو سکتاہے جو فرق ڈالے؟
اس کی مثال ایک مغربی مفکر سمجھاتے ہوئے یہ بیان کرتا ہے کہ ’ایک شخص روز دفتر سے رات 8بجے گھر آتا تھا ۔ ایک دن 7 بجے آگیا تو عجب منظر دیکھا ،تو غصہ سے سوال کیا کہ یہ کیا ہے؟ تو جواب ملا کہ یہ دوسرا سوال ہے پہلے یہ بتاو کہ تم 7 بجے کیوں آگئے؟ ‘
اب آپ اس مثال سے بات قدرےسمجھ گئے ہوں گے۔یہاں بھی ایک دوسرے سوال کےجواب میں پہلا سوال کیا جارہا ہے کہ یہ بتاؤ فلاں فلم کیوں قبول کی؟
بلاشبہ ، یہ درست توجہ ہے کہ اس ضمن میں مذہبی جذباتیت کو درست طریقے سے نہیں ابھاراگیا۔جیسے جامع تحقیق و معلومات کے بغیر ایسی مخالفت کی گئی جس کا فلمی حقیقت سےکوئی تعلق نہیں بنتا تھا ، بالکل عمومی بات تھی۔ فلم کی اسلامی معاشرت میں ضرورت کو مقدمہ بنا کر جب یہ طے کیا جائے گا کہ اس کی کوئی حدود ہوں ،پھر اگر حدود تعین کرنے والا سنسر بورڈ اجازت دے دےتو اعتراض کی روح تو فوت ہوجاتی ہے۔
خوف آخرت پرکھڑے دین ، جہنم، آگ، عذاب، موت، حقیقت معلوم ہوجانے پر کم ہنسنے کی ترغیب دینے والے نظام زندگی میں کیا انٹرٹینمنٹ کاوہی تصور ہے جو مستشرقین کی جانب سے سیرت نبی ﷺ کے ایک دو واقعات سے نکال کر پوری معاشرت پر غالب کر دیتے ہیں کہ گویا (معاذ اللہ) نبی ﷺ دنیا میں تفریح کے لیے بھیجے گئے اور یہ تفریح ویسی ہے جیسی یہ پیش کر رہے ہیں۔قرآن مجید میں لغویات کی صاف ممانعت کے ذیل میں 1400 سال تک صحابہ ، تابعین، تبع تابعین نے جن چیزوں کو بالاتفاق منع کیا، اس کو مغربی فکر سے متاثر ہوکر ، اپنے نفس کی تسکین کے لیے دعوت دین و دیگر حیلے بہانوںسے جب رستہ دیاگیا تو یہ نتائج لازمی ہیں۔ اس لیے حل وہی ہے کہ سب کا انکار کرتے ہوئے اپنی اصل کی جانب آیاجائے۔

حصہ