قیصروکسریٰ قسط(76)

281

آپ کو معلوم ہے کہ اُس کی بیوی عیسائی ہے اور ایک معزز رومی افسر کی بیٹی ہے۔ اناطولیہ سے جو پناہ گزیں فرار ہو کر قسطنطنیہ پہنچے ہیں، اُن کا خیال ہے کہ اگر سپہ سالار اپنی عیسائی بیوی کے زیر اثر نہ ہوتا تو اناطولیہ کے مفتوحہ شہروں میں ایک عیسائی بھی زندہ نہ بچتا لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ کسریٰ ایک عیسائی خاتون کے شوہر کو قسطنطنیہ فتح کرنے کی مہم کیسے سونپ سکتا ہے‘‘۔
عاصم نے مضطرب ساہوکر ولیریس کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’اگر ایرانی سپہ سالار کا نام سین ہے تو آپ کو تعجب نہیں کرنا چاہیے۔ میں اُس کی بیوی کو جانتا ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اُس کا باپ ایک رومی افسر تھا۔ جسے دمشق کے عیسائیوں نے دشمن کا جاسوس سمجھ کر زندہ جلادیا تھا‘‘۔
’’ہاں، ہاں۔ اُس کا نام یہی ہے‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’ولیریس اگر میں تمہیں یہ بتائوں کہ یہ ایرانی سپہ سالار عاصم کو اپنا بیٹا سمجھتا تھا تو یقین کرلو گے؟‘‘۔
ولیریس نے عاصم کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں، اور قدرے توقف کے بعد کہا۔ ’’اگر یہ ایرانی سپہ سالار سے اس قدر قریب تھے تو آپ کے ساتھ ان کی دوستی میری سمجھ میں نہیں آسکتی اور مجھے ڈر ہے کہ قسطنطنیہ کا کوئی باشعور آدمی یہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا کہ یہ صرف آپ کی خاطر ایرانیوں سے کنارہ کش ہوچکے ہیں‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’تم درست کہتے ہو۔ قسطنطنیہ میں کسی کو اِس بات پر یقین نہیں آئے گا کہ ایرانی فوج کے ایک نامور سالار نے صرف ایک رومی کی جان بچانے کے لیے اپنے ماضی کے ساتھ سارے رشتے منقطع کرلیے ہیں۔ قسطنطنیہ کے لوگوں نے ایرانیوں کو ہمیشہ بے رحم دشمنوں کی حیثیت سے دیکھا ہے، اور مجھے ڈر ہے کہ میری گواہی کے باوجود وہ انہیں اپنا دوست سمجھنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ اس لیے قسطنطنیہ پہنچ کر عام لوگوں کے سامنے ایرانیوں کے ساتھ ان کا تعلق ثابت کرنا مناسب نہیں ہوگا‘‘۔
ولیریس نے کہا۔ ’’میرے دوست ایرانیوں کے خلاف ہمارے خواص اور عوام کے جذبات بہت نازک ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ آپ کے والد بھی یہ پسند نہیں کریں گے کہ آپ ایرانی فوج کے کسی عہدیدار کو دوست بنا کر اپنے ساتھ لے آئے ہیں‘‘۔
’’نہیں ولیریس اپنے والد کو ان کے متعلق مطمئن کرنا میرے لیے مشکل نہیں ہوگا۔ لیکن موجودہ حالات میں عام لوگوں پر ان کا ماضی ظاہر نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ یہ کہہ کر کلاڈیوس عاصم کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’میرے دوست تمہیں ہماری باتوں سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے پہلے اِس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا تھا۔ لیکن اب میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر ہم نے احتیاط نہ کی تو ہوسکتا ہے کہ قسطیطنہ کے لوگ میری وفاداری پر بھی شک کرنے لگ جائیں‘‘۔
عاصم نے کوئی جواب نہ دیا۔ اُس کے خاموش چہرے سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کلاڈیوس اور ولیریس کی باتوں نے اُس پر کوئی اثر نہیں کیا۔ وہ بے خیالی کے عالم میں باسفورس کے مشرقی کنارے کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کی نگاہوں کے سامنے ایک ایسا اُفق تھا جہاں ماضی اور حال کی سرحدیں ایک ہوجاتی ہیں۔ وقت کی گزرگاہوں پر چند مٹے ہوئے نقوش پھر اُجاگر ہورہے تھے۔ ماضی کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی صدائیں پھر اُن کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ اُس کی لٹی ہوئی دنیا فسطینہ کی مسکراہٹوں سے آباد ہورہی تھیں۔
وہ دیر تک بے حس و حرکت کھڑا رہا۔ پھر کلاڈیوس نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’عاصم! تم کیا سوچ رہے ہو، ادھر دیکھو، ہم بندرگاہ پر پہنچ چکے ہیں‘‘۔
عاصم نے مڑ کر دیکھا، اُس کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔
سہ پہر کے وقت مرقس اپنے عالیشان محل کے سامنے ایک خوبصورت باغ میں بیٹھا ہوا تھا۔ مرقس کے سر کے سارے بال سفید ہوچکے تھے، تاہم اپنے سرخ و سپید چہرے سے وہ ایک تندرست اور توانا آدمی معلوم ہوتا تھا۔ ایک قد آور کتا اُس کے قدموں میں بیٹھا ہوا تھا۔
مرقس کی نوجوان بیٹی جولیا محل سے نکل کر باغ میں داخل ہوئی اور اُس کے قریب آکر بولی۔ ’’ابا جان! آپ نے ابھی تک چچا جان کے خط کا جواب نہیں دیا۔ ‘‘
وہ بولا۔ ’’بیٹی میں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ مجھے کیا جواب دینا چاہیے‘‘۔
جولیا اُس کے قریب دوسری کرسی پر بیٹھ گئی اور کچھ دیر باپ اور بیٹی خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے، بالآخر مرقس نے کہا۔ ’’بیٹی کل میں تمہارے چچا کو یہ لکھنا چاہتا تھا کہ تم ایک بزدل آدمی ہو۔ اگر قیصر تمہیں قرطاجنہ کا حاکم بنا کر روانہ کرنے سے قبل میرا مشورہ لیتا تو میں بھرے دربار میں اِس غلط انتخاب کی مخالفت کرتا۔ اب تمہیں واپس بلانا میرے اختیار میں نہیں، مجھے صرف اِس بات کا افسوس ہے کہ تمہاری بزدلی کی داستانیں ایک ایسے خاندان کی تاریخ کا حصہ بن جائیں گی جس کی جرأت اور بہادری پر ہر رومی فخر کرتا ہے۔‘‘
جولیا نے کہا۔ ’’ابا جان! میں اپنے چچا کی حمایت نہیں کروں گی، مجھے اِس بات کا افسوس ہے کہ انہوں نے آپ کو قسطنطنیہ چھوڑ کر قرطاجنہ پناہ لینے کا مشورہ دیا ہے، لیکن آپ جانتے ہیں کہ انہوں نے اپنا نیا عہدہ خوشی سے قبول نہیں کیا۔ بلکہ آپ کے کئی دوستوں نے انہیں مجبور کیا تھا کہ وہ قیصر کے حکم کی تعمیل کریں۔ آپ کو یاد ہے کہ جب وہ اسکندریہ سے واپس آئے تھے اور آپ نے سینٹ میں ان کے خلاف تقریر کی تھی تو وہ رہبانیت اختیار کرنے پر آمادہ ہوگئے تھے‘‘۔
مرقس نے جواب دیا۔ ’’اگر ایسے تمام لوگ راہب بن جاتے اور سلطنت کا کاروبار چند جرأت مند رومیوں کے ہاتھ میں سونپ دیتے تو شاید آج ہم یہ دن نہ دیکھتے۔ میرے جن دوستوں نے تمہارے چچا کو قرطاجنہ کی گورنری کا عہدہ قبول کرنے پر آمادہ کیا تھا میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔ یہ بزدل قرطاجنہ کو قسطنطنیہ سے زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ گرمیر بھائی قیصر کو دارالحکومت کی تبدیلی پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ان کے لیے بھی قرطاجنہ کا راستہ کھل جائے گا‘‘۔
جولیا نے کہا۔ ’’ابا جان! یہ افواہ میں کئی دنوں سے سن رہی ہوں کہ اگر حالات زیادہ نازک ہوگئے تو شاید قیصر کو قسطنطنیہ چھوڑ کر قرطاجنہ کو اپنا دارالسطنت بنانا پڑے لیکن مجھے یہ بات ناقابل یقین معلوم ہوتی ہے۔ ہرقل جس نے ہمیں فوکاس کے مظالم سے نجات دلائی تھی، بدترین حالات میں بھی قسطنطنیہ سے بھاگنا پسند نہیں کرے گا‘‘۔
مرقس نے قدرے جوش میں آکر کہا۔ وہ ہرقل جس نے ہمیں فوکاس سے نجات دلائی تھی، مرچکا ہے وہ اُس دن مرگیا تھا جب اُس نے سینٹ اور کلیسا کے احتجاج کے باوجود اپنی بھتیجی سے شادی کرلی تھی، اب رومی سلطنت کی تقدیر ایک عیاش، کاہل اور بزدل حکمران کے ہاتھ میں ہے۔ آج ہم اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ آبنائے باسفورس کے پار ایرانی کئی مہینوں سے فیصلہ کن حملے کی تیاریاں کررہے ہیں اور ہمارے شمال مغربی علاقے اُن وحشی قبائل کی شکارگاہ بنے ہوئے ہیں جو ایرانیوں سے زیادہ خونخوار ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ ہم کسی دن نیند سے بیدار ہوں گے تو ہمیں یہ خبر سنائی جائے گی کہ قیصر اپنی نئی ملکہ کے ساتھ رات کے وقت قرطاجنہ کی طرف فرار ہوچکا ہے اور دشمن کی افواج قسطنطنیہ کے دروازوں پر دستک دے رہی ہیں۔ بیٹی! اگر میرے سامنے تمہارا مسئلہ نہ ہوتا تو میں تمہارے چچا کے خط کا ایسا جواب لکھتا کہ اُس کے ہوش ٹھکانے آجاتے لیکن موجودہ حالات میں، میں تمہارے مستقبل سے آنکھیں بند نہیں کرسکتا۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم قرطاجنہ چلی جائو‘‘۔
’’اور آپ؟‘‘ جولیا نے سوال کیا۔
’’تمہیں معلوم ہے کہ میرے لیے قسطنطنیہ چھوڑنا ممکن نہیں۔ میں سینٹ کا رکن ہوں۔ میرے خاندان کے کئی افراد رومی سلطنت کی حفاظت کے لیے جان دے چکے ہیں۔ میں قسطنطنیہ کے عوام کے سامنے ایک بُری مثال پیش نہیں کرسکتا‘‘۔
جولیا نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا۔ ’’اور میں آپ کی بیٹی ہوں۔ اگر قسطنطنیہ پر کوئی نازک وقت آیا تو میں قرطاجنہ کی طرف بھاگنے کی بجائے آپ کے ساتھ اس شہر کی خاک میں دفن ہونا زیادہ پسند کروں گی‘‘۔
’’بیٹی ایک لڑکی کے لیے جنگ کے آلام و مصائب موت سے زیادہ بھیانک ہوسکتے ہیں‘‘۔
’’ابا جان! میں مصائب کے طوفانوں کے سامنے تنہا نہیں ہوں گی، بلکہ روم کی لاکھوں بیٹیاں میرے ساتھ ہوں گی‘‘۔
کچھ دیر، باپ اور بیٹی خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔ اچانک جولیا کو کسی کے پائوں کی آہٹ محسوس ہوئی، اس نے دائیں طرف دیکھا چند قدم کے فاصلے پر کلاڈیوس کھڑا تھا۔ جولیا چند ثانیے سکتے کے عالم میں اُس کی طرف دیکھتی رہی اور پھر اچانک اُٹھ کر ’’کلاڈیوس، کلاڈیوس‘‘ کہتی ہوئی آگے بڑھی اور بے اختیار اپنے بھائی کے ساتھ لپٹ گئی۔
مرقس کی ساری حسیات سمٹ کر آنکھوں میں آچکی تھیں۔ جولیا، کلاڈیوس کو اپنی گرفت سے آزاد کرنے کے بعد اپنے باپ کی طرف متوجہ ہوئی۔ ’’ابا جان! بھائی جان آگئے ہیں۔ آپ نے انہیں نہیں پہچانا، ابا جان یہ کلاڈیوس ہیں‘‘۔ بوڑھا باپ لڑکھڑاتا ہوا اُٹھا اور کلاڈیوس بھاگ کر اُس کے ساتھ لپٹ گیا۔
جولیا کو بیرونی دروازے کی طرف چند اجنبی صورتیں دکھائی دیں اور اس نے کلاڈیوس کو بازو سے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’وہ کون ہیں؟‘‘۔
’’وہ ہمارے مہمان ہیں جولیا‘‘۔ کلاڈیوس نے جواب دیا۔
مرقس جس کی زبان تھوڑی دیر کے لیے گنگ ہوچکی تھی، اب اپنے بیٹے پر سوالات کی بوچھاڑ کرکردی۔ تم کہاں تھے؟ تم نے اپنے متعلق کوئی اطلاع کیوں نہ دی؟ یہاں کیسے پہنچے؟ اور تمہارے مہمان کون ہیں؟ تم انہیں دروازے پر کیوں چھوڑ آئے ہو؟‘‘۔
جولیا بولی۔ ’’وہ لڑکی کون ہے بھائی جان‘‘۔
’’ابا جان!‘‘ کلاڈیوس نے اپنے باپ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’میری شادی ہوچکی ہے۔ اور آپ کے اس مکان میں داخل ہونے کے لیے اجازت کی طلبگار ہے‘‘۔
جولیا دروازے کی طرف بڑھی اور چند قدم چلنے کے بعد بھاگنے لگی، اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں آنکھوں میں آنسو تھے۔ انطونیہ کے قریب پہنچ کر وہ رُکی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی، ’’میں کلاڈیوس بہن ہوں، آپ یہاں رُک کیوں گئیں، آئیے‘‘۔
تھوڑی دیر بعد وہ سب مکان کے ایک کشادہ کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے اور کلاڈیوس اپنے باپ اپنی بہن کے ساتھ اپنے ساتھیوں کا تعارف کروارہا تھا۔ جب عاصم کی باری آئی تو اس نے کہا ابا جان، یہ میرے محسن ہیں، ان کی بدولت مجھے ایک بار نئی زندگی عطا ہوئی ہے اور دوسری بار اپنی چھنی ہوئی آزادی واپس ملی ہے‘‘۔
اگلی رات مرقس کے گھر میں شہر کے معززین، حکومت کے عمال اور کلیسا کے اکابر کی ایک انتہائی خاص دعوت کا اہتمام ہورہا تھا۔
ایک شام فسطینہ اور اُس کی ماں خلقدون کے قلعے کی فصیل پر کھڑی خوشگوار ہوا کا لطف اٹھارہی تھیں۔ اچانک مغرب کی سمت سے سواروں کا ایک دستہ قلعے کا رُخ کرتا ہوا دکھائی دیا اور یوسیبیا نے کہا۔ ’’بیٹی شاید تمہارے ابا جان آگئے ہیں‘‘۔
فسطینہ کچھ دیر ٹکٹکی باندھ کر مغرب کی طرف دیکھتی رہی، بالآخر اُس نے کہا۔ ’’نہیں امی جان! وہ ایرج ہے اور ابا جان اُس کے ساتھ نہیں ہیں‘‘۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’تمہارے ابا جان کہتے تھے کہ ایرج رخصت پر گھر جارہا ہے۔ ممکن ہے کہ اُسے کسی صوبے کی گورنری یا کوئی اور بڑا عہدہ مل جائے اور وہ اس محاذ پر واپس نہ آئے۔ اس لیے تمہیں اُس کے ساتھ تلخی یا بے رُخی سے پیش نہیں آنا چاہیے۔ اُسے بلاوجہ چڑانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ کسی دم تم اُس کی ضرورت محسوس کرو گی۔ اب نیچے چلو، میں اُس کے سامنے تہارے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنا چاہتی ہوں‘‘۔
فسطینہ نے کہا۔ ’’امی جان، میں ایسا طرزِ عمل اختیار نہیں کرنا چاہتی، جس سے وہ میرے ساتھ غلط اُمیدیں قائم کرلے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ میں اُس کے سامنے صاف گوئی سے کام لوں۔ اور اگر اُس کے دل میں کوئی غلط فہمی ہے تو وہ ابھی سے دور کردی جائے‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ