دعوت

342

ایک مثل مشہور ہے ’’مجھے میرے دوستوں سے بچائو‘‘۔ میرا خیال ہے کہ اس کے ساتھ یہ مثل بھی عام ہونی چاہیے۔ ’’مجھے دعوتوں سے بچائو‘‘۔ گو دوستوں سے بچنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ دعوتوں سے بھی نجات مل جائے گی۔
بھوک کی مانند دعوت کا بھی یہ حال ہے کہ اس کا نہ کوئی وقت مقرر ہے اور نہ موقع۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہوگا۔
گلبہ افلاس میں دولت کے کاشانے میں بھوک
دشت و در میں، شہر میں گلشن میں، ویرانے میں بھوک
بھوک ہے ہنگامہ آرا قلزمِ خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے بھوک کے آغوش میں
تیوہار، تقریب ہو، کوئی مہمان آیا ہو، کوئی چل بسا ہو، رقعہ دعوت بہرحال موجود ہے، ماحضر موجود ہے اور ایک بزرگ نے تو جوش میں آکر اس کی بھی فرمائش کردی۔
’’براہِ کرم تناول ماحضر فرمایئے!‘‘
دعوت میں نہ جایئے تو غرور یا بے توجہی کی شکایت۔ جایئے تو معدہ اور عاقبت دونوں خراب۔ میں نے جس جس قسم کی اور جن مواقع پر دعوت کھائی ہے وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوئی ہوگی۔ سب سے پہلی دعوت خوب یاد ہے۔ گو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ میرے کسی بزرگ کی دعوت رہی ہو اور وہ مجھے اسی اصول پر بن بلائے ساتھ لے گئے ہوں جس اصول پر ریل میں کرایہ نہیں ادا کرنا پڑتا۔ یعنی معصوموں کے لیے نہ کرایہ ادا کرنے کی ضرورت ہے اور نہ رقعہ دعوت کی۔
بعض ریلوے لائنوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں فی گاڑی دو سادھو کے حساب سے مفت سفر کیا جاسکتا ہے۔ اِدھر کے کوئی ٹکٹ کلکٹر اس لائن پر مامور ہوئے۔ انہوں نے ایک بزرگ کو بے ٹکٹ سفر کرتے پکڑا تو انہوں نے نہایت گھور کر عارفانہ ڈپٹ کے ساتھ کہا، ابھی شراپ دوں گا بھسم ہوجائے گا۔ جانتا نہیں فی گاڑی دو سادھو! بے چارے ٹکٹ کلکٹر ایسے مبہوت ہوئے کہ گاڑی کے نیچے کٹتے کٹتے بچے۔
پہلی دعوت مجھے ایسے صاحب کے ہاں کھانی پڑی جو کپڑے بُنتے تھے، غازی میاں کے معتقد تھے، راہِ نجات پڑھتے تھے اور کوکین بیچنے میں سزا پاچکے تھے۔ ساری بستی مدعو تھی، مئی کا مہینہ اور دوپہر کا وقت مکان و میدان کا کوئی نشیئب و فراز ایسا نہ تھا جہاں کھانے والے نہ بیٹھے ہوں۔ فرش و دستر خوان کا وہاں کوئی دستور نہ تھا۔ جس کو جہاں جگہ مل گئی، بیٹھ گیا۔ ایک نیب کی جڑ میں، میں بھی بیٹھ رہا۔ ایک ہاتھ میں گرم گرم تنوری روٹی دے دی گئی۔ مٹی کے برتن میں زمین پر سالن رکھ دیا گیا۔ بہشتی نے مشک سے تام چینی کے گندے شکستہ گلاس میںپانی پلانا شروع کیا۔
سامنے ایک نیاز مند کتے صاحب بھی موجود تھے، دُم ٹانگوں کے درمیان، خود دو زانوں بیٹھے ہوئے، نظریں نیچی، بہت کچھ بھوکی، چہرہ اور جسم پر ہمسایا اہمسا کے غیرفانی نقوش، جن پر مکھیاں مصروفِ غزل خوانی اور بحیثیت مجموعی داغ کا ایک مصرع
نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے
پاس ہی ایک بوڑھے کھانستے جاتے تھے، کھاتے جاتے تھے اور خلال کرتے جاتے تھے۔ ناتی گود میں پوتا کندھے پر، پوتے نے ایک ہڈی کتے کے سامنے پھینک دی، اب معلوم ہوا کہ ایک اور کتے صاحب کہیں قریب ہی مراقبے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جنہوں نے یک لخت غرا کر جو جست کی ہے تو میرے مقابل کے کتے پر آگرے۔ لیکن جست کے دوران دادا یا نانا پوتا کے پورے شجرۂ نسب کو ڈھاتے چلے گئے، خلال دادا یا نانا کے گلے میں جھا پھنسا اور پوتے ناتی میرے سالن میں آرہے۔ ایک ہلڑ مچا، مشہور ہوا کہ مہتو دادا پر غازی میاں آگئے۔ سارے کھانے والے بھاگ کھڑے ہوئے۔
یہ تو میرے ایام جاہلیت کا قصہ تھا۔ ہوش سنبھالا تو ایک مشہور شہر میں ڈیپوٹیشن پر جانے کا اتفاق ہوا۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ شام کو وہاں کی مشہور مسجد کے امام صاحب کے ہاں افطار پر ہم سب مدعو تھے، جہاں ایک ہجوم تھا ہمارے سامنے بھی افطار رکھ دی گئی۔ ابھی ہم نے مشکل سے دو ایک لقمے فرو کیے ہوں گے کہ ایک حملہ ہوا۔ چند سورما ہم پر ٹوٹ پڑے۔ اور جو کچھ سامنے تھا اسے چٹ کرکے آگے بڑھ گئے۔ معلوم ہوا کہ وہاں کا یہی دستور تھا کہ جو چاہے جس کے سامنے سے افطار اُچک لے ایسا کرنے سے میزبان کو ثواب ملتا ہے، ہمارے ساتھ روہیل کھنڈ کے ایک پٹھان طالب علم تھے، وہ بڑے متحیر ہوئے ان کے تیور سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس واقعے کو نظر انداز نہ کریں گے۔ جب نماز کے لیے لوگ کھڑے ہوئے اور ہر شخص نیت باندھ چکا تو انہوں نے اپنی ٹوپی تو جیب میں رکھی اور سامنے سے ایک نمازی کی پگڑی اُچک کر اپنے سر پر رکھ لی اور سلام پھیرتے ہی اسے چھت سے نیچے پھینک دیا جہاں ہزاروں فقیر ٹوٹ پڑے اور آناً فاناً پگڑی کا تبرک تقسیم ہوگیا جھگڑا بڑھا تو انہوں نے فرمایا ہماری طرف دستور ہے کہ نماز میں جو جس کا عمامہ چاہے اُچک لے، نماز کے بعد وہی عمامہ غربا میں لٹوادیا جاتا ہے اس عمامے کے جتنے پرزے ہوتے ہیں اتنے ہی ہزار محل اور باغات امام کو جنت میں ملتے ہیں۔ اس کی دھجیاں بچوں کے گلے میں ڈال دی جائیں تو ام الصّبیان نہیں ہوتا، جوان باندھ لیں تو ان پر جیل خانہ حرام ہوجاتا ہے، بوڑھے استعمال کریں تو آنتیں اترنے سے محفوظ رہتی ہیں۔ بہرحال امام صاحب کے کہنے سے معاملہ رفت گزشت ہوگیا۔
رات کو دعوت تھی۔ سارے مہمان دو زانو بیٹھے۔ بالکل ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے مارسڈن صاحب کی تاریخ ہند میں ٹھگوں کا گروپ ہے۔ ہم سب بھی بیٹھ گئے ایک بڑی سینی میں بریانی کا اہرام مصر بنا ہوا تھا جس کے اوپر ایک دیگچی شوربے کی انڈیل دی گئی۔ لوگ سینی پر ٹوٹ پڑے اور براہ راست دست بدہن ہوگئے۔ دست بدہن کو آپ ’’ہینڈ ٹو مائوتھ‘‘ کا ماحصل تصور فرمائیں، ہمارے روہیل کھنڈی دوست چپ چاپ بیٹھے رہے۔ میزبان تو انہیں دیکھ کر خاموش رہے لیکن ایک بزرگ جن کی داڑھی چاولوں کی مالا بن گئی تھی اور شوربا گنگا جمنی خضاب کی بہار دکھا رہا تھا قاب سے سر اٹھائے بغیر بولے۔ ’’کھائو سیٹھ صاحب کھائو، نہیں تو ایک مسلمان کا مال ’’جائع ہوگا‘‘۔ دوست بولے ’’بالکل درست لیکن دوسرے مسلمان کی جان بھی تو جائع ہوگی‘‘۔
وہاں کے زمانہ قیام ہی میں ایک اور جگہ سے دعوت نامہ آیا۔ ہمارے میزبان وہاں کے معزز اور دولت مند ترین لوگوں میں سے تھے، میزبانی کے فرائض خاتون خانہ ادا کررہی تھیں، ڈرائنگ روم میں پہنچے تو دن کو تارے نظر آنے لگے۔ ایسی خوب صورت قیمتی پرتکلف اور نایاب چیزیں ایک ساتھ کب دیکھنی نصیب ہوئی تھیں۔ البتہ ان کا تذکرہ میلادوں میں سنا تھا یا طلسم ہوشربا میں پڑھا تھا، مالک مکان سے زیادہ پُر شوکت اور شعر افگن نوکر نوکرانیاں تھیں۔ یہ شعر افگن نور جہاں کے پہلے شوہر نہیں بلکہ ہمارے اردو شعرا کی اولاد قسم کی چیز ہے۔ کس کی تعظیم کیجیے اور کس سے تعظیم لیجیے۔ کھانے کے کمرے میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ شاید دنیا کے سب سے بڑے آدمی کا سب سے بڑے شفا خانے میں آپریشن ہونے والا ہے ہرطرف سوائے فصائی اور سامان جراحی کے کچھ نظر نہ آتا تھا اول تو کھانے کا گانگ بجا ہے تو ہم نے سمجھا ہماری روح قبض کرنے کا کوئی آلہ ایجاد ہوا ہے۔ میز کے قریب آئے تو ایک مثنوی زہر عشق قسم کی ایک چیز نے ہمارے بیٹھنے کی کرسی کھینچی معاً خیال آیا کہ آگے بڑھ کر کہوں ’’اے قبلہ یہ کیوں کانٹوں میں گھسیٹ رہی ہیں لیکن سیاست دربان سے ڈر کر خاموش رہ گیا۔ میز سے متصل ہوئے تو اس نے کرسی ہم سے متصل کردی میں اس آداب سے واقف نہ تھا کچھ سہما ہوا بھی تھا اس لیے کرسی پر پورا بوجھ دینے کے بجائے اپنی ہی پائوں پر زور دیئے رہا بس یوں سمجھ لیجیے کہ کوئی نہایت سبک سوار جاکی گھوڑے پر بیٹھا ہوا روانہ ہونے کے اشارے کا منتظر ہو۔ یقین مانیے اگر اس دوران میں کہیں وہ گانگ ایک دفعہ اور بج جائے روح پرواز ہوتی یا نہ ہوتی ہمارا جسم ضرور پرواز کرنے کی ناکام کوشش کرتا۔ کھانا آیا اور آتا رہا لیکن کام یاروں کا بقدر لب و دنداں نکلا۔ سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ کھانا ایسے ایسے یونیفارم یا لباس فاخرہ ملبوسات عروسی میں لایا جاتا کہ یہ طے کرنے میں دشواری ہوتی کہ ان پر حملہ کیا جائے یا ان کی عبادت کی جائے یا کھڑے ہوکر قومی ترانہ گایا جائے۔ دوسری مصیبت یہ تھی کہ کس آلے سے کس چیز پر حملہ کیا جائے اس لیے کہ جان لینے کے لیے تو آپ آزاد ہیں جو آلہ چاہیے شوق سے استعمال کیجیے۔ لیکن کھانوں کے لیے مخصوص آلات مقر ہیں تیسری مصیبت یہ کہ جو کھانا پیش کیا جارہا تھا اس کے دوسرے عزیز و اقارب نہ معلوم کون کون اور تھے جن کی عدم موجودگی میں کھانے کو ہاتھ لگانا بڑا گنوار پن ہوتا۔ میزبان خاتون کو مسکرانے اور مخوامخواہ اخلاق برتنے سے فرصت کہاں کہ وہ کچھ بتائیں یا ہم پوچھ سکیں۔ بیروں کو دیکھیے تو زرہ بکتر اور چار آئینے لگائے ہوئے اس طور پر مصروف کار تھے جیسے بعض نالائق اور بد دماغ، امتحان کے ہال میں امیدواروں کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس قسم کے بیروں کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو کچھ وہم سا ہونے لگتا ہے کہ یہ کہیں نہ کہیں اپنے یونیفارم یا پیٹی ٹھپوں میں کوئی پیش قبض بھی چھپائے ہوئے ہیں۔ کوئی خادمہ بشکل مخدومہ آجاتی اور ہم بر بنائے سراسیمگی یا دور اندیشی یہ سمجھ کر کہ یہ بھی میزبان قسم کی کوئی چیز تھی یا آج نہیں تو کل اس رتبہ پر فائز ہوں گی، ہمیشہ تعظیم دیتے یا بیوقوتوں کی طرح مسکرانے کے لیے تیار رہتے۔ کھانا تھا کہ چلا ہی آرہا تھا، ہم نے بھی چھری اس طور پر پکڑ رکھی تھی جیسے کسی قلم تراش چاقو سے گینڈے کی قربانی کرنے والے ہوں کانٹا ہمارے ہاتھ میں ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے پلیٹ پر کوئی کیکڑا مسلط ہے۔
خدا خدا کرکے کھانا ختم ہوا، کافی آئی، بغیر دودھ یا شکر کے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے تمباکو کا گل پیس کر گرم پانی ملادیا گیا ہے، یا نادر شاہ کے اصلاح معدہ کے لیے املتاس کا مسہل جام بلوریں میں پیش کیا گیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ کافی سے انکار کیجیے تو بعض میزبان اس طور پر خفا ہوتے ہیں جیسے ریڈیو والوں کو آپ کی تقریر دس دن پہلے نہ پہنچ جائے یا صاف نہ لکھی ہو تو دل میں کوستے ہوئے براڈ کاسٹ کرتے ہیں۔
فرض کیجیے کسی رئیس کے ہاں دعوت ہوئی، وہ کھانا اس طور پر کھلائے گا۔ گویا مہمان کے سات پشت تک کو نواز ڈالا قورمہ ہر دعوت میں ملتا ہے اور معمولی سے معمولی لوگ بھی اپنے گھروں میں کھاتے ہیں لیکن رئیس کے یہاں کا قورمہ کچھ اور ہوتا ہے۔ ادائے خاص سے فرمائیں گے، مولانا کہیے قورمے سے بھی شوق فرمایا۔ جی ہاں شکریہ ماشاء اللہ۔ فرمائیں گے صاحب ایسا حلوان دہلی بھر میں نہ ملے گا۔ بادام پر پلا تھا۔ ذرا بوٹی کی خستگی پر نظر رکھیے۔ سبحان اللہ کیوں نہیں، ارشاد ہوتا ہے۔ ہاں ہاں خوب کھایئے بہت ہے۔ جی ہاں خوب سیر ہوکر کھایا۔ نہیں نہیں آپ تکلف کرتے ہیں۔ فلانے چلو مولانا کو قورمہ اور دو۔ لیکن فلانے کو پکاریں گے اور قورمہ کا آرڈر اس طور پر دیں گے گویا مولانا کو پٹوا دینے کا ارادہ ہے، قورمہ پلیٹ میں ڈال دیا گیا اور مولانا کو قورمے سے نفرت ہونے لگی۔ ارشاد ہوگا، مولانا یہ باورچی اب دہلی میں اکیلا رہ گیا ہے۔ اس کا دادا معمولی حجام تھا، والد نے اس کو کھانا پکانا سکھایا۔ وہ خود کھانے کے بڑے شائق تھے۔ اب اس کا ثانی دور دور نہ ملے گا۔ بس مولانا قورمہ کھا لیجیے۔ یہ چیز اب معدوم ہوتی جاتی ہے۔ غرض مولانا کو اس شفقت اور تپاک سے کھلائیں گے گویا اپنے والد مرحوم کے فاتحہ کا کھانا کسی نابینا حافظ کو کھلارہے ہیں۔
دوسری آفت ملاحظہ ہو بعض میزبان حماقت اور محبت کے سلسلے میں اصرار کرتے کرتے کھانا آپ کی پلیٹ میں ڈال دیں گے اور فرمائش کریں گے۔ کھایئے میرے سر کی قسم کھایئے حالانکہ اس وقت جی یہی چاہتا ہے کہ پلیٹ سر پر مار لیجیے اور گریبان پھاڑ کر کہیں بھاگ جایئے۔ ایسی دعوت سے مجھ کو قلبی نفرت ہے، جہاں میزبان بار بار کھانے کے لیے اصرار کرے اور اپنے ہاتھ سے میری پلیٹ میں کھانا رکھ دے اور کہتا یہ رہے کہ آپ کو کھانا پسند نہیں آیا آپ کے لیے کچھ انتظام نہ ہوسکا۔ بھائی جلدی میں یہی دال دلیا ہوسکا۔ آپ نے کچھ بھی تو نہیں کھایا۔ حالانکہ اس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ میں نہ کہوں کہ ایسا کھانا مجھے تو کیا میرے سات پشت کو نصیب ہوا اور نہ ہوگا اور آپ نے جس مروت اور ایثار کا ثبوت دیا ہے اس کی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی۔
بعض دعوتوں میں عجیب قسم کے بدتمیزوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض کھانا نہیں کھاتے منہ میں جوتیاں چٹخاتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو ساری انگلیاں سالن میں ڈبو دیں گے اور منہ میں لقمے کی پذیرائی اس طور پر کریں گے جیسے سرکس کے گھورے کو چابک لگاتے ہیں کچھ ایسے ہوتی ہیں جو بدحواس ہوکر بہت زیادہ حصہ پلیٹ میں لے لیں گے تھوڑا کھائیں گے اور بقیہ کو گھنگول کر چھوڑ دیں گے ڈونگے میں سے بوٹیاں چمچے سے نکالنے کے بجائے ٹٹول ٹٹول کر انگلیوں سے نکالیں گے۔ کبھی پلیٹ میں نکالی ہوئی بوٹیوں کو پھر ڈونگے میں ڈال دیں گے، پانی پئیں گے تو معلوم ہوگا گویا بھری بوتل حلق میں انڈیلی جارہی ہے اور گلے سے قلقل مینا کا کام لے رہے ہیں۔ کچھ لوگ چپاتی کے حاشیے توڑ توڑ کر دسترخوان پر انبار لگادیں گے۔ سنی ہوئی انگلیاں روٹی سے پونچھیں گے اور ڈکار اس طور پر لیں گے جیسے دوسرے کے دستر خوان پر نہیں اپنی چارپائی پر ہیں۔
کچھ اس طور پر کھائیں گے گویا اپنے گھر کھانے کو نہیں ملتا۔ دوسروں کے دسترخوان پر نازک مزاجی یا بددماغی کا ایسا ثبوت دیں گے گویا وہ بیک وقت اردو کے حق بخشوائے ہوئے شاعر بھی ہیں اور نالائق افسر بھی!
اور خدا اس دعوت سے بھی ہر بھلے مانس کو بچائے جس میں تقریر کی جانے والی ہو لیکن مقرروں میں بھانڈوں کی محفل اور شرفا کی مجلس میں امتیاز کرنے کی صلاحیت نہ ہو!

حصہ