بالوں کی دیکھ بھال

469

بالوں کی اہمیت‘ حفاظت جسم کے ساتھ ساتھ آرائش و زیبائش کے لیے بھی ہمیشہ سے رہی ہے حتیٰ کہ اگر کسی کے سر کے بال گر جائیں تو و ہ اپنی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مصنوعی بال لگانے میں بھی تکلف نہیں کرتا حالانکہ عام حالات میں کسی دوسرے شخص کی استعمال شدہ چیزیں خواہ ان کو کتنا ہی صاف کر لیا گیا ہو‘ برتنے پر آمادہ ہونا مشکل ہے۔ بال کا جب کیمیاوی تجزیہ کیا گیا تو پتا چلا کہ ان میں بھی تقریباً وہی اجزا موجود ہیں جو ناخنوں‘ کھروں پرندوں کے پروں و پنجوں نیز ہماری کھال کی بیرونی سطح میں ہوتے ہیں۔
یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہے کہ کوئی خاتون جن کے سر پر گھنے‘ لمبے اور باریک بال ہوں جب وکنگھا کر رہی ہوتی ہیں تو ان کے ہاتھ میں مجموعی طور پر 172 کلو میٹر لمبے بال ہوتے ہیں اگر ہر ایک بال کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا جائے تو ان کا ایک سرا کراچی میں ہوگا اور دوسرا حیدرآباد پہنچ جائے گا۔
بال کے بڑھنے کا بہت کچھ انحصار انسان کی عمر‘ صحت‘ پیشہ اور موسم پر ہوا کرتا ہے۔ اوسط عمر اور نوجوانی میں بال بہت تیزی کے ساتھ بڑھا کرتے ہیں۔ اسی طرح سے ان لوگوں کے بال بھی تیزی کے ساتھ بڑھتے ہیں جو چست و چالاک ہوں اور جن کی عام صحت بہتر ہو۔ سترہ سے چوبیس سال کی عمر تک یہ زیادہ بڑھا کرتے ہیں۔ رات کے مقابلے میں دن ان کے بڑھنے کے لیے مناسب ہوتا ہے۔ موسم کے لحاظ سے گرم موسم سازگار ہوتا ہے۔
بال کے ریشہ دار حصے میں مخصوص رنگ دار مادہ پیدا ہوتا ہے اور اس کی کمی و بیشی پر بالوں میں جدا جدا طور پر رنگ پائے جاتے ہیں۔ اس مادے میں زرد‘ سرخ اور سیاہ رنگ کے ذرے ملتے ہیں۔ اگر بالوںکا رنگ بالکل سنہری یا زرد ہو تو ان میں محض زرد ذرے پائے جاتے ہیں۔ سرخ رنگ کے بالوںمیں سرخ ذرے ہوتے ہیں مگر ان میں کسی حد تک زردی بھی شامل ہوتی ہے۔ سیاہ بال میں زردی سیاہی کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے مگر سیاہی سب پر غالب ہوتی ہے اس لیے سفید رنگ کے بالوںکو جو لوگ سیاہ خضاب سے رنگ دار کر لیتے ہیں وہ غیر فطری نظر آتا ہے اس کے برخلاف اگر ایسا رنگ استعمال کیا جائے جس میں سیاہی کے ساتھ ساتھ کسی حد تک سرخی بھی شامل ہو تو پھر بالوں پر جو رنگ چڑھتا ہے وہ قدرتی رنگ سے قریب تر ہوتا ہے۔
سر پر بالوں کی موجودگی ان کی صفائی ستھرائی اور ان کی آرائش و زیبائش مہذب دنیا میں ہمیشہ سے حُسن کا حصہ سمجھا جاتا رہا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بیشتر افراد اپنے بالوں کے رنگ اور لچک سے مطمئن نہیں ہوتے اسی لیے انہیں اپنی پسند کے مطابق رنگتے رہتے ہیں یا گھنگریالے یا سیدھے کرتے رہتے ہیں۔
دراصل خوب صورت‘ لانبے‘ تن درست اور چمک دار بالوں کے پیدا ہونے کا انحصار بہتر صحت اور ان کی دیکھ بھال پر موقوف ہے‘ انہیں ٹھیک رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بچپن سے ہی بالوں پر اچھی طرح توجہ دی جائے۔ بعض والدین اپنے بچوں کے سر کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔ سر کی جلِد میں جوئوں یا میل کی موجودگی بالوں کی جڑوں کو نہ صرف کمزور کر دیتی ہے بلکہ اس سے طرح طرح کی جلدی امراض پیدا ہو جاتے ہیں جو بالوں کی جڑوں میں منتقل ہو کر انہیں خراب کر دیتے ہیں اس لیے خصوصاً بچوں کے سروں کو ہفتے میں دو بار نیم گرم پانی سے اچھی طرح دھونا چاہیے۔ میل اور چکناہٹ کو صاف کرنے کے لیے کوئی شیمپو یا گلیسرین سوپ استعمال کیا جاسکتا ہے اگر اہتمام کیا جاسکے تو آملہ ریٹھا اور سیکا کائی بالوں کو دھونے کے لیے بہترین چیز ہے مگر انہیں پانی میں ابالنا نہیں چاہیے صرف نیم گرم پانی میں تین چار گھنٹے بھگونا کافی ہے۔ بالوں کا طبعی ماحول ترش ہوا کرتا ہے جس کی وجہ سے بالوں کی جڑوں میں جراثیم پرورش نہیں پا سکتے۔ جب بار بار صابن شیمپو استعمال کیا جاتا ہے تو وہ ترش ماحول دھل جاتا ہے اور بیماریوں کے لیے راہ ہموار ہو جاتی ہے آملہ و سیکا کائی وغیرہ میں یہ خوبی ہے کہ بالوں کو صاف کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں موجود ترش ماحول کو بھی برقرار رکھتی ہیں کیوں کہ یہ خود بھی ترش ہیں۔ اگر کسی وجہ سے انہیں استعمال نہ کیا جاسکے تو پھر بالوں کو صابن یا شیمپو سے دھونے کے بعد تقریباً ایک لیٹر پانی میں آدھا لیموں نچوڑ کر اسے اچھی طرح بالوں میں لگایا جائے اور اس کے بعد سادہ پانی سے سر دھو کر صاف کر لیا جائے۔ ایسا کرنے سے بالوں کو ترش ماحول دوبارہ مل جاتا ہے۔ دھونے کے بعد انہیں خشک کرنا چاہیے۔ ان کے لیے ہیئر ڈرائیر انتہائی نقصان دہ چیز ہے۔ تولیہ سے دبا کر بالوں کا پانی جذب کر لیا جائے اس کے بعد دھوپ میں انہیں ہلا ہلا کر خشک کیا جائے ساتھ ہی کنگھا یا برش پھیرتے جائیں۔ اس طرح بالوں اور ان کی جڑوں کو دھوپ بھی ملے گی جو کہ نہایت ضروری ہے۔ جب وہ پوری طرح خشک ہو جائیں تو جڑوں میں بہت ہلکا ہلکا کوئی تیل لگا کر انہیں سنوار لیا جائے۔ بالوں کو بہت کس کر باندھنا یا پیچ در پیچ طریقوں پر بہت سختی کے ساتھ گوندھنا مناسب نہیں ہوتا بلکہ اس احتیاط کے ساتھ انہیں آراستہ کیا جائے کہ جڑوں پر زور نہ پڑے۔ رات کے وقت انہیں بالکل کھول دینا چاہیے۔
کنکھی کا انتخاب کرتے وقت بڑی توجہ اور احتیاط کی ضرورت ہوا کرتی ہے حالانکہ یہ ایک معمولی سی بات معلوم ہوتی ہے اور اسی وجہ سے کم ہی لوگ اس طرف توجہ دیتے ہیں لیکن غیر مناسب کنگھی یا برش سے بھی بالوں کو حد درجہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر کنگھی کے دندانے بہت سخت ہوں گے تو نہ صرف یہ کہ جلد چھل جائے گی بلکہ بالوںکی جڑیں بھی متاثر ہوں گی۔ برش بھی عمر کے لحاظ سے نرم یا سخت ہونے چاہئیں‘ بچوں کے لیے نرم برش استعمال کرنا چاہیے اور جوں جوں عمر بڑھتی جائے‘ قابلِ برداشت سخت برش لیے جا سکتے ہیں۔ برش کے دندانے اگر اونچے نیچے ہوں تو بہت مناسب ہے اس طرح سر کے ایک ایک بال میں کنگھی ہو جاتی ہے۔ عام طور پر بازاروں میں جو کنگھیاں ملتی ہیں وہ بہت ادنیٰ قسم کے پلاسٹک سے بنائی جاتی ہیں۔ ہاتھی دانت یا سینگ سے بنی ہوئی بہت اچھی رہتی ہیں۔ برش اگر استعمال کیے جائیںتو نرم برش بالوں سے بنے ہوئے اور سخت برش اسٹیل سے بنے ہوئے مناسب ہوا کرتے ہیں۔
ہمیشہ ایسے کنگھے اور برش استعمال کرنے چاہئیں جن کی سطح بالکل ہموار ہو اور ان کے سرے گولائی لیے ہوئے ہوں۔ دوران استعمال اگر کوئی دندانہ ٹوٹ جائے یا ٹیڑھا ہو جائے تو اسے اچھی طرح بالکل جڑ سے الگ کر دینا چاہیے۔ اس کی توڑنے سے جو جگہ باقی بچے گی اس سے نقصان نہیں ہوگا۔
اکثر ممالک میں بالوں کو طرح طرح سے رنگنے کا رواج دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔ بالوں کو فیشن کے لیے رنگا جائے یا کسی مجبوری کی وجہ سے‘ دونوں صورت میں انہیں نقصان ہی پہنچتا ہے اور یہ عمل بالوں کی جڑوں کو کمزور کر دیتا ہے کیوں کہ جتنے خضاب یا لگانے والے لوشن ملتے ہیں سب میں تیز کیمیاوی اجزا یا سیسے کے اجزا شامل ہوتے ہیں جن سے رفتہ رفتہ بالوں کی قدرتی چمک زائل ہو جاتی ہے‘ جڑیں کمزور ہو جاتی ہیں اور بال گرنا شروع ہو جاتے ہیں جو خواتین محض نمائشی طور پر بالوں کو رنگتی ہیں وہ بہت جلد یا تو اپنے بالوں سے ہی ہاتھ دھو لیتی ہیں یا ان کی قدرتی چمک ماند پڑ کر قبل از وقت سفید ہونا شروع ہوجاتے ہیں یہی نہیں بلکہ بعض کیمیاوی اجزا جلد میں جذب ہو کر رعشہ اور اعصابی درد پیدا کر دیتے ہیں۔
اس کے پیدا ہونے کا بنیادی سبب سر کی جلد میں دورانِ خون کی کمی یا اس کا بگاڑ ہے اسی وجہ سے وہ لوگ زیاد متاثر ہوتے ہیں جنہیں جلدی امراض ہوں یا جو بیٹھ کر زیادہ کام کرتے ہوں اور ورزش سے غفلت برتتے ہوں۔ دیہات میں جہاں محنت و مشقت کی زندگی بسر کی جاتی ہے اور خالص غذا استعمال ہوتی ہے‘ یہ مرض بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔
اس کے علاوہ تیز اور لمبے بخاروں مثلاً ٹائیفائیڈ‘ انفلوائنزا اور دق وغیرہ کے بعد بھی بال گرنا شروع ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات سب بال جھڑ جاتے ہیں۔ آتشک‘ ذیا بیطس اور سر کی جلد میں خشکی ہونے سے بھی بال کم ہونے لگتے ہیں۔ بعض اوقات مخصوص ہارمونز اور وٹامنز کی کمی اس کا سبب ہوا کرتی ہے خصوصاً وٹا من اے اور بی اگر غذا میں کم ہوں تو بال خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
اگر موروثی طور پر یا عمر کی وجہ سے بال گر رہے ہوں تو پھرانہیں روکنا محال ہے اور یہ لاعلاج ہے۔ اگر عام بیماریوں کی وجہ سے یہ صورت پیش آرہی ہو تو ان کا علاج کیا جائے مرض رفع ہو نے اور کمزوری دور ہونے پر دوبارہ بال نکل آتے ہیں۔ غذا کی خرابی سے ہو تو غذا میں دودھ‘ بالائی‘ انڈے کی زردی‘ کلیجی‘ تازہ سبزیاں خصوصاً بند گوبھی‘ گاجر ‘ ٹماٹر‘ پالک‘ سلاد کا استعمال بڑھا دیا جائے اگر سر میں خشکی پیدا ہو جائے یا جلدی امراض کے نتیجے میں بال گر رہے ہوں تو ریٹھے پانی میں بھگو کر ا سے بال دھوئے جائیں اور انہیں اچھی طرح کنگھی سے خشک کرکے روغن لگایا جائے۔ اگر سر کی طرف دوران خون کی کمی اس کا سبب ہو تو انڈے کی زردی کا تیل لگانا مفید ہوگا یا خالص سرسوں کا تیل بھی فائدہ کرے گا۔ ماش کی دال پانی میں بھگو دی جائے اور اس میں بیری کے تازہ پتے ملا کر باریک پیس لیں اور انہیں اچھی طرح سر پر ملا جائے اور پندرہ بیس منٹ بعد سر دھویا جائے۔ یہ تدبیر بھی مفید ہوا کرتی ہے۔ دراصل بالوں کے گرنے کے اسباب اس قدر ہیں کہ ایک ہی دوا سے ہر مریض کو فائدہ ہونا دشوار ہوتا ہے۔ اگر مذکورہ تدابیر سے فائدہ نہ ہو تو باقاعدہ کسی معالج کے مشورے سے ہی علاج کرنا چاہیے۔

حصہ