بیوقوف بھیڑیا

184

ایک گدھا کسی ہرے بھرے کھیت میں چر رہا تھا کہ کہیں سے ایک بھوکا بھیڑیا ادھر آنکلا۔ بھیڑئیے نے غراتے ہوئے گدھے کو ڈانٹا ’’چل، ادھر آ، میرے ناشتے کا سامان بن ،صبح سے بھوکا پھر رہا ہوں اور تو یہ ہری ہری گھاس اڑا رہا ہے۔‘‘ گدھے کو چالاکی سوجھی، اس نے لنگڑاتے ہوئے چند قدم بڑھائے اور بڑے زور سے ہائے کی ’’اوہ! اوہ! جناب بھیڑیئے صاحب! آپ مجھے کھا تو ضرور لینا مگر مہربانی کر کے میرے کھر میں سے یہ کیل تو نکال دیجئے، شدید تکلیف ہو رہی ہے، ہائے میں مرا ہائے۔‘‘ بھیڑیئے نے کہا ’’بھلا مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں تم پر رحم کروں۔‘‘ گدھے نے کہا ’’جناب! آپ کے بھلے کے لئے کہہ رہا ہوں، فرض کیجئے آپ مجھے کھانا شروع کردیتے ہیں اور اگر یہ کیل آپ کے حلق میں اٹک گئی تو؟‘‘
بھیڑئیے نے ذرا فکر مندی سے سوچا کہ گدھا کہتا تو واقعی ٹھیک ہے، جب یہ چھوٹی سے کیل اس کے پاؤں میں اتنی تکلیف دے رہی ہے اور خدا نہ خواستہ اگر میرے حلق میں اٹک گئی تو میرے حلق کا کیا حشر ہوگا؟ میں تو مفت میں مارا جاؤں گا، چلو ٹھیک ہے، اس کی کیل نکال کر ہی کھاؤں تو اچھا رہے گا ’’لاؤ اپنا پاؤں‘‘ بھیڑیئے نے گدھے سے کہا۔ گدھے نے فوراً اپنا ایک پیر ذرا اوپر اٹھا لیا۔ بھیڑئیے نے کہا ’’بتاؤ کہاں سے کیل، مجھے نظر نہیں آرہی‘‘ گدھے نے پھر ایک بار ہائے کہا ۔ ’’ذرا قریب آکر غور سے دیکھئے جناب، ہائے میں میرا۔‘‘ جیسے ہی بھیڑیا کیل دیکھنے کے لئے اور قریب آیا تو گدھے نے اپنے دوسرے پاؤں سے بھیڑئیے کے منہ پر پوری طاقت سے لات جمادی۔ لات اتنے زور سے لگی کہ بھیڑیا دور جاگرا اور اس کے سارے دانت ٹوٹ گئے اور وہ بری طرح زخمی ہوگیا۔ اب وہ بھلا گدھے کو کیا خاک کھاتا۔ بھیڑیا درد کے مارے تڑپنے لگا اور اپنے دل میں کہا کہ ’’افسوس! اس گدھے کو دھوکے میں مارا گیا، میں کوئی ڈاکٹر تو ہوں نہیں جو اس کی کیل نکال دیتا، صد افسوس، اپنے دانت ہی گنوا بیٹھا۔‘‘

حصہ