جٹ بمقابلہ جوئے لینڈ

434

جب ’اسلامی جمہوریہ ‘ہوا تو اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ اب اسلامی جماعتیں‘ اسلامی اسکول‘ اسلامی بینکنگ‘ اسلامی علاج‘ اسلامی حجاب‘ اسلامی اخبار‘ اسلامی چینل‘ اسلامی ڈراموں اور اسلامی فلموں جیسی چیزوں کا بھی معاشرے میں نفوذ ہو۔ میں سچ بتا رہا ہوں کہ پاکستانی فلمیں بڑے عرصے تک تلاوت سے شروع ہوتی تھیں۔ پی ٹی وی کی نشریات تو یاد ہی ہوگا کہ بصیرت سے شروع اور فرمان الٰہی پر ختم ہوتیں۔ اتفاق سے یہ جو پاکستانی فلم مولا جٹ ہے جو پہلی بار 1979 میں بنی تھی، وہ فلم بھی پہلے تلاوتِ قرآن پھر حضرت سلطان باہوؒ کی شان میں شعر سے شروع ہوتی ہے۔ یہی نہیں اس فلم کے آغاز میں انسان کی پیدائش کے قرآنی مقاصد باقاعدہ بتائے جاتے ہیں کہ فلم کی کہانی اس آیت کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔ یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سب سے مشہور ترین ’’جائز اسلامی فلم‘‘ کے اہم نکات۔ تو لیجیے اس کے بعد اب ’’اسلامی حلال شراب‘‘ کو بھی ویلکم کرلیں۔ متذکرہ ترتیب کے لحاظ سے اور طلاق و خلع کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر اگلی پیشکش ’اسلامی زنا‘کا بھی غالب امکان لگتا ہے۔ سوشل میڈیا پر لاہور کے ایک ریستوران کی اس تصویر میںنمایاں halal Beer Bar تو یہی پیغام دے رہا ہے۔ مطلب ’’خالص حلال بیئر‘‘ دستیاب ہے مکمل حرام والی شراب جیسے اہتمام کے ساتھ ، خوب مزے لے کر اُسی ماحول میں کھلے عام خرید کر پی جا سکتی ہے۔ نام نہاد ماہرین کے بقول اس میں بظاہر کوئی نشہ یا الکوحل شامل نہیں مگر سب جانتے ہیں کہ اس کی حقیقی شہرت کیا ہے؟ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب یہ اس طرح عام ہوگی تو یہ مشروب کی مانند بہ کثرت استعمال ہوگی۔ یہی منصوبہ ہے یہی طریقہ رہا ہے۔ حرام حلال کی تمیز ختم ہوگی تو اس میں ازخود خالص شراب مکس ہونا شروع ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی شکل بالکل غیر مسلم ممالک جیسے ’’بار‘‘ مطلب شراب خانہ کی مانند بنائی گئی ہے۔ یہاں تک کہ گلاس اور پیشکش کا انداز بعینہ شراب کے جیسا ہے۔ مسلمان حلال بیئر پی کر محسوس کرتے ہیں کہ ہم گویا کسی غیر اسلامی ملک میں ہیں اور گویا ہم ان کا حصہ ہیں۔ بالفاظ دیگر ایک طرح کا فخر محسوس کیا جاتا ہے، چنانچہ جن مقامات پر لاہور میں یہ بار کھولے گئے ہیں وہ چائے کیفے ہیں جہاں بڑی تعداد میں نوجوان جاتے ہیں۔ گویا سب سے پہلا ہدف نوجوان نسل ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا نتیجہ ہے کہ اب یہ صرف لاہور کے کئی مقامات پر پھیل چکا ہے جیسا ہم حقہ، شیشہ، ویپ کے سلسلے میں دیکھتے آئے ہیں۔ اب کراچی ہدف ہے۔ ان سب چیزوں کا انجام یہ ہوا ہے کہ منکرات کے خلاف مزاحمت معاشرے سے ختم ہوتی جا رہی ہے، جو رہ گئی ہے وہ بھی بہت محتاط قسم کی ہے۔ ہیلوئین سے لے کر ویلنٹائن، کرسمس سے لے کر ہولی‘ بلیک فرائیڈے سے لے کر دیوالی تک کملی سے لے کر جوائے لینڈ تک ، پیرنٹ ایکٹ سے لے کر ٹرانس جینڈر ایکٹ تک معاشرہ اپنے اندر سے مزاحمت کھو رہا ہے۔ یہی استعماری سرمایہ دارانہ نظام ہدف ہوتا ہے کہ لوگ اس کو دل سے قبول کریں اور ان کے عقیدے پر کھڑی ہر قسم کی مزاحمت ایک گالی بن جائے۔
اب ایک تفریح کم تخریبی موضوع پر چلتے ہیں۔ پاکستانی سنیما انڈسٹری پر بہت بات ہوتی ہے اوپر بھی کچھ ہم نے کی، اس کی بحالی کے لیے کئی لوگ اربوں روپے مختلف فلموں کی صورت پھونک چکے ہیں، مگر الحمدللہ لاحاصل ہی رہے۔ اس وقت پاکستانی سنیمائوں پر پنجابی فلم ’’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ کے خوب چرچے ہیں۔ روایتی معاشرے میں فلمائی گئی یہ فلم بہرحال فلم بینوں کے دلوں پر بڑا مقام پا چکی ہے اور 180 کروڑ روپے کی ٹکٹیں فروخت ہو چکی ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس کا اپنا ایک شور ہے‘ مگر یہ ہمارا موضوع نہیں نہ ہی فلم کی جانب راغب کرنا مقصود ہے۔ ہاں تصویر کی دوسری جانب کا منظر دکھانا مقصود ہے۔ وہ یہ ہے سوشل میڈیا پر سینیٹر مشتاق احمد، پاکستان کی معروف درزن ماریہ بی سمیت کئی اور لوگ سنسر بورڈ آف پاکستان کی جانب سے فلم ’جوائے لینڈ‘‘ کے لیے جاری کردہ سرٹیفیکیٹ و اجازت نامہ شیئر کرکے اپنا غصہ نکالتے نظر آئے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ اس فلم کے اہم پاکستانی پروڈیوسر سرمد کو زیادہ نہ جانتے ہوں۔ یہ اور اس کی بہن سکہ بند لبرل ہیں۔ سرمد کی گفتگو اور اس کے پروجیکٹس اس بات کے ثبوت ہیںکہ وہ پاکستان میں مکمل لبرل ایجنڈے کے فروغ کاشعوری آلۂ کار نہیں بلکہ ’’سرخیل‘‘ کے طور پر کام کر رہا ہے اور کرتا رہے گا، جب تک اس کے دَم میں دَم ہے۔ وہ جس کو اپنا حق مانتے ہیں اس کے لیے سب کچھ کریں گے مگر جو لوگ اس کو باطل مانتے ہیں وہ سب درحقیقت بڑی کنفیوژن کا شکار ہیں؟ اسی فلم کے پروڈیوسر سرمد کھوسٹ نے اس سے قبل ایک اور متنازع فلم2019 میں ’’زندگی تماشا‘‘ کے نام سے پاکستان میں جاری کرنے کا اعلان کیا۔ صرف ٹریلر ہی ریلیز ہوا کہ تحریک لبیک کی جانب سے کسی قسم کے خطوط، احتجاجی پوسٹ کے بجائے باطل کو عین اُسی طرح للکارا گیا جیسا کہ اس کا طریقہ دین میں بتایا گیا ہے، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ سنیما تو دور یو ٹیوب پر بھی فلم ریلیز کرے۔ 2022 میں انہوں نے ایسے ہی ایک بے حیا اور گھٹیا موضوع پر فلم ’’کملی‘‘ ریلیز کی مگر اس بار دینی حلقوں میں سے کسی نے توجہ نہیں کی تو فلم روٹین میں چل کر فلاپ ہو گئی، یہ خود ایک اہم مثال ہے وگرنہ یہ فلم اپنے ٹائیٹل، کہانی، بے باکی کے لحاظ سے ’’جوائے لینڈ‘‘ سے بھی بدترین تھی۔ اب سرمد جوائے لینڈ کے ساتھ میدان میں اترا ہے۔
یہ فلم اس نے فرانس میں جاری کی، جہاں کسی فلم فیسٹیول میں اس کو موضوع کے اعتبار سے خاص ’’شیطانی کٹیگری‘‘ میں ایوارڈ دے دیا گیا ہے۔ ایسے شرم ناک ایوارڈ کے لیے فلم کے غیر ملکی و غیر مسلم پروڈیوسر کو توقع ہو سکتی تھی۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ متنازع خاتون ملالہ یوسف زئی کی اس فلم میں بطور شریک ایگزیکٹیو پروڈیوسر گزشتہ مہینے انٹری ہوگئی کہ انہوں نے بھی اپنا نام اس مشن میں ڈلوانا مناسب سمجھا۔ یہ مشن کیا تھا ، آئی ایم ڈی بی کی سائٹ پر موجود فلم کے پلاٹ سے متعلق ایک جملے سے آپ بھی سمجھ لیں۔ ’’یہ لاہور کے متوسط پدر شاہی گھرانے (جہاں باپ کی حکمرانی ہو) کے ایک شادی شدہ مرد (ہیرو)کی ایک فحش رقص کرنے والے مخنث (خواجہ سرا) سے تعلقات (محبت) سے پیدا ہونے والے حالات کی کہانی ہے‘‘۔ فلم کا ٹریلر اسی ہفتے جاری کیا گیا ہے، اب تک کوئی 70 ہزار افراد یہ ٹریلردیکھ چکے ہیں۔ فلم کی پروڈکشن، اداکاری، کہانی، موسیقی واقعی اتنی جان دار ہوگی کہ ناظرین پر اپنے اثرات ڈالے گی۔ عین ممکن ہے کہ یہ اثرات ’ہم جنس پرستی ‘ کے ہوں جس کی سزا شرع اسلامی میں قتل ہے، ا س فلم سے وہی گندگی نارملائز ہوگی جیسے حلال بیئر نارملائز ہوگی اور کچھ نہیں۔ اب سوال پاکستان کے سنسر بورڈ سے ہے کہ جس نے اجازت دیتے ہوئے پوری فلم میں فرانسیسی ایوارڈ کے سوا شاید کچھ نہیں دیکھا۔ فلم کو تفریحی کے ضمن میں دیکھا اور پیش کیا جاتا ہے، مگرسوشل میڈیا پر ناقدین کا کہنا ہے کہ متذکرہ فلم اور اس کا مواد ’تفریحی‘ سے زیادہ ’خاندان کے لیے تخریبی‘ ہے۔ فلم کا مصنف اور ڈائریکٹر ایک ہی ہے جو بچپن سے لاہور میں اپنے گھر سے قریب ایک خواجہ سرا آبادی سے متاثر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی اکثر فلمیں اسی موضوع پر مشتمل رہی ہیں اور اس کام پر اس نے کئی غیر ملکی ایوارڈ لیے کہ وہاں سے تو ایوارڈ بنتا ہے۔
ڈائریکٹر کے مخصوص تجربات کی وجہ سے اس فلم سے ایسا پیغام بھی جائے گا کہ پاکستان میں ہر طرف ٹرانس جینڈر، مخنث، خواجہ سرا بھرے ہوئے ہیں اور معاشرے میں ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی ظلم بھی ہو رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان کے مستقل احتجاجی ٹوئیٹس سے ہمیں پہلے یہ بات معلوم ہوئی کہ بقول سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد ’’اُس وقت تک 28000 لوگ ٹرانس جینڈر قانون سے استفادہ کر کے کارڈ بنوا چکے تھے۔‘‘ بعد ازاں اب دوبارہ اس کی تفصیلات معلوم کرنے پر موجودہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے سینیٹ میں تفصیلی جواب جمع کراتے ہوئے بتایا کہ ’’2018 سے2022 تک صرف 1148 افراد نے کارڈ بنوائے ہیں جب کہ 23 کروڑ کی آبادی میں نادرا کے پاس مجموعی طور پر تمام صوبوں بشمول آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں صرف 2943 ایسے افراد رجسٹرڈ ہیں۔‘‘ جی بہ مشکل 3000 افراد۔ یہ ہے 28000کی اصل دستاویزی، سرکاری حقیقت،جسے جوائے لینڈ کے ذریعہ مزید طاقت دی جائے گی۔
مگر اس سلسلے کی دوسری بات یہ ہے کہ جوائے لینڈ سے زیادہ فحش موضوعات و مناظر پر مبنی فلمیں ویسے ہی عام ہیں، سب کی رسائی میں ہیں، مگر اس پر کبھی کوئی آواز نہیں اٹھی ،جوائے لینڈ تو پاکستانی سنیما پر جاری ہوگی۔ اس سے قبل کئی ویب سیریز اور پاکستانی ڈرامے سمیت اس خاندانی تباہی کے ایجنڈے کو ہی لے کر چل رہے ہیں۔
اب یہ الگ سوال ہے کہ پاکستان میں اس وقت سنیما کتنے لوگ جاتے ہیں؟ پاکستان میں سنیما کی تعداد کتنی رہ گئی ہے؟ جو لوگ سنیما میں فلمیں دیکھنے کے عادی ہیں وہ پہلے ہی اس جیسی یا ’’اس سے بڑھ کر‘‘ فلمیں عام طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کی کون سی اصلاح یا ان کی تربیت خراب ہو جائے گی جوائے لینڈ دیکھ کر؟ اس حقیقت کا کوئی جواب دے گا؟ اسلامی معاشرے میں سنیما کی موجودگی اور اس میں دکھائی جانے والی فلموں میں مرد عورت کے درمیان جنسی جذبات سے بھر پور محبت کا سبق دیا جاتا ہے‘ کیا وہ ہمیں اسلامی معاشرت کے مطابق قبول ہیں؟
جوائے لینڈ، غیر فطری جنسی اختلاط کو پروموٹ کرنے کے ساتھ ساتھ دین کی اساسی بنیادوں کے عوامی فہم پر بھی ضرب لگائے گا، تشکیک پیداکرے گا۔ مولا جٹ جتنا پدر شاہی پلاٹ ہے اورعوام میں غیر معمولی پذیرائی پا چکا ہے اس کے مقابلے میں جوائے لینڈ اس کے اثرات کو ’جدیدیت‘ کے ذیل میں توڑنے کا کام کرے گا کیوں کہ مولا جٹ روایتی دیہی معاشرت میں بنائی گئی ہے۔
پدر شاہی کی اصطلاح، درحقیقت فیمن ازم کی شیطانی تحریک کا پیدا کردہ خوف ہے جو شر ع اسلامی کی روح ’مرد کی قوامیت‘ کو ایک دائرے میں ضرب لگاتا ہے۔ انسانوں کی ساری تاریخ میں مرد بہ معنی باپ ، بھائی، شوہر ہی بنیادی طور پر گھر،خاندان کا سربراہ اور حکمران ہوتاہے۔ دین نے بھی مرد کو گھر،خاندان کا قوام بنایا ہے کہ اس کی ذمے داریاں الگ نوعیت کی ہیں جبکہ عورت کو کئی رعایت و رخصت دی گئی ہیں۔
تو ایسے میں کیا آپ جانتے ہیں کہ مخالفت کا نام لے کر درحقیقت فلم کی مفت پروموشن کی جا رہی ہے۔ یہ تو ہمارا پرانا سادہ اصول ہے کہ جس کی مخالفت کی جائے وہ آٹو میٹک مقبولیت پاتا ہے۔
میں نے ذکر کیا تھا گزشتہ ہفتہ ہیلوئین کی 2 تقریبات کو اسی ضمن میں رکوایا گیا۔ فلم زندگی تماشا رکوا دی گئی۔ بعینہ اسی طرح جوائے لینڈ بھی رکوائی جا سکتی ہے نا کہ شعور عام کرنے کے لیے فلم کی منفی پروموشن کی جائے جو اس کے حق میں ہی جاتی ہے۔ جمہوریت میں احتجاج کا حق ویسا ہی ہوتا ہے جیسا وہ اجازت دیں یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بہت ہی اہم معاملے پر ’’امریکا‘‘ کے خلاف ریلی بھی لوگ وہیں تک کرتے ہیں جہاں تک وہ آنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں اگر فحش موضوع پر مبنی فلم کی نمائش رکوانی بھی ہو تو وہی طریقہ استعمال کریں گے جس کی جتنی اجازت وہ خود دیں گے۔ مگر شرع اسلامی میں باطل کو مٹانے کا‘ اس کو ختم کرنے کا طریقہ ایک ہی بتایا گیا ہے کہ ’’اگر وہ غلاف کعبہ کے پیچھے بھی پائے جائیں تو۔‘‘
اس ہفتے بھی ارشد شریف کے لیے تحقیقات دیکھ کر پاکستان کے لاکھوں مقتولین ، بڑے بڑے علمائے کرام، ڈاکٹرز، سیاست دان یاد آتے ہیں جن کے قتل کی تحقیقات تو دور شاید درست ایف آئی آر تک نہیں کاٹی گئیں۔ ویسے ایف آئی آر توعمران خان کے حملے کی بھی درست انداز سے نہیں کٹی جس نے شکوک بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ عمران خان اور ان کی جماعت پاکستانی سوشل میڈیاکا لازمی جزو بن چکے ہیں، اس پر کیا بات کریں۔ سوشل میڈیا عمران خان کی ٹانگ میں لگنے والی دو یا چار گولیوں کے مباحث ، گولی کے طریقۂ کار ، پکڑے جانے والے شخص کی وڈیوز سے بھرا رہا۔ میم بنانے والوں نے خوب پذیرائی لی اور مال بنایا۔ ورلڈ کپ کی وجہ سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کا بھی سوشل میڈیا پر رنگ خوب جما رہا۔سیلاب متاثرین البتہ اب بھولی بسری کہانی بنتے جا رہے ہیں۔

حصہ