ٹوئٹر ،اسلاموفوبیا اور آزادی اظہار ،کا تزویراتی کا تعلق

307

ایف آئی اے کی سال 2000ء کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں مسلمانوں میں خلاف نفرت کے 29 واقعات ہوئے۔ ایسے ہی آسٹریلیا میں 80 فیصد مسلمانوں کو نفرت انگیز سلوک کا سامنا کبھی نہ کبھی کرنا پڑا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زیادہ تر مواد آن لائن نظر آنے لگا۔ حالیہ تحقیقات کے مطابق اسلامو فوبیا اصل زندگی سے زیادہ انٹرنیٹ پر موجود ہوتا ہے۔ سماجی ماہرین کے مطابق ’’ڈیجیٹل اسلامو فوبیا‘‘ جس میں نفرت انگیز مواد مسلمانوں کے خلاف آن لائن شائع کیا جاتا ہے‘ اس گمراہ کن آن لائن نفرت کے نتیجے میں مسلمانوں پر اصل زندگی میں حملے اور تشدد بڑھتا جا رہا ہے۔ زیر نظر مضمون ایک جامع تحقیقی رپورٹ کا نچوڑ ہے۔ یہ تحقیق اسلامک کونسل آف ویکٹوریا (جو کہ آسٹریلیا میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے) نے کروائی ہے جس کا عنوان ہے ’’اسلامو فوبیا ان دی ڈیجیٹل ایج‘‘ اس تحقیق میں 2019ء سے 2021ء کے دوران کیے گئے 6,303,114 ٹوئیٹرز کا جائزہ لیا گیا کہ ٹوئیٹر کے ذریعے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف کس قدر نفرت انگیز مواد آن لائن شائع کیا گیا ہے۔
…٭…
پچھلے چند ہفتوں سے دنیا کی چند بڑی خبروں میں سے ایک خبر یہ بھی ہے کہ دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے ٹوئیٹر خرید لیا ہے بلکہ جب ان سطور کو لکھا جارہا ہے اس وقت تک ایلون مسک نے ٹوئیٹر میں بڑی انتظامی تبدیلیاں بھی شروع کر دی ہیں۔ شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایک سولہ سال پرانے کاروبار کے لیے 44 ارب ڈالر ادا نہ کرنا اور ایک ایسے پلیٹ فارم کے لیے جو اپنے حریفوں کے مقابلے میں زیادہ ترقی اور منافع نہیں کما سکا۔ وہ کیا یہ ایک گھاٹے کا مواد ہے یا پھر نئی حکمت عملی دنیا کو کنٹرول کرنے کی؟ اصل میں ایلون مسک کا کہنا ہے کہ وہ ٹوئیٹر کی غیر معمولی صلاحیت کو پوری طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ٹوئیٹر کے نئے آقا تو یہاں تک کہہ چکے کہ ٹوئیٹر پر زیادہ اظہار رائے کی آزادی اور ملائم کنٹرول دیکھنا چاہتے ہیں اسی لیے انہوں نے ٹوئیٹر کا کنڑول سنبھالتے ہی اس بات کا اعلان کیا کہ وہ بہت جلد ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئیٹر اکائونٹ بحال کر دیں گے۔ (یاد رہے کہ پچھلی ٹوئیٹر انتظامیہ نے نفرت انگیز ٹوئیٹر کرنے کی وجہ سے ٹرمپ کا اکائونٹ بلاک کر دیا تھا۔) امریکا میں ری پبلکن بہت خوش ہیں کہ ایلون مسک جیسض مکمل آزادیٔ اظہار کے پر زور حامی شخص نے ٹوئیٹر خرید لیا کیوں کہ ٹوئیٹر کی نسبتاً اعتدال پسند پالیسیاں (یہ بات ہم آگے چل کر بتائیں گے کہ وہ پالیسیاں کس کے لیے اعتدال پسند اور کسی کے لیے نفرت انگیز اور جارحانہ ہے۔) بائیں بازو کے ماننے والوں کے خیالات کے تو حق میں ہے لیکن دائیں بازو والے ان پالیسیوں سے متفق نہیں۔ اسی لیے ری پبلکن اس نئے تجارتی معاہدے اور دلیل سے خوش ہیں۔
مگر راقم الحروف یہاں جس تحقیق کے بارے میں بتائے گا یہ اس وقت کی ہے جب ایلون مسک ٹوئیٹر کے مالک نہیں تھے اور جب ٹوئیٹر کی پالیسیوں کو اعتدال پسند کہا جاتا تھا تب بھی یہ صورت حال تھی کہ امریکا‘ برطانیہ اور ہندوستان ان تین ممالک میں تھے جن کے یہاں سے تین سال میں ٹوئیٹر پر 86 فیصد مواد اسلام مخالف یا مسلمانوں کے خلاف پوسٹ کیا گیا۔ تحقیق کار اور بھارت میں ٹوئیٹر صارفین‘ بھارتیہ جنتا پارٹی پر الزام لگاتے ہیں کہ بی جے پی کے لوگ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد پھیلاتے اور شائع کرتے ہیں۔ بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور جھوٹے پروپیگنڈے کو اتنا باقاعدہ‘ منظم اور معمول کے مطابق کر دیا ہے کہ تقریباً 55 فیصد مواد ٹوئیٹر پر مسلمانوں کے خلاف بھارت سے پیدا ہوتا ہے۔
امریکا میں تو ٹوئیٹر اور مسلمانوں کے خلاف مواد کو الگ کرنا اب مشکل نظر آتا ہے اور یہ انتہائی منظم نفرت انگیز مہم ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔ ٹرمپ کے مطابق اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہ اس معاملے میں دنیا میں تیسرے نمبر پر ہیں کہ جب بھی ٹوئیٹر پر ’’اینٹی مسلم‘‘ ٹوئیٹ کیا جاتا ہے تو ٹرمپ کا ذکر یا حوالہ ضرور ملتا ہے۔ ٹرمپ امریکا کے ’’ڈیمو کریٹ‘‘ پر یہ الزام بھی لگاتے رہے ہیں کہ ڈیمو کریٹ اسلام پسندوں کے ساتھ مل کر مغرب پر مکمل کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔
اس تحقیق کے مطابق جو تیسرا ملک دنیا میں سب سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف ٹوئیٹز کرتا ہے وہ ہمارا سابقہ آقا یعنی برطانیہ ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات رپورٹ میں بتائی گئی ہیں جس میں برطانیہ کا امریکا اورٹرمپ کے زیر اثر ہونا‘ مہاجرین اور پناہ گزینوں کے خلاف جذبات اور وہ بیانیہ جو ’’بریگزٹ‘‘ کا باعث بنا۔ سابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو بھی اس تحقیق میں اسلامو فوبیا پیدا کرنے اور بڑھانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ وہی بورس جانسن ہیں جنہوں نے ایک برقع پوش مسلم خاتون کو ’’لیٹر بکس‘‘ کہا تھا۔
محققین نے اسلام مخالف یا مسلمان مخالف ٹوئیٹز کا جائزہ لیا تو محققین کو بہت سے ملتے جلتے موضوعات کی نشاندہی ہوئی جن پر زیادہ تر ٹوئیٹ ان تین ملکوں سے کیے گئے اور ان تین ملکوں سے کیے گئے ٹوئیٹز میں ایک خاص ہم آہنگی نظر آئی جیسے کہ اسلام اور دہشت گردی کا تعلق‘ مسلمان جنسی تشدد کرتے ہیں‘ یہ خوف کہ مسلمان مغرب سے سفید فام اور بھارت سے ہندوئوں کو نکال دیں گے۔ اب ہم ان تمام موضوعات کا جائزہ لیں گے جن کی بنیاد پر اسلامو فوبیا مواد ٹوئیٹر پر شائع کیا گیا۔
دہشت گردی:
تحقیق کاروں کے ڈیٹا کے مطابق اسلام کا دہشت گردی سے تعلق سب سے زیادہ جوڑا گیا۔ اس نفرت انگیزی کا آغاز تو 9/11 کے بعد سے ہوا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال 2000ء سے 2019ء کے درمِیان ایک توہین آمیز اصطلاح ’’ریڈیکل اسلام‘‘ کے استعمال میں انٹرنیٹ پر 182.5 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح مسلمان مخالف ٹوئیٹز میں کِل‘ اٹیک اور جہاد جیسے الفاظ بار بار استعمال کیے گئے۔ عام طور پر ٹوئیٹر پر ’’اسلامسٹ‘‘ جیسے لیبل لگا کر مسلمانوں پر بہتان لگایا گیا۔
جنسی تشدد:
ایک اور استعارہ جو اسلامو فوبیا کے ہتھیار کے طور پر ٹوئیٹر پر تواتر سے استعمال کیا گیا وہ ’’مسلمان مردوں کو جنسی تشدد کا مجرم‘‘ بتایا ایسا عمومی طور پر ’’لو جہاد‘‘ کے نظریے کو مقبول بنانے کے لیے پھیلایا گیا۔ ٹوئیٹر پر یہ نظریہ اتنا مقبول کیا گیا ہے کہ ’’لو جہاد‘‘ اسلام مخالف پیش ٹیگ کا سب سے مقبول اور سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والاہیش ٹیگ بن چکا ہے۔ محققین اس سازشی نظریے کو پھیلانے کا ذمے دار بی جے پی کو ٹھہراتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ بھارتی حکومت اس نفرت انگیز فرضی داستان کو ختم کرنے میں کردار ادا کرتی‘ بی جے پی کی حکومت نے ایک نیا قانون ’’لو جہاد ایکٹ‘‘ کے نام سے بنا دیا ہے جس میں شادی کے ذریعے ’’جبری مذہب کی تبدیلی‘‘ کو سنگین جرم قرار دیا گیا۔
شریعہ:
ٹوئیٹر پر ایک اور موضوع جو اسلام مخالف بہت زیادہ استعمال ہوا وہ یہ کہ مسلمان اس سازش میں مصروف ہے کہ وہ دوسری اقوام پر شریعت کا قانون نافذ کر سکیں۔ تحقیق کار ٹوئیٹر پر اس قسم کے مواد کا ذمہ دار ’’نیوز میڈیا‘‘ کو بھی ٹھہراتے ہیں جس میں شرعی قوانین کو وحشیانہ‘ غیر منطقی اور ظالمانہ نظام کے طور پر بار بار نشر کیا جاتا ہے۔
مسلم پناہ گزین اور مہاجرین:
مسلمان مہاجرین کو موردِ اسلام ٹھہرایا جاتا ہے کہ ان کی وجہ سے ہی معاشی‘ معاشرتی اور سیاسی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ٹوئیٹر پر بار بار ان باتوں کو پوسٹ کیا جاتا ہے کہ امریکا اور برطانیہ میں جرائم‘ دہشت گردی اور بے روزگاری ان مسلمان مہاجرین اور پناہ گزینوں کی وجہ سے ہی بڑھ رہی ہے۔ بھارت میں ’’آبادی بڑھائو جہاد‘‘ کی فرضی داستان تیار کی گئی اور اس کی تشہیر ٹوئیٹر پر کی گئی جس کے تحت مسلمانوں میں آبادی بڑھانے کا رجحان اس لیے زیادہ ہے کہ کیوں کہ ان کو بھارت پر کنٹرول حاصل کرنا ہے اور اگلے پچاس برسوں میں ہندوستان میں مسلمان وزیراعظم بنوانا ہے جب کہ حقیقت اس کے بالکل متضاد ہے کیوں کہ محققین کے مطابق بھارت کے قومی صحت انڈکس کے مطابق مسلمانوں میں شرح پیدائش گزشتہ پندرہ سال میں تیزی سے نیچے گری ہے۔
ہراسانی:
امریکا میں دو مسلمان کانگریس وومن الیہان عمر اور راشدہ طلیب کے خلاف بہت زیادہ نفرت انگیز ٹوئیسٹ کی جاتی رہی ہیں۔ دراصل الیہان عمر کو اسلام مخالف ٹوئیٹز میں بار بار نشانہ بنایا گیا۔ ٹرمپ کے حامی ان مسلمان خواتین کو ’’دی جہاد اسکواڈ‘‘ کہہ کر ٹوئیٹ کیا کرتے تھے۔ بھارت میں دو مسلمان خواتین صحافیوں رعنا ایوب اور عارفہ خانم تیزوانی کو اسلام مخالف ٹوئیٹز میں بار بار نشانہ بنایا جاتا رہا۔
محققین نے ان اسلامو فوبک موضوعات کا اختتامیہ ان الفاظ میں لکھا کہ:
’’ٹوئیٹر‘ مسلمانوں کی عوامی شخصیات کو مذہبی بنیادوں پر ہراسانی اور تضحیک سے بچانے میں مکمل ناکام رہا۔‘‘
ان سب باتوں سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ صرف 14.83 فی صد اسلام مخالف مواد کو ٹوئیٹر سے ہٹایا گیا۔ یہ صرف ایک تحقیق نہیں جو یہ بتاتی ہے کہ ٹوئیٹر پر مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کا ایک تعلق ہے۔ سال 2020ء میں ٹوئیٹر کے ہیش ٹیگز پر ایک اورتحقیق کی گئی تھی جس کا عنوان تھا ’’فرام ہیش ٹیگ تو ہیٹ‘‘ جس میں بتایا گیا تھا کہ مسلمان کے خلاف نفرت پھیلانے میں ٹوئیٹر کا کردار سب سے زیادہ ہے مگر یہ ساری معلومات ٹوئیٹر انتظامیہ کے لیے کوئی نئی نہیں اس لیے کمپنی نے 2020ء میں ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں ایک غیر جانبدار بین الاقوامی ورکنگ گروپ بنانے کا عندیہ دیا جس کو کہ نفرت انگیز موادکے خلاف حکمت عملی بنانا تھی۔ مزید یہ بھی کیا گیاکہ ٹوئیٹر انتظامیہ یہ بھی چاہتی ہے کہ مسلمان مخالف نفرت انگیز مواد کو بھی ہٹایا جائے گا مگر یہ سارے وعدے کبھی ایفا نہ ہوسکے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ سینٹر فار کائونٹرنگ ڈیجیٹل پلیٹ کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا کمپنیز خاص طور پر ٹوئیٹر 89 فیصد مواد جو مسلمانوں کے خلاف تھا اس کے خلاف اقدامات کرنے میں پوری طرح ناکام رہا۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ اگر ٹوئیٹر اسلام مخالف نفرت انگیز مواد کو ہٹانے سے اس طرح انکاری رہا تو مسلمان اقلیتی گروہ پوری دنیا میں غیر محفوظ ہو جائیں گے اور پورے مغرب میں نیوزی لینڈ‘ کینیڈا اور برطانیہ جیسے واقعات مسلم کمیونٹی کے خلاف مزید بڑھتے چلے جائیں گے لیکن شاید مغرب اور امریکا کو مسلم کمیونٹی کے غیر محفوظ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ نہ جانے کیوں ایسے مواقع پر ہمیشہ اقبال کا یہ شعر یاد آجاتا ہے کہ:
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن‘ اندروں چنگیز سے تاریک تر

حصہ