نیند اور ادب

399

اچھے لکھنے والوں نے لکھا کہ وہ اچھا رات کو جاگ کر لکھتے ہیں

نیند کے حوالے سے بل گیٹس نے ماضی میں اپنی پسندیدہ کتابوں کی جو فہرست شیئر کی تھی اُس میں ماہر نیند یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے کے سینٹر فار ہیومن سلیپ سائنس کے ڈائریکٹر میتھیو واکر کی ایک کتاب Why We Sleep بھی شامل تھی، اور انہوں نے اس کتاب کے بارے میں لکھا تھا کہ کتاب نے انہیں اپنے سونے کے طریقوں پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کیا۔
درحقیقت گیٹس نیند کے بارے میں بہت مختلف سوچتے تھے۔ مائیکروسافٹ میں اپنے ابتدائی دنوں کے دوران گیٹس پراجیکٹس کو مکمل کرنے یا ڈیڈلائن کو پورا کرنے کے لیے تمام راتیں، بعض اوقات ایک سے زیادہ راتیں لگاتے تھے۔ گیٹس نے نیٹ فلکس کی دستاویزی فلم ”انسائیڈ بلز برین“ میں کہا ’’ہم کام کے بارے میں سخت تھے، اگر آپ کوڈ کے ایک ٹکڑے پر کام کررہے ہیں، تو اسے مکمل کرلیں، نیند کی فکر نہ کریں۔‘‘ لیکن کتاب پڑھنے کے بعد گیٹس نے لکھا کہ لوگوں کو ”تقریباً یقینی طور پر“ رات میں سات سے آٹھ گھنٹے درکار ہوتے ہیں“۔ گیٹس کے مطابق ”نیند ہمارے جسم کے تمام پہلوؤں کو کسی نہ کسی طریقے سے خدمات فراہم کرتی ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ زندگی کی وہ ساری راتیں جن میں تقریباً آٹھ گھنٹے کی نیند نہ لی اس سے بہت زیادہ نقصان پہنچا“۔ مصنف میتھیو واکر، یو سی برکلے کے سینٹر فار ہیومن سلیپ سائنس کے استاد وضاحت کرتے ہیں کہ ”نیند کو نظرانداز کرنا آپ کی تخلیقی صلاحیتوں، مسائل کے حل، فیصلہ سازی، سیکھنے، یادداشت، دل کی صحت، دماغی صحت، جذباتی تندرستی، قوتِ مدافعت کو کس طرح کم کرتا ہے، یہاں تک کہ آپ کی زندگی کا دورانیہ بھی کم ہوتا ہے۔

بل گیٹس نے اپنے سونے کے کمرے میں کسی بھی ایل ای ڈی لائٹ بلب سے چھٹکارا پانے کی سفارش کی۔ وہ روایتی بلب کے مقابلے میں زیادہ نیلی روشنی خارج کرتے ہیں، جو آپ کی نیند کو متاثر کرسکتی ہے۔ کمرے کا مناسب درجہ حرارت آپ کی بہتر نیند کے لیے ضروری ہے۔ یہاں تک کہ جس پر ہم پہلے بات بھی کرچکے ہیں۔ گیٹس نے 3 بجے سے پہلے ”دوپہر کی مختصر جھپکی“ لینے کا مشورہ بھی دیا ہے۔ گیٹس کا اس ضمن میں کہنا ہے ”یہ ممکنہ طور پر آپ کی تخلیقی صلاحیتوں اور صحت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ آپ کی زندگی کو بڑھا دے گا۔“ بل گیٹس اور اس کی پسندیدہ کتاب کے علاوہ نیند سے متعلق سیکڑوں کتابیں موجود ہیں اور ادب میں ان کا بہت ذکر موجود ہے۔
ادبی دنیا میں نیند:
نیند پر ہمارے ادب میں کئی محاورے موجود ہیں جو روزمرہ استعمال میں بھی ہیں۔ مثلاً: آپ نے پرانے زمانے کی خواتین سے یہ سنا ہوگا کہ ”ہم اپنی بھوک کھانا اپنی نیند“ سونا جانتے ہیں، یعنی کسی کے پابند نہیں ہیں بلکہ آزاد ہیں۔ اسی طرح کہا جاتا ہے ”نیند بھر سونا“ حرام ہوگیا ہے۔ ایک اور محاورہ اکثر سننے کو ملتا ہے ”نیند کافُور ہوجانا“، جس کا مطلب نیند اُچاٹ ہوجانا ہے۔ کہتے ہیں ”نیند سُولی پَر بھی آجاتی ہے“، یعنی نیند ایک فطری عمل ہے جو ہر حالت میں آجاتی ہے، لیکن وہ نیند نہ لیں وہ دائمی ہوتی ہے۔
ادیبوں اور شاعروں کے حواس پر بھی نیند کا ”غلبہ“ رہا ہے۔
رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا کہ:
تھکن کی رات
مجھے بغیر جدوجہد کے خود سونے دو
میرا بھروسہ آپ پر ہے
مجھے اپنی جھنڈا لگانے والی روح کو تیری عبادت کے لیے ناقص تیاری پر مجبور نہ کریں۔
دن کی تھکی ہوئی آنکھوں پر رات کا پردہ تو ہی ڈالتا ہے
بیداری کی ایک تازہ خوشی میں اس کی نظر کی تجدید کرنا
غالب نے کہا تھا کہ :
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
اکبر الٰہ آبادی نے بھی کچھ اسی قسم کا اظہار کیا :
آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت
مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی
امیر خسرو کا شعر ہے :
چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگشتم آخر
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں
انور دہلوی نے کہا :
نیند کا کام گرچہ آنا ہے
میری آنکھوں میں پر نہیں آتی
راحت اندوری نے کہا خوب کہا تھا کہ :
یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو
اسی طرح انگریزی شاعری میں کیلڈ سلیپ (Killed Asleep) کی پہلی جنگ ِعظیم کے موقع پر کہی نظم گئی ہے،جو ایک سوتے ہوئے سپاہی کے بارے میں ہے۔
کافکا نے نیند کو خوابوں کی طاقت کہا تھا ”میرے نیند میں ڈوبنے سے پہلے جاگتی کیفیت میں جگمگاتی ہوئی، جس نے مجھے کبھی سونے نہ دیا“۔ اس کے علاوہ ایک بار نیند کے بارے میں لکھا ”سب سے معصوم مخلوق اور بے خواب آدمی سب سے بڑا گناہ گار“۔ کافکا کی سب سے مشہور کہانی ”میٹامورفوسس“ کا بنیادی موضوع بھی نیند ہے جس کی کمی اس کے مرکزی کردار گریگر کے ذہن کو متاثر کرتی ہے۔
یہ نیند کا ایسا عجیب و غریب معاملہ ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ اچھے لکھنے والوں نے لکھا کہ وہ اچھا رات کو جاگ کر لکھتے ہیں۔
بعض ایسے جانور ہیں جو نیندسے بے پروا ہوتے ہیں، یا کم سوتے ہیں۔ ہاتھی اوسطاً دوگھنٹے سوتے، اور بسا اوقات دو دو دن تک سفر کررہے ہوتے ہیں۔ ہرن ایک دن میں تین گھنٹے سوتا ہے اور کھڑے کھڑے سوجاتا ہے، اور جو پرندے نقل مکانی کرتے ہیں وہ تو دن بھر میں صرف ایک گھنٹہ ہی سوتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا بھی کوئی جانور ہے،جو سوتا نہیں ہے؟ اس پر سائنس دان کوئی حتمی بات کرنے سے قاصر ہیں۔
نیند اور بچوں کی لوریاں:
محبت کے سُروں میں گندھی لوریوں اور نیند کا بچوں کے ادب میں اہم مقام ہے، اس پر ان کے مستقبل کی بنیاد کھڑی ہوتی ہے۔ بچوں کے ادب میں لوری کی اہمیت مروجہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز تقریباً چار ہزار سال قبل عراق میں بابل کی تہذیب میں ہوا تھا۔ہمارے خطے میں بچوں کو لوریاں سنانے کی روایت بہت پرانی اور تاریخی ہے۔مائیں جو لوریا سناتی ہیں اس کے عموماً بول بامقصد ہوتے ہیں اور فضول نہیں ہوتے۔ان لوریوں کی پوری ایک تہذیب ہے،ایسی لوریاں بھی ملتی ہیں جو کہ ایک، دو،چار مصرعوںپر ہی مشتمل ہوتی ہیں ،ان کے الفاظ بڑے سادہ اور عام فہم ہوتے ہیں لیکن معنی بڑے ہوتے ہیں ۔ لوری دراصل ماں اور بچے کے درمیان بات چیت کا عمل ہے اوریہ اچھی نیند لانے کے ساتھبچے کے اندر تہذیب منتقل کررہی ہوتی ہے اور ان کی مستقبل کی فکر کا تعین کررہی ہوتی ہے۔
ہمارے خطے کی ”چندا ماما دور کے“ ایک مقبول لوری ہے کہ
چندا ماما دور کے
کھوئے پکائیں دودھ کے
آپ کھائیں تھالی میں
منے کو دیں پیالی میں
پیالی گئی ٹوٹ
منا گیا روٹھ
نئی پیالی لائیں گے
منے کو منائیں گے
چندا ماما دور کے
اسی طرح یہ لوریاں بھی مشہور ہیں:
چھن چھن چھننا چھن۔ چندا کے ہنڈولے میں اڑن کھٹولے میں
امی کی دلاری پاپا جی کی پیاری سوئے، نندیا جھلائے تجھے جھولے میں
محبت و التفات سے دہرائے الفاظ کا یہ سحر خیز ملاپ بچے کو پُرسکون نیند اور خواب کی وادی میں لے جاتا ہے۔
لوری صرف ہمارے سماج میں ماں نہیں بلکہ ابا بھی سناتے مثلاً:
لالا، لالا، لوری دودھ کی کٹوری دودھ میں بتاشا، منی کرے تماشا
نیند فلموں کی دنیا میں :
یہ فلموں کے لیے بھی ایک دلچسپ موضوع ہے، خواہ وہ نیند کی کمی ہو یا زیادہ نیند۔ ہالی ووڈ و دیگر فلم انڈسٹریوں میں کئی درجن فلمیں نیند پر کسی نہ کسی حوالے سے بنی ہیں جن میں سب کا احاطہ یہاں ممکن بھی نہیں، لیکن چند بہت اہم ہیں مثلاً:
The Machinist(1 بے خوابی کی ایک کہانی پر مبنی ہے، اس غیر حقیقی مہم جوئی کی مرکزی شخصیت ایک ایسا آدمی ہے جو تقریباً ایک سال سے سو نہیں سکا۔
2)Inception، ایک لاشعور ایکسپلورر کی خدمت میں نیند کے دوران انسانی نفسیات کی ناقابل یقین حرکیات!
3) Sleeping Beauty ایک کلاسک ڈزنی اینیمیشن مووی، جہاں خوبصورت شہزادی کئی سالوں کی گہری نیند میں رہتی ہے!، Sleepwalk with Me، ایک مزاحیہ اداکار کی کہانی جو اہم اور غیر متوقع نیند کے مسائل سے نبرد آزما ہے! Nightmare ایک کلاسک ہارر مووی! ایک سیریل کلر کی غیر حقیقی کہانی جو اپنے شکار کو اس وقت مار ڈالتا ہے جب وہ خواب دیکھ رہے ہوں یا اس سے بہتر، ڈراؤنے خواب! Sleepless in Seattle، ایک ایسے شخص کی حقیقت پسندانہ کہانی جس کے حقیقت پسندانہ خواب حقیقت کے ساتھ ملتے ہیں۔ اس عجیب و غریب فلم میں خواب، ڈراؤنے خواب اور حقیقی زندگی کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ ”Vanilla Sky“ نیلا رنگ کا آسمان ایک خوابیدہ دنیا کا آسمان ہے جہاں مرکزی کردار ایک ”روشن خواب“ سے نمٹ رہا ہے، جہاں سے وہ بیدار ہو گا۔“
قتیل شفائی کے اس شعر پر اختتام کرتے ہیں
ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

حصہ