شہر اور قہر

320

شہر اور قہر کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ بات طے ہے کہ جہاں قہر ہوگا وہاں افراد معاشرہ کی شخصیتوں میں زیادہ عدم استحکام ہوگا اور جہاں شخصیتوں میں زیادہ عدم استحکام ہوگا وہاں نفسیاتی مسائل بھی یقیناً زیادہ ہوں گے۔ شہری تمدن کے لوگ خواہ یہ تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ شہروں کے لوگوں کی نسبت دیہات میں زندگی بسر کرنے والے زیادہ مستحکم شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ معذرت گھڑلی گئی ہے کہ چونکہ شہر میں آباد افراد پر صنعتی زندگی کا دبائو زیادہ ہوتا ہے اس لیے ان کی شخصیتوں میں استحکام نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس دیہات کے لوگ صنعتی زندگی کے دبائو کا شکار نہیں ہوتے اس لیے ان کی شخصیتیں سیال نہیں ہوتیں۔ اس معذرت میں حقیقت موجود ہے مگر برائے نام، کیونکہ گہری نظر سے دیکھا جائے تو جس چیز کو صنعتی زندگی کے دبائو کا نام دیا جاتا ہے وہ بیشتر صورتوں میں خواہشات کی کثرت اور ان کی ناکامی کے دبائو سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ شہری لوگ دیہات میں رہنے والوں سے کہیں زیادہ خواہشیں پالتے ہیں؟ اور کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ جہاں خواہشیں زیادہ ہوتی ہیں وہاں خواہشوں کی ناکامی کے امکانات اور خواہشوں کے درمیان تصادم کے اندیشے بہت بڑھ جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں جو شخص جتنی زیادہ خواہش رکھتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ بدگمان اور خوش گمان بھی ہوجاتا ہے۔ خوش گمانی اس کی اپنی ذات سے متعلق ہوتی ہے اور بدگمانی دوسروں کی ذات سے متعلق۔ اس مجموعی صورت حال کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان حقیقت اور حقائق سے ہٹ کر رہ جاتا ہے اور جو لوگ اپنے Reality principle اور زندگی کے بنیادی حقائق سے کٹ جاتے ہیں وہ نفسیاتی مسائل کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

آپ غور کریں گے تو محسوس کریں گے کہ ان چند بنیادی حقائق کو نظر انداز کرکے کراچی کی موجودہ صورت حال اور اس کی نفسیاتی اثرات و مضمرات پر وسیع تناظر میں کوئی بامعنی گفتگو نہیں کی جاسکتی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کراچی اور اہل کراچی صرف شہر کے قہر میں مبتلا نہیں بلکہ انھیں حکمران طبقے کی خواہشات اور ان خواہشات کے قہر کا بھی سامنا ہے۔ مگر اصل بات تو یہ ہے کہ اس قہر نے
شہر میں کیا گل کھلائے ہیں۔

فساد زدہ صورتِ حال یا ابنارمل حالات میں بچے بہت سی کیفیات کے درست اندازے کا بہت اچھا پیمانہ بن جایا کرتے ہیں۔ چنانچہ کراچی کے حالات کے نفسیاتی اثرات پر گفتگو کے لیے ہمیں سب سے پہلے بچوں سے ہی رجوع کرنا چاہیے۔

چند ماہ پہلے کی بات ہے نارتھ ناظم آباد میں ایک بڑی واردات ہوگئی جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے دکانیں بند اور گلیاں سنسان ہوگئیں۔ میں رات نو بجے کے قریب سگریٹ لینے کی نیت سے گھر سے نکلا تو اپارٹمنٹ کے احاطے میں ایک پانچ چھ سالہ بچی جو مجھے اچھی طرح جانتی ہے،

میرے قریب آئی اور بولی:
’’انکل باہر نہ جائیے گا‘‘۔
’’کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’باہر بہت سناٹا ہے‘‘۔ اس نے ایک ایسی سنجیدگی کے ساتھ کہا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ میں نے سوچا اس نے ’’سناٹے‘‘ کا لفظ اپنے والدین میں سے کسی سے سن لیا ہوگا۔ چنانچہ میں نے اس سے پوچھا:

’’بیٹا سناٹا کیا ہوتا ہے؟‘‘
بچی اس سوال کے لیے تیار نہ تھی لیکن میں نے دیکھا کہ وہ سوال سے گھبرانے کے بجائے اس پر غور کررہی ہے۔ میں نے اپنا سوال دہرایا۔
’’ہاں بھئی تو سناٹا کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’یعنی باہر کوئی نہیں ہے‘‘۔ بچی نے سوچ کر جواب دیا۔ یہ سناٹے کی ایک Perfect وضاحت تھی اور میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ بچی نے یہ وضاحت اپنی ذہانت کی مدد سے نہیں خوف کے تجربے کی مدد سے کی تھی۔ ہمارے حکمرانوں کو مبارک ہو کہ انہوں نے ایک نہیں کراچی کے ہزاروں بچوں کو ’’سناٹے‘‘ کی وضاحت کے لائق بنادیا ہے۔

دوسرا واقعہ مذکورہ واقعے سے ذرا پہلے کا ہے۔ میں گھر میں تھا کہ میں نے دوسرے کمرے میں موجود اپنی بیٹیوں کو، جن کی عمریں بالترتیب چھ اور چار سال تھیں کسی مسئلے پر ایک دوسرے سے بحث کرتے ہوئے پایا۔ مسئلہ کیا تھا؟ بڑی بچی کا کہنا تھا کہ رینجرز زیادہ طاقتور ہوتے ہیں اور چھوٹی کا اصرار تھا کہ پولیس زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ وہ دونوں خود کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں تو
میرے پاس آئیں۔ بڑی بچی نے کہا: ’’ابورینجرز زیادہ طاقتور ہوتے ہیں یا پولیس؟ یہ اتنا ہولناک سوال تھا کہ میں لرز کر رہ گیا، اس سوال کاجواب سندھ کے وزیراعلیٰ سے لے کر الطاف حسین اور الطاف حسین سے لے کر وزیراعظم اور بری فوج کے سربراہ تک سب پر واجب ہے۔

انسان مشکلات سے عہدہ برآ ہونے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتا ہے لیکن حالات و واقعات کی توجیہ اس کی ان ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی ضرورت ہے۔ اسے حالات و واقعات اور حادثاوت سانحات کی توجیہ میسر آجائے تو پھر غم، دکھ اور تکلیف اس کے لیے اتنی پریشان کن ثابت نہیں ہوتی کہ اس کا ذہن اور نفسیاتی توازن بگڑ کر رہ جائے۔ تاہم اگر حالات و واقعات کی توجیہ مشکل ہو جائے یا سرے سے کوئی توجیہ دستیاب ہی نہ ہو تو پھر ذہنی و نفسیاتی اور جذباتی الجھنیں اور پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ کراچی کے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ شہر میں برسوں سے رونما ہونے والے حالات و واقعات کی کوئی معتدل توجیہ تلاش نہیں کر پا رہے ہیں اور جو توجیہات موجود ہیں وہ زیادہ قابل اعتبار اور منطقی نظر نہیں آتیں، مثلا: ایک گروہ کا کہنا ہے کہ حالات کا ذمہ دار فلاں گروپ ہے۔ فلاں گروپ کا اصرار ہے کہ وہ حالات کا ذمہ دار نہیں بلکہ حالات کی حقیقی ذمہ داری دوسرے گروپ پر عائد ہوتی ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ بیک وقت دونوں گروہ حالات کے ذمہ دارہیں، ایک نقطہ نظر یہ ہے کچھ حکومت اس کی ذمہ دار ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ وہ اس کی ذمہ دار نہیں کیونکہ وہ تو حالات کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ ایک موقف یہ ہے کہ حالات خراب کرنے میں غیر ملکی قوتیں ملوث ہیں۔ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ یہ سارا کھیل ملک کے خفیہ ادارے کھیل رہے ہیں۔ توجیہات کے اس ہجوم میں ایک عام آدمی کے لیے کوئی بھی رائے قائم کرنا دشوار ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ عام شخص کوئی رائے ہی نہیں رکھتا، بے شک اس کی رائے موجود ہے لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا اس رائے میں استحکام نہیں، کیونکہ حالات و واقعات کی لکیریں ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے گزر رہی ہیں اور اس کے نتیجے میں صورت حال کی توجیہ مشکل بلکہ ناممکن ہو گئی ہے۔ حکمرانوں کی ناکامی کا حال یہ ہے کہ وہ حالات پر قابو پانے ہی میں ناکام نہیں بلکہ وہ شہریوں کو حالات و واقعات کی توجیہ تک فراہم نہیں کر سکے ہیں۔

ذرائع ابلاغ اس سلسلے میں اہل کردار ادا کر سکتے تھے لیکن مختلف وجوہ کی بنا پر انہوں نے خود کو صورت حال کی رپورٹنگ تک محدود کر لیا ہے اور صورت حال کی توجیہ کا کام کسی اور پر چھوڑ دیاہے۔ کس پر چھوڑ دیا ہے؟ یہ انہیں خود بھی معلوم نہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ اخبارات و رسائل میں کہیں بھی صورتِ حال کی توجیہ پیش نہیں کی جا رہی۔ اکا دکا ایسی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن وہ ایک مختصر سے حلقے ہی تک پہنچ پا رہی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کا یہ مجموعی کردار بجائے خود کراچی کے حالات کے نفسیاتی اثرات میں سے ایک ہے۔ بعض سنجیدہ حلقوں کا خیال ہے کہ کراچی کا پریس شہر کی صورت حال سے متعلق تحریری اور تصویری مواد کی پیش کش کے حوالے سے Loud ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تاثر درست ہے اور اس کے مختلف اسباب ہیں‘ لیکن اہم ترین سبب یہی ہے کہ صورت حال کی توجیہ اور اس کا مجموعی شعور ناپید ہے۔

کسی زمانے میں لوگ کہا کرتے تھے کہ کراچی کے حالات درست نہ ہوئے تو کراچی بیروت بن جائے گا‘ پھر ایک مرحلہ وہ آیا کہ بوسینیا ہرزیگووینا کے دارالحکومت سرائیوو اور کراچی کے درمیان مماثلتیں تلاش کی جانے لگیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے حالات بیروت اور سرائیوو سے زیادہ خراب رہے ہیں‘ اس لیے کہ بیروت اور سرائیوو میں دوست اور دشمن کی شناخت تھی ‘ ان کی دشمنی کی وجوہات بھی بالکل عیاں تھیں لیکن کراچی میں تو ہر گلی دشمن کی گلی بن چکی تھی۔ رات کی تاریکی میں قریب سے گزرتی ہوئی ہر گاڑی مشتبہ اور خوف کی علامت ہے‘ شہر کا ہر مقام ہر کسی کے لیے غیر محفوظ ہے اور اس پر طرہ یہ ہے کہ لوگوں کی عظیم اکثریت اس حقیقت سے ناآشنا ہے کہ جو غیر اعلانیہ جنگ اس کے آس پاس لڑی جارہی ہے اس کا سبب‘ ہدف اور مقاصد کیا ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد کی حالت اس شخص جیسی ہے جسے تیرنا نہ آتا ہو اور جسے کسی نے اچانک پل سے نہر میں دھکا دے دیا ہو۔

صورتِ حال کے ابہام نے لوگوں کی قوتِ برداشت کو انتہائی کم کر دیا ہے‘ میں روز ڈیڑھ دو گھنٹے بسوں میں سفر کرتا ہوں اور میرا خیال ہے کہ بغیر کسی خاص کوشش کے ان ڈیڑھ دو گھنٹوں کے دوران چار‘ پانچ افراد سے آسانی کے ساتھ لڑا جاسکتا ہے‘ عام حالات میں انسان دوسروں سے لڑتا ہے لیکن ابنارمل حالات میں انسان دوسروں سے کم اور خود سے زیادہ لڑتا ہے اور جب انسان خود سے زیادہ لڑنے لگتا ہے تو پھر دوسروں سے لڑنے کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے۔

شاید آپ اس رائے سے اتفاق کریں کہ ملکوں اور شہروں کی طرح شہروں کے گلی کوچوں کی بھی ایک تاریخ اور کچھ نشانیاں ہوا کرتی ہیں۔ یہ وہ تاریخ اور نشانیاں ہوتی ہیں جن کی بظاہر کوئی اہمیت نہیں ہوتی لیکن دراصل وہ بہت اہم ہوتی ہیں کیوں کہ وہ گلیوں اور محلوں کے فطری ماحول کا ایک اہم حصہ ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے کراچی کے حالات کے باعث کراچی کے گلی کوچوں کی تاریخ‘ شناخت اور نشانیاں بدل گئی تھیں‘ کسی گلی کی شناخت یہ ہوگئی تھی کہ وہاں پانچ افراد مرے تھے‘ کسی پلازہ کی شناخت یہ ہے کہ وہاں گیارہ افراد قتل ہوئے تھے‘ کسی چائے خانے کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں پانچ واردتیں ہوئیں ہے اور کسی میدان کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں لوگوں کو تلاشی کے لیے جمع کیا گیا تھا۔ یہ معمولی نفسیاتی تبدیلی نہیںہے‘ اس نفسیاتی تبدیلی پر خطِ تنسیخ پھیرنے کے لیے برسوں درکار ہیں‘ کوئی بھی تاریخ نہ آسانی سے وجود میں آتی ہے اور نہ آسانی سے ختم ہوتی ہے۔

زمینی جغرافیہ بہت اہم ہوتا ہے لیکن نفسیاتی اور جذباتی جغرافیہ اس سے زیادہ اہم ہوتا ہے کیوں کہ اس کو لاحق ہونے والے مسائل کا علاج زمینی جغرافیہ سے لاحق ہونے والے مسائل کے علاج سے ہزار گنا دشوار ہوتا ہے‘ حالات کے زیر اثر اہلِ کراچی کے نفسیاتی اور جذباتی جغرافیے میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں ان کی چند جھلکیاں ہی ہم پیش کر سکے ہیں لیکن یہ چند جھلکیاں بھی ان لوگوں کے ہوش اڑادینے کے لیے کافی ہیں جنہیں یہ ملک عزیز ہے۔ پاگل پن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک خاص نفسیاتی کیفیت میں انسان کے مبتلا ہو جانے سے عبارت ہوتا ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح ریکارڈ کی سوئی ریکارڈ پر کہیں ایک جگہ اٹک کر رہ جاتی ہے۔ کراچی کے حالات کی سوئی دس سال سے ایک ہی جگہ پر اٹکی ہوئی ہے۔ ہمیں اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب کراچی کے لوگوں کی عظیم اکثریت کی نفسیات اور جذبات کی سوئی کسی ایک مقام پر اٹک کر رہ جائے۔

حصہ